(صاحبزادہ) محمد محب اللہ نوری
وَ بَاتَ اَیْوَانُ کِسْرٰی وَ ھُوَ مُنْصَدِعٌ
کَشَمْلِ اَصْحَابِ کِسْرٰی غَیْرُ مُلْتَئِمٖ
’’رسول اللہﷺ کی ولادت باسعادت کے موقع پر ایوانِ کسریٰ (نوشیرواں کا محل) پھٹ گیا، جیسے اس کا لشکر منتشر ہو گیا اور پھر اکٹھا نہ ہو سکا‘‘—
سرکار ابدقرارﷺکے مداح، امام محمد بوصیریm نے اپنے مقبول و مشہور قصیدہ بردہ کے اس شعر میں ’’ایوانِ کسریٰ‘‘ کا ذکر کیا ہے— یہ عمارت عراق کے قدیم شہر مدائن میں واقع ہے— یہ بغداد معلی سے پینتالیس (۴۵) کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع قدیم تاریخی شہر ہے— عہدِ نبویﷺ میں یہ دنیا کی سپر طاقت، ایران کی ساسانی حکومت کا پایہ تخت تھا— نوشیرواں نے یہاں کی بہترین آب و ہوا اور محل وقوع کی مناسبت سے اسے آباد کیا تھا— یہ دجلہ کے کنارے واقع ہونے کے باعث دفاعی نقطۂ نظر سے نہایت محفوظ تصور کیا جاتا تھا— اس وقت دریائے دجلہ بالکل قریب سے گزرتا تھا، مگر اب دور ہٹ گیا ہے—
عہد فاروقی میں یہ شہر فتح ہوا، فتح کی خبر مخبر صادق حضور اکرمﷺ نے کم و بیش گیارہ برس پہلے دے دی تھی— غزوئہ احزاب کے موقع پر مدینہ منورہ کے گرد حفاظتی خندق کھودی جا رہی تھی، کھدائی کے دوران ایک سخت چٹان حائل ہو گئی تو صحابہ کرامj کی درخواست پر رسول اللہﷺ نے خود کدال اٹھائی اور بسم اللہ کہہ کر زور سے اسے پتھر پر مارا، ایک شعلہ نکلا، آپﷺ نے فرمایا:
’’اللہ اکبر! ملک شام کی کنجیاں مجھے دے دی گئیں، قسم بخدا، میں شام کے سرخ محلات کو ملاحظہ کر رہا ہوں‘‘—
پھر کدال چلائی، روشنی چمکی، فرمایا:
’’فارس (ایران) کی چابیاں مجھے عنایت کر دی گئیں— مدائن (بغداد کے قریب شہر، کسریٰ شہنشاہ ایران کا پایہ تخت) کے ایوان میری نگاہوں کے سامنے ہیں‘‘—
تیسری مرتبہ ضرب لگائی تو پھر روشنی پھوٹی، سرکارﷺنے فرمایا:
’’اللہ اکبر! یمن کی چابیاں میرے سپرد کی گئیں اور صنعاء (یمن) کے دروازوں کو یہاں کھڑا دیکھ رہا ہوں—[۲]
فاتحین مدائن میں جلیل القدر صحابی رسول حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل تھے، جو بعد میں کچھ عرصہ یہاں کے گورنر بھی رہے اور پھر مدائن میں ہی آپ کی تدفین ہوئی، اسی نسبت سے یہ شہر اب ’’سلمان پاک‘‘ کے نام سے معروف ہے—
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مدائن، ساسانی (ایرانی) حکومت کا پایہ تخت تھا، ایرانیوں نے یہاں محل بنوایا، جو ایوان کسریٰ کے نام سے مشہور ہے (ایران کے ہر بادشاہ کو کسریٰ کہا جاتا تھا)— خطیب بغدادی نے محل تعمیر کرانے والے بادشاہ کا نام سابور بن ہرمز (المعروف ذی الاکتاف) نقل کیا ہے—[۳]
یہ عمارت اپنی بلندی، پختگی، وسعت اور آرایش و زیبایش کے اعتبار سے اپنی مثال آپ اور نہایت بیش قیمت تھی— شارح قصیدہ بردہ، علامہ خرپوتی لکھتے ہیں کہ یہ عمارت نوے (۹۰) سال میں مکمل ہوئی، سونے کے پانی سے اس کی ملمع سازی کی گئی— زبرجد اور بیش قیمت جواہرات سے اسے آراستہ کیا گیا تھا— رسول اللہﷺکی ولادت باسعادت کے موقع پر یہ حیرت انگیز معجزہ ظاہر ہوا کہ دنیا کی اس مضبوط ترین عمارت میں دراڑ پڑ گئی اور اس کے چودہ کنگرے منہدم ہو گئے، جب کہ آٹھ باقی رہ گئے، جس میں اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ اب صرف آٹھ تاجدار اس سلطنت پر حکمرانی کریں گے[۴] چناں چہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ۱۶ھ میں ساسانی حکومت کا خاتمہ ہو گیا—
واضح رہے کہ حضورﷺ کی ولادت کے وقت ایران میں نوشیران کی حکومت تھی[۵] جب کہ یہاں کے آخری تاجدار کا نام یزدجرد تھا—[۶]
اس محل میں یہ سانحہ بھی پیش آیا تھا، جب رسول اللہﷺ نے شاہان عالم کے نام مکاتیب ارسال فرمائے اور شہنشاہ ایران خسرو پرویز کے نام بھی گرامی نامہ بھیجا تو اس نے بڑے تمرد و رعونت کا مظاہرہ کرتے ہوئے والا نامہ پھاڑ دیا— ادھر سرکار والا تبار (فداہ روحی) نے مدینہ منورہ میں فرمایا:
مَزَّقَ مُلْکَہٗ—[۷]
’’(خسرو نے جیسے میرے خط کے ٹکڑے کیے ہیں، یونہی) اللہ تعالیٰ اس کی سلطنت کو پارہ پارہ کرے گا‘‘—
چناں چہ جلد ہی وہ بدبخت اپنے کیفر کردار کو پہنچا، اس کے اپنے ہی بیٹے نے خنجر مار کر اس کا پیٹ چاک کر دیا اور یوں ذلیل و رسوا ہو کر واصل جہنم ہوا—
یہی وہ ایوان تھا، جہاں صحابہ کرام سفیر بن کر آئے تو ان کے کلمہ حق کی للکار سے گونج اٹھا اور درباری ان کی جرأت و بے باکی پر حیران رہ گئے— ایسے ہی ایک موقع پر جب صحابہ کا ایک وفد مذاکرات کے لیے آیا اور کسریٰ کے درباریوں نے ان کی تلواروں پر چڑھے ہوئے پترے اور بوسیدہ میانوں کو دیکھ کر طنز کیا، تو ایک صحابی نے جواب دیا، تم نے تلوار دیکھی ہے، تلوار کا وار بھی دیکھو— ایک بہادر شخص اعلیٰ درجہ کی تلوار اور مضبوط ڈھال لیے مقابلہ میں آ گیا، آپ نے ایک وار کیا، تو ڈھال کے دو ٹکڑے ہو گئے—
ایران کو فتح کرنے کے لیے حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم نے حضرت سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں تیس ہزار (۳۰۰۰۰) مجاہدین پر مشتمل لشکر روانہ فرمایا— شہنشاہِ ایران ’’یزد جرد‘‘ نے اپنی دو لاکھ فوج کو اپنے بہادر جرنیل رستم کی قیادت میں مسلمانوں سے نبرد آزما ہونے کا حکم دیا—
چناں چہ شہر سے کئی میل دور قادسیہ کے مقام پر زبردست لڑائی ہوئی، رستم مارا گیا، ایرانی فوج درہم برہم ہو گئی، بالآخر انہوں نے مدائن میں جا کر پناہ لی، اسلامی فوج نے تعاقب کیا، اب مدائن اور اسلامی فوج کے درمیان زبردست رکاوٹ دریائے دجلہ تھا، ایرانیوں نے تمام پل توڑ دیے تھے تا کہ مسلمان دریا عبور کر کے حملہ آور نہ ہو سکیں—[۸]
حضرت سعد، حضرت سلمان فارسی، دیگر صحابہ کرام اور لشکر اسلام نے اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دیے، دریا نے اپنی آغوش محبت وا کر دی، تمام مسلمان بخیریت دوسرے کنارے پہنچ گئے—
دشت تو دشت ہیں ، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
لشکر اسلام میں سے مالک بن عامر نامی ایک صاحب کا پیالہ دریا میں گر گیا، انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اچانک پیالہ پانی پر تیرتا ہوا کنارے آ لگا[۱۰] گھوڑوں کے دریا عبور کرنے کا منظر دیکھ کر ایرانی دہشت زدہ ہو کر پکار اٹھے:
دیواں آمد، دیواں آمد—[۱۱]
’’دیو آ گئے، دیو آ گئے‘‘—
حافظ ابن کثیر کی روایت کے مطابق انہوں نے کہا:
دیوانا، دیوانا— یعنی یہ کیسے پاگل اور دیوانے آگئے (جو اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے، بپھری موجوں سے ٹکرا رہے ہیں)— پھر آپس میں کہنے لگے:
وَ اللّٰہِ مَا تُقَاتِلُوْنَ اِنْسًا ، بَلْ تُقَاتِلُوْنَ جِنًّا—[۱۲]
’’اللہ کی قسم تمہارا انسانوں سے نہیں، بلکہ جنوں سے مقابلہ ہے‘‘—
ایرانیوں نے گھڑ سوار تیر انداز بہادروں کی ایک جماعت بھیجی تا کہ مسلمانوں کو دریا عبور کرنے سے باز رکھا جا سکے مگر ان مجاہدین اسلام نے ان کی آنکھوں کا نشانہ لے کر جوابی تیر اندازی کی تو یہ بزدل بھاگ اٹھے— مسلمان آگے بڑھے تو مدائن خالی ہو چکا تھا—[۱۳]
چناں چہ وہ شکست کھا کر بھاگ گئے اور پھر چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ وہ ایوان، جس کی شوکت و سطوت کی دنیا بھر میں دھاک بیٹھی ہوئی تھی، اس پر رسول اللہﷺ کے غلاموں نے عظمت اسلام کا پرچم لہرا دیا اور یوں شبِ ولادت رسول، شق ہونے والا یہ ایوان مسلمانوں کے زیر نگین آ گیا اور غزوئہ احزاب کے موقع پر دی گئی رسول اللہﷺ کی بشارت پوری ہوئی—
اسلامی لشکر ایوان میں داخل ہوا تو حضرت سعدh کی زبان پر یہ آیہ کریمہ تھی:
کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ o وَّ زُرُوْعٍ وَّ مَقَامٍ کَرِیْمٍ o وَّ نَعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْہَا فٰکِہِیْنَ o کَذٰلِکَ وَ اَوْرَثْنٰہَا قَوْمًا آخَرِیْنَ o—[۱۴]
’’وہ چھوڑ گئے کتنے ہی باغات، چشمے، (سرسبز) کھیتیاں، عالی شان عمارات اور بہت سا ساز و سامان، جس میں وہ عیش کرتے تھے— یوں ہی ہوا اور ہم نے ان تمام چیزوں کا دوسرے لوگوں کو وارث بنا دیا‘‘—
حضرت سعدآگے بڑھے اور فتح و نصرت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے آٹھ رکعت ’’صلوٰۃ الفتح‘‘ ایک ہی سلام کے ساتھ ادا کی— چشم عالم نے یہ بھی نظارہ کیا کہ جہاں دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا تخت شاہی تھا، وہاں منبر بچھا دیا گیا اور عراق کی سرزمین پر پہلا جمعہ ادا ہوا—[۱۵]
ایوان کسریٰ کے نوادرات
اس موقع پر بہت سا قیمتی ساز و سامان مسلمانوں کے ہاتھ لگا، ان میں لشکر کفار کا عَلم بھی تھا، جب یہ مال مدینہ منورہ پہنچا تو حضرت سیدنا عمر فاروق نے اسے مسلمانوں میں تقسیم فرما دیا— اس عَلم کا ایک بالشت کی مقدار ٹکڑا، حضرت مولا علی کے حصے میں آیا، جسے آپ نے دس ہزار دینار میں فروخت کر دیا—[۱۶]
مال غنیمت میں ایوان کسریٰ کے دروازے کا پردہ بھی تھا، جو حملہ کے دوران جل گیا تھا، یہ پردہ اتنا قیمتی تھا کہ اس سے دس لاکھ مثقال (4373.925 کلو گرام، تقریباً ایک سو دس من) سونا برآمد ہوا، جو ایک کروڑ درہم میں فروخت ہوا—[۱۷]
مال غنیمت میں طرح طرح کے نوادرات تھے، ایرانی بادشاہوں کی تلواریں، خنجر، زرہیں، تاج زرنگار اور مختلف اقسام کے ملبوسات کے علاوہ ایک بیش قیمت اور عجوبہ روزگار ۶۰X ۶۰ گز سائز کا فرش بھی تھا، جس پر سلطنت کسریٰ کے شہروں، قلعوں، نہروں اور مملکت میں اُگنے والی کھیتیوں اور درختوں کی مکمل منظر کشی کی گئی تھی اور یہ سب کچھ خالص سونے اور بیش بہا جواہرات کا بنا ہوا تھا—[۱۸]
علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ اس فرش کو بہار کسریٰ کے نام سے پکارا جاتا تھا کیوں کہ اس میں موسم بہار کے تمام لوازمات کی منظر کشی کی گئی تھی، گویا سرسبز و شاداب چمن ہو، موسم خزاں میں اس پر بیٹھ کر مے نوشی کرتے—[۱۹]
مال غنیمت میں کسریٰ کا نہایت بیش قیمت تاج زرّیں بھی شامل تھا، یہ اتنا بھاری تھا کہ کسریٰ کو اسے سر پر رکھنے کی ہمت نہ تھی— کیسے متکبر لوگ تھے، جو اپنے جھوٹے رعب و دبدبہ کو قائم رکھنے اور اپنی انا کو تسکین دینے کے لیے کیا کیا جتن کرتے؟— اس بھاری تاج کو تخت پر اس طرح سونے کی زنجیروں سے لٹکایا گیا تھا کہ کسریٰ (شہنشاہ ایران) نشست گاہ پر بیٹھ کر اپنا سر تاج میں داخل کر دیتا، تخت اور درباریوں میں پردہ تنا ہوتا، جب کسریٰ سر پر تاج ٹکا کر تیار ہو جاتا تو پردہ سرکا دیا جاتا، دیکھتے ہی تمام درباری تعظیم بجا لاتے ہوئے سجدہ ریز ہو جاتے—[۲۰]
مال غنیمت کے ڈھیر لگ گئے، حضرت سعدنے بیش تر مال مجاہدین میں تقسیم فرما دیا جب کہ خُمس اور بعض خاص نوادرات مدینہ منورہ بھجوائے، حضرت سیدنا عمر فاروق انھیں دیکھ کر لشکر اسلام کی دیانت و امانت پر بہت مسرور ہوئے اور فرمایا:
اِنَّ قَوْمًا اَدُّوْا ھٰذَا لَاُمَنَاء—
’’اس قوم نے امانت کا حق ادا کر دیا، بے شک یہ امین ہیں‘‘—
حضرت سیدنا علی نے سن کر کہا، کیوں نہ ہو، جب آپ خود دیانت دار ہیں تو آپ کی رعایا بھی اس صفت سے متصف ہو گئی، اگر آپ خائن ہوتے تو لوگ بھی خیانت کرتے—[۲۱]
حضرت سیدنا عمر فاروق نے نوادرات میں سے کسریٰ کے کنگن نکالے اور حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم کو پہنا دیے اور فرمایا، کسریٰ ایسے بادشاہ کے کنگن ایک اعرابی کے ہاتھ— الحمد للّٰہ
امام شافعی فرماتے ہیں، حضرت سیدنا عمر فاروق نے یہ کنگن سراقہ کو اس لیے پہنائے تھے کہ حضورﷺ نے انھیں اس کی بشارت دے رکھی تھی—[۲۲]
ایوان کسریٰ کا انہدام
یہ محل دور فاروقی میں صفر المظفر ۱۶ھ کو مسلمانوں کے قبضے میں آیا—[۲۴]
خلیفہ منصور نے اپنے دور حکومت میں اسے منہدم کرنے کا ارادہ کیا، درباریوں نے بھی اس کی رائے سے اتفاق کیا مگر ایک ایرانی کاتب سے رائے طلب کی گئی تو اس نے کہا کہ یہ عمارت دنیا کی عظیم طاقت ور حکومت کی قوت و شوکت کی مظہر ہے، لوگ اسے دیکھ کر مسلمانوں کی ہمت و عظمت کا اندازہ لگا سکیں گے کہ عرب سے اٹھنے والے کمزوروں نے اپنی قوت ایمانی سے اسے فتح کر لیا، لہٰذا اسے باقی رکھا جائے— خلیفہ کو شبہہ گزرا کہ شاید اس نے اپنی قوم سے محبت کی وجہ سے یہ مشورہ دیا ہے— منصور نے عمارت گرانے کا حکم صادر کر دیا—
عمارت کو گرانا شروع کیا گیا، تو اندازہ ہوا کہ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے— خلیفہ کو رپورٹ دی گئی کہ عمارت کے ملبہ سے حاصل شدہ رقم کی نسبت اس کے گرانے پر بہت زیادہ لاگت آ رہی ہے اور بڑی مشکل سے تھوڑا سا حصہ منہدم ہوا ہے— خلیفہ منصور نے پھر اسی ایرانی سے مشورہ لیا تو اس نے کہا، پہلے میں نے اسے باقی رکھنے کا مشورہ دیا تھا، جسے آپ نے قبول نہ کیا مگر اب میرا خیال ہے کہ اسے گرا دینا بہتر ہے، ورنہ لوگ کہیں گے کہ ایرانیوں نے ایسا عظیم محل بنایا ہے کہ مسلمان کوشش کے باوجود اسے مسمار نہیں کر سکے— خلیفہ پھر سوچ میں پڑ گیا اور اس کی رائے سے اتفاق کیا، مگر جب اسے مسمار کرنے کے اخراجات سامنے آئے تو رک گیا کہ اس طرح بہت سا سرمایہ فضول ضائع ہو گا—[۲۵]
ایوان کسریٰ کی موجودہ کیفیت
۱۹۸۸ء میں پہلی مرتبہ احقر کو یہ تاریخی عمارت دیکھنے کا موقع ملا— سیکڑوں برس پرانی عمارت کا ایک حصہ حوادثات زمانہ کے تھپیڑے کھانے کے باوجود مرقع عبرت بنا کھڑا ہے— بیرونی دیوار کی مرمت کر دی گئی ہے تا کہ اس تاریخی عمارت کا یہ حصہ محفوظ رہے— آثار بتاتے ہیں کہ عمارت کتنی عظیم ہو گی— عمارت کا یہ حصہ کوئی سو فٹ بلند ڈاٹ نما اور نہایت وسیع و عریض ہے، ممکن ہے یہ محل کا مرکزی دروازہ رہا ہو، اتنا بڑا ڈاٹ دنیا میں شاید ہی کسی دوسری عمارت میں ہو— دیواروں کی چوڑائی ۳۰؍ فٹ ہے— پوری عمارت کا درمیانی حصہ اوپر سے نیچے تک پھٹا ہوا ہے، یہ دراڑ بڑی واضح ہے— اتنی بڑی اور مضبوط عمارت کا پھٹ جانا، ولادت مصطفی کے موقع پر ظاہر ہونے والے معجزہ کا اثر ہے— عمارت کے آثار دیکھ کر معجزہ کی اور زیادہ تصدیق ہو جاتی ہے— اس پہاڑ ایسی بلند و بالا اور مضبوط عمارت کے دامن میں کھڑے ہو کر، جہاں عمارت کی سطوت کا احساس ہوتا ہے، وہاں رسول اللہﷺ کے غلاموں کی عظمت و ہمت کو داد دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ کس طرح انہوں نے تیروں کی یلغار، پتھروں کی بوچھاڑ اور کھولتے ہوئے تیل کی بارش سے گزر کر دریائے دجلہ کو عبور کیا اور محل پر قبضہ کر کے ناممکن کو ممکن بنا دیا—
فدایان رسالت مآب! تمہاری عظمتوں کو کروڑوں سلام-
اے مجاہدین اسلام! تمہاری جرأتوں کو ان گنت تحیات-
علامہ اقبال نے ایسے ہی غازیان اسلام کو یوں داد شجاعت دی ہے:
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
حوالہ جات
۱… قصیدہ بردہ، صفحہ۱۵
۲… قلائد الجواہر، صفحہ۸
۳… تاریخ بغداد، جلد۱، صفحہ۱۳۰
۴… عصیدۃ الشھدۃ، شرح قصیدۃ البردۃ، صفحہ۱۱۴
۵… عصیدۃ الشھدۃ، شرح قصیدۃ البردۃ، صفحہ۱۱۳
۶… ایضاً، صفحہ۱۱۳
۷… عمدۃ القاری، جلد۲، صفحہ۲۸/ صحیح بخاری، جلد۱، صفحہ۱۵، بالفاظ متقاربہ
۸… تاریخ طبری، جلد۴، صفحہ۱۳
۹… کلیات اقبال، بانگ درا، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، صفحہ۱۷۷/۱۹۳
۱۰… البدایۃ و النہایۃ، جلد۷، صفحہ۶۵
۱۱… الاخبار الطوال، صفحہ۱۲۶/ طبری، جلد۴، صفحہ۱۴
۱۲… البدایہ و النہایہ، جلد۷، صفحہ۶۴ ۱۳… ایضاً، صفحہ۶۵، ۶۴
۱۴… الدخان، آیات:۲۵ تا ۲۸
۱۵… ایضاً
۱۶… خرپوتی، صفحہ۱۱۵
۱۷… تاریخ بغداد، جلد۱، صفحہ۱۳۱
۱۸… البدایہ و النہایہ، جلد۷، صفحہ۶۶
۱۹… الکامل فی التاریخ، جلد۲، صفحہ۵۱۸
۲۰… البدایہ و النہایہ، جلد۷، صفحہ۶۶
۲۱… ایضاً
۲۲… ایضاً، صفحہ۶۸
۲۳… ایضاً، صفحہ۶۷
۲۴… طبری، جلد۴، صفحہ۱۲
۲۵… تاریخ بغداد، جلد۱، صفحہ۱-۱۳۰
۲۶… کلیات اقبال، بال جبریل، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، صفحہ۱۰۸/۴۳۳
[سفرنامہ عراق ’’سفر محبت‘‘ کا ایک باب]
مزید پڑھیں:تربیت انسانی کے قرآنی مراحل
مزید پڑھیں:لاعلمی کا اعتراف بھی ایک علم ہے
مزید پڑٓھیں:ایک شہزادے نے زندگی کا سبق کچھ اس طرح سیکھا