مزدوروں کی دردناک موت ،بے حسی کا ایک اور فسانہ
این ڈی ٹی وی انڈیا پر مسلسل کئی روز سے دکھایا جارہا تھا کہ ملک بھر میں لاکھوںکی تعدادمیں نقل مکانی کرنے والےمزدور جو پیدل چل کر ہزاروں کیلو میٹر کا سفر طے کررہےپولیس کی مارکی وجہ سے اب اپنا راستہ بدلنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور اب وہ مختلف متبادل راستوں کا انتخاب کرنے لگے ہیں جن میں ریل کی پٹری، جنگلات اور اونچی اونچی پگڈنڈیاں ہیں۔لیکن بے حس انتظامیہ اور گونگے بہرے حکمرانوں نے اس کی کوئی پراوہ نہیں کی، نتیجتاً روز کوئی نہ کوئی دل دہلا دینے واقعات رونما ہونے لگے، آج دو دلسوز واقعات پیش آئےایک تو یہ کہ ریل کی پٹری پرتھک کر سوگئے ۱۶مزدوروں کو مال گاڑی نے کچل دیا۔ دوسرا یہ کہ سائیکل پر دوچھوٹے بچوں اور ایک خاتون کے ساتھ سفر کررہے ایک مزدور کو کسی گاڑی نے کچل دیا جس میں شوہر اور بیوی موقع پر ہی دم توڑ گئے ، دونوں بچے اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ چالیس دنوں سے مزدوروں کی نقل مکانی جاری ہے۔ کچھ صوبوں سے کچھ اسپیشل ٹرینیں چلانے کی خبریں آئیں ضرور ہیں، لیکن وہاں پربھی جس طرح کی سودے بازی سننے میں آئی وہ بھی شرمسارکردینے والی ہے کہ کس طرح چالیس دن سے بھوکے پیاسے مزدوروں سے ٹکٹوں کے پیسے لیے گئے اور پیسہ نہ ہونے پر ٹرینوں کی بوگیاں خالی رکھ کر ٹرینیں بھیج دی گئیں لیکن مزدوروں کو چڑھنے نہیں دیاگیا، جب آواز اٹھی تو ریاست اور مرکز میں ریلوے کے کرایےکی ادائیگی اور عدم ادائیگی کے سلسلے میں کھینچ تان کانظارہ ہم سب نے دیکھا۔
وزیر اعظم کے احکامات کے باوجود بھی کہ بے گھر مزدوروں کو ان کے وطن بذریعہ ریل بھیج دیا جائے کچھ صوبوں نے بھیجنے سے یکسر منع کردیا، کچھ نے بھیجا تو بھاری قیمتوں کے بدلے اور جو کچھ بھیجنے کی تیاری کررہے ہیں وہاں صورت حال مزید تشویشناک اور غیرانسانی ہے، مثلا مہاراشٹر، وہاں اَن پڑھ مزدوں سے کہا جار ہا ہے کہ آپ کو اگر کھر جانا ہے تو آپ پہلے رجسٹریشن کرائیں ، رجسٹریشن کے لیے ہفتوں سے مزدور دَردَر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ، رجسٹریشن کے پورے سسٹم کو اتنا پیچیدہ بنایا گیا ہے کہ یو ایس جانے کی ویزا کے حصول کی ترکیب بھی شرماجائے۔ انگریزی میں تیارکردہ رجسٹریشن فارم کو پی ڈی ایف کی شکل میں مزدوروں کے موبائل پر بھیجا گیا ہے اور ان سے کہا جارہا ہے کہ اسے ڈاؤنلوڈ کرکے فل اَپ کریںساتھ ہی میڈیکل چیک اپ سرٹیفکٹ (جس کے لیے مقامی ڈاکٹر ان سے من مانی رقم وصول کرہے ہیں، کسی سے پانچ سو کسی سے ہزار اور کسی سے اس سے بھی زیادہ) مع دیگر دستاویزات کے جمع کردیں پھر ہم آپ کو بھیجنے کا انتظام کریں گے، اور اگر کچھ مزدور کسی این جی او وغیرہ کی مدد سے اس پیچیدہ سسٹم کو عبورکرکے اپنارجسٹرین سسٹم مکمل کربھی لے رہے ہیںان کو بھی روز نئے وعدوں اور اعلانات کے سوا کچھ نہیں مل رہا۔گجرات کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہاں کی لوکل انتظامیہ فرضی پاس بنا کر مزدوروں سے پیسے اینٹھ رہے ہیں ، جب پاس کی تفتیش کی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے پاس فرضی ہے۔
بھارت کے ریٹرھ کی ہڈی، بھارت کو کھڑا کرنے والے یہ عظیم معماروں کی جماعت ، بھارت کی ہریالی، بھارت کی خوشحالی کو اپنا خون جگر پلانے والے یہ بے وطن لوگ ایک بے حس اور ان پڑھ انتظامیہ کے آگے کس قدر بے بس و لاچار ہے اس کا نظارہ گزشتہ چالیس دنوں سے مسلسل ہم دیکھ رہے ہیں۔کتنی عجیب بات ہے کہ مزدوروں کا یہی طبقہ ان کے سب سے بڑے مداحوں اور جھنڈا برداروں میں شامل ہے اور ہربار ان کا مہیما منڈن کرکے ان کو حکومت میں لاتے ہیں کیونکہ پڑھا لکھا اور انٹلیکچول طبقہ تو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ان سے بیزاری کا اظہار کرتارہا ہے ، ان کی ظالمانہ حرکتوں پر اِنہیں چٹھیاں لکھتا رہا ہے، بڑے بڑے فنکار ، ملک کے ہزاروں معزز افراد ان کی حرکتوں سے تنگ آکر اپنے اعزازات اور ایوارڈ بھی واپس کرنے لگتے ہیں لیکن پھر بھی یہ منتخب ہوکر حکومت میں آجاتے ہیں، مطلب یہ کہ ان کا سب سے بڑا حامی یہی مزدور، کسان اور پچھڑے عوام کا طبقہ ہے جنہیں ہربار یہ ہندومسلم کی گھٹی پلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اور انہی کے ساتھ ایسا ناروا سلوک؟ یقیناً یہ دووجہوں سے شرمسار کرنے والا ہے ایک توبتقضائے انسانیت اور بحیثیت حکمراں دوسرا اپنے حامی ومددگاروں کے ساتھ ایسا سلوک۔
دراصل حکومت یہ سمجھ چکی ہے کہ جو طبقہ میرا بھکت نہیں ہے وہ کبھی نہیں ہوگا، سماج کا باعزت اور سیکولر طبقہ جو میری عیاری اور مکاری کو سمجھتا ہے وہ کبھی میرے جھانسے میں نہیں آئے گا، لیکن جو میرے جھوٹ فریب اور عیاری کے جھانسے میں آچکا ہے اسے اپنی بھکتی کا ایسا نشہ پلا دیا جائے کہ ان کے ہاتھ کی ساری انگلیاں بھی اگرہم کاٹ لیں تو بھی وہ ہمارے ہی گن گان کریں، حکومت یہ نشہ پلا چکی ہے ، اور دن رات ٹیلی ویزن کے ذریعے پلا رہی ہے۔ یہ تالی تھالی اور بجلی کوئی بیوقوفی نہیں بلکہ اسی نشے کا ٹرایل ہوتا ہے یہ پتہ کرنے کے لیے نشہ ابھی شباب پر ہے یا کہیں اتر تو نہیں رہا۔
کہیں نہ کہیں حکومت بھی اس خوف سے بے نیاز ہے کہ مزدوروں کو زیادہ دنوں تک ان کی یہ دُرگت یاد رہے گی یا اپنے پلائے جانے والے ہندومسلم ٹانک پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ جلدی ہی اس دُرگت کو ان کے ذہنوں سے نکال کر ہندومسلم کا بھوسا بھردیں گے۔ اب جس حکومت کو اتنا یقین ہوجائے کہ ہم کچھ بھی کرلیں عوام ہم سے کوئی سوال نہیں کرے گی پھر اب وہ کیوں خواہ مخواہ مرنے والے کسانوں اور مزدوروں کے چکر میں اپنا وقت برباد کرنے جائیں، اس سے کہیں بہتر ہے ہزاروں لاکھوں کسانوں کی فکر کرنے کے بجائے کیوں نہ چند کارپوریٹ کی فکر کی جائےکہ جن سے پارٹی فنڈ میں انہی مزدوروں کو الیکشن کے وقت خریدنے کے لیے پیسے آتے ہیں۔
لیکن ہم پھر بھی پرامید ہیں کہ یہی مزدور کسان کے ضبط کا پیمانہ ایک دن چھلکے گا ان کی آنکھوں کے دھندلکے ایک دن چھٹیں گے تب حکومت کو اپنی عیاریوں اور مکاریوں کا سارا حساب چکانا ہوگا۔
اور بھی کچھ۔۔۔!! ان شاء اللہ اگلی تحریر میں
اس موضوع پر کمینٹ باکس میں آپ بھی اپنی رائے رکھ سکتے ہیں۔
والسلام
احمدرضا صابری