کاش پروفیسر اپوروا نند کی دل سوز باتیں اسلامیان ہند کی غیرت کو بیدار کرسکیں!

پروفیسر اپوروا نند نے جو باتیں کہیں کاش وہی باتیں آج ہمارا کوئی اپنا قائد کہہ رہاہوتا تو قوم اس نوبت تک پہنچتی ہی نہیں!

از: محمد عامر حسین مصباحی دارالعلوم نوریہ رضویہ رسول گنج عرف کوئلی

دوتین روز قبل واٹس ایپ گروپ ’’علماے بہار ‘‘ کے توسط سےدہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند جھاکی وائس رکاڈنگ سنی، قلب مضمحل ہوگیا، پہلے اس  کی نقل پڑھیں پھر اپنے جذبات پیش کرتاہوں۔


”میں دیکھ اور پڑھ رہا ہوں کہ لوگ میڈیا کو دلال کہتے ہیں اور کچھ میڈیا مردہ آباد کے نعرے بھی لگاتے ہیں۔ یقیناً یہ سب مسلمان ہی زیادہ تر کہہ رہے ہیں، بے شک ہمارے یہاں کی میڈیا میں بہت ساری کمیاں بھی ہیں اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ آپ لوگوں کے مطابق آپ کی تعداد بیس پچیس کروڑ یا اس سے بھی زیادہ ہے، جمعیت علماے ہند، جماعتِ اسلامی ہند، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، دارالعلوم دیوبند، وقف بورڈ، حضرت نظام الدین کی درگاہ، اجمیر شریف ہے اور بہت سارے پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں،علم کی کمی بھی نہیں ہے ، دلیّ میں اوکھلا، سیلم پور کا بہت بڑا علاقہ آپ کے پاس ہے تو پھر میرا سوال یہ ہے کہ اتنا سب کچھ کے باوجودآپ اپنا ایک نیوز چینل نہ چلا سکے، ریڈیو اسٹیشن تک نہ کھول پائے، ڈیجیٹل میڈیا نیو میڈیا کا زمانہ ہونے کے باوجود ایک جاندار یا کام چلاؤ میڈیا تک نہ لاپائے یہ سوچنے والی بات ہے یا نہیں آخر اس کے پیچھے کی وجہ کیاہے؟ اس کی وجہ ہے کہ صدیوں سے جو جلسوں، اجتمعوں اور عرسوں میں غریبوں کے لاکھوں کروڑوں روپے اڑا ئے گئے اور بریانی کے بعد میٹھی سونپ چباکر سب کو کھاٹ پرگہری نیند سلادیا اگر انھیں پیسوں کا صحیح استعمال کیا جاتا، میڈیا ہاؤس کھولا جاتا تو آج یہ ذلالت اور رسوائیاں جھیلنی نہ پڑتی آپ کی آواز اٹھانے والے کچھ چینل ہوتے جو آپ کی آواز کو اٹھاتے۔ یہ تاج محل، قطب مینار،لال قلعہ یہ سب دکھاکر کب تک اتراتے رہو گے؟ تم نے کیا بنایا جس پر تمھاری اولاد تمھیں یاد کرے؟ ہمارے بزرگوں نے جو وقف بورڈ، اربوں کھڑبوں کی زمین، مسجد، مدرسوں، قبرستان اور خانقاہوں اور درگاہوں کو اسکول کالج کے لیے جو انھوں نے عطیہ کردیا تھا اسے کون ڈکار گیا ؟ ظاہر سی بات ہے کسی غیر مسلم نے نہیں ڈکارا پھر بات کرتے ہیں ہمارے لیے کوئی کھڑا ہونے والا کوئی نہیں ہے، کیا کچھ نہیں کرسکتے تھے آپ؟ لیکن جب خیرات کی زمین پر کوٹھیاں بناؤ گے اور ان پر اپنا گھر بناؤگے تو پھر خدا کو کیا منہ دکھاؤگے پھر خدا تمھارے لیے کیوں اچھا کرے گا؟ اب کسے آپ لوگ گالیاں دے رہے ہیں، اس کارپوریٹ کو،اس بزنس مین کو جنھیں صرف منافع چاہیے جرنلزم سے جس کا کوئی لینا دینا نہیں۔
آپ اپنا میڈیا شروع کرو کس نے آپ کو روکا ہے کانگریس یا بی جے پی نے یا کسی اور پارٹی نے؟
لیکن اگر بس کی بات نہیں ہے تو پھر یار پَھرپھڑانا چھوڑو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے جیسا وہ دکھائیں گے آپ کو دیکھنا پڑے گا، جیسا پڑھوائیں گے پڑھنا پڑے گا اور دیکھ پڑھ اور سن بھی رہےہیں۔
اب تو کاہلی چھوڑو، دوسروں کے اوپر تہمت لگانا اور ڈوز ڈالنا چھوڑو اور دیکھو کہ وقت کہاں ہے اس کاحل نکالنے کی کوشش کرو جس ٹیکنالوجی کا دور ہے اس کے مطابق ٹیکنیکل بنو اور اسی طریقے سے اپنی لڑائی لڑنے کی کوشش کرو “


ممکن ہے پروفیسر  صاحب کی ساری باتوں سے اتفاق نہ کیا جاسکے تاہم بیشتر باتیں ایک زندہ جاوید قوم کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہیں وہ بھی ایسے پرآشوب دور میں جبکہ دشمن ہمارے وجود کے درپے ہیں۔ورنہ آج ہر میدان میں ہم غیروں پر منحصر ہوتے نظر آرہے ہیں خواہ سیاسی و سماجی اور تجارتی معاملات ہو یا تعلیمی و تنظیمی امور بلکہ مسلمان اپنی نجی زندگی میں بھی مغربی تہذیب وروایات اور ان کے ہمنوا ؤں کی تقلید کرکے اسے اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں، مذہبِ اسلام جو ہر موڑ پر ہماری رہنمائی کرتا ہے اس کی تعلیمات اور اسلاف کی روایات کو پشِ پشت ڈال کر مغربی تہذیب کے اپنانے پر مسلمان مستقبل کو بہتر ہوتا دیکھ رہے ہیں مگر انھیں کون سمجھائے کہ جو قوم اپنے اقدار و روایات اور اپنی تعلیمات سے نظریں پھیرلیتی ہے دنیا اسے اپنا آلۂ کار بنالیتی ہے اور پھر صفحۂ ہستی سے اس کےنام و نمود اور عظمت و شوکت کو مٹاکر عبرت کا نشان بنادیتی ہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ اب ہمیں وہ مفکرین بیدار کرنے کی کوشش کررہے ہیں جن سے ہمارا کوئی دینی حمیت کا رشتہ نہیں نہ ہی وہ ہمارے ایمان وکلمے کو تسلیم کرتے ہیں پھر بھی انسانی بنیادوں پر وہ ہم پر ہورہے مظالم اور آئندہ ہونے والے تشدد کے لیے فکر مند ہیں۔پھرہماری قوم میں بھی بڑے بڑے مفکرین اور قائدین تھے اور ہیں جن کے نعرے ہر چاردانگِ عالم میں گونج رہے ہیں لیکن یہ بات ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہمارے ان مفکرین کی فکر کا مطمحِ نظر کیا ہے ؟ کیاان کے نزدیک سب سےاہم صرف اور صرف اپنی ہی ذات تھی یا ہے یا اپنا تشخص ہی برقرار رکھنا ہے ؟ یقیناً یہی بات ہے ورنہ آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، میڈیا والے یوں ہم پر نہ بھونکتے،کسی خاص جماعت کی غلطیوں کو سارے مسلمانوں سے جوڑ کرہمارا سماجی کائیکاٹ نہ کراپاتے ،یوں سرِ عام ہماری لنچنگ نہ ہوتی،ہمارے قاتلین کو تحفظ فراہم نہ ہوتا،اور نہ ہماری مساجد ہم سے نہ چھینی جاتیں۔
میں اپنی قوم کے ان مفکرین کی بات نہیں کررہا جنھوں نے ہر موڑ پر ہماری صحیح رہنمائی کی، تمام طرح کے خطرات سے ہمیں آگاہ کیا، مگر ان کی ایک نہ سنی گئی،ان کی باتوں کو صرف ہم نے ان کی تعریف وتوصیف کے لیے استعمال کیا اور ساری توانائی اسی پر صرف کردیں۔ کاش ان مفکرین میں سے صرف سیدی سرکار ِ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے دس نکاتی فارمولے پر بھی عمل کیا جاتا تو آج ہم کہاں سے کہاں ہوتےمگر واقعی کچھ نام نہادعاشقانِ اعلیٰ حضرت نے ان کے نام کو صرف اپنی روزی ، روٹی اور سستی شہرت کے لیے استعمال کیا کیونکہ اب تک نہ ان کے نام پر کوئی یونیورسٹی ہے،نہ کالج نہ اسپتال نہ میڈیا اور نہ ہی ان کی ایک ہزار اعلیٰ تصانیف کی اشاعت، پھر ہم نے آج تک کیسی مسلکی خدمات انجام دیں ، کیا صرف ان کے نام کا نعرہ لگاناہی ہمارے لیے کافی ہے؟ صرف ان کی یومِ پیدائش یا یومِ وصال منانا ہی ان کے مشن پر کام کرنا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ آج ضرورت ہے کہ ایک صدی کے بعد ہی سہی امام احمد رضا قدس سرہٗ کے دس نکاتی پر وگرام پر عمل ہو،علامہ ارشد القادری کی مبارک جد وجہد کی قدرہو،مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم میرٹھی کی تبلیغ ہمارا مشن ہو،حضور مجاہدِ ملت کے مجاہدانہ کردارپر عمل ہوتاکہ امت مسلمہ ہند میں اپنی ساکھ برقرار رکھ سکے اور امن وامان کے ساتھ عزت ووقار کی اپنی زندگی بسر کرسکیں ۔اس کے علاوہ بھی دیگر مفکرین و قائدین آگے بڑھ کر اپنی اعلیٰ فکر اوراعلیٰ قیادت سے قوم کے مستقبل کے لیے مضبوط لائحۂ عمل تیار کریں،نوجوان علما اور عصری تعلیم سے آراستہ اشخاص کے گروہ تشکیل دیں اور ان کی صلاحیتوں کو درست سمت میں کام کرنے پر ابھاریں ،بے جافضول خرچیوں سے پرہیز کرائیں اور قوم کے پیسے کو ان کے مستحق کاموں میں لگائیں ،اپنا میڈیائی نظام بنائیں تاکہ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کا دفاع ممکن بن سکے،اپنے خلاف استعمال ہونےوالی ہر زہریلی آواز کو دبا سکیں،ہر گاؤں میں مکتب کے ساتھ ساتھ اپنا اسکول بھی ہو تاکہ دینی وعصری تعلیم سے ہمارے بچےہم آہنگ ہوں اور عقائد ونظریات سے ناآشنا نہ رہیں، اپنا مطب ہو تاکہ کوئی اسپتال یہ لکھنے کی جرأت نہ کرسکے کہ ’’یہاں مسلمانوں کا علاج نہیں ہوسکتا‘‘
مگر میں جانتا ہوں کہ ہمارا خواب بھی ہمارے اجداد کے کارناموں کی طرح تاریخی صفحات میں جگہ پانے کے قابل ہے کیونکہ یہ وہ قوم ہے جب بیدار ہو تو سلانا مشکل اور جب سوئی ہو تو بیدار کرنا مشکل ،اگر اسی طرح خوابِ غفلت میں رہے اور وقت رہتے بیدار نہ ہوئے،دینی وعصری تعلیم سے خود کو اور اپنی نسلوں کو آراستہ نہ کیا،اگر پوری طاقت کے ساتھ ہم نےاپنی آواز دنیا تک پہنچانے کی کوشش نہ کی تو اسی طرح نت نئے الزامات لگاکر پوری دنیا میں ہمیں بدنام کرنے کی ناپاک کوششیں جاری رہیں گی اور جب تک ایک الزام سے ہم بری ہونے کے کوشش کریں گے مزید کئی الزامات ہمارے سر تھوپے جاچکے ہوں گے اس لیے علما وقائدین میڈیا کی اہمیت پر سر جوڑ کر بیٹھیں ،دینی و دنیوی اعتبار سےباہم مشورہ کریں اور کسی مثبت نتیجہ پر پہنچ کرامتِ مسلمہ کی قیادت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیں ۔ بہت پہلے علامہ اقبال نے ہمیں جگانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔ع
نہ سنبھلوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانو!
تمھاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
آج ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے کہ ہم بیدار ہوں اور جعلی مفکرین و نام نہاد قائدین سے اپنے آپ کو آزاد کرکے مخلص قائدین کی حمایت کرکے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں ،ہم اپنے درمیان سے ان غداروں کو تلاش کریں جنھوں نے اپنی اَنا اور خود پسندی کی قوم کو بھینٹ چڑھادیاورنہ جس طرح تاریخ میں ہمارے عروج کی داستانیں جلی حرفوں سے لکھی گئی ہیں اسی طرح ہمارے زوال اور نشانِ عبرت بن جانے کو بھی جگہ ملے گی اور تاریخ اسلام اس سے خالی بھی نہیں ہے ،تاریخ اپنی تاریخ دہراے اس سے پہلے ہمیں بیدار ہوکر کہنا ہوگا کہ
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑادئیے گھوڑے ہم نے

مزید پڑھیں:

  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

آسام

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال ✍🏻— مزمل حسین علیمی آسامی ڈائریکٹر: علیمی اکیڈمی …

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔