قضیۂ بابری مسجد : سب یاد رکھا جائے گا!!!

قضیۂ بابری مسجد : سب یاد رکھا جائے گا!!!

مشتاق نوری

اقوام عالم کے باشعور طبقے کا مساوات (equality) اور نظام عدل (judiciary system) کے قیام پر اس لئے زور رہا ہے کہ اس سے سماج میں امن و امان کی فضا مکدر نہیں ہوتی۔جرم کیفردار تک پہنچتا ہے۔مظلوم کو انصاف ملتا ہے۔نا انصافی(injustice) سے سماج میں مجرم اور گنہگار پیدا ہوتا ہے۔آپ مجرمین سے جڑے تاریخ عدل و انصاف کی کتاب پڑھیں گے تو ایسی ہزاروں مثالیں ملیں گی جہاں سماج ،عدالت یا ملک کی کی گئی نا انصافی کے نتیجے میں ایک ادنی مظلوم بڑا مجرم بن کر سامنے آیا۔تقریب ذہن کے لئے ماضی قریب میں پھولن دیوی کا کریکٹر موجود ہے۔
قانون ،عدالت کا وجود ہے ہی اسی لئے کہ میزان عدل کو کسی سائڈ زیادہ جھکنا نہ پڑے۔ورنہ پھر جمہوری اقدار (democratic values) کی کیا قیمت رہ جاۓ گی۔بسا اوقات لگتا ہے کہ کچھ فیصلے حالات کے موافق لئے گئے ہیں مگر جب وقت بدلتا ہے حالات بدلتے ہیں تو ایسے فیصلوں پر پھر سے نزاع چھڑ جاتا ہے۔بابری مسجد کے ساتھ پچھلے ستر سالوں سے جو کھیل کھیلا گیا ہے وہ انصاف اور سیکولرازم کی سیاہ داستان ہے۔
یوں تو دنیا بھر میں تب سے اب تک نہ جانے کتنی عمارتیں، مذہبی مقامات مسمار کئے گئے ہیں۔کتنی سلطنتیں کتنے قلعے تاراج کئے گئے ہیں مگر بعض مذہبی مقامات کے انہدام کا مسئلہ اب بھی جوں کا توں برقرار ہے۔پوری دنیا میں سب سے زیادہ مساجد ہی اغیار کے جبر و قبضے میں ہیں۔خواہ وہ جامع قرطبہ ہو ،مسجد اقصی ہو یا ہندوستانی زمین پر ہزاروں کی تعداد میں مساجد ہوں۔ان ہزاروں مسجدوں میں بابری مسجد کی شہادت دنیا بھر میں عام ہے۔
مسجد بابری کو ہند میں مسلم سماج کی ناک سمجھی جاتی ہے۔مگر عدالت کے دنگل میں اس ناک کے لئے جو لڑائی لڑی گئی وہ ہمیشہ سے کمزور رہی ہے۔ہم شروع سے ضعیف حریف بن کر سامنے رہے ہیں۔صد حیف کہ جہاں ہزاروں لوگ آج بھی مسجد کے لئے غمگین ہیں وہیں بطور فریق جو حق ملکیت کے دعوے دار تھے اس کے لئے یہ کوئی مذہب سے متعلق معاملہ ہی نہیں تھا۔مسجد بنے یا مندر دونوں صورتوں میں اس کا کچھ جانے والا نہیں تھا۔
بابری مسجد کا انہدام مسلم قیادت کی نا اہلی اور عوامی بے حسی کا نتیجہ ہے۔اور آج بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر مسلم ممالک کے سربراہوں کی غلط پالیسیوں کا برا نتیجہ ہے۔ہم تو مسجد اسی دن ہار گئے تھے جب کار سیوکوں کی ایک جنونی بھیڑ نے اس کے گنبد و مینار توڑ ڈالے تھے۔کیوں کہ انصاف اور سیکولر ڈھانچے کی بحالی کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے اندر جمہوریت(democracy) مکمل طور پر بحال و رائج ہو۔مسجد شہید ہوتے ہی جمہوریت بستر مرگ پہ چلی گئی تھی۔فسطائیت (fascism) دندناتی پھر رہی تھی۔مسجد میں چوری چھپے جس رات مورتیاں رکھی گئیں اسی رات آئینی وقار دم توڑ گیا تھا۔سپریم کورٹ کے ذریعہ جس دن رام مندر کا اعلان ہوا اسی دن "لوک تنتر کی ارتھی” اٹھ گئی تھی۔
یہ فیصلہ کوئی اچانک سے لیا گیا فیصلہ نہیں تھا بلکہ اس کے لئے آر ایس ایس نے طویل ترین لابنگ کی۔نیچے سے اوپر تک اپنے لوگ تیار کئے۔ماحول سازی میں پیسہ اور وقت لگایا۔ملک کے اعلی و باوقار عہدوں پر قبضہ جمایا۔رام نام کا چورن اس چالاکی سے فروخت کیا گیا کہ لوگ سارے مدے بھول کر اسی میں مست رہنے کو ترقی سمجھنے لگے۔بار بار مندر مسجد کا لفڑا کھڑا کرکے ہندو یوتھ پر رام بھکتی کا بھگوا رنگ چڑھایا گیا۔تب جاکر ۵؍ اگست ۲۰۲۰ کا دن آیا ہے۔
مسجد ٹوٹ گئی ہم تب بھی متحد نہیں ہوپاۓ۔ہم مختلف الخیال بنے رہے۔مسجد کے نام پر بھی اتحاد نہیں کر سکے۔اور ہندو انتہا پسند تنظیموں نے اپنا نیٹورک ملک بھر میں پھیلا کر سب کو اپنا ہم خیال بنا لیا۔مسجد کی شہادت کو لمبا عرصہ گزر گیا اس درمیان ہم نے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔پم صرف پچھلے غازیوں کے قصے پڑھتے رہے۔سیکولرازم کی دہائی دیتے رہے۔ہم جمہوریت جمہوریت چیکھتے رہے۔ ہم للچائی نظروں سے عدالت عظمی کی طرف انصاف کے لئے دیکھتے رہے۔تقریبا اٹھائیس تیس سال کے بعد فیصلہ وہی آیا جس کا ہمیں خدشہ تھا۔ہند کے نام نہاد جمہوریت نواز ججوں سے ہم نے انصاف کی گہار لگائی تھی مگر ہمارے ہاتھ کیا آیا، ہمیں کیا ملا ،ایک طرفہ فیصلہ! یعنی اکثریت کے مقتل میں اقلیتوں کو بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
سچ جہاں پابستہ ملزم کے کٹہرے میں ملے
اس عدالت میں سنے گا عدل کی تفسیر کون
صاحبو! انصاف اور فیصلے کے درمیان بڑا فرق ہے۔اگر مستند ثبوت،تاریخی حوالے، حق ملکیت کے شواہد اور آرکیالوجیکل سروے رپورٹس کی بنیاد پر ججمینٹ ہوتا تو اسے انصاف (justice) کہا جاتا یہاں تو شواہد و تاریخ کا اس کمرۂ عدالت میں خون کیا گیا، نہیں بلکہ بھرے مجمع میں ریپ کیا گیا جہاں صرف انصاف اور قانون کی بڑی بڑی کتابیں رکھی ہوتی ہیں۔جہاں گیتا،بائبل اور قرآن جیسی مذہبی کتب پر ہاتھ رکھ کر گواہوں کو سچ بولنے کے لئے قسم لی جاتی ہے۔سپریم کورٹ کی اس بڑی بلڈنگ کے اندر انصاف کے بجاۓ اقلیتوں پر فیصلہ تھوپا گیا جہاں کالے کوٹ والوں کو آئین کا پریامبل پڑھایا جاتا اور بھید بھاؤ ( Discrimination) سے بچنے کی نہ صرف تلقین کی جاتی ہے بلکہ انہیں سیکولر اسٹرکچر کو بحال رکھنے کی یاد دہانی بھی کرائی جاتی ہے۔سوچئے! آخر اس کورٹ میں کسی کے ساتھ نا انصافی کیسے ہوگئی جہاں "نیاۓ کی دیوی” اپنی آنکھوں پر کالی پٹی چڑھاۓ،ہاتھ میں ترازو لئے ہمیشہ کھڑی رہتی ہے۔آنکھیں بند رکھنے کا مطلب ہے کہ یہاں فیصلے چہرہ یا جماعت دیکھ کر نہیں، بلکہ حق اور باطل، جھوٹ اور سچ کی بنیاد پر لئے جائیں گے۔انصاف کی ترازو کے دونوں پلڑے ہمیشہ برابر ہونے چاہئے تاکہ قانون کی حکمرانی سلامت رہے۔
دیکھئے کب تک ہمارے قائدین رواداری، بھائی چارا، گنگا جمنی تہذیب، سیکولرازم اور جمہوریت کی لاش اپنے کندھے پر اٹھاۓ گھومتی رہتے ہیں۔اس ملک میں دنگوں کے بعد بابری مسجد مسماری سب سے بڑا کاری زخم ہے جو مسلم سماج کو لگایا ہے۔اس پر بھی انصاف نہیں ملا ہے۔جب منصف کا دامن ہی خون سے تر بتر ہو تو پھر انصاف کے لئے اور کہاں بھٹکیں؟قاتل کے وار سے زیادہ گھاتک، منصف کی نا انصافی ہے جسے مقتول و مظلوم کبھی بھول نہیں سکتا۔
نہ چاہ کر بھی سب یاد رکھا جائے گا۔
کون اس دیش میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک
جس میں خونخوار درندوں کی شہنشاہی ہے
جس میں غلے کے نگہبان ہیں وہ گیدڑ جن سے
قحط و افلاس کے بھوتوں نے اماں چاہی ہے۔
مشتاق نوری
۵؍اگست ۲۰۲۰

“الرضا نیٹورک” AL-Raza نیٹ ورک کا موبائل ایپ اب پلے اسٹور میں بھی دستیاب ہے۔نیچے دیے گئے لنک پر کلک کرکے ڈاؤنلوڈ کریں۔
👇👇👇👇👇
https://play.google.com/store/apps/details?id=mobi.androapp.alrazanetwork.c7085


مزید پڑھیں:

  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

نفرت

نفرت کا بھنڈارا

عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان محسوس ہوئی اس لیے اس کی نفرت باہر نکل آئی۔عورت بھی اعصاب کی مضبوط نکلی بحث بھی کی، کھانا بھی چھوڑ دیا لیکن نعرہ نہیں لگایا۔اس سے ہمیں بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے شاید وہ خاتون مسلمان ہی ہوگی۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔