تعلیم نسواں کی اہمیت و افادیت : مزمل رضا فیضانی

تعلیم نسواں کی اہمیت و افادیت

از قلم :مزمل رضا فیضانی

9336411483


آج میں تعلیم نسواں کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں کی ایک خاتون کی زندگی میں علم کی کتنی ضرورت ہے علم کی اہمیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے انسانی زندگی کے لئے کھانا پینا بیحد ضروری ہے لیکن انسان کے لئے اس سے کہیں زیادہ ضروری چیز علم ہے آب و دانہ کی ضرورت تو شب و روز میں صرف دو مرتبہ پڑتی ہے مگر علم کی ضرورت ہر ایک سانس پر ہے علم کے ذریعہ انسان معلوم کرتا ہے کہ اخلاق و تہزیب کس چیز کا نام ہے محبت و مروت کسے کہتے ہیں عروج و ارتقاء کا راستہ کون سا ہے سماجی زندگی میں کامیابی و کامرانی کس شئ کے ذریعہ ممکن ہے علم حیات انسانی کا وہ چراغ ہے جس کے بغیر انسان اپنی کشتئ حیات کو ساحل نجات سے نہیں لگا سکتا بلکہ جہالتوں کے تاریک بھنور میں گھٹ گھٹ کر ہلاک ہو سکتا ہے یعنی حیات انسانی کی کوئ بھی سمت بغیر علم کےمتعین نہیں ہو سکتی خواہ دینی ہو یا دنیاوی امور خارجی ہوں یا داخلی سماجی ہو یا وحدانی کسی بھی سمت کا با مقصد تعین بغیر علم کے نا ممکن ہے.

علم وہ لازوال دولت ہے جسے عالم انسانی کا ہر مکتب فکرو جود انسانیت کا جزواعظم قرار دیتا ہے بلا تفریق مذہب و ملت ہر مکتب خیال اس کی اہمیت و افادیت اور وقعت و ضرورت کا سچے دل سے معترف ہے بالخصوص مذاہب عالم میں اسلام کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے تعلیم و تعلیم کی پرزور تبلیغ کی ایمان و عمل کے ساتھ کسب علم اور اشاعت علم کو ضروری قرار دیا اصلاح معادو معاش دین و شریعت کی تفہیم اور رب کائنات کی معرفت کے لئے حصول علم کو فرض قرار دیا اس کے نزدیک دین و دنیا کی کامرانی اور فلاح نور علم کے بغیر ممکن نہیں ہے قرآن و حدیث میں علم کی اہمیت افادیت اور ضرورت کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور تحصیل علم کے احساس کو بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے.

انسانیت کی پوری تاریخ میں دوسرے مذاہب کو اسلام کی طرح علم و فن کو انتہائی اہمیت دیتے نہیں دیکھا گیا علم کی اشاعت حصول علم کی تشویق علم کی قدر و منزلت اہل علم کی عزت و عظمت علم کے آداب اور علم کے خوشگوار اثرات و نتائج کو از بر کرنے کے لئے مکمل ہدایات صرف اسلام ہی پیش کرتا ہے اس کی مثال کہیں اور نظر نہیں آتی اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عدل و انصاف کی فضا قائم کی آج کچھ لوگ ہیں جو انگشت نمائی کرتے ہیں اور اسلام پر یہ غلط الزام لگاتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو مردوں سے کم رتبہ دیا ہے مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو کوئ عزت نہیں دی ہے عورتوں کو ہر میدان میں مردوں سے پیچھے رکھا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے خواتین کو جس قدر عزت دی ہے اور جس احسن طریقے سے ان کے حقوق کا تحفظ کیا کسی اور مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ایک ایسا مزاج پیدا کیا ہے کہ خواتین اسلام صرف زینت خانہ نہیں بنی رہیں بلکہ انہوں نے زندگی کے دوسرے شعبوں بھی میں گر انقدر خدمات انجام دیں۔

اسلام نے نہ صرف عورت بلکہ اس کے دودھ کا بھی لحاظ رکھا ہے لہذا جو بچہ ڈھائی سال کی عمر میں اپنی حقیقی ماں کے علاوہ اگر کسی دوسری عورت کا دودھ پی لے تو وہ عورت اس کی رضاعی ماں ہو جاتی ہے اب اس عورت کا نکاح اس لڑکے سے جس نے اس کا دودھ پیا ہے ایسا ہی حرام ہے جیسا کہ حقیقی ماں سے بلکہ اس عورت کی لڑکی سے بھی اس لڑکے کا نکاح نہیں ہو سکتا میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب نے بھی عورت کو ایسا مقام دیا ہے اسلام پر الزام تراشی کرنے والو ہوش میں آ ؤ اور یاد رکھو اسلام کے خلاف تمہارا کوئی بھی حر بہ کار گر ثابت نہیں ہو سکتا زمانہ جاہلیت اور آج کے اس مارڈن دور میں بھی تعلیم نسواں کے مخالفین کا یہ نظریہ رہا ہے کہ عورت جسمانی اور ذہنی اعتبار سے ضعیف ہو نے کی وجہ سے تعلیم کی دنیا میں مردوں کے مقابل آنے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت مردوں کی بہ نسبت کم رکھتی ہے اس لئے اسے زندگی کے ہر شعبے اور ہر گوشے گوشے میں اتنی اہمیت حاصل نہیں ہے جتنی مردوں کو ہے۔

لیکن اس کے بر عکس اسلام نے مرد عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی ہے بلکہ دونوں کے لیے علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے علم کا طلب کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے اسلام قطعی طور پر یہ نہیں کہتا کہ لڑکیوں کو تعلیم نہ دی جائے بلکہ اسلامی طرز کی تعلیم کے لئے اسلام نے عورتوں کو سبھی حق دیا ہے اسلام نے عورتوں کو نہ صرف تعلیم و تعلیم کی اجازت دی ہے بلکہ مردوں کی طرح عورتوں کے لئے بھی اس کی تحصیل کو لازم بتایا ہے اور خواتین اسلام نے بھی تحصیل علم کو اپنی زندگی کا لازمی فریضہ خیال کر کے عملی نموشے پیش کئے ہے اور دنیا میں پائے جانے والے مذاہب کی عورتوں پر تحصیل علم کے میدان میں گوے سبقت لے گئ ہے۔

تاریخ اسلام کے صفحات پر بہت سی ایسی خواتین کے نام ملیں گے جنہوں نے دنیائے علم و فضل میں ایسا نمایا مقام پایا چوٹی کے علماء بھی جس کی گرد راہ کو نہ پا سکے سیرو تزکار کی کتابوں میں حضرت عائشہ حضرت ام سلمہ،حضرت ام حبیبہ ،حضرت ام عطیہ، حضرت صفیہ، حضرت اسماء بنت ابوبکر ،حضرت خولہ، اسماء بنت عمیس، عمرہ بنت عبد الرحمن جیسی خواتین اسلام کے اسماء آج بھی روشن و تاباں ہیں جو افق علم پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکیں الاصابہ میں ان خواتین کی تعداد ۲۰۰ بتائ گئی ہے جنھوں نے علم و فن کے حصول کو اپنا شیوہ حیات بنایا یہ تو رہی عرب کی خواتین اسلام کی بات ذرا آپ اپنے ملک ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہاں متعد خواتین اسلام ایسی ملیں گی جنھوں نے علم و فضل کی نہ صرف تحصیل کی بلکہ حصول علم میں کمال حاصل کیا شاہجہاں بادشاہ کی بیٹی جہاں آرا بیگم زبر دست ادیبہ و فاضلہ گزری ہے یونہی  اورنگ زیب بادشاہ کی لڑکی زیبن النساء بھی بلا درجہ کی ذہین و فطین عالمہ و شاعرہ ہوتی ہے۔


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں


مزید پڑھیں:
  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

مدینہ

نعت خوانی کے شرعی آداب

۔ نعت گوئی کی تاریخ کو کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا البتہ یہ کہا جا سکتاہے کہ نعت گوئی کا سلسلہ ازل سے شروع ہوا اور ابد تک جاری رہے گا۔ آپﷺ کی آمد سے قبل بھی  آسمانی صحیفوں اور کتب میں آپ ﷺکی آمد کی بشارتیں اور اوصاف حمیدہ درج ہیں۔ خود رب قدیر نے قرآن مجید میں مختلف انداز میں آپﷺکی شان (نعت) بیان فرمائی ہے۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔