ہم کیا مطالعہ کریں…!!! (قسط نمبر ۲)

تصوف کی بنیاد مرشد ازل، حضور سید عالم ﷺ کے حکم سے، اصحاب صفہ نے مسجد نبوی میں رکھی، فن کی پہلی کتاب محدث عبد اللہ ابن مبارک نے ”کتاب الزہد“ نام سے تالیف فرمائی، اس فن کی اولین جامع تصنیف، امام ابو نصر سرّاج کی ”کتاب اللمع“ ہے۔ پروفیسر مسعود احمد مجددی علیہ الرحمہ نے تصوف کو ”روح اسلام“ قرار دیا ہے۔ انسان کی اخلاقی تربیت کا نام تصوف ہے ، سید الطائفہ حضر جنید بغدادی علیہ الرحمہ کے الفاظ میں ”دل کو کدورتوں اور دنیاوی خیالات سے پاک کرنا تصوف ہے “۔

ہم کیا مطالعہ کریں…!!! (قسط نمبر ا)

کتابوں کی طاقت مسلّم ہے، کارل مارکس کی ایک کتاب نے ایشیا اور یورب کا نظام معیشت بدل دیا، ایک کتاب تھی، جس نے ”انقلاب روس“ کی راہ ہموار کر دی، ہیری پوٹر جیسی کتابوں نے بچوں کے فکر و شعور کا رجحان کا رجحان ہی بدل دیا، ”In Search of Lost Time“ ایک ناول ہے، اس کتاب نے بیسویں صدی میں ادیبوں کا رخ اور تیور بدل دیے؛ لیکن یاد رہے

 شارح بخاری کی آفاقی شخصیت اور منفرد علمی شناخت : مبارک حسین مصباحی

Sharhe-Bukhari

گھوسی کی سر زمین پر ایک معمولی سے خاندان میں 1921ء میں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اور ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں حاصل کرتا ہے ۔ حضرت حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمۃ والرضوان جب 1934ء میں مبارک پور کی سر زمین پر جلوہ گر ہوتے ہیں آپ کی آمد کے بعد مدرسہ اشرفیہ شہرتوں کے بام عروج پر پہنچتا ہے تو اس کی صدائے باز گشت گھوسی کی سر زمین پر بھی سنائی دیتی ہے وہ فقیہ اعظم ہند جو اس وقت صرف ’’محمد شریف الحق‘‘ کے نام سے پہچانے جاتے تھے

محبوب العلما حضرت محبوب مینا شاہ کی ہمہ جہت شخصیت کے چند گوشے

محبوب مینا شاہ

شوسل میڈیا کے ذریعہ اہل سنت وجما عت کے عظیم المرتبت، صاحب شوکت و سطوت ،محبوب العلما والمشائخ پیر طر یقت حضرت محبوب میناشاہ کی ر حلت کی خبر ملی ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔اس جان کاہ خبر نے جما عت اہل سنت کے ہر ہر فرد کو محزو ن و مغموم کر دیا خصوصاً آپ کے مر ید ین و معتقد ین کے لئے شد ید تکلیف کی با ت ہے چو نکہ حضرت محبو ب العلما اپنے مر یدین و معتقدین کی اصلا ح و پر داخت رسماً کسی اورشیخ کی طر ح نہیں بلکہ ایک والد ومر بی کی حیثیت سے فر ما یا کر تے تھے

آہ۔۔! صدآہ۔۔!حضرت حاجی نسیم الدین رضوی: ایک اور سالارِ قافلہ بھی جاتا رہا : احمدرضا صابری

حاجی نسیم الدین رضوی

ابھی ابھی خبر موصول ہوئی کہ فخر بہار حضرت علامہ الحاج محمد نسیم الدین رضوی ، جامعہ قادریہ مقصود پور کا وصال ہوگیا۔ مختصر سی علالت کے بعد آج بغرض علاج مظفرپور روانہ ہوئے تھے، راستے ہی میں مالک حقیقی سےجاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

علامہ ابو الحقانی کی رحلت دنیائے علم وفن کا ایک ناقابل تلافی نقصان!!

Abul-Haqqani-3

کرونا نے جہاں دنیا کے تمام اسباب وعلل کو متاثر کیا وہیں ان دنوں علمائے ربانیین ،مشائخ عظام ومحدثین اسلام بڑی تیزی کے ساتھ آخرت کی طرف رخت سفر ہیں ۔ہر روز ایک نہ ایک عالم دین وشیخ طریقت کی موت کی خبر سے ملت اسلامیہ میں غموں کی لہر دوڑ سی گئی ہے ۔حضرت محدث اسلام حضرت علامہ الحاج مفتی محمد حسین ابو الحقانی قدس سرہ کے انتقال کی خبر نے دنیائے سنیت کو غمزدہ کردیا ۔

سیمانچل کا پیر پرستانہ مزاج بھی نا۔۔۔۔!! (قسط سوم)

سیمانچل کا پیر پرستانہ مزاج

کئی بار خانقاہی اسٹیجوں پر خطباۓ متصوفین کو کافی زور دے کر یہ کہتے سنا کہ شیخ کا ادب یہ ہے کہ اگر شیخ نے کہا کہ سامنے رکھی چیز کو پیچھے رکھ دو اور تم نے ایسا کر دیا۔پھر شیخ نے کہا ایسا کیوں کیا، تو یہ نہ کہو کہ آپ نے پیچھے رکھنے کو کہا تھا۔بلکہ یہ کہو کہ حضور مجھ سے خطا ہوگئی۔ورنہ خلاف ادب ہوگا۔بہت ممکن ہے یہ بات تصوف و سلوک کی کتب میں مل جاۓ مگر جس سچوئیشن میں، جس انداز سے بیان کی جاتی ہے وہ فہم دین سے بالکل مختلف ہے۔مذکورہ ادب نامہ بلا قید و شرط بیان کرنے کا انجام ہے کہ

ترک سلطنت مخدوم پاک کی عظیم قربانی : شمس الزماں خان صابری

مخدوم جہانگیر اشرف

آج کل عبـقری اور نابـغہ کا لفظ بہت سستا ہوگیا ہے۔ ہر تیسرا چوتھا پڑھا لکھا آدمی خود کو عبقـری اور نابغہ کہـلوانے پر مصر ہےاور علامہ ہوناتو ہر ایک کے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کا کھیل بن گیا ہے۔ جس کی بـازار میں ذرا سی بکری ہوئی،وہ عبـقری بن جـاتـا ہے اور جس کو معمولی سی قوتِ ناطقہ ملی تو وہ نابغہ بن جاتا ہے۔ حالاں کہ سر منڈوانے سے کوئی قلندر اور یونان میں پیدا ہونے سے کوئی سکندر نہیں ہوجاتا ، آدابِ قلندری سے ہر شخص آگاہ نہیں ہوتا اور شانِ سکندری کا ہر شخص حامل نہیں ہوتا۔ اس لیے عبقری اور نابغہ صدی بھر میں معدودےچند ہی ہوتے ہیں

سیمانچل کا پیر پرستانہ مزاج بھی نا! (قسط اول)

سیمانچل کا پیر پرستانہ مزاج

جی!سیمانچل کے مذہبی طبقے کا مزاج بھی غضب ڈھاتا ہے۔یہ صرف اپنے ممدوح پیر کی سنتا ہے باقی کسی کی نہیں۔بلکہ بعض مواقع تو ایسے دیکھے گئے ہیں کہ لوگ دین و سنیت کے واجبی حکم پر بھی پیر کی راۓ کو ترجیح دیتے ہیں۔جب کہ پیر صاحب خالص پیر صاحب ہے انہیں اسلامیات پر کوئی درک نہیں ہے۔دینیات کی گہری سوجھ بوجھ بھی نہیں ہے۔فقہیات سے کوئی قریبی رابطہ بھی نہیں۔بندوں کو خدا سے جوڑنے کا ایسا کوئی کام بھی ان کے کھاتے میں درج نہیں ہے جسے قابل ذکر سمجھ کر تحسین و آفرین کہا جاۓ۔حلقۂ ارادت کو بھی گروہی عصبیت کا زنگ لگا بیٹھے ہیں۔

مولانا ابوالحقانی جیسی ہستی صدیوں بعد وجود میں آتی ہے : محمد قمرالزماں مصباحی مظفرپوری

ابوالحقانی

آپ جیسی عبقری الشرق ہستی صدیوں بعد وجود میں آتی ہے آپ نے ازہر ہند اشرفیہ مبارک پور سے فراغت کے بعد مدرسہ فیض الغربا آرا کے مسند تدریس کو زینت بخشی اور اپنی علمی صلاحتیوں سے مدرسہ کے وقار میں چار چاند لگادیا اس درمیان بہت سارے قابل قدر شاگرد پیدا کئے جن کی زریں خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے اور جب آپ نے خطابت کی دنیا میں قدم رکھا تو پورے یورپ و ایشیاء میں خطابت کے حوالے سے آپ کی ذات سکہ رائج الوقت بن گئی۔