اترپردیش میں "گینگ ریپ”  مجرمین کے عزائم آخر اتنے بلند کیوں؟

ریاستِ اتر پردیش ان دنوں اخبارات،نیوزچینلوں، سوشل میڈیا،اور فیس بک کی سرخیوں میں گردش کر رہی ۔جس اتر پردیش میں ہزاروں مدارس و مساجد, ،منا در وچرچ اور کلیسا کے ساتھ ساتھ ہزاروں بڑے بڑے اسکول،کالج اور یونیورسٹیاں ہیں، جس کی وجہ سے اتر پردیش ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے مد مقابل امن وشانتی،بھائی چارگی ،سماجی ہم آہنگی ،مساوات،تہذیب وثقافت

علامہ ارشدالقادری-کچھ یادیں کچھ باتیں : عرس قائد اہل سنت پر خصوصی تحریر

وہ اتحاد کے قائل تھے، مشربی اختلاف سے انھیں حد درجہ نفرت تھی، اشرفی رضوی اختلاف کا انھیں بے حد قلق تھا، سبھوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوششیں کرتے تھے۔ میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب خانقاہ ابو الفیاضیہ (پٹنہ) سے حضرت شاہ بر ہان علیہ الرحمہ اور خانقاہ منعمیہ (پٹنہ) سے سید شمیم احمد منعمی تشریف لائے اور آپ نے ان کا والہانہ استقبال کیا اور بڑی دیر تک گفتگو ہوتی رہی

علامہ ابو الحقانی کی رحلت دنیائے علم وفن کا ایک ناقابل تلافی نقصان!!

Abul-Haqqani-3

کرونا نے جہاں دنیا کے تمام اسباب وعلل کو متاثر کیا وہیں ان دنوں علمائے ربانیین ،مشائخ عظام ومحدثین اسلام بڑی تیزی کے ساتھ آخرت کی طرف رخت سفر ہیں ۔ہر روز ایک نہ ایک عالم دین وشیخ طریقت کی موت کی خبر سے ملت اسلامیہ میں غموں کی لہر دوڑ سی گئی ہے ۔حضرت محدث اسلام حضرت علامہ الحاج مفتی محمد حسین ابو الحقانی قدس سرہ کے انتقال کی خبر نے دنیائے سنیت کو غمزدہ کردیا ۔

آہ! علامہ ابوالحقانی: میرے وہ آخری پانچ منٹ : احمدرضا صابری

editorial-1

حضرت ابوالحقانی کی سحر انگیز شخصیت کا اثر جہاں ان کے ہم عصروں پر ہمیشہ طاری رہا وہیں ہم نوجوان بھی ان کی جادوئی شخصیت کے اسیر تھے۔ گفتگو ایسی کہ بچہ بچہ عش عش کراٹھے، فن خطابت کو ایک نئی اونچائی اور منفرد شناخت عطاکرنے والے حضرت حافظ احادیث کثیرہ اس فن کے اکلوتے شہسوار تھے جن کے حیات مستطاب میں کوئی بھی خطیب ان کے گرد راہ کو بھی نہ چھو سکا۔ فن کی بلندی پر پہنچنا کبھی کمال نہیں ہوتا، کمال ہوتا ہے چار پانچ دہائیوں تک مسلسل اس بلندی پر بنے رہنا۔

ہندو دھرم کے عقائد و اعمال

ہندو دھرم

دنیا کی بےشمار مخلوقات میں ایک عظیم مخلوق انسان ہے چونکہ انسان دوسرے حیوانات کے ساتھ مشترک اور امتیازی خصوصیات کی بنا پر دو قسم کی زندگی گزارتا ہے ایک اس کی حیوانی زندگی اور دوسری انسانی، دوسرے الفاظ میں ایک مادی زندگی اور دوسری ثقافتی یا غیر مادی زندگی۔ مادی زندگی میں یہ بھی دوسرے حیوانات کی محسوسات تک محدود رہتاہے جبکہ غیرمادی اور ثقافتی زندگی میں لامحدود اور جاوداں اشیا کی معرفت، کلی قوانین اور آفاقی حقائق کا ادراک حاصل کرتاہے۔ یہ ثقافتی زندگی اس کی امتیازی خصوصیت ہے جس میں کوئی حیوان اس کا ہمسر اور شریک نہیں۔ انسان کی یہ ثقافتی اور اجتماعی زندگی اس کے ان پختہ خیالات و افکار اور نظریات جنہیں عقائد کہا جاتا ہے کی آئینہ دار ہوتی ہے-

اگر منہ میں زبان رکھتے ہیں تو بولیں، ہاتھ میں قلم رکھتے ہیں تو لکھیں : احمدرضا صابری

Editorial Al Raza Network

ملک کی جی ڈی پی کو ڈبل ڈیجٹ میں لانے والے آج مائنس ۲۴؍ پر ایسے خاموش ہیں جیسے کچھ ہواہی نہیں ہے۔ تصور کریں اگر یہی پلس ۱۰؍ بھی ہوتا تو آج حکومت اور ان کی زرخرید میڈیا کسی سطح پر ناچ رہی ہوتی تھی۔پچھلے سات سالوں میں جتنےبھی فیصلے لیے گئے وہ سب ملک کےدستور کو منہ چڑھانے والے اور جمہوریت کا مذاق اڑانے والے تھے۔ لیکن جو بھی کیا گیا بہت سلیقے سے اور غیر قانونی کو قانونی جامہ پہنا کر کیا گیا۔

حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ اکابر کی نظر میں

Muftiye-Azam-Hind

 آفتاب علم و معرفت شہزادۂ مجدداعظم حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سلسلہ عالیہ قادریہ کے اکتالیسویں امام وشیخ طریقت ہیں،آپ کے فضائل و مناقب بے شمار صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں جس کا انحصار بیان تحریر سے باہر ہے۔ بالاختصار چند مشائخ کے اقوال سے آپ کے فضائل کو ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔

مسلم دشمنی پر مشتمل مواد منافع بخش تجارت : فیس بک

فیس-بک

چاردن پیشتر تقریباً ہر اخبار میں ایک شہ سرخی لگی ہوئی تھی کہ ہندوستان میں فیس بک نے مسلم مخالف پوسٹس کو ہٹانے سےانکار کیاہےان پیغامات بیانات کو نہ ہٹانے کی جو وجہیں اس نے بتائی ہے پہلی یہ کہ فیس بک کپمنی کا خسارے میں پڑنے کا ڈر، اوردوسری وجہ حکومت سے تعلق خراب ہوجانے کاڈر، 

مسئلہ کشمیر: شاہ فیصل، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم!!

شاہ-فیصل

کشمیر کی زمینی صورت حال کس قدر پیچیدہ اور الجھی ہوئی ہے اس کا اندازہ شاہ فیصل کے دو استعفوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ استعفے ڈیڑھ سال کے وقفے میں منظر عام پر آئے ہیں۔ 2010 میں upsc (یونین پبلک سروس کمیشن) میں ملک بھر میں ٹاپ کرنے والے IAS شاہ فیصل اس وقت سرخیوں میں آگئے تھے

ہے کمی تو بس میرے چاند کی جو تہ مزار چلا گیا : آہ! مفتی معراج الحق قادری

مفتی-معراج

درس و تدریس کے بے تاج بادشاہ تھے، جو پڑھانے بیٹھ جاتے تو لگتا تھا کہ الہام ہو رہا ہے ،بغیر رکے،بغیر تھکے بولتے جاتے جسے سمجھ میں آتا وہ تو رخِ زیبا تکتا ہی ،جسے نہیں بھی آتا وہ بھی تکتے جاتا اور حتی الامکان سمجھنے کی کوشش بھی کرتا۔