دجال وقت بابا ظریف چشتی کافتنۂ اوتاریت:ایک جائزہ
از :- غلام آسی مونس پورنوی ،مدیر دارالعلوم انوار مصطفیٰ رمضان نگر تیلی باغ لکھنؤ
اگر اس دنیا میں سب سے آسان کام کوئی ہے تو وہ ہے پیری مریدی، آج کے اس پرفتن ماحول میں ایک سے ایک نمونے پیر آپ کو گلی کوچوں میں ٹپلا کھاتے مل ہی جائیں گے، برساتی مینڈک اتنی تعداد میں برسات میں نہیں نکلتے ہونگے ، جتنے آج کل کے پیر صاحبان،ان پیروں کی بھی کئی کوالٹی مارکیٹ میں دستیاب ہے،کوئی جھولے والے پیر، کوئی ٹھیلے والے پیر، کوئی مولی گاجر والے پیر، کچھ پیر تو بیئر باز بھی مارکیٹ اپلبدھ ہیں، میں نے خود کچھ پیروں کو چیلم کا سُٹا لگاتے اپنی آنکھوں سے دیکھا، کچھ پیروں کو اور ان کے حرکات و سکنات میں نے بہت قریب سے دیکھا۔
یقیناً ان حرکات و سکنات کو صفحۂ قرطاس پر نہیں لایا جاسکتا، المختصر یہ سمجھ لیجئے کہ اگر اسلامی حکومت ہوتی تو ان پیر صاحبان کو یا تو پتھر مار کر ہلاک کردیا جاتا یا سو کوڑے لگائے جاتے،ان پیروں نے ایک نیا فارمولہ اپنا رکھا ہے کہ احکام شرع کو اپنی طرف سے توڑ مروڑ کر عوام کے سامنے رکھو تاکہ عوام دین کو اتنا آسان سمجھ لیں کہ اسے فرائض و واجبات، سنن و نوافل کی کوئی فکر ہی نا ہو، اور وہ اپنے پیر کوشریعت پر مقدم سمجھنے لگے، احکام خدا و رسول کی پیر صاحب کے قول و فعل کے سامنے کچھ وقار نا ہو، یہ فارمولا ان پیروں نے اس لئے اپنا ہے، کہ لوگ علماء سے دور ہوجائیں، کیونکہ عوام اگر علماء کے قریب رہے گی تو ہماری روزی روٹی کیسے چلے گی، ہماری پارٹی کا اہتمام و انصرام کیسے ہوگا، شباب و کباب کے ذائقے سے کیسے لطف اندوز ہوا جائے گا، وغیرہ وغیرہ______
ابھی یہ فتنے دبے بھی نا تھے کہ ایک فتنۂ افغانی و فتنۂ ظریف نے سراٹھادیا، اس ظریفی فتنہ نے ہر طرح کی سرحد و سیما کو لانگ دیا،نام ظریف تو ہے مگر ظرافت کی ذرہ برابر بو اس کے اس کے اندر موجود نہیں، اپنے آپ کو حضور خواجۂ ہند رضی اللہ عنہ کے پردادا پیر کی اولاد کہلانے والے ظریف چشتی نے ایسی ہمت و جرأت دکھائی کہ اس کی ہمت و جرأت کے سامنے زمین وآسمان تھر تھر کانپنے لگے کیونکہ ایسی جرأت ہمت تو آج تک صرف کچھ بد قسمت لوگوں نے کی ہے، جیسے مسیلمہ کذاب و اسود عنسی اور سجاح بنت حارث وغیرہ،
وہ سارے حدود کو پار کر کے اپنے آپ کو اوتار کہلانے لگا اور سوشل میڈیا میں کئی چینل اوتار ظریف چشتی کے نام سےبنا ڈالا جو آج بھی یوٹیوب پر موجود ہے۔اب آئیے ہم سب سے پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ اوتار کسے کہا جاتا ہے اور اوتار کا عرفی و حقیقی مفہوم کیا ہیں:
پہلا مفہوم
اوتار (Avtar) کے معنی خدا کی جانب سے اتارا ہوا ہے، مگر ہندو مت میں عموماً اوتاروں کو خدا (بھگوان) سے علاحدہ بشر نہیں بلکہ خود خدا ہی کا روپ قرار دیا جاتاہے، یعنی بھگوان خود کسی شکل میں وارد ہوتا ہے۔ لہذا یہ نظریہ اسلام، مسیحیت اور یہودیت کے نبوت کے تصور سے قدرے الگ ہے۔
دوسرا مفہوم
دیوتاؤں کا دنیا میں بشکل اصلاح کے لیے نزول یا ورود
تیسرا مفہوم
(ہندو مذہب کے عقائد کے مطابق ) وہ انسان یا مجسمہ(دیوتا) جس کی شکل میں خدا بندوں کی اصلاح کے لیے آتا ہے، رشی منی ، مہاتما ، پیغبر ،(خصوصاً وشنو جی کے چوبیس اوتار جن میں دس بہت مشہور ہیں : مجچ، کچھ، ناراہ، رسنگ ، بامن، پرشرام ، رام چندر، کرشن ، بودھ ، کلنکی)
اگر لفظ اوتار کا پہلا مفہوم مراد لیا جائے تو مطلب یہ ہوگاکہ ظریف چشتی بھگوان ہے، اور ہندو مذہب میں بھگوان خالق مطلق کو کہاں جاتا ہے،گویا ظریف چشتی نے اپنے آپ خدا کہلانے کا اعلان کرہی دیا، معاذاللہ
اگر دوسرا مفہوم مراد لیا جائے تومطلب یہ ہوگا کہ ظریف چشتی ایک دیوتا (ہندو مذہب میں دیوتا کی پوجا کی جاتی ہے) ہیں اور دنیا میں اصلاح کےلئے نازل ہوئے ہیں،اس مفہوم میں بھی ظریف چشتی اپنی خدائی سے پیچھے ہٹنے والے نہیں، معاذاللہ
تیسرے مفہوم میں تو خود ظریف چشتی خدا بنے بیٹھے ہیں اور خود خدا دیوتا کی شکل میں دنیا میں پدھارے ہیں۔ان تینوں اوتاری مفہوم میں ظریف چشتی کہیں پر خدا بن بیٹھا تو کہیں پر نبی معاذ اللہ رب العالمین،کہیں پر خدا کی خدائی میں اپنے آپ شریک ہوگیا تو کہیں دعویٰٔ اوتاریت کرکے عقیدۂ ختم نبوت کی دھجیاں اڑا ڈالی ، یقیناً ایسے لوگ دجال وقت ہیں ان سے مولی دوررہنے کی توفیق بخشے،
تاریخ میں اس طرح کے بہت سے افراد ملیں گے جنہوں نے دعوائے خدائی اور دعوائے نبوت کیا۔ ان میں بعض بہت مشہور ہوئے اور بعض گمنام ہوگئے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو متنبہ فرماکر پیشن گوئی فرمائی کہ بعض جھوٹے نبی پیدا ہوں گے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی ان لوگوں سے امت کو آگاہ فرمادیا تھا۔”انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی و انا خاتم النبیین لا نبی بعدی” (مسند احمد ج ٥/ ص ٢٧٨)
کہ بیشک میری امت میں تیس (30) کذاب ہوں گے کہ ہر ایک اپنے کو نبی کہے گا جبکہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں،ان تیسوں میں ایک نام ظریف چشتی کا بھی ہے، جسے کچھ الہ آبادی ڈھونگی صوفیاء اپنی خانقاہ میں بلاکر عزت و تکریم کا تمغہ عنایت کرتے ہیں، اور اس کی عزت افزائی محفل سماع منعقد کرکے کی جاتی ہے، میں پوچھنا چاہتا ہوں ان ڈھونگی صوفیاء سے کہ کیااب صوفیہ کے عقائد و نظر مذہب اسلام کے عقائد و نظریات سے الگ ہوگئے،اور وہ بھی آپ لوگوں کے نزدیک قابل تعظیم و توقیر گردانا جانے لگا جو خدائیت اور نبوت ورسالت کا دعویدار ہو،ہونا تو چاہئے تھا کہ اس قسم کے لوگوں کا استقبال ریڈ قالین سے نہیں جوتوں کے نوک سے کیا جاتا ،
مگر روکیں تو روکیں کیسے سنگمی نگری کے صوفیاء کی روش بھی تو ظریف بابا ہی کی طرح ہے……… مطلب صاف ہے:تومرا حاجی بگو….. من ترا قاضی بگویم
مصحلت مصلحت کی رٹ لگانے والوں سے یہ امید نہیں تھی کہ کوئی خدائیت اور نبوت ورسالت کا بے بانگ دہل اعلان کرے مگر یہ مصلحت کے ٹھیکیدار صوفیاء اس کے مسلمان ہونے کی سرٹیفکیٹ جیب میں لے کر گھومے اور اسے اپنی محفل سماع و و محفل رقص و سرور میں بلاکر عزت بخشے
خیر ظریف چشتی نے اوتاریت کا دعویٰ کرکے کفر و ارتداد کا بوجھ تو اپنے ناتواں دوش پر لادہی لیا، اب اپنے ایمان کی خیر منائیں سنگمی وادی کے وہ فتویٰ فروش مفتی و نام و نہاد صوفی جو ظریف چشتی کو اب بھی مسلمان جانتے ہیں،
اہل سنت والجماعت کے عقائد و نظریات کے مطابق اگر کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے خواہ کسی معنی میں ہو۔ وہ کافر، کاذب، مرتد اور خارج اَز اسلام ہے۔ نیز جو شخص اس کے کفر و ارتداد میں شک کرے یا اسے مومن، مجتہد یا مجدد وغیرہ مانے وہ بھی کافر و مرتد اور جہنمی ہے۔لہذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس قسم کے دجالوں سے دور رہیں، اور علماء ائمہ اپنی تقاریر میں کھل کر اس کا رد کریں، تاکہ امت اس فتنہ سے بچی رہے، اور جو لوگ اس سے قربت رکھتے ہیں فورا اس سے دور ہوجائیں اور اس کا کلی بائیکاٹ کریں۔
الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !
الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ (۲)جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مزید پڑھیں: