بنکروں کی حقیقت اور بنکروں کی صنعت!!
javedbharti508@gmail.com
تحریر: جاوید اختر بھارتی
یوں تو بھارت میں بہت سی صنعتیں ہیں مگر کپڑا صنعت کی بات ہی کچھ اور ہے اور اسے ہر حال میں فروغ دینے کی ضرورت ہے واضح رہے کہ پہلے کپڑے کی بنائی کرنے والے کو بنکر کہاجاتا تھا اور اب بھی کہاجاتاہے مگر پہلے کی بنسبت اب کافی فرق آچکا ہے کل تک کپڑے کی تنائی بنائی سے وابستہ ایک مخصوص برادری تھی جسے انصاری برادری کے نام سے جانا جاتا تھا اور جانا جاتا ہے جسے کچھ شخصیات نے لعن و طعن کا شکار بھی بنایا اور اتنا ہی نہیں بلکہ تقریر و تحریر اور لغت کے ذریعے اس برادری کی دلآزاری بھی کی گئی آج بھلے ہی اسے تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک زمانہ ایسا تھا کہ اس برادری کو تعلیم سے محروم رکھنے کی بڑی بڑی سازشیں بھی رچی جاچکی ہیں یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آج بھی ان کی نیت صاف ہے یا نہیں-
دوسری تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب دیگر برادریاں بھی تنائی بنائی کا کام کرنے لگی ہیں یعنی جن لوگوں نے لغت میں معنیٰ لکھا کہ جولاہا یعنی کپڑا بننے والا،، آج ان کی نسلیں اور اولادیں بھی کپڑا بن رہی ہیں اور پاور لوم لگا بھی رہی ہیں اور چلا بھی رہی ہیں،، بہر حال اب صورتحال یہ ہے کہ چاہے کسی بھی ذات برادری، مذہب سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ تنائی بنائی کررہا ہے تو بنکر ہے،، اب ایسی صورت میں تو ضرورت اسی بات کی ہے کہ یاتو لفظ بنکر ختم کیا جائے یا پھر لفظ جولاہا ختم کیا جائے اور کوئی نیا نام دیا جائے ورنہ پھر یہ واضح کیا جائے کہ آج کے دور میں لغت کس کے منہ پر طمانچہ مار رہی ہے،، مضمون میں بنکروں کی صنعت کے ساتھ بنکروں کی حقیقت کا ذکر کرنا بھی ضروری تھا-
اترپردیش میں بنکر ہینڈ لوم چلایا کرتا تھا جسے ہتھ کرگھا کہاجاتاہے آج بھی ہتھ کرگھا موجود ہے مگر تعداد بہت کم ہے اب پاور لوم زیادہ ہے مگر اترپردیش کے پاور لوم اور بنکروں کی حالت دوسری ریاستوں کے برعکس ہے مہاراشٹر اور گجرات میں میں ایک ایک آدمی کے پاس بہت زیادہ زیادہ پاور لوم ہیں مگر اترپردیش میں ایسا نہیں ہے بلکہ اترپردیش کے پوروانچل میں تو ایسے ایسے بنکر ہیں جن کے پاس ایک ایک دو دو پاور لوم ہیں اور اسی میں پورا گھر پریوار لگا رہتا ہے تب جاکر کسی طرح گھر کا خرچ چلتا ہے اور اکثریت ایسے ہی بنکروں کی ہے اور ان بنکروں پر ہمیشہ بحران کا بادل منڈلاتا رہتا ہے موجودہ وقت میں بجلی بل کا بحران چھایا ہوا ہے-
دسمبر 2006 سے اترپردیش کے بنکروں کو ایک مخصوص سہولت فراہم کرائی گئی تھی ماہانہ بجلی بلوں کی ادائیگی فکس ریٹ پر پاس بک کے ذریعے ہوتی تھی لیکن دسمبر 2019 میں پاس بک سہولت کو اترپردیش کی حکومت نے ختم کردیا جسے لے کر بنکروں نے احتجاج و مظاہرہ کیا اور پاور لوم کی بندی بھی ہوئی لیکن حکومت نے اس معاملے کو التوا میں رکھا ہے اور بار بار بنکروں کو حکومت یقین و اطمینان دلاتی ہے کہ بہت جلد اس مسلے کو حل کیا جائے گا مگر ڈھائی سال ہوجانے کے بعد بھی حل نہیں کیا گیا،، جس کی وجہ سے بنکروں کی پیشانی پر تشویش کی لکیریں مزید گہری ہوتی جارہی ہیں کیونکہ بنکروں کے ذمہ بقایا (قرض) کا حوالہ بجلی محکمہ کے اعلیٰ حکام و ملازمین دیتے رہتے ہیں اور موبائل پر کال بھی آتی رہتی ہے بظاہر 2006 کے حکمنامہ کے مطابق بیچ بیچ میں بجلی بلوں کی ادائیگی تو ہوجاتی ہے مگر یہ پوری طرح اطمینان بخش نہیں ہے اس لئے اترپردیش کی حکومت کو چاہیے کہ وہ فی الفور بنکروں کے پاس بک کا مسلہ حل کرے-
اترپردیش میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً پونے پانچ کروڑ ہے جس میں انصاری برادری ہی ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ ہیں یعنی ایک کروڑ میں مسلمانوں کی ساری برادریاں ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کوئی سیاسی پارٹی ان کو اہمیت نہیں دیتی یہاں تک کہ خود مسلم سیاسی رہنماؤں نے بھی ان کے مسائل پر کبھی توجہ نہیں دی اتنی بڑی تعداد میں ہوتے ہوئے نہ سیاست میں حصہ داری ہے نہ ملازمت میں حصہ داری ہے حالانکہ سماجوادی پارٹی میں آعظم خان، بہت زمانے تک بی ایس پی میں نسیم الدین صدیقی، کانگریس میں سلمان خورشید وغیرہ کا قد اونچا رہا تو وہ انصاری برادری اور بنکروں کے بل بوتے پر ہی رہا مگر افسوس یہ لوگ کبھی بھی بنکروں اور انصاری برادری کی بھلائی و خوشحالی کے لئے کچھ بھی نہیں کیا اور نہ ہی ان کے حق میں حکومت سے کوئی مطالبہ کیا بلکہ یہ لوگ مسلمان ہوتے ہوئے بھی انصاری برادری سے بھید بھاؤ رکھتے ہیں اور اپنی پارٹیوں میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم ہی ان کے لیڈر ہیں ہم جو کہیں گے اسی پر وہ عمل کریں گے اور بہت حد تک ہوتا بھی ایسا ہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بیک ورڈ مسلمانوں کی کوئی قیادت ابھر نہیں پاتی اور انصاری برادری و بنکروں کا کوئی مسلہ حل نہیں ہوپاتا-
لہٰذا اب انصاری برادری کو خود اپنے اندر تبدیلی لانی ہوگی اور جو لوگ الیکشن میں کلمہ گو ہونے کی بنیاد پر اتحاد کا نعرہ لگاتے ہیں اور جب روٹی بیٹی رشتے کی بات ہوتی ہے تو برادری کا نعرہ لگاتے ہیں تو ایسے مسلم سیاسی لیڈروں کا، ایسے علماء کا بائیکاٹ کرنا چاہئے اور مخالفت کرنی چاہئے اور خود اپنا سیاسی پلیٹ فارم بنانا چاہئے اور الیکشن میں حصہ لینا چاہیے، جیت ہار کا سامنا کرنا چاہئے تاکہ تمام سیاسی پارٹیوں تک پیغام جائے کہ مسلمانوں کے اندر بھی برادریاں ہیں اور ان برادریوں سے تال میل کرنا چاہئے-
اترپردیش میں انصاری برادری کی تعداد کے برابر کوئی برادری نہیں ہے اس لئے جس دن اس برادری کے لوگ بیدار ہوگئے تو اترپردیش سے فرقہ پرستی اور تعصب و نفرت کا خاتمہ ہوجائے گا،، اسی لئے سیاسی پارٹیاں بھی اس برادری کو اوپر اٹھانا نہیں چاہتی کہ یہی تو ہمارا ووٹ بینک ہے اور مسلم لیڈران کی سوچ یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد بیدار ہوگئی تو پھر ہمیں کون پوچھے گا،، ان تمام پہلوؤں پر اب انصاری برادری کو غور کرنے کی ضرورت ہے-
چاہے ہجومی تشدد ہو، چاہے عبادت گاہوں کے تحفظ کا مسلہ ہو، چاہے مساجد و مدارس کا معاملہ ہو، چاہے وزارت ملازمت میں حصہ داری کا معاملہ ہو ہر مسلہ سیاست سے ہی حل ہوگا جب اپنی پارٹی ہوگی اور اپنا لیڈر ہوگا تو اسی اعتبار سے قانون بنے گا اور اسی اعتبار سے بھلا بھی ہوگا تب جاکر مسلم تنظیموں کے ذمہ داران کے پیروں تلے زمین کھسکے گی آج تو وہ لوگ مسلمانوں کے نام پر بڑی بڑی تنظیمیں بناکر مرکزی عہدوں پر قابض ہیں اور حکومت کے ساتھ چاپلوسی کرتے ہیں اور اندھا بانٹے شیرینی گھر گھرانے والے کھائیں کا کردار ادا کرتے ہیں ان سب کی انکھوں سے پردہ ہٹے گا تب انہیں بھی اپنی غلطی کا احساس ہوگا اور مکر و فریب کی دھجیاں اڑیں گی لہذا اس پر جلد از جلد غور کرنے کی اور سیاسی پارٹی تشکیل دینے کی ضرورت ہے یاد رہے کہ یہ سارا کام مذہب کے نام پر نہیں بلکہ سماج کے نام پر ہونا چاہئے-
یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بنکروں کے اندر عبد القیوم انصاری، نذیر الحسن انصاری، اشفاق حسین انصاری، امین انصاری اور خصال انصاری جیسے مخلص اور ایماندار رہنما بھی نہیں ہیں،، خود ساختہ بنکر لیڈر تو بہت ہیں مگر ان کے سینے میں سماج کا درد کم اور پارٹی کا درد زیادہ ہوتا ہے بلکہ آج تو بنکروں کا کوئی لیڈر ریاستی پیمانے سے نیچے کا ہے ہی نہیں جسے دیکھو وہ اترپردیش کا بنکر نیتا بنتا ہے اور لکھتا ہے بھلے ہی اسے اپنے پڑوس کی جانکاری ہو کہ نہ ہو ، اپنے گاؤں قصبے کے علاوہ بغل والے قصبے کے لوگ جانتے ہوں کہ نہ جانتے ہوں لیکن بنیں گے وہ قومی و صوبائی صدر،، یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بنکروں کی کوئی بھی تنظیم فعال نہیں ہے سب فیل ہے اور عام بنکر بھی اب بنکر تنظیموں کے نام سے اوب چکا ہے اور سیاسی پارٹیوں کے نزدیک بھی آج کی ناکام و ناکارہ بنکر تنظیموں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس لئے اب انصاری اور بنکروں کو تنظیم نہیں بلکہ ایک مضبوط پارٹی بنانا چاہئیے اور ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ کی آبادی والی انصاری برادری کو اترپردیش میں کھل کر متحد ہونا چاہئے تاکہ ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم کا وجود عمل میں آسکے اور سماجی انصاف قائم ہوسکے اسی میں بھلائی ہے۔
الرضا نیٹ ورک کو دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جوائن کریں:
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ (۲)جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کو ٹویٹر پر فالو کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مزید پڑھیں: