عہد حاضر اور القابات : ایک تنقیدی جائزہ

عہد حاضر اور القابات : ایک تنقیدی جائزہ

آج کل معاشرہ میں مذہبی القاب کے استعمال میں بڑی بے اعتدالیاں دیکھی جارہی ہیں، چاہے ان القاب کی صلاحیت آدمی میں ہو یا نہ ہو ۔نام کے آگے القاب جڑدئیے جاتے ہیں اور بعض مرتبہ القاب سے محض ریاکاری کا جذبہ بھی ظاہر ہونے لگتا ہے مثلاً کسی کے لیے شیخ الحدیث، کسی کے لیے شیخ الفقہ، کسی کے لیے شیخ الاسلام اور کسی کے لیے مفتی اعظم جیسے القابات سے نواز دیا جاتا ہے۔

سؤال یہ ہے کہ اس کی شرعی حدود کیا ہے ؟ کیوں کہ کسی کو مختلف ألقابات دینا یہ آپ کی طرف سے لوگوں کےلیے گواہی ہے اور قیامت کے دن آپ نے ہر دیے گئے لقب کے متعلق جواب دینا ہوگا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ستکتب شهادتهم ويسئلون‘ ترجمہ : ہم أنکی گواہی کو لکھتے ہیں أور (قیامت کے دن) أن سے (أس گواہی کے متعلق) پوچھا جائے گا (سورہ الزخرف : 19)

نیز حقیقت کے خلاف ألقابات دینا غیر شرعی ہے، ارشاد فرمایا: وكل شيء عنده بمقدار ترجمہ : أسی (اللہ تعالیٰ) کے ہاں ہر شئے کی ایک مقدار ہے (سورہ الرعد: 8)

اسی طرح سورہ نجم آیت نمبر۳۲ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا تزکیہ (خودکو پاک قراردینے اور اپنی خوبیاں بیان) کرنے کی ممانعت فرمائی ہے اور ایک مقام پر تزکیہ کو یہودیوں کا طرزِ عمل قراردیا گیا ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی کے سامنے ایک لڑکی کا نام برّہ ذکرکیا گیا تو انہوں نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے آپ کو پاکیزہ مت قراردو ؛ بلکہ لڑکی کا نام زینب رکھو ، اسی طرح اپنے آپ کو علمی کمالات سے آراستہ قراردینا خود ہی ”علامة الدھر “،”فھامة العصر “کے القاب سے خوش ہونا ناپسندیدہ عمل ہے۔

آج کا حال تو یہ ہے کہ اس (ناپسندیدہ عمل) خود سے اس کا اظہار تو‘ نہیں کرتا لیکن جب اشتہار چھپ جاتا ہے اور اشتہار میں القاب سے نوازا جاتا ہے اسے دیکھ کر بھی نکیر (تردید) نہیں کی جاتی اور بعض افراد تو اپنے متوسلین کو اس طرح کے القابات استعمال کرنے کی ترغیب بھی دیتے ہیں کہ فلاں فلاں القاب لگاؤ اور بعض دفعہ القاب کے بغیر پکارے جانے پر بے التفاتی کا مظاہرہ ہوتا ہے، داعی سے خفگی وناراضگی کا اظہارکیا جاتاہے کہ اُن کا لقب کیوں نہیں لگایا ؟ !!

اس حوالے سے مشفق استاذ قمرالعلماء حضرتِ علامہ قمر عالم مصباحی الاشرفی (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی) اطال اللہ عمرہ‘ دوران درس (غالباً تفسیر مدارک پڑھا رہے تھے) اُس دوران حضرت نے ایک بات فرمائی جو نہایت قابلِ ذکر ہے فرماتے ہیں: ”آج کل تو القابات کے لیے اسٹیج کے پیچھے‘ پیسہ دیا جاتا ہے اور نقیب حضرات بے تکلف تعریفوں کی پھول باندھ دیتے ہیں یہ سب غیر شرعی اور منع ہے“

اور امام ابوعبداللہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اسماء اللہ الحسنیٰ کی شرح میں لکھا ہے کہ قرآن وحدیث سے اپنا تزکیہ کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے ، ہمارے علماء نے فرمایا کہ مصر کے علاقہ میں اوردیگر بلاد ِعرب و عجم میں جو رواج ہوگیا ہے کہ اپنے لیے ایسی صفات استعمال کی جاتی ہے جو تزکیہ پر دلالت کرتی ہیں وہ بھی اسی ممانعت میں داخل ہیں،نیز حجۃ الاسلام امام محمد الغزالی رحمۃ اللہ الباری (متوفی ۵۰۵ ھ) نے کسی کی تعریف میں چھ نقصانات کو شمار کیا ہے ، چار نقصانات تعریف کرنے والے میں اور دو ممدوح میں۔۔، ”احیاء علوم الدین ۲/۳۵۲“ میں ہے : (۱) اگرتعریف میں مبالغہ آمیزی کیا ہے تو یہ مبالغہ کذب بیانی پرختم ہوگا (۲) ریاکاری :اس تعریف کے ذریعہ وہ ممدوح سے محبت کا اظہار کررہا ہے اور کبھی دل میں اس کی محبت نہیں ہوتی؛ بلکہ یہ تمام دکھلاوے کے لیے ہوتا ہے۔

(۳) ایسی چیزیں بیان کرے جو ممدوح میں نہیں ، نیز اس کی اطلاع کی بھی کوئی سبیل نہیں (۴) کبھی ممدوح اس تعریف سے خوش ہو جاتا جب کہ وہ ظالم یا فاسق ہوتا ہے اوریہ درست نہیں ؛ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جب فاسق کی تعریف کی جائے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے (۵) اس تعریف سے ممدوح میں عجب وکبر پیدا ہوگا اوریہ دونوں مہلکات میں سے ہیں (۶) تعریف پر ممدوح خوش ہوجائے گویا اس تعریف سے خود بھی راضی ہے ، اس سے اپنے آپ کوکامل سمجھے گا جو خود کو کامل سمجھے وہ عمل میں کوتاہ ہوگا۔

جیسا کہ آج مبالغہ آمیزی سے واقعتاً اس قسم کے نقصانات رونما ہو رہے ہیں اگر کسی مقرر کو کسی موقعہ پر بڑے القاب سے نوازا گیا تو وہ ان کے دھوکے میں مخالفین پر سب و شتم کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں ، اور پھولے نہ سما کر اوروں کو بھی ان القاب کے استعمال کی ترغیب دیتے ہیں جب کہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ وہ چند رٹے رٹائے جملوں کے سوا شریعت سے بے بہرہ اور دین کی بنیادی معلومات سے نابلد ہیں ۔

تنبیہ: آج ضرورت ہے ۔ عوام میں بے محل القاب کے نقصانات بیان کیے جائیں، عوام خود کذب بیانی وغیرہ کے خوف سے اس سے پرہیز کرنے لگیں گے نیز مدارسِ دینیہ میں ابتداء ہی سے ایسی تربیت کی جائے کہ طلبہ اپنے لیے القاب کے بجائے نام ہی زیادہ پسند کرنے لگیں ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح طرزِ عمل اپنانے کی توفیق عطا فرمائے بالخصوص بے جا القابات (جو حقیقتاً ریاکاری ہے) سے ہمیشہ بچائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
(بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰحضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانیک ٹولہ)
ضلع کٹیہار بہار، الھند : متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی،بستی۔ یوپی


الرضا نیٹ ورک کو  دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جوائن کریں:
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ  (۲)جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کو ٹویٹر پر فالو کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔

مزید پڑھیں:

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

نفرت

نفرت کا بھنڈارا

عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان محسوس ہوئی اس لیے اس کی نفرت باہر نکل آئی۔عورت بھی اعصاب کی مضبوط نکلی بحث بھی کی، کھانا بھی چھوڑ دیا لیکن نعرہ نہیں لگایا۔اس سے ہمیں بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے شاید وہ خاتون مسلمان ہی ہوگی۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔