بلقیس بانو : اکثریتی سماج کے ظلم اور حیوانیت کی جیتی جاگتی مثال !!

بلقیس بانو : اکثریتی سماج کے ظلم اور حیوانیت کی جیتی جاگتی مثال !!

غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی


یوں تو آزاد بھارت کی پوری تاریخ ہی مسلمانوں کے خون سے رنگین ہے لیکن اس تاریخ میں کچھ کردار ایسے بھی ہیں جو اکثریتی سماج کے ظلم اور حیوانیت کی ایسی مثال بن گئے ہیں جنہیں دیکھ/پڑھ کر شدت پسندوں کی مسلم دشمنی اور نفرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ایسے ہی کرداروں میں ایک تاریخی کردار محترمہ بلقیس بانو کا بھی ہے، جو دور حاضر میں اکثریتی سماج کی حیوانیت اور درندگی کی سب سے بڑی مثال ہیں۔

___بلقیس کی داستان غم

تین مارچ 2002 کی تاریخ بلقیس کی زندگی میں ایسی دردناک یادیں لیکر آئی جس سے بلقیس بانو پیچھا چھڑا سکتی ہیں اور نہ ہی اس داستان کو سننے یا پڑھنے والا کوئی حساس انسان!

27 فروری 2002 کو گودھرا حادثہ کے بعد گجرات میں مسلم کُش فساد شروع ہوگیا۔داہود کے رَندِھک پور گاؤں میں مقیم بلقیس اور ان کے اہل خانہ اس وقت سہم گئے جب فساد کی لپٹیں ان کے گاؤں تک پہنچنے لگیں۔گھر میں چند گھنٹے پہلے ہی بلقیس کی نند شمیم جہاں نے ایک بچی کو جنم دیا تھا۔ایک طرف نئی زندگی کی خوشی تھی تو دوسری جانب موت کے سائے ان کی طرف بڑھ رہے تھے۔وقت کم تھا اور زمین تنگ، عجلت میں یہی فیصلہ ہوا کہ گجرات چھوڑ دیا جائے۔ابھی یہاں سے نکل کر "سِنگھ واڑا” نامی گاؤں تک ہی پہنچے تھے کہ پیچھا کرتے ہوئے 25/30 وحشی درندوں نے انہیں گھیر لیا۔اس قافلے میں کل 15 افراد تھے، 9 مرد اور چار عورتیں، بلقیس کی تین سالہ بیٹی صالحہ اور شمیم جہاں کی ایک دن کی نوزائدہ بچی بھی اس قافلے کا حصہ تھی۔مسلم دشمنی میں اندھے ہو چکے اس وحشی ٹولے نے بلقیس کی آنکھوں کے سامنے تین سالہ صالحہ اور یک روزہ نومولود بچی کو نہایت بے دردی کے ساتھ پتھر پر پٹک پٹک کر مار ڈالا۔پھر اپنی درندگی کا ثبوت دیتے ہوئے چاروں خواتین کے دامن عصمت کو تار تار کردیا۔ان بھیڑیوں کی درندگی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے بلقیس کی بوڑھی ماں تک کو بھی اپنی حیوانیت کا نشانہ بنایا۔پھر ان درندوں نے پانچ ماہ کی حاملہ بلقیس کے ساتھ حیوانیت اور درندگی کی ساری حدیں پار کردیں۔گھر کے چھ لوگ قتل ہوچکے تھے اور بوڑھی ماں کی آنکھوں کے سامنے یہ درندے حیوانیت کا ننگا ناچ کھیلتے رہے۔گھر کے چھ لوگوں اور تین سال کی پھول جیسی بیٹی کی لاشیں سامنے پڑی تھیں۔ایک دن کی ننہی جان تک ان کے ظلم کا نشانہ بن کر مردہ ہوچکی تھی۔پانچ ماہ کا بچہ پیٹ میں تھا اور اس پر یہ درندگی!
بلقیس تاب نہ لا کر بے ہوش ہوگئیں۔مگر ان درندوں کی درندگی کم نہیں ہوئی اور حالت بے ہوشی میں بھی ان کی حیوانیت جاری رہی۔اخیر میں بلقیس کو مرا ہوا سمجھ کر یہ لوگ بھاگ گئے۔کئی گھنٹوں کے بعد ہوش آیا تو ہر طرف خون ہی خون تھا۔جسم پر ایک کپڑا تک باقی نہیں تھا۔بلقیس نے ایک نگاہ بھر کر اپنوں کی لاشوں کو دیکھا اور برہنہ بدن ہی وہاں سے نکلنا پڑا۔آگے جاکر ایک خاتون سے تن ڈھانکنے کو کپڑے لئے اور کسی صورت سے ایک ریلیف کیمپ میں پناہ حاصل کی۔

___حکومتی ناانصافیوں کا دور

بلقیس ایک قیامت خیز دور سے گزری تھیں۔آنکھوں کے سامنے اپنوں کو قتل ہوتے دیکھا مگر اس خاتون کی ہمت کی داد دینا ہوگی کہ اس نے ظلم کے سامنے سر نہیں جھکایا بلکہ ظالموں کے خلاف سینہ سپر ہوتے ہوئے مقدمہ درج کرایا۔ان کے شوہر یعقوب مضبوط سائے کی طرح بلقیس کے ساتھ کھڑے رہے۔حالانکہ ابتدائے مقدمہ ہی سے حکومتی نا انصافیوں کا دور بھی شروع ہوگیا مگر بلقیس بانو نے چٹان بن کر ظالموں کا مقابلہ کیا۔
🔸 بلقیس نے لِمکھیڑا(Limkheda) تھانے میں رپورٹ درج کرائی لیکن کانسٹبل سوما بھائی گوری نے رپورٹ لکھتے ہوئے اصل حقائق درج ہی نہیں کئے جس کی بنیاد پر پولیس نے یہ مقدمہ تفتیش کے دوران ہی خارج کردیا۔
🔹پولیس سے مایوس ہوکر بلقیس نے حقوق انسانی کمیشن(Human Rights Commission) میں شکایت درج کرائی۔اور اسی کی وساطت سے سپریم کورٹ تک مقدمہ پہنچا۔
🔸سپریم کورٹ نے پولیس کی کلوزر رپورٹ خارج کرتے ہوئے کیس سی بی آئی کے سپرد کر دیا۔
🔹سی بی آئی کی تحقیق وتفتیش کے نتیجے میں 18 لوگ خاطی قرار پائے جن میں پانچ پولیس والے اور دو ڈاکٹر بھی تھے۔یہ ساتوں لوگ مجرموں کو بچانے کے لیے حقائق چھپانے کی سازش میں شریک تھے۔اس سے مجرموں کے رسوخ اور غنڈہ گردی کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور حکومت گجرات کی بدنیتی کا بھی!
🔸سی بی آئی میں کیس پہنچنے کے بعد مجرمین نے بلقیس اور اہل خانہ کو دھمکیاں دینا شروع کردیں جس کی بنیاد پر بلقیس کا ایک جگہ رہنا دوبھر ہوگیا۔ان مجرمین کے خوف سے بلقیس کو دو سال میں 20 مرتبہ گھر بدلنا پڑا۔
🔹مجرمین کے سیاسی رسوخ کی بنا پر گجرات پولیس مسلسل کیس میں رکاوٹیں پیدا کر رہی تھی اس لیے بلقیس کی اپیل پر کیس کو گجرات سے ممبئی(مہاراشٹر) میں منتقل کیا گیا۔
🔸کیس کے ممبئی منتقل ہونے ہونے کے بعد سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے 21 جنوری 2008 کو گیارہ مجرمین کو عمر قید کی سزا سنائی۔

جب ان وحشی درندوں کو عمر قید کی سزا ہوئی تو بلقیس ہی نہیں ملک کی ہر بیٹی نے راحت وسکون کا سانس لیا لیکن شاید بلقیس کی زندگی میں ابھی کچھ اور آزمائشیں باقی ہیں اس لیے گجرات حکومت "معافی اسکیم” کا سہارا لیکر ان گیارہ درندوں کو وقت سے پہلے ہی آزاد کرکے اپنی متعصبانہ ذہنیت کا ثبوت دیا ہے۔

___معافی اسکیم اور درندوں کا استقبال

صوبائی اور مرکزی حکومتیں نسبتاً ہلکے جرائم کے تحت جیلوں میں قید معمر، بیمار اور معذور قیدیوں کو ان کے اچھے رویے کی بنیاد پر قبل از وقت رہا کردیتی ہیں اسی اسکیم کو معافی اسکیم(Remation policy) کہا جاتا ہے۔اس بار ملک کے 75 ویں یوم آزادی کی مناسبت سے 15 اگست اور 26 جنوری کو خصوصی طور پر ایسے قیدیوں کو رہا کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے، بس اسی اسکیم کا سہارا لیکر گجرات حکومت نے ان درندوں کو خاص 15 اگست کو رہا کرکے اپنی متعصبانہ سوچ اور گھٹیا ذہنیت کا ثبوت دیا ہے۔
ان درندوں کی رہائی جس قدر تکلیف دہ ہے اس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ وہ رویہ ہے جو ان کی رہائی کے وقت دیکھنے میں آیا۔سماج کے لیے ناسور جیسے درندوں کا پھول مالائیں ڈال کر، ڈھول بجا کر اور مٹھائیاں کھلا کر استقبال کیا گیا۔جب یہ درندے اپنے گاؤں سِنگھ واڑا پہنچے تو پورے گاؤں میں جشن کا سماں تھا مانو زانی اور قاتل نہیں کوئی محافظ وطن سرحد سے جنگ جیت کر لوٹا ہو۔
کیا اس گاؤں میں ایک بھی ایسا غیرت مند مرد نہیں تھا جو ان زانیوں کے خلاف آواز اٹھا سکتا؟
کیا اس بستی میں کوئی ایسی باحیا عورت نہیں تھی جو عورتوں سے درندگی کرنے والے ان درندوں کے منہ پر تھوک سکتی؟

لیکن یہ تب ہوتا جب اس معاشرے میں کوئی غیرت مند ہوتا۔یہاں تو حال یہ تھا کہ گودھرا سے بی جے پی کا ممبر اسمبلی سی کے راؤلجی کہتا ہے:
"زانیوں میں کچھ لوگ برہمن اور بڑے سَنسکَارِی [مہذب] ہیں اس لیے ہم نے انہیں قبل از وقت رہا کر دیا۔”
(آج تک نیوز پورٹل 19 اگست 2022)

افسوس صد افسوس!
گجرات حکومت سے لیکر زانیوں کے گاؤں تک کسی کے چہرے پر ان کے گندے کارناموں کے لیے رتّی برابر شرمندگی نہیں ہے۔ہر چہرہ مسرور ہے، مردوں نے ڈھول بجائے تو عورتوں نے تِلک لگا کر استقبال کیا اور ممبر اسمبلی ایک دن کی بچی تک کو قتل کردینے والے وحشی درندوں کو سنسکاری بتا رہا ہے۔کیا یہ مردہ ضمیر ممبر اسمبلی اپنی ماں اور بیوی کے ساتھ زنا کرنے والوں کو سَنسکَارِی مان سکتا ہے؟
جس بے ضمیری اور بے حیائی کا مظاہرہ اس ممبر اسمبلی اور گاؤں کے لوگوں نے کیا اس سے زیادہ بے حیائی مین اسٹریم میڈیا کی خواتین اینکروں اور بی جے پی کی خواتین لیڈروں نے دکھائی ہے۔کل تک خواتین کے نام پر اودھم مچانے والی یہ بے حس عورتیں بلقیس بانو کے معاملے پر مانو گونگی بہری اور اندھی ہوگئی ہیں۔اس بے حسی کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ یہ لوگ مسلم دشمنی میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ زانیوں اور قاتلوں کی آرتی اتارتے دیکھ کسی کو غیرت آئی اور نہ ہی کسی کو عورت کی عزت وعفت کا خیال آیا۔جب کہ متاثرہ غیر مسلمہ ہو تو یہی عورتیں اتنے موٹے موٹے آنسو بہا کر دکھاتی ہیں مانو ان کا کلیجہ پھٹا جارہا ہو۔

____ہماری بے حسی

جیسے ہی بلقیس کے گنہگار رہا ہوئے تو ملک کے انصاف پسندوں نے بیک زبان اس کے خلاف آواز بلند کی۔اس فیصلے کے خلاف کئی امن پسند برادران وطن نے بھی بلقیس کے حق میں آواز اٹھائی۔مشہور سماجی کارکن سبھاشنی علی نے سپریم کورٹ میں گجرات حکومت کے فیصلے کے خلاف عرضی لگائی ہے۔عرضی گزاران میں معروف وکیل کپل سِبّل، ارپنا بھیٹ اور ٹی ایم سی کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا بھی شامل ہیں۔

___اس محاذ پر مذہبی طبقے کی لاعلمی/بے توجہی/بے اعتنائی اور غفلت حد درجہ افسوس کن ہے۔گذشتہ کچھ وقتوں سے ہماری مذہبی قیادت کی بے بصیرتی اور اپنی دنیا میں مست رہنے کی پالیسی تنقیدوں کی زد میں ہے لیکن افسوس اس کے بعد بھی کہیں سے کوئی امید افزا خبر نہیں آتی۔بلقیس بانو کا معاملہ بھی اس کی تازہ مثال ہے۔ایک طرف دین بیزار سماجی رہنما ایسے مواقع پر آگے آتے ہیں جس سے اُنہیں مذہبی جماعتوں پر تنقید کا موقع ہاتھ آتا ہے تو دوسری جانب غیر مسلم وکلا آگے آکر مسلم وکلا کو آئینہ دکھاتے ہیں جو ایسے ملی امور پر بھی اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کوئی ملی تنظیم آئے جس سے تگڑی فیس لیکر کورٹ جائیں اور مفت کے ہمدرد قوم کہلائیں۔
اچھی طرح یاد رکھیں!
قوم کی یاد داشت خراب ہے اور نہ ہی قوم اندھی ہے۔جب تک لحاظ کر رہی ہے غنیمت ہے جس دن صبر کا پیمانہ چھلکا تو قوم پر سواری گانٹھنے والے خود ساختہ ہمدردان قوم اور قائدین سر عام رسوا کئے جائیں گے اور کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔


الرضا نیٹ ورک کو  دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جوائن کریں:
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ  (۲)جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کو ٹویٹر پر فالو کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔

مزید پڑھیں:

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

نفرت

نفرت کا بھنڈارا

عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان محسوس ہوئی اس لیے اس کی نفرت باہر نکل آئی۔عورت بھی اعصاب کی مضبوط نکلی بحث بھی کی، کھانا بھی چھوڑ دیا لیکن نعرہ نہیں لگایا۔اس سے ہمیں بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے شاید وہ خاتون مسلمان ہی ہوگی۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔