واقعہ کربلا اور آج کے مقررین!!
تحریر: جاوید اختر بھارتی
یوں تو جب سے دنیا کا وجود ہوا ہے تب سے سورج صبح میں نمودار ہوتا ہے اور شام کو ڈوب جاتا ہے، رات بھی ہوتی ہے اور دن بھی ہوتا ہے،، جب سے دنیا میں انسان کا ظہور ہوا ہے تب سے خوشی اور غم کا سلسلہ بھی جاری ہے ہر قوم میں کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ آیا جس نے حق و باطل کا فرق بتایا اللہ نے دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا مقصد صرف یہی تھا کہ لوگ ہدایت یافتہ رہیں اور اللہ کی بندگی کریں ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر افضل البشر محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک سب نبیوں نے ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی بعض قوموں نے اپنے نبیوں کی باتوں کو ٹھکرایا، بعض قوموں نے اپنے نبیوں کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان کی دعوت سے منہ موڑا اور ان کی شریعت میں اپنی مرضی کے مطابق مداخلت کی، اس میں خلط ملط کیا، ان کی کتابوں کو تبدیل کردیا پھر ان قوموں کے اندر اس قدر بگاڑ پیدا ہوا کہ بعض قوموں پر عذاب بھی آیا پتھروں کی بارش بھی ہوئی، طوفان و سیلاب بھی آیا جبکہ ان کی زندگی میں بھی خوشی اور غم کے مواقع آتے رہے لیکن وہ محاسبہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھے، اللہ اور اللہ کے نبیوں کی نافرمانیاں کرتے تھے اور اللہ کے نبیوں کا مذاق بھی اڑایا کرتے تھے،، سید عرب و عجم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد سارے انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتیں منسوخ کردی گئیں اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت و سیرت پر عمل کرکے ہی راہ نجات حاصل کی جاسکتی ہے اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، اسوۂ رسول بھی مکمل ضابطہ حیات ہے مگر افسوس کہ امت محمدیہ بھی اختلافات کا شکار ہو گئی، روایات میں کھو گئی،، اکثریت میں علماء کرام بھی اسلام کے فروغ کے بجائے مکتب فکر کے فروغ میں کردار ادا کرنے لگے، مقررین بھی سیرت النبی بیان کرنے کا ریٹ مقرر کرنے لگے، شعراء بھی نعت نبی سنانے کے لئے چالیس چالیس ہزار روپے کا مطالبہ کرنے لگے،، حال میں محرم الحرام کا مہینہ چل رہاہے واقعہ کربلا کے موضوع پر خوب مجالس ہورہی ہیں، تقاریر ہورہی ہیں، نوحہ خوانی ہو رہی ہے، ماتم
بھی ہورہاہے اور سوشل میڈیا پر خوب بحث و مباحثہ بھی ہو رہا ہے،، فرمان خداوندی ہے کہ جو اللہ کی راہ میں قتل کردیا جائے اسے مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں مگر آگے اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ فرماکر اختلافات کی گنجائش ہی ختم کردی ہے کہ ان کی زندگی ایسی ہے کہ تمہیں اس کا شعور نہیں ہے،، لیکن اب زبردستی اپنا اپنا شعور منوانے کی کوشش کی جارہی ہے سانحہ کربلا یقیناً واقع ہوا ہے اور بڑا ہی دردناک و افسوسنا ہے لیکن آج ہم جس طرح کا راستہ اور طریقہ اختیار کررہے ہیں اس سے متعلق ہمیں اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر سوچنا چاہئے کہ ہم حضرت امام عالی مقام کا غم منارہے ہیں، عقیدت و احترام و محبت کا اظہار کررہے ہیں یا سیر و تفریح کا ذریعہ بنارہے ہیں یا واقعہ کربلا کو آلہ کار بناکر گمراہی پھیلا رہے ہیں؟
« ہم نے کیا دیکھا»
محرم الحرام کے مہینے میں سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد میں مجالس و عزاداری دیکھا، لنگر و سبیل کا منظر دیکھا تعزیوں کا اور علم کا جلوس دیکھا مگر ان ساری تقریبات میں ایک فرق بھی دیکھا یعنی شیعہ حضرات کو تعزیہ اٹھاتے دیکھا تو ان کی عقیدت نظر آئی اور احترام نظر آیا اور سنی حضرات کو تعزیہ اٹھاتے دیکھا تو عقیدت و احترام کے بجائے کھیل تماشہ نظر آیا تعزیہ کا جلوس نکال کر ہوٹنگ، خرافات، اچھل کود کرتے دیکھا،، تعزیہ داری صحیح ہے یا غلط اس پر بحث نہیں ہے اور یاد رکھیں کسی کی دلآزاری کرنا بھی مقصد نہیں اسی لئے تحریر کا عنوان ہی دیا گیا ہے کہ یہ نہ بھولیں کہ اب تصدیق و تحقیق کا زمانہ ہے اب وہ دور ختم ہوگیا کہ جو چاہے بول کر گذر جاؤ اب تقاریر کی ویڈیو بنتی ہے اور سرچ و ریسرچ کیا جاتا ہے کہ بات درست ہے یا بغیر صفحہ کی ہے، تصدیق شدہ ہے یا صرف سنی سنائی ہے یا رٹی رٹائی ہے محرم کے مہینے میں یا عاشورہ کے موقع پر سبیل کا اہتمام کرنا غلط نہیں مگر ایسی سبیل کا اہتمام کہ ظہر، عصر، مغرب، عشاء کی اذان ہو اور نماز ہو لیکن امام حسین کے نام پر سبیل کے اہتمام میں آپ شربت پیتے رہیں اور پلاتے رہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس کی فضیلت بھی بیان کرتے رہیں مگر نماز کے لئے نہ جائیں یہاں تک کہ نماز کا وقت بھی نکل جائے تو یاد رکھیں ایسی سبیل سے کوئی فائدہ نہیں،، آئیے ایک اور پہلو پر نظر ڈالیں مسلک ایک، مکتب فکر ایک اس کے باوجود بھی ملک کا ایک مشہور علاقہ جہاں بہت بڑی خانقاہ بھی ہے وہاں علماء کرام کو تعزیہ اٹھاتے ہوئے اور گلی کوچوں میں گھماتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ چھتیس گڑھ کے رائپور علاقے میں تعزیہ داری کے خلاف تقریر کرتے ہوئے دیکھا گیا اور سنا گیا یہی نہیں بلکہ تقریر کے اختتام کے بعد اس عالم دین کو عوام نے گھیر لیا اور معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ کان پکڑ کر اٹھا بیٹھی کرنے پر مجبور کیا اور ویڈیو بناکر وائرل بھی کیا،، آئیے ایک اور خرافات دیکھئے آج بھی بہت سے علاقوں میں لوگ تعزیہ کا جلوس نکالتے ہیں تو ڈھول تاشے بجاتے ہیں اور اس خرافات میں بچے جوان بوڑھے سب شامل رہتے ہیں رمضان کا روزہ جن کو گراں گزرتا ہے کمزوری کا بہانہ بناکر روزہ چھوڑتے ہیں اور بیس بیس چالیس چالیس کلو کا باجا اپنے جسم پر باندھ کر، گلے میں ڈال کر دس دس کلومیٹر تک چلتے ہیں جہاں ایک طرف کچھ معزز و مؤقر علماء کرام اس ڈھول تاشے کی مخالفت کرتے اور بجانے والوں کو سمجھاتے اور منع کرتے ہوئے نظر آئے وہیں ایک مولوی کی ہٹ دھرمی بھی دیکھنے کو ملی اس مولوی کا کہنا ہے کہ ہم بطور ماتم ڈھول نہیں بجاتے ہیں بلکہ امام حسین کے فاتح ہونے کی خوشی میں ڈھول تاشے بجاتے ہیں اور یہ ڈھول تاشہ بجانا جائز ہے آگے وہ مولوی یہ بھی کہتا ہے کہ یہ ڈھول یزید نے بجایا تھا کہ نہیں جاکر یزید سے پوچھو نہیں تو جہنم میں ملاقات کرکے پوچھ لینا ،، دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کریں کہ یہ ہٹ دھرمی نہیں تو اور کیا ہے، جہالت اور گمراہی پھیلانا نہیں تو اور کیا ہے-
آئیے قارئین اب ذرا کچھ ایسے مقررین کا بھی تذکرہ کریں جن کی تقریریں صرف خیالی ہوتی ہیں اور اپنی تقریر میں واقعہ کربلا کے نام پر صرف عوام کو رلانا ان کا مقصد ہوتا ہے اور ان کی تقریروں کے بہت سے حصے بہت سی روایات منگھڑت ہوتی ہے اور خود ایک ہی مسلک اور ایک ہی استاد کی شاگرد مگر روایات میں اختلاف ایک عالم بیان کرتا ہے کہ جب حضرت علی اصغر کی شہادت ہوئی تو امام عالی مقام نے خون کو ہاتھوں میں لے کر آسمان کی طرف اچھالنا چاہا تو آواز آئی کہ قیامت تک پانی نہیں برسے گا تو امام عالی مقام نے زمین پر گرانا چاہا تو آواز آئی کہ قیامت تک ایک دانہ نہیں اگے گا تو امام عالی مقام نے خون کو اپنے چہرے پر مل لیا اور فرمایا کہ قیامت کے دن ایسے ہی رب کی بارگاہ میں حاضر ہوں گا،، دوسرا عالم بیان کرتا ہے کہ حرملہ کے تیر سے جب حضرت علی اصغر کی شہادت ہوئی تو امام عالی مقام نے خون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر آسمان کی طرف اچھال دیا اور کہا کہ اے اللہ دیکھ میں نے چھ ماہ کے اپنے لخت جگر کی قربانی دینے سے پیچھے نہیں ہٹا تو مجھے ثابت قدم رکھنا اور مجھ سے راضی رہنا جبکہ دونوں عالم کا مسلک ایک ہے، مکتب فکر ایک ہے یہی نہیں بلکہ دونوں ایک ہی استاد کے شاگرد بھی ہیں –
آئیے اب دوسری روایت بہت سے علماء و خطباء بیان کرتے ہیں کہ میدان کربلا میں جب یکے بعد دیگرے سب شہید ہوگئے تو آخر میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود میدان کارزار کی طرف چلے تو گھوڑا آگے ہی نہیں بڑھ رہا تھا امام عالی مقام نے کہا کہ ائے غازی کیا تو ڈرگیا جو قدم آگے نہیں بڑھا رہا ہے تو گھوڑے نے پیروں کی طرف اشارہ کیا تو چارسالہ حضرت سکینہ گھوڑے کے پیروں کو چھانے ہوئی تھیں امام عالی مقام نے سکینہ کو ہٹایا اور تسلی دی پھر گھوڑا آگے بڑھا،، دوسرے کچھ علماء بیان کرتے ہیں کہ حضرت سکینہ کی عمر چار سال اور گھوڑے کے پیروں سے لپٹے رہنے کی روایت غلط ہے بلکہ حضرت سکینہ کی عمر چوبیس سال تھی اور وہ شادی شدہ تھیں،، تیسری روایت بیان کی جاتی ہے کہ مردوں میں صرف حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچے تھے جو غازی کربلا ہیں جبکہ سنی علماء ہی یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام زین العابدین بھی شادی شدہ تھے ان کے ایک بیٹے بھی تھے جن کا نام محمد باقر تھا اور صرف امام زین العابدین ہی نہیں بلکہ ایک اور غازی کربلا ہیں جن کا نام حسن مثنیٰ ہے،، چوتھی روایت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مکہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہوئے تو صغریٰ نامی اپنی صاحبزادی کو گھر چھوڑا کیونکہ وہ بیمار تھیں،، یہ بھی روایت بیان کیا جاتا ہے کہ صغریٰ نام کی کوئی بیٹی امام حسین کی تھی ہی نہیں یہ روایت شعراء نے اور کچھ علماء نے گڑھی ہے حقیقت یہ ہے کہ امام عالی مقام کی دو صاحبزادیاں تھیں ایک کا نام فاطمہ بنت حسین دوسری کا نام سکینہ بنت حسین اور یہ دونوں صاحبزادیاں امام حسین کے ساتھ کربلا میں تھیں حضرت سکینہ کی قید میں موت ہونے کی روایت بھی غلط ہے بلکہ وہ واقعہ کربلا کے بعد مدینہ منورہ قافلے کے ہمراہ گئیں اور 117 ہجری میں ان کا انتقال ہوا ہے اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں یہ ہے واقعہ کربلا کی روایات جو اختلافات کی نذر ہے تقریر جمانے والے بغیر حوالہ کے بولتے ہیں اور بعض تو ایسے مقرر ہیں جن کے انداز بیاں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مقصد صرف یہ ہوتاہے کہ زیادہ سے زیادہ دردناک منظر دیکھانا اور سنانا ہے تاکہ تقریر کے اختتام پر عوام تبصرہ کرے کہ مولانا غضب بولے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی تاریخ کا مطالعہ صرف مسلمان ہی کرتے ہیں جبکہ یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے کیونکہ مذہب اسلام کی تاریخ کا مطالعہ ہر مذہب کے لوگ کرتے ہیں اسی لئے معتبر و مستند روایات بیان کرنا چاہئے نہیں تو پھر کہیں کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے مطالعے کی روشنی میں سوال وجواب کرنا شروع کردیا تو ذلیل اور رسوا ہی ہونا پڑے گا-
واقعہ کربلا کو بہت سے علماء حق و باطل کا معاملہ بتاتے ہیں، بعض تو کفر و اسلام کا معاملہ بھی جذباتی رو میں بتاجاتے ہیں کوئی اگر اس معاملے میں مشہور کی ہوئی روایات کو نظر انداز کرتا ہے تو اسے یزیدی کہہ دیا جاتا ہے جبکہ عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس نے یزید کی بیعت بھی کی تھی تو ان کو یزیدی نہیں کہتے آخر کیوں؟ جبکہ جذبات کی رو میں بہتے ہوئے جب واقعہ کربلا کو حق و باطل کے ساتھ اور طرح طرح کی جو باتیں بیان کی جاتی ہیں اس سے تو پیشے ور مقررین خود حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دامن پر چھینٹا کشی کرتے ہیں کل کو ڈی بیٹ میں کوئی سوال کردے تو جواب دینا مشکل ہو جائے گا اس لئے ناپ تول کر بولا کریں اور حوالے کے ساتھ روایات بیان کیا کریں جوش میں آکر یزید کو شرابی، کبابی کے ساتھ ساتھ ایسی باتیں بھی کہا کرتے ہیں کہ اسے تحریر کرنا بھی مناسب نہیں ہے اور عام طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ شریعت کا مذاق اڑاتا تھا، قرآن پاک کی بے حرمتی کرتا تھا،، جب یہ ساری برائی اس کے اندر تھی تو پھر حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن عباس نے کیسے بیعت کرلی کیا وہ لوگ شریعت کی اور قرآن وحدیث کی توہین کرنے والوں کی بیعت کر سکتے تھے؟
محرم الحرام کے مہینے میں مختلف مسلک اور مختلف مکتب فکر کے علماء کرام کی تقریریں سننے کا اتفاق ہوا سب نے اپنے اپنے انداز سے تاریخ کربلا بیان کیا ایک ہی مسلک کے علماء ایسی ایسی روایات بیان کئے ہیں کہ وہ خود ایک دوسرے کے خلاف جاتی ہیں اسی دوران ایک عالم کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ۔ یقیناً کربلا کی سرزمین پر نواسہ رسول حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی ہے اور ساتھ ہی اہلبیت اطہار کے اکیس افراد شہید ہوئے ہیں، حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے نو بیٹوں کی شہادت ہوئی ہے مگر جس انداز سے لوگ بتاتے ہیں کہ دونوں طرف سے جنگ لڑی گئی ہے ایسا نہیں ہے بلکہ عبیداللہ بن زیاد اور شمر ان دونوں کی قیادت میں کوفیوں نے حضرت امام عالی مقام کے ساتھ دھوکا کیا ہے اور اپنے مکر و فریب بھری چال کو چھپانے کے لئے اچانک یکبارگی حملہ کرکے شہید کیا ہے امام عالی مقام نے کسی کو قتل نہیں کیا ہے اور بار بار کہتے بھی تھے کہ میں لڑنے کے لئے نہیں آیا ہوں بلکہ تم نے مجھے خطوط لکھا اور بلایا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ کوفیوں نے ہزاروں کی تعداد میں خط لکھا تھا کہ آپ تشریف لائیں ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اپنے خطوط میں میدان محشر کا واسطہ تک دیا تھا گہرائی کے ساتھ غور کرنے پر یہی ثابت ہوتا ہے کہ جن بلوائیوں نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا، جن بلوائیوں نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا انہیں بلوائیوں نے سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی شہید کرنے کی چال چلی اور شہید کیا ورنہ حضرا ت عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عمر، عبد اللہ بن عباس اور حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہم کا اعتراض تو یہی تھا کہ خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور یہ کیسر و کسریٰ کے طرز پر ولیعہد نامزد کیا جارہاہے حضرت امیر معاویہ اور مذکورہ کبائر صحابہ کرام کے درمیان بس اتنا ہی معاملہ اور اعتراض تھا،، بہر حال جب اتنے سارے خطوط موصول ہوئے تو امام عالی مقام نے حالات کا جائزہ لینے کے لئے پہلے حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا تو کوفیوں نے پہلے ہی دن ہزاروں کی تعداد میں بیعت کی حضرت مسلم بن عقیل نے امام عالی مقام کے نام خط بھیج دیا کہ بھائی آپ تشریف لائیں کوفہ کے لوگ بیعت کررہے ہیں اور آپ کے منتظر ہیں مسلم بن عقیل کا خط ملتے ہی آٹھویں ذی الحجہ کو امام عالی مقام مکہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہوگئے،، تمام لوگوں نے روکا یہاں تک کہ عبداللہ بن عباس نے بھی بہت روکا کہ آپ کوفہ نہ جائیں وہ بے وفا ہیں دھوکے باز ہیں ان لوگوں نے آپ کے والد کو بھی دھوکا دیا ہے مگر امام عالی مقام نہیں مانے آٹھویں ذی الحجہ کو روانہ ہوئے اور نویں ذی الحجہ کو کوفیوں نے حضرت مسلم بن عقیل کو شہید کردیا ادھر امام عالی مقام کا قافلہ راستے میں ہے مسلم بن عقیل نے آخری لمحات میں امام عالی مقام کو واپسی کا خط بھیج دیا تھا مگر جب موصول ہوا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور جب خط موصول ہوا تو واپسی کا ارادہ کیا تو مسلم بن عقیل کے بھائیوں نے کہا کہ نہیں ہم اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لیں گے پھر قافلہ ایسی جگہ پہنچا جہاں سے ایک راستہ کوفہ اور ایک راستہ دمشق کے لئے جاتاہے اور دمشق کے راستے میں ہی کربلا پڑتا ہے اسی مقام پر عمر بن سعد اپنے لشکر کے ساتھ پہنچتا ہے اور اس کو عبیداللہ بن زیاد نے بھیجا تھا جو کوفہ کا گورنر تھا یہیں سے پھر اختلاف ہوتا ہے کچھ علماء کرام کہتے ہیں کہ عمر بن سعد پہلے تو امام عالی مقام کو اچھا مشورہ دیا مگر پھر وہ انعامات کے لالچ میں آکر امام عالی مقام کی طرف تیر چلاکر جنگ کا اعلان کردیا اور کچھ علماء بیان کرتے ہیں کہ عمر بن سعد اور امام عالی مقام کے درمیان بات چیت ہوئی عمر بن سعد نے پوچھا کہ حضرت آپ کیوں تشریف لائے تو امام عالی مقام نے کہا کہ مجھے خطوط لکھ کر بلایا گیا فلاں فلاں نے بار بار خط لکھا ہے امام عالی مقام نے جس جس کا نام لے کر بتایا تو ابن سعد نے کہا کہ دیکھئیے آپ جتنے لوگوں کا نام لے رہے ہیں وہ سب اس لشکر میں موجود ہیں امام عالی مقام نے دیکھا تو یقین ہوگیا کہ کوفیوں نے دھوکا دیا ہے جو لوگ مجھے کوفہ نہ جانے کا مشورہ دے رہے تھے ان کا مشورہ اور ان کا روکنا صحیح تھا،، اب یہاں پر امام عالی مقام نے عمر بن سعد سے کہا کہ مجھے واپس جانے دو، یا سرحدی علاقوں میں جانے دو یا مجھے دمشق جانے دو میں خود یزید سے مل کر معاملہ طے کرلوں گا عمر بن سعد نے دمشق جانے کی شرط مان لی نگرانی کے طور پر عمر بن سعد اپنا خیمہ امام عالی مقام کے خیمے سے دوری پر لگایا ادھر عبیداللہ بن زیاد کے پاس خبر پہنچی کہ عمر بن سعد ان کے ساتھ ہمدردی دکھا رہا ہے دمشق جانے کی اور یزید سے ملاقات کی شرط مان لی ہے ادھر عبیداللہ بن زیاد نے سوچا کہ اگر وہ یزید کے پاس پہنچ گئے تو ہوسکتا ہے معاملہ حل ہو جائے، ادھر ان خطوط لکھنے والوں کو بھی خطرہ نظر آنے لگا کہ کہیں امام عالی مقام ہمارے بھیجے ہوئے خطوط یزید کو دکھا دیں گے تو ہمارا سارا کچا چٹھا کھل جائے گا اور ہمیں خمیازہ بھگتنا پڑے گا ادھر عبیداللہ بن زیاد نے شمر کو بھیجا کہ جاؤ امام عالی مقام کو گرفتار کرکے لاؤ ان سے کہو کہ بیعت یزید کی کرنی ہے مگر یزید کے ہاتھ پر نہیں بلکہ عبیداللہ بن زیاد کے ہاتھ پر کرنی ہے شمر لشکر لے کر پہنچتا ہے امام عالی مقام سے عبیداللہ بن زیاد کی بات کہتا ہے تو امام عالی مقام نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا اتنا کہنا ہی تھا کہ شمر نے اپنے لشکروں کے ساتھ یکبارگی حملہ کردیا اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے جاں نثاروں کو شہید کردیا اور خیموں میں آگ لگادی تا کہ سارے خطوط جل کر راکھ ہو جائیں حملہ کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھے جن کی طرف اشارہ کرکے عمر بن سعد نے کہا تھا آپ کو خطوط لکھنے والے تو دیکھئے اس لشکر میں موجود ہیں عمر بن سعد کو جب معلوم ہوا تب تک ادھر کام تمام ہو چکا تھا،، بعض علماء اپنی تقریر کے دوران یہ موضوع بھی چھیڑتے ہیں کہ جب امام عالی مقام کو یہ یقین ہوگیا کہ کوفیوں نے میرے ساتھ دھوکا کیا ہے تو تین شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ میں جہاں سے آیا ہوں وہیں مجھے واپس جانے دیا جائے تو جب حق و باطل کا معاملہ تھا، شریعت کو پامال کرنے اور پامال ہونے سے بچانے کا معاملہ تھا، قرآن کی بے حرمتی کا معاملہ تھا اور نظام مصطفیٰ سے منہ موڑنے اور ٹھکرانے کا معاملہ تھا تو امام عالی مقام نے اپنا موقف کیوں تبدیل کیا اور واپسی کا ارادہ کیوں کیا،، یہ بہت اہم بات ہے کیونکہ حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جن کو ابو جہل بدبخت نے گھوڑے سے دونوں پیروں کو بندھوا کر دوسمت گھوڑے کو دوڑا دیا حضرت سمیہ کا جسم چرگیا اور ظالم نے ایسے مقام پر نیزہ مارا کہ دل دہل جاتاہے مگر حضرت سمیہ نے موقف نہیں بدلا، حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تپتی ریت پر سلایا گیا چربی پگھل جاتی تھی مگر انہوں نے موقف نہیں بدلا ایک ہی جملہ دہراتے کہ احد احد،، اللہ ایک ہے، حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بلوائیوں نے چالیس دن تک محاصرہ کیا لیکن انہوں نے موقف نہیں بدلا،، پھر بقول آج کل کے مقررین کے جب کفر سر اٹھائے کھڑا تھا، قرآن مقدس پر یزید شراب کی بوتل سجاتا تھا، بہن بیوی میں تفریق نہیں کرتا تھا تو کیسے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے موقف تبدیل کردیا اور واپسی کا ارادہ کیا یا جس کے بارے میں یہ سب کچھ کہا جاتا ہے اسی کے پاس جاکر معاملہ طے کرنے کی خواہش ظاہر کی اور شرط پیش کی ؟ اسٹیج سے واہ واہی لوٹنا بہت آسان ہے اور مکتب فکر کے اختلافات کی بنیاد پر الجھنا و الجھانا بھی بہت آسان ہے لیکن قوم اغیار کبھی ان علماء و خطباء سے سوال کرے گی تو سانسیں ٹنگ جائیں گی اس لئے ادھوری باتیں اور خیالی تقریریں کرنا بند کریں حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام ومرتبہ بہت بہت بلند ہے جن کے منہ میں رسول کائنات کا لعاب دہن گیا ہو،جن کی پیشانی کو رسول اللہ نے بار بار چوما ہو، خطبے کے دوران جن کو بازو میں بیٹھایا ہو پشت پر سوار ہوجائیں تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ طویل کردیا ہو ایسے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر لاکھوں کروڑوں سلام جب امام عالی مقام مکہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہوئے تب بھی ان کا موقف حق پر مبنی تھا لوگوں کے منع کرنے پر نہیں رکے یہ موقف بھی برحق تھا اور جب راستے میں کوفیوں کی مکاری کا پتہ چلا تو واپسی کا موقف بھی برحق تھا کیونکہ کوفیوں نے خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ آپ نہیں آئیں گے تو ہم مجبوراً یزید کی بیعت کریں گے اور میدان حشر میں آپ کا دامن پکڑیں گے اب بتائیے امام عالی مقام کا روانہ ہونا ضروری تھا کہ نہیں،، ادھر جب کوفیوں کی عیاری و مکاری ظاہر ہوگئی تو جو لوگ کوفہ نہ جانے کی اپیل کررہے تھے ان کا اندیشہ سچ ثابت ہوا تو واپسی کا ارادہ صحیح تھا کہ نہیں،، امام عالی مقام کا دونوں موقع برحق تھا وہ نواسہ رسول ہیں، صحابی رسول ہیں نیک نیت تھے،، کوفیوں نے خط لکھا، کوفیوں نے بلایا، کوفیوں نے دھوکا دیا اور کوفیوں نے ہی قتل کیا اور یہی کوفیوں کا اصل مقصد تھا،، سب کچھ ہوجانے کے بعد کربلا کی تاریخ بھی جس نے سب سے پہلے لکھی علماء کرام اس کا نام لوط بن یحییٰ بتاتے ہیں وہ بھی کوفہ کا تھا واقعہ کربلا کے پینتالیس سال بعد اس کی پیدائش ہوئی ہے اسی نے جنگ کا نقشہ کھینچا ہے اور اس کے بعد بھی جتنے لوگوں نے تاریخ کربلا لکھی ہے تو ڈھرا لوط بن یحییٰ کا ہی لیا ہے،، جتنا بھی اس مضمون میں لکھا گیا ہے وہ سب علماء کرام و خطباء عظام کی تقریر کا ہی حصہ ہے ،، اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب موضوع ایک ہے تو پھر اتنا اختلاف کیوں
اور سارا اختلاف منظر عام پر کیوں ہے ؟ ایک عالم بیان کرتا ہے کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میدان کربلا میں تین دن تک بھوکا پیاسا رکھا گیا ، امام عالی مقام کا قافلہ رات میں کربلا سے چل دیتا جب صبح ہوتی تو دیکھتے کہ ہم گھوم پھر کر پھر میدان کربلا میں ہی میں ہی موجود ہیں ، دوسرا عالم بیان کرتا ہے کہ جب امام عالی مقام کا قافلہ چلا تو ایک ایسی جگہ پر گھوڑا رک گیا کہ امام گھوڑے سے اترے اور مٹی اٹھا کر سونگھا اور فرمایاکہ یہی کربلا ہے ، یہیں ہمارے خیمے لگیں گے اور یہیں ہمیں قتل کیا جائے گا ، ایک عالم بیان کرتا ہے کہ دسویں محرم الحرام کو امام عالی مقام کے پاس پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا اور دوسرا عالم بیان کرتا ہے کہ دسویں محرم الحرام کو امام عالی مقام نے غسل کیا عطر لگایا اور پورا میدان کربلا خوشبو سے مہک اٹھا بہت سے علماء کرام بیان کرتے ہیں کہ تین دن تک گفتگو ہوتی رہی دس محرم الحرام کو یکے بعد دیگرے جانثاران حسین میدان میں جاتے رہے اور یزیدی لشکر سے لڑتے ہوۓ شہید ہوتے رہے اور سب سے آخر میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدان جنگ میں گئے اور بے شمار لوگوں کو خاک وخون میں ملا دیا پھر دشمنوں نے چاروں طرف سے یکبارگی حملہ کیا اور امام زخموں سے چور ہوکر زمین پر آگئے تو شمر لعین نے سر کو تن سے جدا کردیا یہ سارے علماء اہلسنت والجماعت کے ہیں جبکہ ایک دوسرے مکتب فکر کے عالم نے بیان کیا کہ امام عالی مقام نے میدان کربلا میں کسی کا خون نہیں بہایا ہے انہوں نے ایک بھی قتل نہیں کیا ہے اور وہ بار بار فرماتے بھی تھے کہ میں جنگ کرنے نہیں آیا ہوں ، میں کسی کا خون بہانے نہیں آیا ہوں بلکہ مجھے تو تم لوگوں نے بلایا ہے یہ دیکھو تمہارے خطوط کے انبار میرے پاس ہیں میں ساتھ لایا ہوں اب یہیں سے کوفہ کے بلوائیوں کو خدشہ ہوگیا کہ کہیں ہمارے خطوط کا راز فاش نہ ہوجائے کہیں یزید ہماری کھال نہ کھینچوادے اور اسی بنا پر اچانک یکبارگی حملہ کرکے سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے رفقاء کو خاک وخون میں تڑپا دیا نواسہ رسول اور اہلیت کو شہید کردیا اور خیموں میں آگ لگادی،، گویا جو لوگ یکے بعد دیگرے میدان میں جانے اور لڑنے و شہید ہونے کا تذکرہ کرتے ہیں وہ درحقیقت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر چھینٹا کشی کررہے ہیں،، پوری تحریر علماء کی تقاریر پر مشتمل ہے ،، اب یہ بتائیے کہ عام مسلمان کدھر جائے ایک طرف تو دوسرے مکتب فکر کے علماء کی تقریروں کو سننے سے منع کیا جاتا ہے ان کے جلسوں میں جانے سے منع کیا جاتا ہے اور دوسری طرف جب خود ایک مسلک کے علماء ایسی ایسی روایات بیان کریں جو ایک دوسرے سے ٹکرائے اور ایک دوسرے کے خلاف جائے تو پھر یہ مجلسوں کی فیس لینے والے اور تقریر کا میٹر چلانے والے بتائیں کہ مسلمان کدھر جائے،، روایات اور اختلافات میں اس قدر ہوگئے کہ مدارس و مساجد کے نام پر اختلاف، خانقاہوں اور مقبروں کی بنیاد پر اختلاف، خود ایک ایک گروہ میں اختلاف حد ہوگئی اپنی اپنی دفلی بجانے کی اپنا اپنا راگ الاپنے کی،، حقیقت یہ ہے کہ ذکر حسین کے ساتھ فکر حسین کا ہونا ضروری ہے،، امام عالی مقام کے فضائل اور مناقب کے ساتھ ان کے مقاصد کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ساٹھ کوفی خود مکہ مکرمہ گئے تھے اور امام عالی مقام کو وہ لوگ مکہ مکرمہ سے کربلا تک ساتھ آئے اور کربلا میں آکر امام عالی مقام کے ساتھ دغا کیا اور ان پر حملہ کرانے اور شہید کرانے میں اہم کردار ادا کیا در حقیقت وہ بظاہر مسلمان تھے مگر ان کی رگوں میں سبائی خون دوڑ رہا تھا ،، یہ پیشے ور مقررین خیالی تقریر کرتے ہیں رافضیوں کا طریقہ اپنا تے ہیں انہیں کی کتابوں کی روایات بیان کرتے ہیں خود تحقیق کے لئے ان کے پاس فرصت ہی نہیں ہے بس پیٹ بھرنے اور جیب بھرنے سے مطلب ہے،، کسی کو مفکر اسلام کہا جاتا ہے تو کسی کو شیخ الاسلام کہا جاتا ہے ، کسی کو مناظر اسلام کہا جاتا ہے تو کسی کو ضیغم اسلام کہا جاتا ہے بڑے القاب سے نوازا جاتاہے پھر بھی ایسی ایسی من گھڑت کہانیاں اور فرضی روایات بیان کرتے ہیں کہ اس سے تو گمراہی کو ہی بڑھاوا ملے گا یہی وجہ ہے کہ سنی نوجوانوں میں تیزی کے ساتھ رافضیت کا چڑھنے لگا ہے ،، کسی نے خانقاہوں کو آلہء کار بنارکھا ہے تو کسی نے پیری مریدی کو آلہء کار بنارکھا ہے ، کسی نے مدارس کو تو کسی نے اسٹیج اور خطابت کو آلہء کار بنارکھا ہے ان ساری چیزوں کو فن اور تجارت بنا کر رکھدیا ہے ،،
راقم السطور کا نظریہ بھی قارئین کی خدمت میں پیش ہے امام عالی مقام کے پاؤں کی جوتیاں سر کا تاج ہے ان پاؤں کی دھول آنکھوں کا سرمہ ہے،، حسین اور یزید کا تقابل کیسا ،، کہاں امام حسین اور کہاں یزید،، پوری دنیا یزید جیسے لوگوں سے بھر جائے پھر بھی وہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیروں کی دھول کے برابر بھی نہیں ہوسکتے اس لئے قتل عمر ، قتل عثمان ، قتل علی اور قتل حسین کے ذمہ داران اور مذکورہ مقدس شخصیات رضی اللہ عنہم اجمعین کی شہادت پر خوشی ظاہر کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو، شہدائے کربلا کے نام پر ڈھول تاشہ بجانے والوں پر بھی اللہ کی لعنت ہو اور اس ڈھول تاشہ کو جائز بتانے والوں پر بھی اللہ کی لعنت ہو اور ان شہداء اسلام کو آلہء کار بناکر جھوٹی روایات اور خیالی بیانات کرنے والوں پر بھی اللہ کی لعنت ہو ،،
جاوید اختر بھارتی ( سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی