ان کے آگے وہ ”حمزہ“ کی جاں بازیاں : انصار احمد مصباحی، اورنگ آباد

ان کے آگے وہ ”حمزہ“ کی جاں بازیاں!

[مختصر سیرت سید الشہداء، حضرت امیر حمزہ بن عبد المطّلب رضی اللہ عنہ: شہادت، 15/شوال، 3 ہجری]


آج ہی کے دن یعنی ١٥/ شوال المکرم، ٣ ہجری، جنگ اُحُد میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ کی شہادت ہوئی تھی۔ (رضی اللہ تعالی عنہ) آپ ﷺ کو حضرت حمزہ کی شہادت سے جتنا صدمہ پہنچا، اتنی تکلیف کبھی کسی حادثے سے نہیں ہوئی۔
حضرت امیر حمزہ نبی کریم ﷺ سے عمر میں دوسال بڑے تھے۔ اعلان نبوت کے دوسرے یا تیسرے سال ایمان لائے؛ پھر سایہ بن کر حضور پیارے نبی ﷺ کے ساتھ رہے اور شمع نبوت پر پروانہ بن کر نثار ہو گئے۔ حضور ﷺ سے آپ کے عشق کا یہ عالم تھا کہ ایک دن شکار سے واپس آئے تو کسی سے سنا کہ ابوجہل نے آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے، آپ شکار کے ساز و سامان کے ساتھ ہی ابوجہل کے پاس حرم داخل ہوئے اور اسے کمان سے اس زور کا مارا کہ اس کا سر پھٹ گیا۔ واضح رہے؛ ابوجہل حضرت حمزہ کا رشتے میں بھائی تھا۔ ؎

پدر، مادر، برادر، مال و جاں ان پر فدا کردیں
نبی ﷺ سے جو ہو بیگانہ اسے دل سے جدا کردیں

خصوصیات: کبار صحابہ کرام میں ہونے کے علاوہ حضرت حمزہ کئی انفرادی خصوصیات کے مالک تھے۔ حضور رحمت عالم ﷺ کے سگے چچا ہونے کے ساتھ ساتھ آپ، حضور ﷺ کے رضاعی بھائی بھی ہیں؛ دونوں ہستیوں نے ثوبیہ کا دودھ پیا تھا۔ خلفاے اربعہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سوا صحابہ میں آپ ہی کے نام کے ساتھ ”امیر“ لکھا جاتا ہے۔ مستدرک کی حدیث میں ہے: ”شید الشہداء حضرت امیر حمزہ ہیں اور وہ شخص ہے، جس نے ظالم اور ستم گر بادشاہ کے سامنے حق بات کہی اور بادشاہ نے اسے قتل کردیا“ (مستدرک: 4878)۔ حضور ﷺ نے سب سے پہلا جھنڈا آپ ہی کے لئے بنوا یا تھا۔ پورے قبیلہ قریش میں آپ کی سخاوت و فیاضی، خوش اخلاقی، آپ کی بہادری، نرم مزاجی اور مہمان نوازی ضرب المثل تھی، بہادری کے قصے تو آج بھی رباں زد ہیں۔ جنگ احد میںجس میں آپ شہید ہوئے 31 مشرکین حضرت حمزہ بن عبد المطلب کی برق رفتار تلوار کے کام آئے۔ (رضی اللہ تعالی عنہ)

فضائل: حضور سید عالم ﷺ نے صحابہ کی شان میں فرمایا ہے: ”لا تمس النار مسلما رآني أو رأى من رآني“ ترجمہ، ”اس مسلمان کو جہنم کی آگ نہیں چھو سکتی، جس نے مجھے (حضور ﷺ کو) یا میرے کسی صحابی کو دیکھا ہو“۔ (ترمذي: 4231) ایک بار حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”گزری رات میں جنت میں داخل ہوا۔ میں نے دیکھا کہ (حضرت) حمزہ جنت میں ایک نورانی درخت پر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں“۔ (مستدرک: 4879)
شہادت کے بعد احد میں، ایک ٹیلے پر آپ کو دفن کیا گیا۔ کفن ایک ایسے کپڑے کا دیا گیا کہ سر کی طرف کرتے تو پیر کھل جاتا، پیر کی طرف کرتے تو سر کھل جاتا تھا۔ آخر کار سر چھپاکر پیر میں اذخر کی پتییاں دی گئیں۔ چالیس سال بعد شہداے احد کی قبریں کھولی گئیں، تو سب کے جسم تر و تازہ تھے۔ قبروں سے کستوری کی خوش بو آرہی تھی۔ حضرت حمزہ کے پیر پر کدال لگ گیا تو اس سے خون بہنے لگا، حضرت عبد اللہ (حضرت جابر کے والد) خون کی جگہ ہاتھ رکھتے تو خون بہنا بند ہو جاتا، آپ ہاتھ ہٹاتے تو وہ دوبارا بہنا شروع ہوجاتا۔ (رضی اللہ عنھم)حضور رحمت عالم ﷺ نے شہداے احد کے بارے میں فرمایا ہے کہ قیامت تک جو بھی انھیں سلام کریں گے، وہ سلام کا جواب دیں گے۔

تحریر: انصار احمد مصباحی، اورنگ آباد
+919860664476

  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

Karbala

واقعہ کربلا اور آج کے مقررین!!

واقعہ کربلا اور آج کے مقررین!! تحریر: جاوید اختر بھارتی یوں تو جب سے دنیا …

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔