جنگ آزادی اور تحریک آزادی !!

جنگ آزادی اور تحریک آزادی !!

مفتی غلام مصطفےٰ نعیمی ہاشمی
مدیر اعلیٰ سوادِ اعظم دہلی

آزادی کی جدوجہد سال دو سال نہیں بل کہ صدی بھر سے زیادہ پر محیط ہے۔اس درمیان مختلف چہرے میدان میں آئے،مختلف محاذ بنے، مقصد سبھی کا ایک تھا،انگریزی راج سے ہندوستان کو آزاد کرانا۔لیکن اس پورے دورانیے میں انگریزوں کے خلاف باضابطہ منظم اور مسلح طریقے سے جو جنگ لڑی گئی وہ صرف انقلاب 1857 ہی کی جنگ تھی۔اس کے بعد سن 1924 میں رام پرساد بسمل، چندر شیکھر آزاد، اشفاق اللہ خان اور بھگت سنگھ جیسے نوجوانوں نے "ہندوستان سوشلسٹ ری پبلک ایسوسیشن” نام کی تنظیم بنائی۔جس نے مسلح کاروائیوں کو اپنا ہتھیار بنایا۔اس کے تحت ان نوجوانوں نے انگریز افسر سانڈرس کوقتل کیا۔کاکوری ٹرین سے انگریزی خزانہ لوٹا اور اسمبلی ہال میں بم پھینکا۔اس کے علاوہ کچھ افراد کی انفرادی لڑائیوں کے سوا باضابطہ کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔ہاں انگریزی ظلم واستبداد کے خلاف مزاحمت چلتی رہی، بعد میں اس مزاحمت نے تحریک کا رخ اختیار کرلیا۔اس طرح جنگ آزادی کی جد و جہد تحریک کی جد و جہد میں تبدیل ہوگئی۔اس تحریک کے اہم چہروں میں بدرالدین طیب جی، گاندھی جی، دادا بھائی نوروجی، بال گنگا دھر تلک،کھدی رام بوس، سبھاش چندر بوس اور جواہر لعل نہرو جیسے لوگ شامل تھے۔ان میں سے کچھ لوگ جمہوری طریقوں سے تو کچھ مسلح جد و جہدکے حامی تھے۔دو چند مرتبہ مسلح اقدامات بھی ہوئے لیکن وہ سبھی ایک یا دو افراد کو نشانے بنانے تک محدود تھے۔باضابطہ پوری برٹش حکومت کے خلاف ایسا اقدام نہیں کیا گیا۔اس طرح پوری تاریخ آزادی کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ حقیقی جنگ آزادی صرف انقلاب 1857 کی تھی بعد میں صرف آزادی کی تحریک چلی۔معروف مؤرخ مولانا یاسین اختر مصباحی لکھتے ہیں:
"1857ء اور 1947ء کی صحیح تاریخ سے بیش تر اہل ہند و پاک ناواقف ہوتے جارہے ہیں۔حتی کہ ان دونوں کے فرق اور ان کے اثرات وغیرہ کا بھی اُنہیں بل کہ اچھے اچھے علما اور دانش وروں کو بھی علم نہیں، یا بہت سرسری اور سطحی علم و مطالعہ ہے۔1857 میں باضابطہ عملی جنگ ہوئی اس لیے اسے جنگ آزادی کہنا زیادہ مناسب ہے بل کہ ضروری ہے۔جب کہ 1947 سے قبل بیان و قرار داد و احتجاج و مظاہرہ کی سیاست ہوئی اس لیے اسے تحریک آزادی کہنا زیادہ مناسب ہے۔”(ممتاز علماے انقلاب 1857 ص 18 مطبع دارالقلم دہلی)

جنگ آزادی

جنگ آزادی ہو یا تحریک آزادی دونوں ہی ہماری تاریخ کا روشن باب ہیں۔لیکن اسے تاریخ کا المیہ ہی کہا جائے گا کہ آزاد بھارت میں جتنی اہمیت اور توجہ 1947 کی تحریک کو دی گئی اور دی جاتی ہے اس کا دسواں حصہ بھی انقلاب 1857 کے حصے میں نہیں آیا۔جب کہ انقلاب 1857 کسی بھی طور پر 1947 کی تحریک سے کم نہیں ہے بل کہ ہر اعتبار سے اس سے بڑھ کر ہی ہے۔یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انگریزوں کے خلاف یہی ایک لڑائی اصل لڑائی اور جنگ تھی جس میں تیر وتلوار اور ہتھیاروں کا استعمال ہوا، باقی انفرادی لڑائیاں تھیں یا جمہوری نظام کے تحت کی گئی کاروائیاں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر جنگ آزادی کے ساتھ یہ سوتیلا سلوک کس لیے جاتا ہے؟
🔹جس طرح انقلاب 1857 کے ضمن میں رانی لکشمی بائی کا نام کتابوں میں لکھا گیا، اسی طرح علامہ فضل حق کا نام کیوں نہیں لکھا گیا؟
🔸 جس طرح نانا راؤ پیشوا کا تذکرہ کیا جاتا ہے ،اسی طرح مولانا وہاج الدین مرادآبادی اور مولانا کفایت علی کافی کاتذکرہ کیوں نہیں جاتا؟
🔹 جس طرح تانتیا ٹوپے کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے اس طرح خان بہادر خان اور مولانا کاظم علی خان بریلوی کو کیوں یاد نہیں کیا جاتا؟

یہ وہ سوالات ہیں جو ہر انصاف پسند شہری کو حکومت ہند سے کرنا چاہیے تاکہ مجاہدین آزادی کو ان کا قرار واقعی حق مل سکے۔
(فقیر کی مرتبہ کتاب سے ماخوذ)

14 اگست 2025 بروز جمعرات

مزید پڑھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


الرضا نیٹ ورک کو  دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جوائن کریں:
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ  (۲)جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کو ٹویٹر پر فالو کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔

جنگ آزادی میں علماء ومدارس کی قربانیاں

Leave a Comment