جیسی کرنی ویسی بھرنی – سبق آموز کہانیاں
جاوید اختر بھارتی
(سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

اکثر ہم نے بزرگوں سے یہ کہاوت سنی ہے کہ "کر بھلا تو ہو بھلا” یا "جیسی کرنی ویسی بھرنی”۔ یعنی انسان جیسا عمل کرتا ہے، ویسا ہی نتیجہ پاتا ہے۔ اگر کوئی بھلائی کرتا ہے تو بھلائی پاتا ہے، اور اگر برائی کرتا ہے تو برائی اس کا مقدر بنتی ہے۔
بھلائی اور برائی کے نتائج
دنیا میں ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ جیسے کسی کے لیے گڑھا کھودنا، ایک دن خود اسی گڑھے میں گرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے بھی یہ اصول لاگو ہوتا ہے۔
سوالات کا مقصد – علم یا آزمائش؟
اگر سوال علم حاصل کرنے کے لیے ہو تو یہ اچھی بات ہے، لیکن اگر آزمائش کے لیے ہو تو سوال کرنے والے کو جواب پہلے سے معلوم ہونا چاہئے، ورنہ امتحان لینا جائز نہیں۔
بھلائی کی دعا دینے والا سائل
اکثر بھکاری صدائیں لگاتے ہیں: "کر بھلا تو ہو بھلا، اللہ تیرا بھلا کرے”۔ مکان مالک سوچ سکتا ہے کہ یہ دعائیں اپنے لیے کیوں نہیں کرتا، لیکن سائل اپنے روزگار کو برقرار رکھنے کے لیے یہ سوچ نظر انداز کرتا ہے۔
بھلائی اور برائی کے دو واقعات
-
ایک نیک عورت بلی پالتی تھی مگر اسے کھانا نہیں دیتی تھی۔ آخر میں اسے تکلیف دہ موت ملی۔
-
ایک بدچلن عورت نے پیاسے کتے کو پانی پلایا، اور اللہ نے اسے آسان موت عطا کی۔
یہ واقعات واضح کرتے ہیں کہ اللہ کے ہاں اعمال کی قدر ہے، نہ کہ صرف ظاہری شکل کی۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد کا فرق
زید اور بکر کا واقعہ بتاتا ہے کہ اللہ حقوق اللہ معاف کر سکتا ہے لیکن حقوق العباد اس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک بندہ خود معاف نہ کرے۔
باپ کا مقام اور دعا کی طاقت
ایک بیٹے نے اپنے باپ کو جیل بھیجنے کی کوشش کی، لیکن پولیس آفیسر نے بیٹے کو نصیحت کی کہ باپ کی دعا ہر پیر فقیر کی دعا سے بڑھ کر ہے۔ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہوتا ہے۔
خلاصہ
یہ سب کہانیاں اور واقعات ایک ہی سبق دیتی ہیں: "جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے”۔ اس لیے ہمیشہ نیکی کا راستہ اختیار کرو، والدین کا ادب کرو، اور دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو تاکہ دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں۔