اپوزیشن پارٹیاں اور مسلمان ووٹ بینک: ہمدردی یا مفاد پرستی؟
مسلمانوں کی سیاسی اہمیت : بھارت کی سیاست میں مسلمان اکثر ووٹ بینک کے طور پر دیکھے جاتے ہیں، مگر کیا اپوزیشن پارٹیاں واقعی ان کے مسائل کی نمائندگی کرتی ہیں؟ اس مضمون میں ہم تجزیہ کریں گے کہ آزادی کے بعد سے آج تک مسلمانوں کے ساتھ سیاسی سطح پر کیا سلوک ہوتا رہا ہے اور ان کی سیاسی شناخت کیسے متاثر ہوئی ہے۔
اپوزیشن پارٹیاں اور مسلمانوں کا سیاسی رشتہ
مسلمانوں کو اقتدار میں شریک کرنے کے بجائے اکثر صرف ایک سماجی کارندہ بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ صرف اصلاحات میں لگے رہیں، مگر اقتدار سے دور رہیں۔ الیکشن کے دنوں میں نعرے بازی، استقبال، جلسوں میں بھیڑ کا انتظام—یہ سب کام مسلمان انجام دیتے ہیں، لیکن فیصلہ سازی سے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔
کانگریس کا تاریخی رویہ اور مسلمانوں کی حیثیت
کانگریس کا رویہ ایک طویل عرصے تک دکھاوے کی ہمدردی پر مبنی رہا۔ مخصوص مسلم چہروں کو آگے لاکر صرف نمائندگی کا دکھاوا کیا جاتا رہا۔ راجیہ سبھا میں ربڑ اسٹمپ بنا کر رکھا گیا، لیکن زمینی سطح پر جب فساد ہوتے تھے، سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہوتا تھا۔
حالیہ سیاست میں مسلمانوں کو نظر انداز کرنا
مہاراشٹر، جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ جیسے اہم ریاستی انتخابات میں مسلمانوں کو ٹکٹ نہ دینا اس بات کی علامت ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں بھی مسلمانوں کی سیاسی حیثیت سے صرف ووٹ تک دلچسپی رکھتی ہیں۔ کرناٹک میں بھی مسلمانوں کو انصاف نہیں ملا۔
الیکشن کمیشن اور NRC کی شروعات
ووٹر لسٹ کی تصدیق کے نام پر جس طرح الیکشن کمیشن نے دستاویزات مانگے، اس سے لگتا ہے کہ NRC کا نفاذ خاموشی سے شروع ہو چکا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں اٹھایا۔
اپوزیشن کی دوغلی پالیسی: مسلمانوں کے ساتھ کھڑے یا مخالف؟
راجیہ سبھا میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود کئی قوانین پاس ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں صرف دکھاوے کی مخالفت کرتی ہیں۔ وقف قانون، ہجومی تشدد، اور NRC جیسے سنگین مسائل پر اکثر خاموشی اختیار کی گئی۔
مسلمانوں کی سیاسی بیداری اور خود مختاری
سابق مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان کا قول یاد رکھنا ہوگا کہ جس سماج میں سیاسی شعور ہوگا، وہی پارٹیوں میں عزت پائے گا۔ صرف چاپلوسی یا ہمدردی پر انحصار کرکے مسلمانوں کو کبھی اپنی سیاسی پہچان حاصل نہیں ہوگی۔
نتیجہ اور مشورہ
بہار سمیت پورے ملک میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صرف بی جے پی کو ہرانے کے بجائے اپنی سیاسی حیثیت مضبوط کریں۔ اگر سترہ فیصد آبادی رکھنے کے باوجود بھی مسلم وزیر اعلیٰ نہ بن سکے تو یہ اپوزیشن کی نیت پر سوال ہے۔
شائع کردہ: الرضا نیٹ ورک
