نتیش کی واپسی بہار کی سیاست کا نیا مرحلہ: عوامی مفاد اور قیادت کی آزمائش

نتیش کی واپسی بہار کی سیاست کا نیا مرحلہ: عوامی مفاد اور قیادت کی آزمائش

بہار میں آج نتیش کمار دسویں مرتبہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لینے جا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ریاست میں ایک نئی حکومتی ترتیب کی بنیاد پڑ رہی ہے۔ این ڈی اے قانون سازیہ پارٹی کی میٹنگ میں انہیں متفقہ طور پر دو بارہ لیڈر منتخب کیا گیا جس کے بعد انہوں نے گورنر سے ملاقات کی، موجودہ عہدہ سے استعفیٰ دیا اور این ڈی اے کی نئی حکومت بنانے کا باضابطہ دعویٰ پیش کیا۔ یہ تمام کارروائیاں آئینی تقاضوں کا حصہ ضرور ہیں مگر ان کے پیچھے گزشتہ چند مہینوں کے سیاسی حالات، اتحادوں کی تبدیلی، اقتدار کے توازن اور حکومتی حکمتِ عملی کی کئی پرتیں چھپی ہوئی ہیں جنہوں نے بہار کی سیاست کو ایک بار پھر مرکز توجہ بنا دیا ہے۔

 موقع پرستی یا تجربہ کاری؟ نتیش کمار کا تسلسل

نتیش کمار کا سیاسی سفر بہار میں ایک غیر معمولی تسلسل رکھتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں وہ متعدد بار سیاسی اتحاد بدل کر اقتدار میں واپس آئے، کبھی این ڈی اے کا ساتھ چھوڑ کر مہاگٹھ بندھن میں گئے اور کبھی مہاگٹھ بندھن سے نکل کر دوبارہ این ڈی اے کا رخ کیا۔ ان کی سیاست پر اکثر موقع پرستی، لچک یا حالات کی مناسبت سے فیصلہ سازی کے تناظر میں تنقید ہوتی رہی ہے لیکن یہ حقیقت بھی بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ آج بھی بہار کے سب سے تجربہ کار، مضبوط اور زیادہ قابل قبول انتظامی چہروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ این ڈی اے کے اندر بھی قیادت کے لیے کوئی دوسرا نام مضبوطی سے ابھر کر سامنے نہیں آیا اور فیصلہ ایک بار پھر انہی کے حق میں ہوا۔

اس تازہ سیاسی تبدیلی نے ریاست میں کئی طرح کے سوالات پیدا کیے ہیں۔ ایک طرف یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ نتیش کمار کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں دوبارہ قیادت سونپی جا رہی ہے تاکہ انتظامی کام میں تسلسل قائم رہے جبکہ دوسری طرف اپوزیشن اس سلسلے کو ایک اور سیاسی یوٹرن، عوامی مینڈیٹ کی توہین اور ذاتی مفاد پر مبنی حکمت عملی قرار دے رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف ہے کہ بار بار اتحادوں کی تبدیلی سے حکومت کے نظام پر شہریوں کا اعتماد کمزور ہوتا ہے اور سیاسی استحکام متاثر ہوتا ہے۔

 عوامی چیلنجز: کیا ترجیحات بدلیں گی؟

ریاست کے عام شہریوں کے سامنے اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ نئی حکومت ان مسائل پر کس حد تک سنجیدہ اور موثر حکمتِ عملی اختیار کرے گی جنہیں گزشتہ برسوں میں مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔

  • معیشت اور بے روزگاری: بہار کی معیشت کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے، ترقیاتی سرگرمیوں کا دائرہ محدود ہے اور بے روزگاری کا گراف بڑھ رہا ہے۔ سرکاری بھرتیوں کے عمل میں تاخیر، امتحانوں کے بار بار ملتوی ہونے اور نوجوانوں میں مایوسی ایک بڑا چیلنج ہے۔

  • امن و قانون: دیہی علاقوں میں جرائم کی شرح میں اضافہ، پولیس تفتیش اور کارروائی میں کمزوری، زمین و جائیداد سے متعلق تنازعات اور سماجی کشیدگی نے انتظامیہ کی کارکردگی پر سنگین سوالات کھڑے کیے ہیں۔

حکومت کی ترجیحات میں اگر ان مسائل کو اولین حیثیت نہیں ملتی تو سیاسی تبدیلیوں کا فائدہ زمینی سطح پر محسوس نہیں ہوگا۔

بہار کی سیاست اور نتیش کمار

 حلف برداری: مستقبل کی آزمائش

نتیش کمار کے دوبارہ حلف لینے کے ساتھ ہی یہ سوال پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ گردش کر رہا ہے کہ کیا یہ حکومت واقعی ریاست کے دیرینہ مسائل پر توجہ دے گی یا پھر ایک مرتبہ پھر سیاسی حکمتِ عملی، اتحادی مجبوریوں اور اقتدار کے توازن کے بیچ حقیقی عوامی مسائل پس منظر میں چلے جائیں گے۔

  • روزگار کی پالیسی: نوجوانوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے حکومت کو روزگار کے معاملے میں کوئی واضح، قابلِ عمل اور نتائج پر مبنی پالیسی سامنے لانی ہوگی۔

  • تعلیمی ڈھانچے کی اصلاح: اسکولوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان، کالجوں میں اساتذہ کی کمی، یونیورسٹیوں میں انتظامی الجھنیں اور معیار کی کمی کو دور کرنا فوری ضرورت ہے۔

بہار کی سیاست کا ایک بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ اکثر فیصلے وقتی سیاسی فائدے کے لیے کیے جاتے ہیں جبکہ عوامی مفاد اور طویل مدتی منصوبہ بندی کو پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نتیش کمار کی دسویں مرتبہ واپسی نے اس بحث کو پھر تازہ کر دیا ہے کہ آیا قیادت کی تبدیلی واقعی کسی بہتر مستقبل کی ضمانت بن سکتی ہے یا یہ محض سیاسی مصلحتوں کی ایک اور قسط ہے۔

اختتام میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ نتیش کمار کا دسویں مرتبہ وزیر اعلیٰ بننا ایک جانب بہار کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہے تو دوسری جانب یہ ریاست کے مستقبل کا ایک نازک مرحلہ بھی۔ اب یہ ذمہ داری پوری طرح نئی حکومت کے کندھوں پر ہے کہ وہ ان توقعات پر پورا اترے اور ریاست کو سیاسی انتشار سے نکال کر ترقی اور استحکام کے ایک بہتر مرحلے کی طرف لے جائے۔

(حافظ)افتخاراحمدقادری
رابطہ:8954728623
iftikharahmadquadri@gmail.com
شائع کردہ: الرضا نیٹ ورک

Leave a Comment