علامہ یٰسین اختر مصباحی: کچھ یادیں کچھ باتیں

علامہ یٰسین اختر مصباحی: کچھ یادیں کچھ باتیں

مفتی غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی

(پہلی برسی پر یاد داشتوں کا ایک سلسلہ)

رئیس التحریر حضرت مولانا یاسین اختر مصباحی کے نام سے ہم اس وقت آشنا ہوئے جب ہمارا درس نظامی کا ابتدائی دور چل رہا تھا۔آشنائی کا ذریعہ بنی ان کی کتاب "اصلاح فکر و اعتقاد” جو محدث الحرمین علامہ سید محمد علوی مالکی مکی علیہ الرحمہ [متوفی 1944-2004] کی کتاب "مفاہیم یجب ان تصحح” کا اردو ترجمہ تھی۔اسے مصباحی صاحب کے زر نگار قلم کی خوبی ہی کہا جائے گا کہ ترجمہ ہونے کے باوجود کتاب اصل تصنیف کی طرح محسوس ہوتی ہے۔یہ بلا شبہ عربی و اردو پر ان کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس کتاب کے کے بعد علامہ صاحب قبلہ کی تحریرات ماہنامہ کنزالایمان دہلی کے صفحات کے ذریعے نظر نواز ہوتی رہیں اور ہم ان کے انداز تحریر اور فکری شعور کی بلندیوں کو عالم تصور میں نِہَارتے رہے۔

___جامعہ نعیمیہ کا عہد طالب علمی تھا۔یہاں ہماری ایک مشقی و تحریری انجمن (انجمن رضائے مصطفےٰ) ہوا کرتی تھی۔یہ انجمن کئی جہتوں سے دیگر انجمنوں سے ممتاز ومنفرد تھی، ایک تو انجمن کی اپنی ذاتی لائب ریری تھی۔دوسرے روایتی تقریری کتابوں پر پابندی تھی۔ہر طالب علم کو لائب ریری سے ہمہ وقت ایک کتاب رکھنا لازم تھا، کتاب رکھنے کی اکثر مدت ایک ماہ تھی۔اس ایک ماہ میں اسی کتاب کے مطالعے کا ماحاصل بطور تقریر بیان کرنا ہوتا تھا۔انجمن میں کئی رسائل بھی آتے تھے جن میں ماہنامہ کنزالایمان بھی ہوا کرتا تھا۔ہمارے حلقہ احباب میں اکثر مصباحی صاحب کا طرز تحریر اور اسلوب بیان موضوع سخن ہوا کرتا تھا۔ہم مصباحی صاحب کی تحریرات میں استعمال تراکیب، تشبیہات اور نئے نئے الفاظ کو نشان زد کرتے، کاپی میں نوٹ کرتے اور کوشش کرتے کہ اپنی تحریر وتقریر میں ان کو کسی نہ کسی طرح شامل کیا جائے۔آج جب کہ مصباحی صاحب اپنی تمام تر تابانیاں سمیٹ کر تہہ مزار آرام فرما رہے ہیں تو ہم ان کی تحریرات، ان سے ہونے والی ملاقاتوں اور ان کی معیت و سرپرستی میں ہونے والے اجلاس و سیمینار اور سرد راتوں کے رَت جگوں میں ہونے والی لمبی باتوں پر غور کرکے ان کے فکری شہ پاروں کو کھنگالنے/یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دہلی آمد اور مصباحی صاحب سے ملاقاتیں___

اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کا آخری سال شروع ہوا چاہتا تھا کہ ہم جیسے خانماں برباد وارد دہلی ہوئے۔آنکھوں میں کچھ خواب تھے جن کی تعبیر کی تلاش خواجگان دہلی کی چوکھٹ تک کھینچ لائی تھی۔آمد کے پہلے ہی سال میں ہماری پہلی تالیف "اسلامی نظریات” منظر عام پر آئی۔جس کا رسم اجرا أستاذ گرامی علامہ ہاشم نعیمی رحمہ اللہ کے ہاتھوں ہوا۔اس موقع پر مصباحی صاحب کو تو نہیں بلا سکا لیکن ہلکی پھلکی شناسائی کے باوجود مولانا ظفرالدین برکاتی نے شرکت کرکے یہ احساس دلایا کہ دوستی کے لیے پرانی پہچان ضروری نہیں ہے، صرف چند ملاقاتیں بھی دوستی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔اس درمیان مصباحی صاحب سے کئی جلسوں/میٹنگوں اور دارالقلم میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔مصباحی صاحب اپنے کتابی انداز ہی کی طرح سنجیدہ ومتین تھے، ہاں بعض مواقع پر بڑی پر لطف اور گدگدانے والی باتیں بھی کرتے تھے۔
سال 2011 میں ہم نے صدرالافاضل علیہ الرحمہ کے یادگار رسالے "ماہنامہ سواد اعظم مرادآباد” کی نشأۃ ثانیہ کا بیڑا اٹھایا۔اسی حوالے سے مصباحی صاحب سے مشاورت کے لیے دارالقلم پہنچا۔مصباحی صاحب نے مجھے سننے کے بعد کچھ دیر خاموشی اختیار کیے رکھی، چہرہ ایک دم سپاٹ، کوئی تاثر نہیں، پان دان کھولا، پان لگایا اور پھر کچھ دیر بعد بولنا شروع کیا۔قدیم وجدید رسالے کا خاکہ مانگا، معاون کار اور مالی اخراجات کے ذرائع کے بارے میں دریافت فرمایا۔رسائل کی مشکلات اور زمینی حقائق کے سخت تجربات بیان کر کے کہا کہ؛
"رسالہ بہت سوچ سمجھ کر جاری کرنا، کہ بغیر اسباب کے صرف لوگوں کے زبانی بھروسے اور جوانی کے جوش میں شروع کردینا آسان ہے لیکن جاری رکھنا بے حد دشوار۔رسالہ چل جائے تو لوگ حاسد اور بند ہو جائے تو یہی زبانی ہمدرد سب سے بڑے ناقد کے طور پر سامنے آتے ہیں۔”

مصباحی صاحب کی ساری باتیں تجرباتی تھیں اس لیے میں بغور سنتا رہا۔جیسا مصباحی صاحب نے بیان کیا وقت نے ویسا ہی ثابت بھی کیا۔

قرطاس وقلم کے رئیس____

مولانا یٰسین اختر مصباحی جماعت اہل سنت ہی نہیں بل کہ ملک کے ان چنندہ اہل قلم میں سے ایک تھے جن کی تحریریں اپنے اور بیگانے سبھی کو متاثر کرتی تھیں۔ان کی تحریریں مکررات اور لمبی لمبی تراکیب سے کافی حد تک دور ہوتی تھیں اس لیے پڑھتے وقت قاری کو اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔اپنے مافی الضمیر کو سادہ مگر بہترین اسلوب میں بیان کرنا مصباحی صاحب کا ایسا وصف تھا جو چنندہ اہل قلم ہی میں پایا جاتا ہے۔یہ بات درست ہے کہ مصباحی صاحب کا انداز تحریر بے حد دل چسپ اور پر کشش ہوا کرتا تھا۔جس کا اعتراف ان لوگوں کو بھی ہے جو تعریف کے پردے میں تنقیص وتضحیک کا کام انجام دیتے ہیں۔تعریف کے نام پر ان کے انداز تحریر کو "غیر بریلویانہ” کہنا صرف اپنی تنگ نظری کا اظہار کرنا ہے ورنہ سنجیدہ اور دل چسپ اسلوب تحریر کی بات کی جائے تو کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جس میں اہل سنت میں پرکشش انداز تحریر کے حاملین نہ رہے ہوں۔خود مصباحی صاحب کے حلقہ احباب میں خیرالاذکیا علامہ محمد احمد مصباحی، مولانا عبدالمبین نعمانی جیسے نام شامل ہیں۔اس کے علاوہ ان کے ہم عصروں میں مولانا وارث جمال قادری، ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی، ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی جیسے نام اور ان کے ٹھیک بعد ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی ، ڈاکٹر ساحل شہسرامی اور ڈاکٹر امجد رضا امجد، ڈاکٹر غلام زرقانی جیسے افراد موجود ہیں جو پر کشش اور سنجیدہ ومتین انداز تحریر کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔یہ نام بھی صرف بطور نمونہ ذکر کیے نہیں تو موجودہ نسل میں ایسے افراد کی کوئی کمی نہیں ہے جن کا انداز تحریر اپنوں کے ساتھ بیگانوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔اگر اس عنوان پر بفرصت لکھا جائے تو مصباحی صاحب کی تحریر کو "غیر بریلویانہ” تحریر لکھنے والے مداح نما معترض کو منہ چھپانے کو ببی جگہ نہ ملے گی، لیکن ابھی ہمیں مصباحی صاحب کی شخصیت پر کلام کرنا ہے اس لیے اس عنوان کو بعد کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

_____مصباحی صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ انہوں نے ہمیشہ ضرورت اور منصوبہ بندی کے ساتھ لکھا یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریرات میں اخیر وقت تک عوام وخواص کی دل چسپی بنی رہی۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ایک صاحب قلم جوانی سے بڑھاپے تک اپنے چاہنے والوں کے درمیان یکساں مقبول رہے، مصباحی صاحب ان چنندہ اہل قلم میں سے تھے جنہوں نے عہد شباب سے جس مقام کو حاصل کیا اسے دور اخیر تک برقرار رکھا۔درمیان میں ایسے بھی کچھ مواقع آئے جب ان کی بعض تحریرات پر اعتراض اور عدم اتفاق کی باتیں منظر عام پر آئیں لیکن یہ کوئی تعجب خیز اور حیرت انگیز امر نہیں ہے۔ضروری نہیں کہ لکھنے والے کی ہر بات ہمیشہ من وعن تسلیم کی جائے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لکھنے والا درستی نیت کے ساتھ ایک نتیجہ نکالتا ہے لیکن دوسرے اہل علم دلائل کی بنیاد پر اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ یہ اختلاف بشری تقاضوں کے تحت شکر رنجی میں بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔الفاظ میں قدرے تپش اور شدت سی محسوس ہوتی ہے مگر پھر بھی نظریاتی یکسانیت دیرینہ محبت کو ٹوٹنے نہیں دیتی کہ؛

گلہ بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی
وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ

یہ وہ مواقع ہوتے ہیں جہاں اصاغرین کی تربیت کا امتحان ہوتا ہے۔جن کی رگ وپے میں شائستگی ہوتی ہے وہ یا تو خاموشی اختیار کرتے ہیں یا پھر عرض مدعا کے تحت نفس مسئلہ پر ہی کلام کرتے ہیں۔خلط مبحث کرنے یا ذات کو نشانہ بنانے کا کام نہیں کرتے۔

توکل اور سادگی____

توکل اور سادگی کہنے سننے میں بہت آسان سے لفظ ہیں لیکن ان لفظوں کو جینا انتہائی مشکل کام ہے۔تاریخ کے صفحات کھنگالنے پر ایسے بہت سارے علما ومشائخ ملتے ہیں جن کی زندگی توکل اور سادگی کا نمونہ تھی۔مگر اب ایسے لوگ بھی پرانی کتابوں کی طرح ہوگیے جو ڈھونڈے سے نہیں ملتے، خصوصاً آج کے دور حرص و ہوس میں ایسے لوگوں کو تلاشنا آب حیات کی تلاش سے کم نہیں ہے، لیکن فقیر نے اپنی مختصر سی زندگی میں ایسے دو چند افراد کو دیکھا ہے جن کی زندگی میں حقیقی توکل اور سادگی کے اثرات نظر آئے، علامہ یٰسین اختر مصباحی ان میں سے ایک ہیں۔مصباحی صاحب نے دلی میں قریب 35 سال سے زائد وقت گزارا مگر اس لمبے دورانیے میں وہ اتنا پیسہ بھی نہ کما سکے کہ اپنا ذاتی مکان بنا پاتے۔حالانکہ ان کی ملکیت میں ایک مکان ضرور تھا مگر اس کی داستان عجیب بھی ہے اور توکل علی اللہ کی بہترین مثال بھی۔مصباحی صاحب نے ایک مرتبہ توکل پر گفتگو کرتے ہوئے ہم سے یہ بات بیان کی کہ؛
"عرصہ دراز تک میرے پاس رہنے کو کوئی مکان نہیں تھا۔کچھ وقت مٹیا محل کے کوٹھری نما آفس میں گزرا بعدہ دارالقلم کے حجرے میں۔ان دنوں اہل خانہ وطن مالوف ہی رہتے تھے کیوں کہ دہلی میں سر چھپانے کو کوئی جگہ تھی نہ خریدنے کے لیے پیسے! اچانک ایک دن میرے نام ایک رجسٹری آئی، میں نے سوچا کہ رسالہ کے متعلق کوئی خط وغیرہ ہوگا لیکن جب لفافہ کھول کر دیکھا تو پتا چلا کہ یہ ایک فلیٹ کی ملکیت کے کاغذات ہیں، جو میرے نام پر خریدا گیا تھا۔خریدنے والے نے اپنا نام مخفی رکھا تھا۔میں آج تک نہیں جانتا کہ وہ بندہ خدا کون تھا جس نے میرے لیے فلیٹ خریدا اور خود کو اس قدر مخفی رکھا کہ ملکیت کے کاغذ بھی ڈاک سے بھیجے اور اس پر بھی اپنا نام پوشیدہ رکھا۔اس ایک واقعے سے قرآن کی اس آیت کریمہ وَمَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ۔(سورہ طلاق:3) پر یقین اور پختہ ہوگیا۔”

اس گفتگو میں ہمارے علاوہ مولانا عمران احمد ازہری(جامعہ امام احمد رضا رتنا گیری) اور مولانا فیضان احمد نعیمی(خطیب وامام قادری مسجد ذاکر نگر) بھی موجود تھے۔
اس واقعے سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مصباحی صاحب کس قدر متوکل اور سادگی پسند تھے۔ان کے توکل کا اندازہ اس سے بھی کر سکتے ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی دارالقلم سے کوئی تن خواہ نہیں لی، خطیب وہ تھے نہیں اور پیر وہ بن نہیں سکتے تھے۔عموماً علما ومشائخ امور خانہ داری کے لیے تدریس/امامت/خطابت یا بیعت واردات کا میدان پسند فرماتے ہیں۔مصباحی صاحب زیادہ تر میدانوں کے لیے مس فٹ تھے۔کنزالایمان کے ادارتی دور میں ضرور ایک مختصر سا مشاہرہ ملتا تھا، ادارت سے مستعفی ہونے کے بعد وہ بھی جاری نہ رہا مگر اس کے باوجود انہوں نے کبھی کسی سے چندہ مانگا نہ تعاون، مال ودولت سے اس قدر بے نیازی کے بعد بھی گھر کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے تھے، اس کے بارے میں ایک مرتبہ مصباحی صاحب نے بتایا کہ؛
"ابتدائی دور میں میری قلمی شہرت کی وجہ سے بہت سارے علما مجھے جلسوں میں بلا لیا کرتے تھے لیکن جب میں وہاں خطاب کرتا تو منتظمین جلسہ اور مجھ پر اچھی طرح یہ بات ظاہر ہو جاتی کہ میرا اور روایتی جلسوں کا ایک دوسرے سے نباہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔اس لیے کچھ منتظمین نے بلانا بند کر دیا اور کچھ میں نے ہی جانا بند کردیا۔منتظمین نے اس لیے کہ میں جلسوں کے روایتی کھانچے میں فٹ نہیں بیٹھتا تھا اور میں اس لیے دور ہوگیا کہ ایک تو جلسوں کی ہنگامہ خیزیاں ناپسند تھیں دوسرے وقت بہت ضائع ہوتا تھا اس لیے میں جلسوں سے دوری ہی میں عافیت سمجھی۔جلسہ وجلوس کی آمدنی بند ہونے کے بعد بھی اللہ کا فضل شامل رہا بایں طور کہ کتنے ہی ناشناسا محبین آتے اور کچھ نہ کچھ نذر پیش کر جاتے حالانکہ نہ میں پیر تھا نہ خطیب لیکن یہ سب اللہ پر توکل کا نتیجہ تھا۔بارہا ایسا بھی ہوا کہ کوئی شخص دارالقلم آتا اور ماہانہ ضرورت کے کچھ پیسے لفافے میں رکھ کر دے جاتا۔کبھی وہ کسی طالب علم کو دے جاتا تو کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میری غیر موجودگی میں میرے حجرے ہی میں رکھ جاتا۔”

___قلندر نما مفکر

جاننے والوں کے لیے علامہ یٰسین اختر مصباحی کی شخصیت کے دو روپ ہیں۔اور یہ تقسیم "جاننے پہچاننے” والوں کی تقسیم کی بنیاد پر ہے۔آپ کو جاننے والوں میں ایک طبقہ وہ ہے جس نے آپ کو صرف آپ کی تحریرات و تصنیفات کی بدولت آپ کو جانا، ملاقات کا موقع نہیں ملا۔دوسرا طبقہ وہ ہے جس نے آپ کو تصنیفات و تحریرات کے ساتھ ساتھ آپ کی صحبت اٹھائی، ملاقاتیں کیں، اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا اور سفر وحضر میں وقت گزارا۔ہر دو طبقات کی نگاہ میں مصباحی صاحب کی شخصیت میں قدرے تفاوت پایا جانا فطری ہے۔جن لوگوں سے مصباحی صاحب کی شناسائی ان کی کتابوں ہی کی حد تک رہی ان کے لیے مصباحی صاحب یقیناً ایک ایسی شخصیت ہوں گے جو اپنی پر کشش تحریر اور جاذب نظر اسلوب کی طرح بڑے کر وفر اور تحریر کی طرح پر کشش وضع قطع کے حامل ہوں گے۔ایسے طبقے کے بعض لوگ جب ان سے ملتے تو انہیں حیرت کا جھٹکا لگتا کہ جس انسان کی تحریر اس قدر صوری ومعنوی خوبیوں سے بھری ہوتی ہے اس شخص کی ذاتی زندگی اس قدر سادہ اور معمولی سی تھی کہ یقین کرنا مشکل ہوتا تھا کہ یہ شخص قلم وقرطاس کا رئیس اور فکر وشعور کا اختر تھا۔
مصباحی صاحب پہننے اوڑھنے کی حد تک حد درجہ لا پرواہ اور بے نیاز تھے۔عمومی طور پر وہ کرتا اور تہہ بند میں رہتے تھے۔ان کا حجرہ بھی تعمیر اور رنگ وروغن کے چند سال بعد ان کی بے نیازی سے مقابلہ آرائی پر اتر آیا تھا اور وہ بھی اپنے مکین کی طرح سادگی کی مجسم تصویر بن گیا تھا۔حاضر باشوں کی نگاہ سے یہ مقابلہ پوشیدہ نہ ہوگا۔پوربی یوپی اور بہار کے جو شوق عوام وخواص میں یکساں پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک شوق سے مصباحی صاحب بھی اچھوتے نہیں تھے، وہ شوق تھا پان دان سے وابستگی کا۔آپ کے حجرے میں کتابوں کی طرح پان دان بھی ہمیشہ قریب ہی رہتا تھا، یہ الگ بات ہے کہ پان دان بھی ان کے پان کی طرح مختلف رنگوں سے مزین نظر آتا تھا۔سرد راتوں میں آپ کا پہلا پان گفتگو کا ایک دورانیہ طے کرتا تھا۔دوسرے دور کے لیے مصباحی صاحب کی انگلیاں دو ہی کام کرتی تھیں، اپنے لیے پان لگانے کا اور ہم جیسے حاضر باشوں کے لیے چائے منگانے کا۔
اس کام کے لیے مصباحی صاحب کے پاس ایک چھوٹی سی گھنٹی لگی ہوئی تھی، آپ کی انگلی بٹن دباتی اور آپ کے خادم خاص حاضر ہو جاتے۔مصباحی صاحب کے خادم خاص بھی سفید ریش اور علما نواز تھے، رات کے حصے میں خاصی لذیذ چائے پیش کر دیا کرتے تھے۔گفتگو کا دورانیہ مختصر ہوتا تو چائے خاصی اجلی رنگت والی ہوتی تھی اور گفتگو لمبی چلنے والی ہوتی تو دوسری چائے کا روپ تبدیل ہو جاتا تھا اور اجلی رنگت بلالی رنگت میں تبدیل ہوجاتی تھی۔لیکن یہ تبدیلی محض ظاہری شکل و صورت کی ہوتی تھی، دوسری چائے ہمیشہ ہی پہلی کے مقابلے زیادہ لذیذ ہوا کرتی تھی۔
کوئی صاحب اجلی اور بلالی چائے کو مصباحی صاحب کی کفایت شعاری نہ سمجھیں بل کہ بعد والی بلالی چائے اصل میں لیموں چائے ہوا کرتی تھی جسے ممبئی کی زبان میں سلیمانی چائے بھی کہا جاتا ہے۔

(جاری)

9 ذوالقعدہ 1446ھ
8 مئی 2025 بروز جمعرات

Loading

Leave a Comment