بلڈوزر ایکشن: بدلہ لینے کا جارحانہ انداز
افتخار احمد قادری برکاتی
بی جے پی کے دور حکومت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم سب سے زیادہ رونما ہوئے۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اقتدار میں آنے کے بعد سے بلڈوزر ایکشن اور نفرت کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ نفرت انگیز تقاریر کے سب سے زیادہ واقعات بی جے پی کی زیرِ حکومت ریاستوں میں پیش آئے، جس کی وجہ سے مسلم آبادی کو تعصب اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد مسلمانوں کو پسماندہ کرنا اور انہیں ہندوستان سے بے دخل کر کے بھارت کو ہندو ملک میں تبدیل کرنا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف تشدد کی تاریخ
ماضی میں جب مسلمانوں کو سزائیں دی جاتیں تو ان کا قتل عام کیا جاتا تھا، بھیڑ ان کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالتی تھی، انہیں نشانہ بناکر قتل کیا جاتا تھا، حراستوں اور فرضی انکاؤنٹر میں مارے جاتے تھے، جھوٹے الزامات میں قید کیے جاتے تھے۔ لیکن اب ان کے گھروں اور کاروبار پر بلڈوزر ایکشن چلانا اس فہرست میں شامل ایک نیا اور انتہائی مؤثر ہتھیار ہے۔یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جاتا ہے۔ کہیں مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان کیا جاتا ہے تو کہیں بھیڑ ان کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالتی ہے۔ کبھی سفر کر رہے مسلمانوں کا نام پوچھ کر ان کو زد و کوب کیا جاتا ہے۔
بلڈوزر ایکشن: ایک نیا ہتھیار
گزشتہ چند ماہ کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی والی ریاستوں کی سرکاری ایجنسیوں اور عملے نے مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور ان کے کاروبار کی جگہوں پر بلڈوزر ایکشن چلا کر انہیں گرانے کی شروعات کی۔ یہ صرف مسلمانوں کے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے کے شبہ پر کیا گیا۔ ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے اس پالیسی کو اپنی انتخابی مہم میں فخریہ مشتہر بھی کیا۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ ہم ہندو سنتوں کا چوغہ پہنے زیادتی کرنے والوں کے راج میں جی رہے ہیں، جن کے لیے مسلمان ہی سب سے بڑے دشمن ہیں۔بلڈوزر کو ایک قسم کی طاقت دے دی گئی ہے جو بدلہ لینے کے لیے آئی ہے۔ دشمن کو کچلنے کے لیے استعمال ہو رہی لوہے کے بڑے پنجوں والی یہ خوفناک مشین قتل عام کرنے والے اساطیری دیوتا کا ایک مشینی ورژن بن چکی ہے۔ یہ ایک نئے بدلہ لینے کو بے چین ہندو راشٹر کا آلہ بن چکی ہے۔
بلڈوزر ایکشن کی حکمت عملی
مسلمانوں کے گھروں اور کاروباری اداروں کو بغیر کسی نوٹس، بنا کسی اپیل یا سماعت کا موقع دیے بغیر صرف انہیں سزا دینے کے لیے مسمار کرنے سے کئی مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے۔ بلڈوزر ایکشن سے پہلے مسلمانوں کو سزا دینے کا کام قاتل ہجوم اور پولیس کیا کرتی تھی، جو یا تو براہِ راست خود ہی انہیں سزا دیا کرتی تھی یا جرم کو نظر انداز کر دیتی تھی۔ لیکن اب جائیدادوں کو مسمار کرنے میں نہ صرف پولیس کا عمل دخل ہوتا ہے بلکہ میونسپل حکام اور میڈیا بھی شامل ہوتا ہے۔
میڈیا کا وہاں ہونا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ ایسے واقعات کو شیطانوں کی تباہی کے جشن کے طور پر مشتہر کرے۔ عدالت بھی اسی وقت کوئی حکم صادر کرتی ہے جب بلڈوزر اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب مسلمانوں کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ اب تم بے سہارا ہو۔ کوئی بھی تمہاری مدد کے لیے نہیں آئے گا۔
امتیازی سلوک کی مثالیں
دوسری کمیونٹی کی املاک کو شاذ و نادر ہی اس انداز میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، سولہ جون 2022 کو بی جے پی حکومت کی فوج میں بھرتی کی نئی پالیسی سے ناراض دسیوں ہزار نوجوانوں نے پرتشدد احتجاج کیا۔ انہوں نے ٹرینوں اور گاڑیوں کو جلا دیا، سڑکیں بلاک کر دیں اور یہاں تک کہ ایک قصبے میں بی جے پی کا دفتر تک جلا دیا، لیکن ان میں سے زیادہ تر مسلمان نہیں تھے، اس لیے ان کے گھر اور خاندان محفوظ رہے۔
مزید پڑھیں: ہندوستان میں مسلم آبادی پر مظالم
سیاسی حکمت عملی اور ووٹ کی سیاست
سال 2014 اور 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے یہ ثابت کیا تھا کہ اسے عام انتخابات میں پارلیمنٹ کی اکثریت کے لیے ہندوستان کی بیس کروڑ مسلم آبادی کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک طرح سے اس آبادی کو ہر طرح کے حق، خاص طور پر ووٹ کے حق سے محروم کر دینا تھا۔ اس سے ایک ایسی فضا بنتی ہے جہاں مسلم آبادی کا کوئی وجود نہیں رہ جاتا۔
مزید پڑھیں: ہندو قوم پرستی اور اس کے اثرات
مستقبل کے چیلنجز
آج ہم ہندوستان میں جس دور میں رہ رہے ہیں، وہ ایک اسکارچڈ ارتھ پالیسی کی سیاسی شکل ہے۔ اس پالیسی کے تحت دشمن کے لیے مفید ہر چیز کو تباہ کر دیا جاتا ہے۔ ہر ادارہ، جسے بنانے میں برسوں لگے، تباہ کیا جا رہا ہے۔ مستقبل میں ایک نئی نسل ایسی پروان چڑھے گی جو اپنے ملک کی تاریخ اور ثقافتی پیچیدگیوں سے ناواقف ہوگی۔
سوشل میڈیا پر اب مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ روزمرہ کی بات بن چکی ہے۔ ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔ ہمیں، جو اس کے خلاف کھڑے ہیں، خاص طور پر ہندوستان کے مسلمانوں کو، اب اس بات پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس سے کیسے بچ کر نکل سکتے ہیں؟ کیسے اس کی مخالفت کر سکتے ہیں؟
میڈیا اور پولیس کا کردار
ان کاروائیوں میں میڈیا اور پولیس کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ میڈیا ان مناظر کو ایک "فتح” کے طور پر دکھاتا ہے جبکہ پولیس بغیر نوٹس دیے کارروائی کرتی ہے۔ عدالتیں بھی تب حرکت میں آتی ہیں جب نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔
دیگر برادریوں کے ساتھ مختلف سلوک
سولہ جون 2022 کے واقعے میں، جب بی جے پی کی فوجی بھرتی اسکیم کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے، زیادہ تر مظاہرین غیر مسلم تھے۔ مگر ان کے گھروں پر بلڈوزر نہیں چلا۔ روزنامہ انقلاب پٹنہ کے مطابق، بی جے پی صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی اور مسلمانوں کا اخراج
بی جے پی نے 2014 اور 2019 کے انتخابات میں یہ واضح کر دیا کہ انہیں مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں۔ نتیجتاً، مسلمانوں کو ہر قسم کے سیاسی اور معاشرتی عمل سے بے دخل کرنے کی مہم تیز ہو گئی ہے۔
توہین رسالت، احتجاج اور حکومتی ردعمل
جب بی جے پی کے ترجمانوں نے اسلام کے مقدس شخصیات کی توہین کی تو مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ ان مظاہروں کو بنیاد بنا کر حکومتی سطح پر مزید سختیاں کی گئیں۔
بلڈوزر ایکشن بھی ان ہی مظاہروں کا ایک ردعمل تھا، جس میں مسلمانوں کو سزا دینے کا نیا طریقہ اپنایا گیا۔
مستقبل کے اندیشے اور سوالات
ہم اس وقت ہندوستان میں ایک اسکارچڈ ارتھ پالیسی (Scorched Earth Policy) کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس کا مقصد دشمن کو ہر لحاظ سے کمزور کرنا ہے۔ ہر ادارہ، ہر قانون، اب ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
سوال: ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
یہ سب کچھ ایک ایسی فضا پیدا کرتا ہے جہاں احتجاج کرنا بھی جرم بن جاتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سوچیں:
-
کیا ہمیں خاموشی اختیار کرنی چاہیے؟
-
کیا کوئی جمہوری راستہ باقی بچا ہے؟
-
عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کب تک خاموش رہیں گی؟
اختتامیہ
بلڈوزر اب صرف ایک مشین نہیں بلکہ سیاسی اور مذہبی انتقام کی علامت بن چکا ہے۔ مسلمانوں کو اس پالیسی کے تحت مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوال صرف یہی ہے کہ کیا ہم اس عمل کے خلاف کوئی اجتماعی موقف اختیار کر پائیں گے یا تاریخ میں صرف ایک خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟
ای میل: iftikharahmadquadri@gmail.com