کرنل صوفیہ قریشی بھی محفوظ نہیں
(حافظ)افتخاراحمدقادری برکاتی
مکرمی ____!
آج مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان بازیاں عروج پر پہونچ چکی ہیں۔ ایسے ماحول میں اتحاد و اتفاق کی فضاء کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کا دنداں شکن جواب دینے کے بعد ہندوستان کی عوام اپنے ملک سے محبت کے جذبہ کے ساتھ ایک دوسرے سے اظہارِ محبت اور دہشت گردی کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ حکومت کی جانب سے جو اقدامات کئے گئے ان سے اظہار یگانگت اور دہشت گردوں سے اظہارِ نفرت کرتے ہوئے برادرانِ وطن ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے تھے۔ حملے کے متاثرین سے اظہارِ یگانگت کرتے ہوئے مظاہرے بھی کئے جا رہے تھے۔ وہیں فرقہ پرست عناصر عوام کے ذہنوں میں ہندو مسلم تفریق پیدا کرنے کے لئے لگاتار جد وجہد کر رہے تھے۔
ایسے ماحول میں مدھیہ پردیش کی بی. جے. پی سرکار کے وزیر نے ایک بہادر فوجی خاتون کرنل صوفیہ قریشی کو نشانہ بنا کر ہندوستانی مسلمانوں کے سینے پر جو زہریلا تیر چلایا اس کی کسک اور شدید تکلیف ہندوستان کے ہر انصاف پسند شخص نے محسوس کی۔ بی. جے. پی حکومت کے وزیر نے کرنل صوفیہ قریشی کو دہشت گردوں کی بہن قرار دیتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے ہماری بہنوں کے سندور اجاڑے تھے ہم نے ان کی ہی بہن کو بھیج کر ان سے بدلہ لے لیا۔ آگے یہ بھی کہا کہ اس کے لئے وزیراعظم کے لئے تالیاں بجاؤ کیونکہ انہوں نے ان کی بہن ہی کو جہاز سے بھیج کر انہیں ننگا کر دیا۔ وجے شاہ کے اس متنازع بیان پر ملک گیر سطح پر شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔
خاص طور پر اپوزیشن جماعت کانگریس نے ان کی فوری برطرفی کا مطالبہ کیا حالانکہ موصوف نے منگل کے روز معافی مانگ لی تھی مگر تنازعہ ختم ہونے کے بجائے مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کیونکہ وجے شاہ نے ملک میں موجود مسلح افواج کے اس آخری ادارہ کو جو سالمیت، صنعت، نظم و ضبط، قربانی، بے لوثی، کردار، غیرت اور بے مثال حوصلے کی عکاسی، جس کے ساتھ ہندوستان کا ہر قدر پسند شہری اپنی شناخت کو جوڑنے میں فخر محسوس کرتا ہے بی. جے. پی حکومت کے وزیر نے اسے نشانہ بنایا ہے۔ وجے شاہ کا یہ پہلا متنازع بیان نہیں ہے بلکہ وہ ماضی میں بھی اسی طرح کے غیر سنجیدہ اور توہین آمیز تبصروں کے لئے جانے جاتے ہیں۔لہٰذا! ایسے شخص کو عہدے پر برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ملک میں نفرت انگیز تقاریر کے چونسٹھ واقعات پیش آئے ہیں۔ گودی میڈیا لگاتار عوام کے ذہنوں کو حب الوطنی سے پھیر کر نفرت کی جانب موڑنے میں لگا ہوا ہے اور اس کے اثرات اب دکھائی دینے لگے ہیں۔ انڈیا ہیٹ لیب کی رپورٹ کے مطابق ملک کی نو ریاستوں میں پہلگام حملے کے بعد نفرت پر مبنی چونسٹھ واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان میں اترپردیش میں تیرہ اتراکھنڈ میں چھ، ہریانہ میں چھ، راجستھان میں پانچ، مدھیہ پردیش میں پانچ، ہماچل پردیش میں پانچ، بہار میں چار اور چھتیس گڑھ میں دو واقعات پیش آئے۔ نفرت پھیلانے والے عناصر کو ایسا لگتا ہے کہ کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے اور گودی میڈیا اس آگ میں تیل چھڑکنے کا کام کر رہا ہے۔
ایسے واقعات ملک میں پیدا ہونے والے اتحاد و اتفاق اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو متاثر کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ عناصر لگاتار ملک کے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ملک کے مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں جو انتہائی نازیبا اور ناشائستہ ہیں۔ یہ الفاظ مسلمانوں کے لئے قابل برداشت نہیں ہیں۔ لہٰذا! ان کا سلسلہ بند کیا جانا چاہئے اور ان عناصر کو اپنی منفی اور بیمار ذہنیت کو تبدیل کرنا چاہئے۔ ملک میں نفرت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔
شرمناک بات یہ ہے کہ آپریشن سندور کا ایک چہرہ جنہوں نے اپنی کارکردگی سے ملک و قوم کا نام روشن کیا وہ بھی ان بھگوا جنونیوں کے نشانہ پر آچکی ہیں۔ ملک و قوم کی حفاظت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا عزم و عہد کر کے سرحدوں کا تحفظ کرنے والی کرنل صوفیہ قریشی اور ان جیسے مسلم عہدیدار و اہلکار بھی اگر بھگوا ٹولہ کی زہر افشانی اور دریدہ دہنی سے محفوظ نہیں تو عام مسلمانوں کا کیا حال ہوگا؟ ابھی حال ہی کی ہند و پاک جنگ کی تفصیلات سے ملک و قوم کو واقف کروانے کی ذمہ داری فوج کی دو خواتین افسران کو تفویض کی گئی تھی۔ جنگ کے چار پانچ دن کرنل صوفیہ قریشی اور ویومیکا سنگھ ملک کو جنگ کی صورتحال سے واقف کرواتی رہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب پڑوسی ملک پاکستان کی جارحیت کا مکمل اتحاد و اتفاق کے ساتھ مقابلہ کر رہا تھا اور ہندوستانی مسلح افواج پہلگام دہشت گردانہ حملہ کا انتقام لیتے ہوئے پاکستان کو سبق سکھا رہی تھی کسی کے ذہن و زبان پر ہندو مسلم نہیں تھا بلکہ پورا ملک بحیثیتِ قوم اپنی حکومت اور اپنی فوج کے شانہ بشانہ تھا۔ جیسے ہی جنگ بندی کا اعلان ہوا ملک میں دوبارہ ہندو مسلم کا شرمناک کھیل شروع ہوگیا۔ ملک کے عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اب سرحدوں کا تحفظ کرنے والے مسلمانوں کی حب الوطنی پر بھی سوالیہ نشان لگائے جا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بھگوا شدت پسندوں نے اس وقت سے ہی کرنل صوفیہ قریشی کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا جب وہ پہلی مرتبہ منظر عام پر آئیں اور انہوں نے آپریشن سندور سے متعلق ملک کو تفصیل بتائی۔ اس وقت ایک صارف نے پوسٹ کی تھی کہ کرنل صوفیہ قریشی مسلمان ہیں مگر ان پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔ گزشتہ روز بی. جے. پی کے سینئر وزیر نے جو بیان دیا وہ یقیناً ناقابل قبول اور شرمناک ہے۔ ان کے بیان سے مسلمانوں کے خلاف ان کی نفرت اور دشمنی چھلک رہی ہے۔ یہ بیان اس قدر نا گوار ہے کہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کو کہا کہ وہ چار گھنٹوں کے اندر وجے شاہ کے خلاف مقدمہ درج کرے۔ دوسری جانب کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے وجے شاہ کے بیان پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ وجے شاہ کو فوری وزارت سے بر طرف کریں۔ وزیر اعظم مودی اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی حسبِ روایت اپوزیشن کا یہ مطالبہ مسترد کر دے گی لیکن مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے اقدام سے یہ توقع ضرور رکھی جاسکتی ہے کہ بد زبان وزیر کو فرقہ پرستی کی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔
پہلگام حملہ کے بعد ملک بھر میں مذہبی منافرت پر مسلم دشمنی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ کیا یہ صورتحال سب کا ساتھ سب کا وکاس کی دعویدار مرکز کی مودی حکومت اور مختلف ریاستوں کی بھاجپا حکومتوں کے لئے لمحہ فکریہ نہیں؟ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی اگر اربابِ اقتدار کچھ شرم محسوس نہیں کرتے اور ملک کو متحد و محفوظ رکھنے کی خاطر ان بھگوا شرپسندوں کی سرکوبی کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کرتے تو اس کو آپ کیا کہیں گے؟ یاد رہے کہ بی. جے. پی ہو یا دوسری ہندو تنظیمیں انہیں اپنے اس طرح کے رویہ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ نفرت کے ذریعہ ملک کا ماحول بگاڑنے کی سازشیں ہو رہی ہیں اور ان سازشوں کو ملک کے تمام صحیح الفکر گوشوں کو حرکت میں آتے ہوئے ناکام بنانا ہوگا۔ حکومتوں کو بھی اس طرح کے معاملات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی اور سرکوبی کرنی چاہئے۔ کسی کو بھی ملک کا ماحول بگاڑنے کی اجازت قطعی نہیں دی جانی چاہئے بلکہ انہیں قابو میں کیا جانا چاہئے۔
*کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت یو.پی
رابطہ:۸۹۵۴۷۲۸۶۲۳ iftikharahmadquadri@gmail.com