اجیت انجم پر ایف آئی آر : جمہوریت، صحافت اور آئین پر کاری ضرب

اجیت انجم پر ایف آئی آر: جمہوریت، صحافت اور آئین پر کاری ضرب

اجیت انجم پر ایف آئی آر : 12 جولائی 2025 کو بہار کے ضلع بیگوسرائے کے بلیا پرکھنڈ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف صحافت کی آزادی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ جمہوری نظام اور آئینی اقدار کو بھی شدید چیلنج دیا۔ سینئر صحافی اجیت انجم، جو انتخابی عمل کی شفافیت کو جانچنے میدان میں نکلے تھے، ان پر نہایت سنگین دفعات میں FIR درج کر دی گئی۔ یہ واقعہ آزادیِ صحافت اور جمہوریت پر حملے کے مترادف ہے۔

Ajit Anjum


معاملہ کیا تھا؟

بلیا پرکھنڈ میں ووٹر لسٹ کی جانچ کے دوران BLOs (بوث لیول آفیسرز) کی بدعنوانیوں اور لاپروائیوں کی خبریں پہلے سے ہی گردش میں تھیں۔ اجیت انجم نے خود موقع پر جا کر زمینی حقیقت کو جاننے کی کوشش کی اور کیمرے کی آنکھ سے یہ دکھایا کہ کئی BLOs نے عوام کی اجازت یا معلومات کے بغیر ہی ان کے نام ووٹر لسٹ سے ہٹا دیے یا غلط معلومات فراہم کیں۔

حیرت انگیز طور پر اس حقیقت کو سامنے لانے والے صحافی کے خلاف ہی دفعات 186 (سرکاری کام میں رکاوٹ)، 353 (سرکاری ملازم پر حملہ)، 505 (افواہیں پھیلانا) اور RP Act کی دفعہ 123(7) کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔


یہ واقعہ کیوں خطرناک ہے؟

1. آزادیِ اظہار پر حملہ

ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 19(1)(a) ہر شہری کو بولنے اور سچ کہنے کی آزادی دیتا ہے۔ ایک صحافی کا کام سچ کو عوام تک پہنچانا ہوتا ہے، اور اگر اُسے ہی سچ بولنے پر مجرم بنا دیا جائے تو یہ سراسر جمہوریت کا گلا گھونٹنے جیسا ہے۔

2. انتظامیہ کی عدم برداشت

یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ آج بھی کئی افسران عوامی سوالات یا میڈیا کی تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ جوابدہی سے بچنے کے لیے صحافیوں کو ڈرا کر خاموش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

3. BLOs کی جانبداری

انتخابی عمل میں BLOs کا کام غیر جانبداری ہوتا ہے، مگر یہاں تو ان پر الزام ہے کہ وہ صحافیوں کے خلاف جھوٹی شکایتیں کر رہے ہیں، جو کہ انتخابی نظام کو مسخ کرنے کی سازش لگتی ہے۔

4. انتخابی شفافیت پر سوال

جب ووٹر کی فہرست جیسے بنیادی جمہوری عمل میں ہی گڑبڑ ہو، اور اسے ظاہر کرنے والوں پر کارروائی ہو، تو پورے انتخابی نظام پر عوام کا اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔


قانون کیا کہتا ہے؟

بھارت کی سپریم کورٹ نے Shreya Singhal v. Union of India (2015) کیس میں واضح کہا تھا کہ جب تک کسی بیان سے براہ راست تشدد کو ہوا نہ ملے، تب تک اسے جرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اجیت انجم نے نہ کسی پر حملہ کیا، نہ کسی کو اکسانے کی کوشش کی — انہوں نے صرف سوال کیے، جو کہ ایک جمہوری ملک میں ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔


اب کیا ہونا چاہیے؟

  1. اجیت انجم پر درج کی گئی FIR کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے۔

  2. جن BLOs اور افسران نے جھوٹی شکایت کی، ان کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کے انہیں معطل کیا جائے۔

  3. الیکشن کمیشن آف انڈیا کو واضح ہدایات جاری کرنی چاہیے کہ صحافت کی آزادی کا احترام یقینی بنایا جائے۔

  4. میڈیا اور عوام کو اس غیر جمہوری اقدام کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کرنی چاہیے۔


نتیجہ: یہ حملہ صرف ایک صحافی پر نہیں

جب صحافی سوال پوچھنا چھوڑ دیتے ہیں، جب سچ بولنے والا جھوٹا مجرم بنا دیا جاتا ہے — تو سمجھ لیجیے کہ ملک کی جمہوری روح پر ضرب لگ چکی ہے۔ اجیت انجم پر حملہ صرف ایک فرد پر نہیں، بلکہ یہ حملہ ہے:

  • آئین ہند پر

  • آزادیِ اظہار پر

  • انتخابی نظام پر

  • ہر اس شہری پر جو سچ بولنے کا حوصلہ رکھتا ہے

ایسے میں خاموشی جرم ہے۔ اجیت انجم کی حمایت میں ملک بھر میں آواز اٹھنی چاہیے تاکہ مستقبل میں کسی بھی صحافی کو سچ بولنے پر مجرم نہ بنایا جا سکے۔


 احمد رضا صابری
شائع کردہ: الرضا نیٹ ورک

Leave a Comment