عرب حکمرانوں کی خاموشی: فلسطین اور اسلامی اقدار کے ساتھ دھوکہ
قیامت خود بتائے گی کہ قیامت کا واقع ہونا کیوں ضروری تھا !!
✍️ تحریر: جاوید اختر بھارتی
📧 javedbharti508@gmail.com
🔗 javedbharti.blogspot.com
🌍 عرب ممالک کی تیز تبدیلیاں: قیامت کی تمہید؟
عرب معاشرہ جہاں کبھی اونٹ کی قربانی کو عزت کا نشان مانا جاتا تھا، آج وہاں مغربی اقدار کا راج ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ دورے میں جو کچھ منظر سامنے آئے، وہ اسلام کی اصل روح سے بالکل مختلف تھے۔ خواتین کا بے پردہ رقص، ان کی قطاریں اور ٹرمپ کا گرمجوش استقبال، مسلم دنیا کے لیے باعثِ شرم تھا۔
قیامت کا دن خود بتائے گا کہ اس کا وقوع پذیر ہونا کیوں ضروری تھا۔ فلسطین میں جاری بحران، اسرائیل کے اقدامات، اور عرب حکمرانوں کی خاموشی اخلاقی زوال کی ایک تاریک تصویر پیش کرتی ہے۔ ہم اس تحریر میں اس بات کا جائزہ لیں گے کہ مسلم قیادت، خاص طور پر عرب حکمرانوں کی بے عملی نے غزہ کے دکھوں اور اسلامی اصولوں کے زوال میں کس طرح حصہ ڈالا ہے۔
عرب حکمرانوں کا اخلاقی زوال
عرب ممالک میں تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں، اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تبدیلیاں قیامت کی قربت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ تاریخ میں عرب روایات عزت کی عکاسی کرتی تھیں، جیسے کہ دلہن کو لانے والے اونٹ کو ذبح کرنے کی رسم، تاکہ کوئی اور اس پر سوار نہ ہو۔ یہ عزت اور خصوصیت کی علامت تھی۔ لیکن آج کے عرب حکمرانوں نے یہ عزت کھو دی ہے۔ ان کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے، اور انصاف کا جذبہ ختم ہو گیا ہے۔
⚔️ دور ماضی کا اسلامی لشکر اور آج کا عرب استقبال
جہاں ماضی میں اسلامی لشکر ننگی عورتوں کی قطاروں کے درمیان سے ایمان و غیرت کے ساتھ گزرا کرتا تھا، وہیں آج مسلمان حکمران اپنی بہن بیٹیوں کو دشمنانِ اسلام کے استقبال میں کھڑا کر رہے ہیں۔ ساڑھے چودہ سو سال میں کتنا کچھ بدل گیا!
🎭 درباری علماء اور مردہ ضمیر
آج وہی علماء جن کی زبانیں شرک و بدعت کے فتووں سے تیز ہوا کرتی تھیں، وہ سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش ہیں۔ جب احترامِ نبوی کی بات آتی ہے تو قرآن و حدیث کا حوالہ مانگا جاتا ہے، لیکن امریکی صدر کے ہاتھ میں قہوہ تھمانے پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔
ایک واضح مثال سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عرب ممالک کے دورے کے دوران ان کا پرتپاک استقبال ہے۔ لڑکیوں کی قطاریں کھلے بالوں کے ساتھ کھڑی کی گئیں، جو اپنی گردنیں گھما کر اپنے بال لہرا رہی تھیں، جس نے پوری مسلم دنیا کو شرمندہ کر دیا۔ اس منظر نے دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا اسلام میں ایسی نمائش کی اجازت ہے؟ مذہبی علماء اور خود ساختہ ایمان کے ٹھیکیدار، جو چھوٹے سے عمل کو بدعت قرار دیتے ہیں، اس موقع پر خاموش رہے۔ یہ وہی علماء ہیں جو نبی کی مسجد میں زائرین کے معمولی اعمال پر سوال اٹھاتے ہیں لیکن جب عرب حکمران اسلامی اقدار سے سمجھوتہ کرتے ہیں تو ان کی زبانوں پر تالے لگ جاتے ہیں۔
مذہبی قیادت میں منافقت
وہ مذہبی شخصیات جو اسلامی رسومات کی حرمت کی حفاظت میں سخت گیر ہیں، وہ حکمرانوں کی اسراف پسندی پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، وہ زائرین سے پوچھتے ہیں کہ نبی کی قبر سے الٹے قدموں واپس ہونا قرآن یا حدیث میں کہاں لکھا ہے۔ لیکن جب عرب حکمران غیر ملکی رہنماؤں جیسے ٹرمپ کو قہوہ پیش کرنے کے بعد الٹے قدموں واپس ہوتے ہیں، تو اس پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا۔ یہ منافقت ظاہر کرتی ہے کہ ان کا ایمان دولت اور طاقت کے سامنے جھک جاتا ہے۔ یہ درباری علماء، جو درہم اور ریال کے لالچ میں مبتلا ہیں، ظلم کے آلہ کار بن چکے ہیں، اور اسلامی اصولوں کی بے حرمتی کو نظر انداز کرتے ہیں۔
فلسطین کا بحران: انسانیت کے ساتھ خیانت
غزہ کی صورتحال تباہ کن ہے۔ بچے بمباری، بھوک، اور بیماریوں سے مر رہے ہیں، جہاں نہ سر پر چھت ہے اور نہ صاف پانی۔ اس کے باوجود عرب حکمران اسرائیل کے حامی رہنماؤں کو زمزم کا پانی پیش کرتے ہیں، جو اسے ٹھکرا دیتے ہیں—یہ ان کی عزت پر طمانچہ ہے۔ اسرائیل کی غزہ میں جارحیت، جو فلسطینیوں کے وجود کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے، 57 مسلم ممالک کی خاموشی کی وجہ سے بے روک ٹوک جاری ہے۔ اگر اسرائیل اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گیا، تو تاریخ میں لکھا جائے گا کہ مسلم حکمرانوں نے ایک قوم کے خاتمے کی اجازت دی جبکہ وہ ظالموں کے لیے پرتپاک استقبالیہ منعقد کر رہے تھے۔
💣 غزہ کا لہو اور مسلم دنیا کی خاموشی
غزہ میں جب بچے بھوک و پیاس سے تڑپ رہے تھے، اس وقت مسلم حکمران ناچ و سرور کی محفلیں سجا رہے تھے۔ اگر اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کرلیتا ہے، تو تاریخ مسلم حکمرانوں کی بے حسی کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
تاریخی موازنہ: اسلامی لشکر کی طاقت
ماضی میں اسلامی لشکر اس قدر پختہ ایمان کے ساتھ گزرتے تھے کہ وہ دشمنوں کی طرف سے رکھی گئی فتنہ انگیز ترغیبات کو نظر انداز کر دیتے تھے۔ جب دشمنوں نے برہنہ خواتین کو قطاروں میں کھڑا کیا تاکہ لشکر کو اپنی طرف مائل کریں، اسلامی فوجی نیچی نگاہوں کے ساتھ اس شان سے گزرے کہ جن و ملک کو بھی ناز تھا۔ آج اسی سرزمین پر نبی کا کلمہ پڑھنے والے اپنی بہن بیٹیوں کو دشمنوں سے ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھاتے ہیں۔ ساڑھے چودہ سو سال پہلے اسلامی لشکر کے گزرنے سے جو گرد و غبار اٹھتا تھا، اس سے کفر تھرا اٹھتا تھا۔ آج مسلم حکمران اسی کفر کی چاپلوسی کر رہے ہیں۔
بے عملی کے نتائج
عرب حکمران مسجد اقصیٰ کی آزادی کی دعائیں مانگتے ہیں لیکن اس کی بے حرمتی کرنے والوں کا استقبال کرتے ہیں۔ وہ غزہ کے دکھوں پر افسوس کرتے ہیں لیکن اسرائیل کے حامیوں کے ساتھ جشن مناتے ہیں۔ یہ دوغلا پن ایمان اور انسانیت دونوں کے ساتھ خیانت ہے۔ اگر اسرائیل غزہ میں اپنے مقاصد حاصل کر لیتا ہے، تو مسلم رہنماؤں کی بے عملی تاریخ پر ایک داغ کی طرح یاد رکھی جائے گی۔ غزہ کے بچوں کی چیخیں، گھروں کی تباہی، اور جانی نقصان ذمہ داری کا تقاضا کرتے ہیں—خاموشی کا نہیں۔
🌟 فضیلت سے محرومی: عرب دنیا کا زوال
اللہ نے عربوں کو فضیلت بخشی، قرآن ان کی زبان میں نازل کیا، مگر جب یہی قوم اسلام کے راستے سے ہٹ گئی، تو قیادت اور عزت چھین لی گئی۔ آج عرب دنیا کی قیادت کا فقدان ان کے اعمال کا نتیجہ ہے۔
📌 نتیجہ
"کعبے کی کمائی سے کلیسا کا تحفظ” – یہ جملہ آج کی مسلم دنیا کی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ قیامت اگر قریب ہے تو اس کے آثار عرب دنیا کی بے غیرتی اور فلسطین کی بربادی میں نظر آ رہے ہیں۔
اختتام: بیداری کا مطالبہ
عربوں کو یہ شرف حاصل تھا کہ خاتم النبیین ان میں سے تشریف لائے، اور قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا۔ لیکن اللہ نے متنبہ کیا کہ اگر تم نے اسلامی تعلیمات سے منہ موڑا تو یہ عزت چھین لی جائے گی۔ آج عرب حکمران عالم اسلام کی قیادت سے محروم ہو چکے ہیں اور اپنے اعمال کی وجہ سے عذاب کے مستحق ہیں۔ ان کی نجات صرف اللہ کی رحمت سے ہے، جو کعبہ اور نبی کے صدقے میں ہے۔ اب وقت ہے کہ مسلم رہنما اپنی عزت بحال کریں، انصاف کے لیے کھڑے ہوں، اور ان اقدار کی حفاظت کریں جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔
🔁 شیئر کریں:
اگر آپ امت مسلمہ کے درد کو محسوس کرتے ہیں تو اس تحریر کو ضرور شیئر کریں تاکہ سوتے ضمیروں کو جھنجھوڑا جا سکے۔