🕌 رسم و رواج کو بڑھاوا دیتا آج کا مسلمان
✍️ از: جاوید اختر بھارتی
📧 javedbharti508@gmail.com
📌 تعارف
آج کا دور مادّہ پرستی، نمود و نمائش، اور جھوٹی عزت کے پیچھے دوڑ کا دور ہے۔ دین، شریعت اور سنت صرف زبانوں پر باقی رہ گئے ہیں۔ جب بات عمل کی آتی ہے تو ہم صرف رسم و رواج کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت خود نئی روایات پیدا کر رہی ہے اور شریعت کی مخالفت میں خوشی محسوس کرتی ہے۔
💸 پیسہ اور دکھاوا — نئی رسموں کی بنیاد
آج ہر طرف پیسے کا بول بالا ہے۔ ہم اصلاحِ معاشرہ کی بات تو کرتے ہیں لیکن خود اپنی تقریبات میں نمود و نمائش سے گریز نہیں کرتے۔
-
ایک طرف بارات کو غلط کہتے ہیں، لیکن دل سے چاہتے ہیں کہ بارات آئے۔
-
جہیز کو لعنت کہتے ہیں، لیکن ٹرکوں پر جہیز لاد کر لے جاتے ہیں۔
-
لڑکی کے باپ سے طعام و دعوت نہ کرنے کی بات ہوتی ہے، لیکن ضد کی جاتی ہے کہ وہی کرے۔
🧕 لڑکیوں کے ساتھ ناانصافی — رنگ، دولت اور شکل پر فیصلے
معاشرے میں رنگت، خوبصورتی اور پیسے کی بنیاد پر لڑکیوں کے رشتے طے کیے جا رہے ہیں۔
🎭 رشتہ دیکھنے والی عورتیں
عورتیں خود حوا کی بیٹیاں ہوتے ہوئے جب رشتہ دیکھنے جاتی ہیں تو تنقید، ظاہری کمیاں اور طنز ان کی زبان پر ہوتے ہیں۔
🥀 نتیجہ:
-
سانولی رنگت والی لڑکیاں رہ جاتی ہیں۔
-
لڑکیوں کی خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
-
کئی لڑکیاں غیر مسلموں سے شادی کر رہی ہیں یا مرتد ہو رہی ہیں۔
📉 شریعت کے خلاف چلتی ہوئی شادی کی رسومات
آج مسلم معاشرہ شادی کو سنت کے مطابق انجام دینے کے بجائے نمائش اور ضد کی بنیاد پر چلا رہا ہے:
-
ہلدی، سہرا بندی، جوتا چھپائی، پیسہ لٹائی جیسی فضول رسومات عام ہیں۔
-
لاک ڈاؤن کے دوران سب کو سنت یاد تھی، لیکن اب پھر واپس رسموں کی طرف لوٹ آئے ہیں۔
🧠 علماء اور تنظیمیں خاموش کیوں؟
بعض علماء خود بھی باراتوں میں شریک ہوتے ہیں، سہرا پڑھتے ہیں اور اجرت لیتے ہیں۔ چندہ لینے والی تنظیمیں بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، تاکہ ان کی مالی امداد جاری رہے۔
🕊️ بیٹی کی وداعی — جذبات کا طوفان
نکاح کے وقت لڑکی کے دل پر جو گزر رہی ہوتی ہے، اسے صرف ایک بیٹی اور ایک باپ سمجھ سکتا ہے:
-
"آج سے میں اس گھر کی مہمان ہوں جہاں پیدا ہوئی تھی۔”
-
"آج میرا نام بنتِ فلاں سے زوجہ فلاں ہو جائے گا۔”
یہ احساسات بتاتے ہیں کہ نکاح ایک نازک، جذباتی اور مقدس بندھن ہے، جسے پیسوں، نمود و نمائش اور رسموں کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔
💡 کیا حل ہے؟
✅ چند عملی تجاویز:
-
ہر علاقے میں "اصلاح نکاح کمیٹی” بنائی جائے۔
-
رشتہ داری اپنی بستی میں ترجیح دی جائے۔
-
بارات اور جہیز کو یکسر ختم کیا جائے۔
-
لڑکے اور لڑکیوں کی غیر ضروری چھان بین بند کی جائے۔
-
اگر عمل نہیں، تو جلسے، کانفرنسیں سب بے کار ہیں۔
🛑 نتیجہ
اگر ہم نے اپنے رسم و رواج پر قابو نہ پایا تو:
-
بیٹیاں مایوس ہوں گی،
-
باپ کی پگڑی روندی جائے گی،
-
خاندان بدنام ہوں گے۔
اب وقت ہے کہ مسلمان اپنے دین کی طرف پلٹیں، سنت نکاح کو آسان بنائیں، اور فضول رسومات کا خاتمہ کریں۔
📢 آپ کی رائے اہم ہے!
کیا آپ کے علاقے میں بھی یہ رسومات عام ہیں؟ کیا آپ اصلاح معاشرہ کے لیے کوئی قدم اٹھانا چاہتے ہیں؟
نیچے کمنٹ کریں یا مجھے ای میل کریں:
📧 javedbharti508@gmail.com
📍 مصنف کا تعارف:
جاوید اختر بھارتی
(سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)
محمد آباد گوہنہ، ضلع مئو، یو پی
📞 8299579972