مارنے والوں کا مذہب یاد تو بچانے والوں کا کیوں نہیں؟

مارنے والوں کا مذہب یاد تو بچانے والوں کا کیوں نہیں؟

غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی

کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد بی جے پی کارکنان اور گودی میڈیا مسلسل مسلمانوں اور اسلام کو نشانہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔انہیں انٹیلیجنس کی ناکامی یاد ہے نہ حکومت کی لا پرواہی، یاد ہے تو صرف اتنا کہ دہشت گرد مسلمان تھے۔اسی کو مدا بناتے ہوئے وہی پرانا رٹا رٹایا سوال ہوا میں اچھالا جا رہا ہے کہ؛
"ہر دہشت گرد مسلمان ہی کیوں ہوتا ہے؟”

ایک عام ہندوستانی شہری کی طرح عام مسلمان بھی حالیہ حملے پر تکلیف اور غم محسوس کر رہا ہے۔یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں سے زیادہ اس تکلیف کو شاید ہی کوئی اور محسوس کر سکے، کیوں کہ آئے دن مسلمانوں کو مذہب ہی کی بنیاد پر ماب لنچنگ، معاشی بائیکاٹ اور لوٹ پاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے باوجود حکمراں پارٹی کے کارکنان اور نظریاتی سنگٹھنوں کا کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی کرنا صرف اور صرف ان کی اندھی نفرت ہی ہے جسے اس وقت تک چین نہیں پڑتا جب تک مسلمانوں اور اسلام کو دس بیس گالیاں نہ دے دی جائیں۔

_____بچانے والے بھی مسلمان تھے!!

مشہور کہاوت ہے کہ؛
"مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے”

پہلگام اٹیک میں موصولہ اطلاعات کے مطابق تین سے چار دہشت گرد موجود تھے۔تقریباً گھنٹے بھر تک وہاں کوئی سیکورٹی دستہ نہیں پہنچا۔اس درمیان مقامی مسلمانوں نے سیاحوں کی حفاظت کرنے میں جان کی بازی لگا دی، مقامی گائیڈ سید حسین شاہ اسی کوشش میں مارا بھی گیا۔حملے کے فوراً بعد مقامی مسلمانوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر زخمیوں اور سیاحوں کو ہسپتال اور محفوظ مقامات تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔عادل حسین نامی ایک کشمیری مسلمان نے تقریباً گیارہ افراد کو بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ایک کشمیری گائیڈ ایک سیاح بچے کو کمر پر لاد کر کئی سو میٹر تک پیدل دوڑتا رہا۔بیسرن وادی سے لیکر اپنے گھروں/مسجدوں تک کے دروازے کھول کر سیاحوں کی جان بچانے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہ رکھی لیکن افسوس دو چار دہشت گردوں کا مذہب تلاشنے والوں کو بچانے والے درجنوں مسلمانوں کا مذہب یاد نہیں رہا۔مارنے والے انہیں خوب یاد ہیں، لیکن بچانے والے نہیں۔اگر دہشت گردوں کی بنیاد پر ان کے مذہب کو ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے تو بچانے والوں کے مذہب کی تعریف کیوں نہیں؟

اس سوال کا جواب میڈیا کے پاس ہے نہ حکومتی کارکنان کے پاس! سچ تو یہ ہے کہ وہ جواب دینا ہی نہیں چاہتے کیوں کہ جواب دینے سے ان کے پروپگینڈے کا پردہ چاک ہو جائے گا۔لاشوں کی آڑ میں سیاسی فائدہ اٹھانے کا منصوبہ ناکام ہو جائے گا۔اس لیے مصیبت کی اس گھڑی میں بھی یہ لوگ جھوٹ اور پروپیگنڈہ چلانے سے باز نہیں آ رہے ہیں۔

___مشائخ سنجیدگی سے کام لیں!!

میڈیا ایک خاص قسم کا نریٹیو گڑھنے اور پھیلانے میں لگا ہے۔جذباتیت کے سہارے حکومت اور انٹیلی جنس کی جواب دہی پر پردہ ڈالنے کی پوری کوشش ہے۔اس لیے دیش بھکتی/انتقام جیسے لفظوں کا سہار لیکر مسلمانوں پر احساس شرمندگی لادنے کی کوشش ہو رہی ہے۔اس لیے مشائخ اور ذمہ دار علما کو چاہیے کہ وہ میڈیائی پروپیگنڈے کا اثر قبول نہ کریں اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ حالیہ حملے کی مذمت کے ساتھ ساتھ اغیار کے مذہبی تعصب اور حکومت کی جواب دہی پر بھی بات کریں۔گودی میڈیا کی دو رخی پالیسی کو بے نقاب کرنے میں کوئی جھجک نہ دکھائیں۔ہمیں دہشت گردوں سے رتی بھر بھی ہمدردی نہیں۔جس طرح انہوں نے مذہب کے نام پر قتل عام کیا ہے ویسی ہی قتل و غارت گری گذشتہ دس سالوں سے مسلمان بھی جھیل رہے ہیں۔آر پی ایف کے جوان چیتن سنگھ نے نام پوچھ کر ہی تین مسلمانوں کو گولی سے اڑا دیا تھا۔پہلو خان، اخلاق احمد، رکبر خان، تبریز انصاری اور حافظ جنید جیسے سیکڑوں مسلمان صرف مذہبی تعصب کی بنیاد پر ہی مارے گیے ہیں۔مذہبی غنڈوں کی بھیڑ میں ایک بھی شخص انہیں بچانے والا نہیں تھا لیکن پہلگام میں مقامی مسلمانوں نے سیاحوں کی جان بچانے کے لیے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جان کی قربانی تک دی ہے۔ان حقائق کو ٹھوس اور سنجیدہ انداز میں پیش کریں۔نپے تلے انداز میں بات کریں۔مرعوب نہ ہوں اور پلوامہ اٹیک کی طرح جذباتیت میں بہہ کر جگ ہنسائی کا سامان نہ بنیں۔مسلمان ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہیں لیکن دہشت گردی کے نام پر پچیس کروڑ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم ہر گز قابل قبول نہیں ہے۔

25 شوال 1446ھ
24 اپریل 2025 بروز جمعرات

____مارنے والوں کا مذہب یاد تو بچانے والوں کا کیوں نہیں؟

غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی

کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد بی جے پی کارکنان اور گودی میڈیا مسلسل مسلمانوں اور اسلام کو نشانہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔انہیں انٹیلیجنس کی ناکامی یاد ہے نہ حکومت کی لا پرواہی، یاد ہے تو صرف اتنا کہ دہشت گرد مسلمان تھے۔اسی کو مدا بناتے ہوئے وہی پرانا رٹا رٹایا سوال ہوا میں اچھالا جا رہا ہے کہ؛
"ہر دہشت گرد مسلمان ہی کیوں ہوتا ہے؟”

ایک عام ہندوستانی شہری کی طرح عام مسلمان بھی حالیہ حملے پر تکلیف اور غم محسوس کر رہا ہے۔یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں سے زیادہ اس تکلیف کو شاید ہی کوئی اور محسوس کر سکے، کیوں کہ آئے دن مسلمانوں کو مذہب ہی کی بنیاد پر ماب لنچنگ، معاشی بائیکاٹ اور لوٹ پاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے باوجود حکمراں پارٹی کے کارکنان اور نظریاتی سنگٹھنوں کا کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف ماحول سازی کرنا صرف اور صرف ان کی اندھی نفرت ہی ہے جسے اس وقت تک چین نہیں پڑتا جب تک مسلمانوں اور اسلام کو دس بیس گالیاں نہ دے دی جائیں۔

_____بچانے والے بھی مسلمان تھے!!

مشہور کہاوت ہے کہ؛
"مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے”

پہلگام اٹیک میں موصولہ اطلاعات کے مطابق تین سے چار دہشت گرد موجود تھے۔تقریباً گھنٹے بھر تک وہاں کوئی سیکورٹی دستہ نہیں پہنچا۔اس درمیان مقامی مسلمانوں نے سیاحوں کی حفاظت کرنے میں جان کی بازی لگا دی، مقامی گائیڈ سید حسین شاہ اسی کوشش میں مارا بھی گیا۔حملے کے فوراً بعد مقامی مسلمانوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر زخمیوں اور سیاحوں کو ہسپتال اور محفوظ مقامات تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔عادل حسین نامی ایک کشمیری مسلمان نے تقریباً گیارہ افراد کو بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ایک کشمیری گائیڈ ایک سیاح بچے کو کمر پر لاد کر کئی سو میٹر تک پیدل دوڑتا رہا۔بیسرن وادی سے لیکر اپنے گھروں/مسجدوں تک کے دروازے کھول کر سیاحوں کی جان بچانے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہ رکھی لیکن افسوس دو چار دہشت گردوں کا مذہب تلاشنے والوں کو بچانے والے درجنوں مسلمانوں کا مذہب یاد نہیں رہا۔مارنے والے انہیں خوب یاد ہیں، لیکن بچانے والے نہیں۔اگر دہشت گردوں کی بنیاد پر ان کے مذہب کو ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے تو بچانے والوں کے مذہب کی تعریف کیوں نہیں؟

اس سوال کا جواب میڈیا کے پاس ہے نہ حکومتی کارکنان کے پاس! سچ تو یہ ہے کہ وہ جواب دینا ہی نہیں چاہتے کیوں کہ جواب دینے سے ان کے پروپگینڈے کا پردہ چاک ہو جائے گا۔لاشوں کی آڑ میں سیاسی فائدہ اٹھانے کا منصوبہ ناکام ہو جائے گا۔اس لیے مصیبت کی اس گھڑی میں بھی یہ لوگ جھوٹ اور پروپیگنڈہ چلانے سے باز نہیں آ رہے ہیں۔

___مشائخ سنجیدگی سے کام لیں!!

میڈیا ایک خاص قسم کا نریٹیو گڑھنے اور پھیلانے میں لگا ہے۔جذباتیت کے سہارے حکومت اور انٹیلی جنس کی جواب دہی پر پردہ ڈالنے کی پوری کوشش ہے۔اس لیے دیش بھکتی/انتقام جیسے لفظوں کا سہار لیکر مسلمانوں پر احساس شرمندگی لادنے کی کوشش ہو رہی ہے۔اس لیے مشائخ اور ذمہ دار علما کو چاہیے کہ وہ میڈیائی پروپیگنڈے کا اثر قبول نہ کریں اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ حالیہ حملے کی مذمت کے ساتھ ساتھ اغیار کے مذہبی تعصب اور حکومت کی جواب دہی پر بھی بات کریں۔گودی میڈیا کی دو رخی پالیسی کو بے نقاب کرنے میں کوئی جھجک نہ دکھائیں۔ہمیں دہشت گردوں سے رتی بھر بھی ہمدردی نہیں۔جس طرح انہوں نے مذہب کے نام پر قتل عام کیا ہے ویسی ہی قتل و غارت گری گذشتہ دس سالوں سے مسلمان بھی جھیل رہے ہیں۔آر پی ایف کے جوان چیتن سنگھ نے نام پوچھ کر ہی تین مسلمانوں کو گولی سے اڑا دیا تھا۔پہلو خان، اخلاق احمد، رکبر خان، تبریز انصاری اور حافظ جنید جیسے سیکڑوں مسلمان صرف مذہبی تعصب کی بنیاد پر ہی مارے گیے ہیں۔مذہبی غنڈوں کی بھیڑ میں ایک بھی شخص انہیں بچانے والا نہیں تھا لیکن پہلگام میں مقامی مسلمانوں نے سیاحوں کی جان بچانے کے لیے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جان کی قربانی تک دی ہے۔ان حقائق کو ٹھوس اور سنجیدہ انداز میں پیش کریں۔نپے تلے انداز میں بات کریں۔مرعوب نہ ہوں اور پلوامہ اٹیک کی طرح جذباتیت میں بہہ کر جگ ہنسائی کا سامان نہ بنیں۔مسلمان ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہیں لیکن دہشت گردی کے نام پر پچیس کروڑ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم ہر گز قابل قبول نہیں ہے۔

25 شوال 1446ھ
24 اپریل 2025 بروز جمعرات

Loading

Leave a Comment