جشن عید میلاد النبی احادیث و تاريخ کے آئینے میں!
محمد روشن رضا المصباحي الأزهري
بحمده تعالى تقدس
اللہ رب العزت کا بے پایاں شکرو احسان ہے کہ اس نے ہمارے اوپر ایسے ایسے بیش بہا و گراں قدر نعمتیں نازل فرمائی کہ اگر ہم ان نعمتوں کو اعدادوشمار میں قید کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے جیسا کہ خود قرآن مجید اللہ میں ارشاد ہے”اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے "اور انھیں انواع و اقسام کی نعمتوں میں ایک ایسی انمول و بیش بہا نعمت عطا کیا کہ جس کے وجود میں آنے سے کائنات کی کایہ ہی پلٹ گئی، جس کے وجود نے جہاں انسان کو انسانیت کے مفاہیم و اسرار سے روشناس کرایا وہیں ان کے اذہان و افکار کو دیگر معبودان باطل سے مبذول کرکے ذات خداوندی پر مرکوز فرمائی، جس کے معرض وجود میں آنے سے جہاں بنی نوع آدم اخلاق حسنہ کا مجسم بنی وہیں اس کے اوپر سے جہالت و ضلالت کے پڑے ہوئے دبیز پردہ کو بھی ہٹایا اور نور علم و رشد وہدایت کے شاہراہ پر گامزن بھی کیا، آخر وہ کون سی نعمت ہے جو خلاق اکبر کے سارے انعامات خداوندی سے مہتم بالشان ہے؟؟؟ تو قرآن مجید نے خود اس کی عقدہ کشائی کی اور ارشاد باری ہوا کہ”درحقیقت اللہ نے مومنوں کے اوپر انھیں میں سے رسول بھیج کر بہت بڑا احسان فرمایا "تو جب ہمیں اتنی بڑی نعمت سے سرفراز کیا گیا تو ہمیں ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا گیا کہ” اگر تم اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر بجا لاؤگے تو ہم ان نعمتوں میں اضافہ کردیں گے "تو ان آیات قرآنیہ سے ہمیں اللہ کی نعمتوں پر شکر بجالانے پر زیادتی نعمت کی بشری سارہ بہ زبان قرآن سنائی گئی وہیں پر کفران نعمت کے ارتکاب پر سلب نعمت کی تہدید و وعید کا مستحق بھی ٹھہرا گیا.
تو آخر ہم کس انداز میں شکر بجالائیں اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟؟؟ تو قرآن نے پھر اس کی طرف رہبری فرمائی اور ارشاد باری ہوا "اپنے رب کی نعمتوں کا خوب چرچا کرو”
دوسرے مقام پر اللہ نے ارشاد فرمایا :اپنے رب کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشیاں مناؤ.
تو رحمت کون ہے؟ کس نعمت کو رحمت کہا گیا ہے؟ تو اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو پوری دنیا کےلیے رحمت قرار دیا. چنانچہ ارشاد ہوا.
وما ارسلنك إلا رحمة للعالمين.
ہم نے اپنے محبوب کو ساری کائنات کے لیے رحمت بنا کر بھیجا.
جب حضور کی ذات ساری دنیا کے لیے رحمت ہے اور رحمت خداوندی پر خوشیاں منانے کا حکم دیا گیا تو اب ہم امت نبی رحمت کیوں نہ خوشیاں منائیں.؟
حضور اکرم، نور مجسم، محسن انسانیت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت طیبہ کے حوالے سے بطور وثوق جماہیر مورخین کا موقف یہ ہے کہ آپ کی ولادت ١٢/ربیع الاول شریف کو ہوئی۔ جیسا کہ علامہ امام قسطلانی وفاضل زرقانی رحمہم اﷲ فرماتے ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ حضور پرنورﷺ بارہ ربیع الاول بروز پیر کو پیدا ہوئے
علامہ ابن خلدون علیہ الرحمہ جو علم تاریخ اور فلسفہ تاریخ میں امام تسلیم کئے جاتے ہیں بلکہ فلسفہ تاریخ کے موجد بھی یہی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں حضورﷺ کی ولادت باسعادت عام الفیل کو ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہوئی، (بحوالہ: تاریخ ابن خلدون ج، ٢،ص ٧١٠)
سیرت نبوی پر سب سے پہلی معتمد و مستند کتاب "سیرۃ النبویۃ لابن ھشام” میں امام محمد بن اسحق سے اپنی السیرۃ النبوۃ میں رقم طراز ہیں۔ حضور اکرم نور مجسمﷺ بروز سوموار بارہ ربیع الاول کو عام الفیل میں پیدا ہوئے (السیرۃ النبوۃ ابن ہشام ،جلد اول، صفحہ نمبر ١٧١،)
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت طیبہ کے موقع پر محافل و مجالس کا انعقاد اور فرحت و انبساط کا اظہار، آپ کے شمائل و خصائص کا چہار دانگ عالم میں اعلام یہ سب بدعات و منکرات سے ہیں؟؟؟
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پر مسرت موقع پر محافل و مجالس و اذکار و اوراد و فرحت و انبساط کا اظہار صرف امر مستحب ہی نہیں بلکہ خود صاحب میلاد علیہ التحیۃ والثنا و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سنت ہے،قرون اولیٰ کے اجلہ فقہا، محدثین، مفسرین، مورخین رضی اللہ عنہم کےاعمال و ارشادات کی اتباع ہے.
جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے :حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے دن روزہ رکھنے کے حوالے سے استفسار کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا "ذاك يوم ولدت فيه ويوم بعثت أو أنزل علىّ فيه” (صحيح مسلم، ج، ١ص،٢٦٢)اس حدیث كی تشریح میں علامہ ابن حجر العسقلاني رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ” حضور علیہ السلام نے اپنی ولادت کے دن روزہ رکھ کر اپنی امت کو یہ پیغام دیا کہ تجدید نعمت پر بارگاہ جل وعلا میں امتنان و تشکر کے ہدایا پیش کیے جائیں” اور آج ہم سب آپ کی سنت کی اتباع میں ہر بارہ ربیع الاول کو روزہ رکھتے ہیں اور جگہ جگہ محافل و مجالس منعقد کرکےآپ کے شمائل و خصائص سے لوگوں کو روشناس کراتے ہیں اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر شب خون مارنے والے بہروپیوں کا اصلی چہرہ لوگوں کے سامنے پیش کر کے انھیں بے نقاب کرتے ہیں.
اور سنن بیہقی، سنن الکبری میں روایت موجود ہے کہ "عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة” حضور علیہ السلام نے بعثت کے بعد اپنی طرف سے عقیقہ فرمایا” جب کہ آپ کے دادا عبدالمطلب نے آپ کی ولادت کے بعد عقیقہ کردیا تھا اور عقیقہ بار بار نہیں ہوتا حضور علیہ السلام کا اپنی ولادت کی تاریخ کو دوبارہ عقیقہ کرنا احتفال بالمولد کی بیّن دلیل ہے. اور عہد صحابہ میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی جشن و مسرت کا اظہار کرتے تھے چنانچہ حضرت کعب الأحبار رضی اللہ عنہ بارہ ربیع الاول کے دن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ کے پاس تشریف لائے اور حضور علیہ السلام کے صفات متمیزہ و سمات عالیہ کے حوالے سے گفتگو فرمائی ".
اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مرویات میں سے ہے، آپ فرماتے ہیں کہ ہم چند صحابہ کرام مسجد نبوی کے قریب حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے اور ہم اللہ کی حمد و ثنا کر رہے تھے اسی دوران رحمت عالم، نور مجسم کا وہاں سے گزر ہوا تو آپ نے پوچھا:ما أجلسكم؟آپ لوگ یہاں کس لیے بیٹھے ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا :یا رسول اللہ! ہم کو اللہ نے جو دین اسلام کی ہدایت دی ہے اور آپ کے صدقے ہمیں کفر و ضلالت کی تاریکی سے نکال کر نور ہدایت کی شاہراہ پر گامزن فرمایا :اور آپ کو بھیج کر ہمارے اوپر جو احسان فرمایا اسی نعمت کا ہم شکریہ ادا کرنے کے لیے بیٹھے ہیں. الخ.
یہ حدیث اس بات کی غمازی کر رہی ہے مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت محافل و مجالس کا انعقاد کرکے آپ کی تعلیمات و اخلاق سے لوگوں کو روشناس کرانا سنت صحابہ ہے. اور آج ہم اسی سنت پر عمل کرتے ہیں تو بدعت کہاں سے ہوگئی؟؟
اس عہد کے بعد تویہ عمل محمود اس قدر عروج پایا کہ بلاد عرب و عجم کے ہر ہر خطہ میں بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ محافل کا انعقاد ہونے لگا اور عشاق نبی اس مبارک موقع پر اپنے گھروں کو چراغاں کرنے اور غربا و مساکین پر تصدق و ہدایا کرنے کو باعثِ افتخار تصور کرنے لگے.
الغرض اس عمل خیر کا ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا کہ تمام محققین و محدثین و مورخین وحفاظ کی عبارات اس کے ثبوت پر دال ہیں جیسا کہ امام جلال الدین السیوطی، "حسن المقصد في عمل المولد” میں اور حافظ ابن کثیر نے "سبل الھدی والرشاد فی سیرۃخیر العباد” میں اور حافظ ابن ناصر الدین الدمشقي نے اپنی کتاب "مورد الصاوي فی مولد الھادی” میں اور علامہ الشیخ محمد بن عمر بحرق الحضرمي الشافعي نے اپنی کتاب "حدائق الانوار ومطالع الأسرار” میں فرماتے ہیں :”مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر فرحت و انبساط کا اظہار کرنا اوراد و اذکار کے محافل کا انعقاد کرنا و اپنے اہل و عیال پر وسعت کرنا صرف جائزہی نہیں بلکہ صاحب عمل کو ثواب و اجر عظیم کی بشارت عظمی بھی سنائی گئی. اور علامہ ابن جوزی نے ارشاد فرمایا "حرمین شریفین و مصر و عراق وشام کے مسلمانوں کا یہ عمل رہا ہے کہ ہمیشہ سے مولد النبی کے موقع پر محافل حمد و نعت و اوراد و وظائف کا اہتمام کرتے ہیں بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عقیدتوں کا خراج پیش کرتے ہیں.
ان سارے اقوال و افعال و شواہدات کے ہوتے ہوئے احتفال میلاد النبی کو بدعت و غیر شرعی قرار دینا تاریخ اسلام کا سب سے بڑا جھوٹ ہے. اور آج کچھ بڑی جسارت کے ساتھ کہتے ہیں کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عید کہنا بھی درست نہیں ہے کیوں اسلام میں صرف دو ہی عید ہیں.
میں کہتا ہوں عید نام ہے انعام خداوندی پر کسی مخصوص دن میں خوشی منانے کا جیسا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی قوم نے آپ سے کہا کہ آپ رب سے دعا کریں کہ "وہ ہمارے اوپر آسمان سے ایک دسترخوان نازل فرمائے جو ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے عید کا دن ہوجائے” تو اب میں انھیں دعوت فکر دیتا ہوں کہ ذرا جہالت کی چادر اتار کر غیر جانبدارانہ طور پرغور کریں کہ جس دن آسمان سے ایک دسترخوان کا نزول ہو تو وہ دن عید ہوجائے اور جس دن مالک کائنات، تخلیق وجہ کائنات اس خاک دان گیتی پر تشریف لائے وہ دن عید کا دن نہیں ہوسکتا؟ اور ان کے اس اعتراض کا دوسرا جواب یہ ہے جس کو امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے مسند احمد بن حنبل میں نقل فرمایا ہے. ایک یہودی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہتا ہے کہ اے عمر بن الخطاب! آپ لوگوں کے پاس ایک آیت ایسی ہے کہ اگر وہ آیت ہمارے پاس ہوتی تو جس دن یہ آیت نازل ہوتی ہم اس دن کو عید بنا لیتے تو عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا. کون سی آیت ہے؟ تو اس نے کہا :”اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا "یہ ہے وہ آیت کریمہ. جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس بات کو سنا کو تو آپ نے فرمایا.فقال عمر: والله إني لأعلم اليوم الذي نزلت على رسول الله ﷺ، والساعة التي نزلت فيها على رسول الله ﷺ: عشية عرفة في يوم جمعة.”
ترجمہ :قسم خدا کی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ آیت کس دن اور کس جگہ نازل ہوئی ہے، وہ عرفہ کا دن تھا اورحسن اتفاق کہ اس دن جمعہ کا دن تھا،اور شام کے وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ہے.
پھر آگے فرماتے ہیں،” قد اتخذنا ذالك اليوم عيدا. واجتمعت فيه عيدين، يوم الجمعه ويوم عرفة "اور ہم نے اس دن کو عید مان لیا ہے اور اس دن صرف ایک عید نہیں بلکہ دو دو عیدیں تھیں، ایک یوم جمعہ، وہ بھی عید ہے اور دوسرا یوم عرفہ وہ بھی ہمارے لیے عید کا دن ہے. تو اس روایت سے واضح ہوگیا کہ اسلام میں فقط دو ہی عید نہیں بلکہ دور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی میں چار عیدیں تھیں، اب اگر ہم یوم ولادت سبب تخلیق کائنات کو عید کے دن کے نام سے موسوم کریں تو اس میں دوسروں کو تکلیف کیوں ہوتی ہے؟؟
اور علامہ ابن رجب حنبلی اپنی کتاب "لطائف المعارف” میں فرماتے ہیں کہ امت مسلمہ کو چاہیے کہ مولد النبی کو عید کا دن بنائیں اور عید جیسی خوشی کا اظہار کریں کیونکہ روئے زمین پر اس ذات سے بڑی کوئی نعمت ہی نہیں ہے. اور جو لوگ اس امر مستحسن کو بڑی طمطراقیت سے از قبیل بدعات و منکرات گردانتے ہیں خود کے ان عظیم روحانی پیشوا "ابن تیمیہ” نے اپنی کتاب "اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفۃ أصحاب الجحيم” میں رقم طراز ہیں "میلاد شریف کی تعظیم کرنا اور اسے شعار بنالینا جیسا کہ بعض لوگوں کا یہی عمل ہے اور اس میں اس کے لیے اجر عظیم بھی ہے کیونکہ اس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم بھی ہے، جیسا کہ پہلے میں نے بیان کیا کہ ایک امر بعض لوگوں کے نزدیک اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں”(اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفۃ أصحاب الجحيم، ص، ٤٠١)اور ان کے علاوہ دیگر اکابرین علمائے دیوبند کا بھی موقف یہ ہے کہ میلاد النبی کی مناسبت سے خوشی کا اظہار کرنا باعث اجر و ثواب ہے جیسا کہ مفتی رشید احمد لدھیانوی اپنی کتاب "احسن الفتاوى” میں اور مفتی مظہر اللہ دہلوی نے اپنے فتاوے "فتاوی مظہری” میں اس عمل کو صرف مستحسن ہی نہیں بلکہ باعث اجر عظیم قرار دے رہے ہیں. اب جو لوگ اس امر کو بدعت کہتے ہیں انھیں چاہیے کہ پہلے اپنے اکابرین پر ضال ومضل کا فتوی صادر فرمائیں.
ساتھ ہی میں اپنے عوام اہل سنت سے یہ التماس کروں گا کہ آپ اس دن اپنے قرب و جوار کے مفلوک الحال و غربت وأفلاس کی چکی میں پس رہے ان نادار لوگوں کی بارگاہ میں تصدق و ہدایا کے گلدستے پیش کریں کیونکہ آپ کا گھر انواع و اقسام کے مصابيح و قمقموں سے منور ہو اور آپ کا پڑوسی نان شبینہ کا محتاج ہو، اس کے بچے کھانے کو ترستے ہوں تو ایسے عمل سے آمنہ کا لعل کبھی خوش نہیں ہوگا. کیوں کہ اسی نبی نے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر دنیا میں کوئی عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ ہے بھوکوں کو شکم سیر کرنا.
اور اپنی قوم کے نوجوان نسل کو یہ انتباہ کروں گا کہ آپ اس دن میں خوب خوشیاں منائیں مگر یہ واضح رہے کہ آپ کا یہ عمل کسی کے عمل میں رکاوٹ نہ بنے، کسی کے جان و مال کے اتلاف کا سبب نہ ہو، آپ حدود شرع کا پاس رکھیں اور مولد النبی علیہ التحیۃ والثناء کے فیوض و برکات سے شادکام ہوں.
محمد روشن رضا المصباحي الأزهري
رکن: رضوی دارالافتاء، رام گڑھ
Like this:
Like Loading...
Related