قربانی یعنی چہ!

قربانی یعنی چہ!

صابررضامحب القادری نعیمی غفرلہ کشنگنجوی


اے مسلمان سن یہ نکتہ درس قرآنی میں ہے
عظمت اسلام ومسلم صرف قربانی میں ہے

قربانی کے اصل معنی تقرب اور نزدیکی کے ہیں باری تعالیٰ کی قربت اور نزدیکی کا ایک اہم ذریعہ قربانی ہے خواہ وہ جان و مال کی قربانی ہو یا نفس وقت دیگر اشیائے عزیز کی قرآن حکیم میں اس کے لیے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں؛ نسک. نحر۔ اور قربانی ۔ نسک کے معنی ہیں زاہد بننا عبادت کرنا نذر ماننا اور قربانی کرنا نحر کے معنی ہیں جانور ذبح کرنا اور قربانی کے معنی تقرب الی ﷲیہ تینوں الفاظ بتارہے ہیں کہ قربانی کے عمل سے بندہ کے اندر وہ روح اور جذبہ پیدا کرنا مقصود ہے جس سے بندہ اپنے رب کا عرفان حاصل کرسکے اور اپنے اندر زہد کا ملکہ پیدا کرسکے اور زندگی کے اندر رب کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جذبہ ایثار کی رمق پیدا ہوسکےقربانی کا یہ مفہوم اپنے اطلاق کے اعتبار سے عام ہے اور زمان ومکان کے قید سے ماورا ہے مگر خاص ایام نحر میں ;جو دسویں ذی الحجہ سے تیرہویں ذی الحجہ کی شام تک محیط ہے؛ یہ خاص حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے حدیث شریف میں ہے سنت ابیکم ابراہیم؛ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے (ابن ماجہ)

سبق: حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام یہ دونوں باپ اور بیٹے جلیل القدر انبیاء و رسل میں سے ہیں خاتم الانبیاء و المرسلین سید عالم ﷺ ان کی صلبی اولاد میں سے ہیں :قربانی ہر اس مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو عاقل بالغ مقیم صاحب نصاب ہو قربانی کے وجوب اور اس کے متعلقات پر گفتگو سے قبل ذرا قربانی کا پس منظر بھی دیکھ لیں تاکہ قربانی کا مقصد و مفہوم سمجھنے میں آسانی ہورب کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس قوم میں انکھ کھولی جو اصنام پرست تھی آپ کو اس قوم کی بے راہ روی اور اصنام پرستی پر بڑا رنج ہوا۔قرآن مجید میں ہے:وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةًۚ-اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(انعام۷۴)اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تم بتوں کو خدا بنائے ہو بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں اور ایک مقام پر ان الفاظ میں ہے:إِذۡ قَالَ لِأَبِیهِ وَقَوۡمِهِۦ مَاذَا تَعۡبُدُونَجب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا تم کیا پوجتے ہو۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت حق اور ان کے معبودان باطلہ کے خلاف اظہار نفرت کے بنا پر لوگ سخت برھم ہوئے اور آپ کے خلاف محاذ آرائی کی قَالُوا ابۡنُوۡا لَهٗ بُنۡيَانًا فَاَلۡقُوۡهُ فِى الۡجَحِيۡمِ (صافات ۹۷) بولے اس کے لیے ایک عمارت بناو پھر اسے بھڑکتی آگ میں ڈال دو؛سب نے مل کر ایک ایسی عمارت بنائی جس کی لمبائی ۳۰گز اور چوڑائی ۲۰گَز تھی اس میں آگ بھڑکائی گئی اور رب کے خلیل کو نذر آتش کردیا گیا قدرت کو یہ سب کب منظور تھا کہ اس کے خلیل پر آگ اثر انداز ہو حکم ہواقُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ(۶۹)ہم نے فرمایا اے آ گ ہو جا ٹھنڈی اور سلامتی ابراہیم پر؛ حکم پاتے ہی آگ گل خنداں ہوگئی  ؎

بے خطر کود پڑے آتش نمرود میں عشق
عقل تھی محو تماشا ئے لب بام ابھی
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

اس دور کا بادشاہ نمرود بن کنعان تھا جس نے ظلم کی انتہا کررکھی تھی اس کو اپنی خدائی کا دعویٰ تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے دعوی الوہیت کے خلاف صدا لگائی اور اپنے اس دعویٰ سے باز آنے کی تلقین فرمائی رب کے خلیل نے مناظرہ فرمایا اور نمرود کو شکست و ہزیمت اٹھانی پڑی لیکن یہ انا کا مسئلہ تھا جس کو نمرود نے مبہوت ہوکر بھی تسلیم نہ کیانمرود کے ظلم و جبر سے تنگ آکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارادہ ہجرت فرمایا وَ قَالَ اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ(صافات۹۹)اور کہا میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں اب وہ مجھے راہ دے گا۔ہجرت کرکے ملک شام پہونچے تو دل میں اولاد صالح کی تڑپ پیدا ہوئی اور آپ نے دعا فرمائی رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰۰)
الٰہی مجھے لائق اولاد دے؛ اس فریاد وطلب کے جواب میں بارگاہ ایزدی سے آواز آئی فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(صافات۱۰۱) ہم نے اسے خوش خبری سنائی ایک عقل مند لڑکے کی؛حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام آغوش مادر میں جلوہ گر ہوئے بیٹے کی آمد پر کتنی خوشی ہوتی ہے وہ ظاہر ہے تقاضات فطرت کے مطابق رب کے خلیل بھی بہت شاداں و فرحاں تھے ایام شیر خوارگی ہے مشیت ایزدی نے پکار کر کہا اسماعیل کو ان کی ماں سمیت وادی غیر ذی ذرع میں چھوڑ آؤ آپ نے ایسا ہی کیا اور کہا رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِۙاے میرے رب میں کچھ اپنی اولاد ایک نالے میں بسائی جس میں کھیتی نہیں ہوتی۔حالات نے کروٹ لی ایک دن ایسا آیا کہ یہ آنکھوں کا نور دل کا سرور لخت جگر عصائے پیری بن کر باپ کے کام آسکیں قدرت نے قربانی کا حکم دیا فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ ٱلسَّعۡیَ قَالَ یَـٰبُنَیَّ إِنِّیۤ أَرَىٰ فِی ٱلۡمَنَامِ أَنِّیۤ أَذۡبَحُكَ فَٱنظُرۡ مَاذَا تَرَىٰپھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہو گیا فرمایا اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کے میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے؛

سبق: مشورہ کرنا جہاں سنت ربانی سنت مصطفوی ہے وہیں سنت ابراہیمی بھی ہےاس لیے ہمیں معاملات میں مشورہ کرنا چاہئیے خواہ وہ بڑے سے ہو یا پھر بڑا چھوٹے سے اور درست صحیح مشورہ پر سر نیاز خم کرنا یہ سنت اسماعیلی ہے:بیٹے نے اطاعت و فرماں برداری صبرو رضا بندگی اور خود سپردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھلے لفظوں میں اعتراف کیا اور کہا یَـٰۤأَبَتِ ٱفۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُۖ سَتَجِدُنِیۤ إِن شَاۤءَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلصَّـٰبِرِینَ اے میرے باپ کیجئے جس کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے؛

فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھاتے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

رب کے خلیل بیٹے کی رضا مندی پاکر مقام منی کے اور چل دئیے راہ میں شیاطین حائل ہوکر ہرممکن جتن کرتے رہے کہ جیسے بھی ہو امر خداوندی کی بجا آوری سے انہیں روکا جائے لیکن شیطان ان دونوں کے پائے استقامت کو متزلزل کرنے سے ناکام رہا قیامت تک حج وعمرہ کرنے والے مسلمانوں کے ہاتھوں کنکر پتھر کھانا شیطان کا مقدر بن گیا؛بالآخر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کی گردن پر تیز چھری رکھ دی قدرت نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچا لیا اور جنت سے مینڈھا بھیج کر اپنے خلیل کی قربانی کے قبول و منظور ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی اور قیامت تک کے لئے اسے صفحۂ گیتی پر بقائے دوام عطا فرما دی اور حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح ﷲ کے منفرد اعزاز واکرام سے نوازدیا

سبق: پتہ چلا کہ راہ ہدایت اور رب کی مشیت پر عمل کرنے سے شیطان بندوں کو روکنے کی جاں توڑ کوشش کرتا ہے اور جب شیطان انبیاء و رسل کا تعاقب کرسکتا ہے تو ہم کیا اور ہماری حقیقت کیا بس یہ دیکھا جائیگا کہ ہم اپنے معبود دین وشریعت کے حوالے سے کتنے مخلص ہیں اگر واقعی مخلص ہیں تو پھر شیطان کو یہاں بھی ناکام ہونا پڑیگا اس لیے مخلص بندوں پر وہ اپنا داو وپیچ نہیں چلا سکتا:قارئین جب ہم حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی قرآن وآحادیث کتب سیر وتاریخ کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو قدم قدم پر ابتلاء و آزمائش اور قربانیاں نظر آتی ہیں؛نذر آتش کردیا جانا؛ وطن عزیز سے ہجرت کرنے پر مجبور کرنا؛ نمرود سے مناظرہ؛ اکلوتے فرزند کا بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ آنا ؛ عین عالم پیری میں وادی منی جاکر اپنے اکلوتے جواں سال پیارے بیٹے کی گردن پر تیز چھری چلانا؛ مخلوق کی منفعت کے لیے بیت حرم کی تعمیر؛ اس طرح کی بے شمار حیرت انگیز ایمان افروز قربانیوں سے آپ کی زندگی کا لمحہ لمحہ محتوی ہے؛ایک اہم سبق جس کا ذکر یہاں ازحد ضروری ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام ہمیشہ پاک صلبوں سے پاک رحموں میں منتقل ہوتے رہے ہیں قرآن حکیم میں آزر کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اب ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے جبکہ حقیقی معنی میں اب نہیں ہیں آپ کے چچا ہیں علامہ جلال الدین سیوطی نے مسلک الحنفاء میں ایسا ہی لکھا ہے چچا کو اب کہنا تمام ممالک میں معمول ہے بالخصوص عرب میں اس کی مثال قرآن پاک میں موجود ہے:قَالُوا۟ نَعۡبُدُ إِلَـٰهَكَ وَإِلَـٰهَ ءَابَاۤىِٕكَ إِبۡرَ ٰ⁠هِـۧمَ وَإِسۡمَـٰعِیلَ وَإِسۡحَـٰقَ إِلَـٰهࣰا وَ ٰ⁠حِدࣰااس میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حضرت یعقوب علیہ السلام کے آباء میں ذکر کیا گیا ہے باوجودیکہ آپ عم چچا ہیں حدیث شریف میں ہے سید عالم ﷺ نے حضرت عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو اب فرمایا چنانچہ ارشاد ہوا رُدّو علیّ ابی ؛ یہاں ابی سے مراد حضرت ابن عباس ہیں (تفسیر خزائن العرفان )حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ ہے جو کتب تفسیر میں موجود ہے

قارئین! اس پس منظر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قربانی کی کتنی اہمیت ہے اور یہ ہماری ایک قربانی کے دامن میں کتنی قربانیاں مضمر ہے اس لئے قرآن و احادیث میں اس کی بڑی تاکید آئی ہےفَصَلِّ لِرَبِّكَ وَٱنۡحَرۡ اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو اور باری تعالیٰ اپنے بندوں سے قربانی کے وقت یہ اقرار کرواتا ہے:قُلۡ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُكِی وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِینَبے شک میری نماز اور قربانی میری زندگی اور میری موت رب العالمین کے لئے ہےجس کا کوئی شریک نہیں مجھے اسی کا حکم دیا گیا اور میں مسلمان ہوں اور پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات با برکت اس سلسلے میں قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتی ہے آپ نے خود بھی قربانی کی اور اپنے غلاموں کو بھی اس کی تاکید فرمائی حدیث پاک میں ہے جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے(ابن ماجہ)
اور قربانی کی ترغیب دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ تبارک و تعالٰی کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ پسند نہیں وہ جانور جس کی قربانی دی گئ قیامت کے دن اپنی سینگ بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر پڑنے سے پہلے خدا کے نزدیک مقام قبول کو پہنچ جاتا ہے لہذا اسے خوش دلی سے کرو(ترمذی شریف)معلوم ہوا کہ قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے اس کے مقاصد بہت ہیں لیکن سب سے اہم مقصد یہ کہ امت مسلمہ میں جزبۂ ایثار پیدا ہو اور اس کے ذریعے صلح رحمی اور غریبوں کی خبر گیری کا احساس پیدا ہو جائے اسی لئے حکم ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصے میں تقسیم کئے جائیں (۱) خود کے لئے (۲) اعزو و اقرباء کے لئے (۳) غرباء ومساکین تین خانوں میں بانٹنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے اپنی ساری امت کو مساوی اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں اور یاد رہے کہ بغیر جذبۂ ایثار وصلہ رحمی کے کوئی معاشرہ کوئی تحریک کوئی قوم کوئی خاندان کوئی ملک ترقی پذیر نہیں ہو سکتا اور اس کے بغیر اتحاد و یکجہتی خوشحالی ممکن نہیں جس قوم میں جتنی اجتماعیت اور جتنا زیادہ جذبۂ ایثار موجود ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ ترقی پذیر ہوگی۔
عید قرباں میں احباء و اقرباء غرباء کو اپنی شادمانیوں میں شامل کرنے سے ملی اتحاد کا جذبہ فروغ پاتا ہے ایک دوسرے کی تئیں ہمدردی اور ایثار کی خوبی پیدا ہوتی ہے عرفان خدا اور تقرب الی اللہ کی توفیق مرحمت ہوتی ہے انفاق فی سبیل اللہ کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں قربانی کے ذریعہ انسان عملی طور پر خود کو اس بات کا شاہد بناتا ہے کہ آج ہم رب کے حکم سے جانوروں کی قربانیاں پیش کررہے ہیں اگر ہمیں رضائے مولیٰ کی خاطر اپنی جان پیش کرنا پڑے تو کوئی پس وپیش نہ ہوگا اور یہ بھی عہد ہے کہ ہمارا کوئی بھی قدم شریعت کے منافی نہ ہو اور اپنی ہر خواہش ومفاد پر خدا ومصطفیٰ اور دین وشریعت کو مقدم رکھیں۔
قارئین یہ سارے اوصاف وہ ہیں جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی روشن سیرت مبارکہ سے ہمیں ملے ہیں یہ ایک قربانی ان کی تمام قربانیوں سے آراستہ ہے اس لیے یاد رہے کہ صرف خون بہانا قربانی کا مقصود نہیں بلکہ اس کے ذریعہ حضرت خلیل کی سیرت مبارکہ کا عرفان مقصود قربانی ہے اور اس میں امت مسلمہ کے لیے سبق نہیں اسباق موجود ہیں اگر ہم ان اسباق پر عمل کرنے میں کامیاب ہیں تو سبحان ﷲ ورنہ…………………….

جب تک ابراہیم کی فطرت نہ ہو پیدا
قربانی بھی آزر ہے عبادت بھی نمرود


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔

مزید پڑھیں:

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

مدینہ

نعت خوانی کے شرعی آداب

۔ نعت گوئی کی تاریخ کو کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا البتہ یہ کہا جا سکتاہے کہ نعت گوئی کا سلسلہ ازل سے شروع ہوا اور ابد تک جاری رہے گا۔ آپﷺ کی آمد سے قبل بھی  آسمانی صحیفوں اور کتب میں آپ ﷺکی آمد کی بشارتیں اور اوصاف حمیدہ درج ہیں۔ خود رب قدیر نے قرآن مجید میں مختلف انداز میں آپﷺکی شان (نعت) بیان فرمائی ہے۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔