الرضا نیٹورک پر شائع :جاوید اختر بھارتی کی تحریر
’’کتنا درست ہے حسب ونسب کا نشہ۔۔۔‘‘
کاتنقیدی جائزہ
قسط(۱)
تحریر: محمد فیضان رضا علیمی سیتامڑھی
مدیر اعلی سہ ماہی پیامِ بصیرت
faizanrazarazvi78692@gmail.com
قلم کی طاقت و قوت اپنی جگہ مسلم ہے یہی وہ قلم جس سے انسان پوری دنیا میں بسنے والے انسان اور قیامت تک آنے والے لوگوں تک اپنی بات اور ذہن و فکر میں موجود مواد کو صفحۂ قرطاس پر لا کر پیش کر سکتا ہے۔ لیکن اس قلم کی ایک خاصیت یہ بھی کہ جیسا کردار و عمل، سوچ و فکر اور دین و مذہب کا آدمی ہوتا ہے ویسا ہی مضمون و مقالہ زیرِ ورق کرتا ہے۔ جناب جاوید اختر بھارتی کس طبقہ و فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں، کیسی سوچ و فکر کے متحمل ہیں، کتنی تعلیم و تربیت سے پر ہیں یہ سب تو مجھے نہیں معلوم البتہ یکم ستمبر 2021ء کوان کا ایک دل خراش مضمون " کتنا درست ہے حسب و نسب کا نشہ؟ محض اعلی نسب ہونے پر گھمنڈکس لیے؟ ”
https://alrazanetwork.com/%d9%86%d8%b3%d8%a8/
جو الرضا نیٹورک روزنامہ ویب سائٹ پر اور دیگر اخبار میں شائع ہوا ۔ یہ مضمون ان کی سطحیتِ ذہن اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اطہار، سید زادوں سے دشمنی اور نفرت کا پتہ ضرور دیتا ہے۔
مضمون کا ہڈینگ تو اس قدر دل چسپ ہے کہ اولِ نظر میں نہ چاہ کر بھی مضمون پڑھنے کا دل کرنے لگتا ہے۔ مضمون میں جناب بھارتی صاحب نے خوب الفاظ کے پیراہن میں سید زادوں کو کھری کھوٹی سنائی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ حسب و نسب کوئی چیز نہیں اورعزت و شرافت، مقام و مرتبہ سید ہونے پر نہیں بلکہ متقی ہونے پر ہے۔ اور اپنے دعوی کی دلیل میں آیت قرآنی اور اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پیش کیا اور بار بار غیر مقلد کی طرح قرآن حدیث کا مطالبہ کیا۔ بندہ ناچیز نے جب سے مضمون پڑھا تب سے ہی دل مضطرب ہوگیا کہ اس قدر اعلی نسب ذات اطہر پر بے وجہ کا تبصرہ کیا جارہا ہے۔ پہلے تو الرضا نیٹورک کے ایڈیٹر محب گرامی مولانا احمد رضا صابری مصباحی صاحب سے کہا کہ ان کا مضمون قابل اشاعت نہیں ہے آپ نے کیسےشائع کردیا میرا ارادہ ہے کہ اس کی تردید کی جائے انہوں نے کہا آپ لکھیے میں شائع کروں گا ۔میں نے ان کی سابقہ تحریروں پر اعتماد کرتے ہوئے شائع کردیا ہے یہ میری غلطی ہے۔اگر انہوں نے کچھ غلط لکھا ہے تو آپ اس کا دلائل سے رد کریں میں اسے بھی ضرور شائع کروں گا۔ بندہ ناچیز آل رسول کی جوتوں کے نیچے کے گرد کا متمنی ہو کر بھارتی صاحب کی تحریر کا تنقیدی جائزہ پیش کر رہا ہے۔
محرر صاحب اپنی تحریرکا آغاز اس جملے سے کرتے ہیں ” قرآن مقدس ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کر رہا ہے کہ اے لوگوں ہم نے تمہیں ایک مرد ایک عورت سے پیدا کیا،، تم سب آدم و حوا کی اولاد ہو،،۔۔۔۔۔۔۔ باقی پوری آیت کا ترجمہ ہے” اس کے بعد موصوف نے نہ تو اس آیت کا شان نزول بیان کیا اور نہ کوئی تفسیر کی کتابوں سے ایک تفسیر ہی کیا بلکہ اپنی من پسند اور مطلب کی بات پر اکتفا کیا۔ جسے کچھ حد تک درست بھی مان لیا جا سکتا ہے۔ کہ وہ لکھتے ہیں ” اب ظاہر سی بات ہے صرف موڑنے والا متقی نہیں، صرف گٹھی دینے والا متقی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، خانقاہوں میں ڈیرہ ڈال کر زائرین کے خون پیسنے کی کمائی پر ڈاکہ ڈالنے والا متقی نہیں” یہ ایک لمبا من مانی تبصرہ ہے۔ جس سے ان کی معمولاتِ اہل سنت سے نفرت اور اولیا کرام کے مزار مقدس سے دشمنی کا پتا چلتا ہے۔ خیریہ تو ایک الگ بحث ہے۔ اسی تبصرہ کے اخیر میں وہ لکھتے ہیں کہ ” اور اسٹیجوں پر چیخ چیخ کر اپنے آپ کو سامعین سے سید تسلیم کرانے والا اور سید برادری پر گھمنڈ کرنے والا بھی متقی نہیں”
اس پر محرر صاحب سے عرض یہ ہے کہ آپ پہلے یہ پتالگائیے کہ اسٹیج پر اس طرح سے بولنے والا اصلی سید ہے یا نقلی کہ آج کل شاہ برادری کے لوگ بھی اپنے کو سید لکھتے اور لکھواتے ہیں اور شہرہ بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔ میں نے آج تک کسی نسبی سید زادوں کو نہیں دیکھا ،نہ سنا کہ وہ اسٹیجوں پر لوگوں کو یہ ترغیب دے رہے ہوں کہ مجھے سید کہوں، میں سید زادوں ہوں، میری تعظیم کرو وغیرہ وغیرہ ۔ یہ ایک جعلی اور خود ساختہ سید کا ہی کام ہے۔ اس لیے جناب ذرہ کسی چیز کی جاچ پڑتال کر لیا کریں۔
جاوید صاحب اس کے بعد خلفاے اربعہ کی ذات کا آئنہ دیکھاتے ہیںاور کچھ آگے جاکر لکھتے ہیں ” آج کل فیس بک، واٹس ایپ جیسی سوشل میڈیا پر کچھ چہرے ہیں جو گھوم گھوم کر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہماری تعظیم تمہارے اوپر واجب ہے، ہم سید ہیں۔ تو ہم آل رسول ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم لاکھوں برے ہوجائیں پھر بھی آپ کو ہمارا احترام کرنا ہے کیوں؟ اس لیے کہ ہم سید ہیں” جناب پھر میں کہ رہا ہوں کہ کوئی سید زادے اس طرح سے نہیں کہتے ہیں آپ اپنی عقل و خرد اور سوچ و فکر کو بدلیے۔
اسی کے کچھ آگے جناب نے یہاں تک لکھ ڈالا کہ "حالانکہ سید نام کی برادری زبردستی بنائی گئی ہے۔” تو اس پر عرض یہ ہے۔علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی علیہ الرحمہ اپنی تصنیف "اشرف المؤبد لاٰلِ محمد” میں لفظ سید و شریف کے متعلق لکھتے ہیں: جس کا ترجمہ صائم چشتی نے کیا ہے۔
” اہلِ بیتِ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ صورتِ اول کی اصطلاح میں لفظ اشرف کا اطلاق جمیع اہلِ بیت پر ہوتا تھا بعدازاں یہ لفظ اِن میں سے صرف حسیوں اورحسینیوں کے لیے مخصوص ہوگیا۔
امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے رسالہ زینبیہ میں فرمایا ہے قرنِ اول میں اہلِ بیت کے ہر فرد کے لیے شریف کا لفظ استعمال ہوتا تھا اور اس میں سب برابر تھے خواہ حسنی ہوں یا حسینی، علوی ہوں یا اولاد محمد بن حنیفہ ،خواہ حضرت علی کے دوسرے بیٹیوں کی اولاد ہو یا جعفری عقیلی ہو یا عباسی –
جب مصر میں فاطمین کی حکومت قائم ہوئی تو شریف کا لفظ امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہم کی اولاد تک محدود ہوگیا اور مصر میں اب تک یہی صورت ہے۔
میں کہتا ہوں مشرق و مغرب کے تمام بلادِ اسلامیہ میں اس وقت بھی عام اصطلا ح یہی ہے اور عربی زبان میں جب بھی شریف کا لفظ کہا جائے گا۔ اس سے مراد حسنی یا حسینی ہے۔
سوائے حجاز کے اکثر ملکوں میں حسنیوں اور حسنیوں پر بطور خاص لفظِ سید استعمال ہوتاہے۔ اور جب بھی لفظِ سید کہا جاتا ہے تو اولادِ حسن و حسین کے سوا دوسرا کوئی دوسرا مراد نہیں ہوتا۔ جب کہ اہلِ حجاز حسنیوں اور حسنیوں کے امتیاز کے لیے حسنی کے لیے شریف کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور حسینی پر سید کا اطلاق کرتے ہیں۔“) اشرف السادات ص: (۱۰۷
میرے خیال سے جاوید بھارتی صاحب کے اعتراض کا جواب مل گیا ہوگا۔ اور معلوم ہوگیا ہوگا۔ کہ سید اولاد رسول ہی کو کہا جاتا ہے اور یہ کوئی نیا نہیں بلکہ بہت پرانا طریقہ ہے۔ ان کے علاوہ کئی ایک دلیلیں پیش کی جاسکتی ہے۔ ضرورت پڑنے پر۔ طوالت کے خوف سے ایک پر ہے اکتفا کیا جاتا ہے۔
اب ذرہ لغات کو دیکھ لیتے ہیں کہ جناب نے لغات کا بھی تذکرہ کیا کہ "لغات میں برادری کے ناموں کے ایسے ایسے معنی تحریر کیے گئے ہیں کہ پڑھنے کے بعد بے ساختہ اور برجستہ کہا جاسکتا ہے کہ۔۔۔۔” تو دیکھیے آف لائن اردو لغت ایپ جس میں سید زادہ کا معنی اس طرح درج ہے ” سادات کی نسل، حسبی نسبی سید، سید کا بیٹا”
ایک ڈیڑھ سطر بعد جناب اپنی پرانی رویش کو دہراتے ہوئے قرآن حدیث کی بات پھر دہرانے لگتے ہیں اور لکھتے ہیں ” جب کہ قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کے خاندان کا نام سید نہیں، نبی کے فبیلے کا نام بھی سید نہیں بلکہ نبی کے خاندان کا نام بنو ہاشم اور نبی کے قبیلے کا نام قریش ہے” اس پر صرف اتنا عرض گزار ہوں صاحب کوئی سید زادے یہ نہیں کہتےکہ میرا خاندان سید ہے بلکہ سب کا یہ ماننا ہے کہ خاندانِ اہل بیت رسول کا ہر فرد ہاشمی اور قریشی ہے۔ اور آپ کی معلومات کے بتاتا چلوں کہ خاندان کا اور معنی ہے اور ذات برادری کا معنی کچھ اور ہے۔ اسی لغت کو دیکھیے جس کی آپ بات کر رہے ہیں۔
اس کے بعد موصوف نے سید کا لغوی ایک معنی بیان کیا اور اس کے بعد سید الانبیاء حضور نبی پاک صلى الله عليه و سلم، حسنین کریمین، سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہم پر لفظ سید کو سیٹ کیا جو ہر کس و ناکس کو ایک مرتبہ بتا دیا جائے تو سمجھ میں آجائے کون نہیں جانتا کہ پیارے کریم صلى الله عليه وسلم کو سید الانبیا و المرسلین اس لیے کہا جاتا ہے وہ نبیوں اور رسولوں کے سردار ہیں ، کون نہیں جانتا کہ حسنین کریمین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں اور کون نہیں جانتا کہ سیدنا امیر حمزہ شہدا کے سردار ہیں۔ لیکن اس کے بعد جناب لکھتے ہیں ” تو آج اپنے کو سید کہلانے اور فخر کرنے والا بتائیں کہ وہ کس بات کے سردار ہیں” تو صاحب ان کے سردار ہونے کے لیے اتنا ہی بہت ہے کہ وہ پیارے رسول کی اولاد ہیں۔ امام سیوطی اپنی تصنیف الحاوی للفتاوی میں لکھتے ہیں:”أن الوصایا و الأوقاف تنزل علی عرف البلد ، و عرف مصر من عہد الخلفاء الفاطمیین إلی الآن أن الشریف لقب لکل حسنی و حسینی خاصة فلا یدخلون علی مقتضی هذا العرف " اھ یعنی وصیت اور وقف شہر کے عرف کی طرف رجوع کیا جاتاہے ، اور مصر کا عرف خلفاءِ فاطمیین کے زمانے سے اب تک یہ ہے کہ سیّد بطورِ خاص ہرحسنی و حسینی کا لقب ہے پس اس عرف کا تقاضا ہے کہ دیگر اہل بیت کرام اس میں داخل نہ کئے جائیں ” اھ ( الحاوی للفتاوی للسیوطی ج 2 ص 41 دارالفکر بیروت)
آگے موصوف لکھتے ہیں ” ایک صاحب ہیں تو چیخ چیخ کر تقریر کر رہے ہیں کہ کوئی سید بڑے سےبڑاجرم کرے اور گناہ کرے تو پھر بھی تعظیم واجب ہے موصوف نے نام لے لے کر برے کاموں کو گنایا ہے اور ایسے بیہودہ کلمات ادا کیے ہیں کہ وہ ناقابل تحریر ہیں دوسرے صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ جتنے چاہیں عمل کر لیں مگر کسی سید پیروں کی جوتی کے برابر نہیں ہوسکتے بتائیے یہ گھمنڈ ہے کہ نہیں؟
اس کے تحت دو باتیں عرض ہیں:
اولاً تو یہ بات جو آپ کہ رہے ہیں اس میں آپ کتنے سچے ہیں یہ خدا ہی جانے لیکن جناب عالی ایک عالم و مولوی اگر جرم اور گناہ کی بات کرتا ہے جو ایسا نہیں کہ زنا، چوری اور کار رزیلہ کے بارے میں سرے عام باتیں کرتا ہے زیادہ سے زیادہ وہ گناہ صغیرہ کی بات کرتاہے ۔ یہ میں بھی مانتا ہوں کہ اس طرح سے باتیں نہیں کرنا چاہیے یہ خلاف ادب ہیں اور اس سے ماحول پراگندہ ہوسکتا ہے۔ لیکن جناب یہی جان لیجیے کہ ان جرم اور گناہ کی وجہ سے ان کی بدتمیزی نہیں کرسکتے ہیں۔ دیکھیے” احکام السادات” مصنف مولانا افضل قادری صاحب لکھتے ہیں :
"حجة الله على العالمین” میں احزر مفھومہ، وزیر علی بن عیسیٰ ہر سال کسی علوی سید زادے کو 5000 ہزار درہم بطور ہدیہ دیتے تھے، ایک سال ایسا ہوا کہ انہوں نے اس سید زادے کو نشے میں دھت زمین پر پڑے دیکھا، نشے میں دیکھ کر ارادہ کیا کہ آئندہ اس کو پھر نہیں دوں گا، کیوں کہ یہ تو ان پیسوں کو شراب و کباب میں خرچ کرتا ہے۔
چنانچہ اگلے سال جب وہ سید زاده وزیر علی بن عیسی کے پاس اپنا ہدیہ لینے آیا تو وزیر اس سید زادے کو سختی سے منع کیا کہ آئندہ میرے پاس مت آنا کیوں کہ تم ان پیسوں کو حرام کاموں میں خرچ کرتے ہو، یہ سن کر وہ سید زادہ تشریف لے گیا۔
رات کو وزیر علی بن عیسی نے خواب دیکھا اور خواب میں ان کونبیوں کے تاجدار صلی اللہ تعالى عليه و سلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ مگر ہائے افسوس جب وزیر نے سرکار صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کی بارگاہ میں سلام عرض کیا تو آقاے دو عالم صلی اللہ تعالی عليه وآله و سلم نے وزیر سے اپنا رخِ انور پھیر لیا، وزیر سخت بے چین و پریشان ہوا، کہ سرکار صلی الله تعالى عليه و اله و سلم مجھ سے اپنا رخِ انور پھیر رہے ہیں۔
چنانچہ دوسری جانب سے پھر سرکار صلی الله تعالى عليه واله وسلم کی بارگاہ میں آکر عرض گزار ہوا۔ یارسول اللہ صلی الله تعالى عليه واله وسلم آپ مجھ سے اپنا رخ زیبا کیوں پھیر رہے ہیں مجھ سے کیا خطا ہوئی ہے؟
نبیوں کے تاجدار صلی الله تعالى عليه و اله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”تم اس سید زادے کو اس کے کسی ذاتی کمال کی وجہ سے نذرانہ دیتے تھے یا میری نسب کی وجہ سے؟‘‘
اللہ اکبر ! مطلب کیا، مطلب صاف ظاہر ہے کہ اگر تم اس کو سید سمجھ کر خدمت کرتے تھے تو اب بھی وہ سید ہی ہے، گناہوں کی وجہ سے اس کا نسب مجھ سے منقطع نہیں ہوا، وہ میرے آل ہی میں داخل ہے، جب وہ میری اولا د ہے تو تم نے اس کا نذرانہ کیوں بند کیا۔
اعلی حضرت لکھتے ہیں ”سید اگر بد مذہب بھی ہو جائے تب بھی اس کی تعظیم نہیں جاتی جب تک اس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک نہ پہنچ جائے“
شعب الایمان میں حدیث شریف ہے۔ ”جو میری اولاد اور انصار اور عرب کا حق نہ پہچانے وہ تین علتوں سے خالی سے نہیں۔ یا تو منافق ہے یاولد الزنا ( حرامی ) یا حیضی (یعنی حیض کی حالت میں اس کا نطفہ قرار پایا)“ ( احکام السادات،ص: ۶-۷)
ان واقعات و اقوال سے آپ اپنا اندازہ لگالیجیے۔
دوم آپ یہ بتائیں کہ کس نے کہا ایک سید زادے یا کسی دوسرے عالم صاحب نے۔ اگر سید زادے نے کہا ہے تو اوپر ذکر چکا ہوں کہ اصلی سید زادے اس طرح کی باتیں نہیں کرتے ہیں اور دوسرے نے کہا ہے تو آپ کا اعتراض بےجا اور عبث ہے۔ کہ دوسرے کے کہنے کی وجہ سے خود پر گھمنڈ کا سوال ہی نہیں ہوتا۔
اگر دوسرے ان کے پیروں کی جوتی کو اپنے سر کا تاج ہکہ رہے تو یہ ان کی عقیدت ہے جو بزرگوں سے چلی آرہی ہے اس سے آپ کو تو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ہم اہل سنت کو اختلاف نہیں ہے ہم آل رسول کو اپنے سر کا تاج مانتے ہیں۔
پڑھیے ہمارے بزرگوں کا طریقہ ” حضرت شیر بیشہ اہل سنت مولانا حشمت علی خان علیہ الرحمہ کے پاس ایک سید صاحب پڑھا کرتے تھے ذہن کند تھا سبق یاد نہ ہوتا تھا، ایک مرتبہ حضرت امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی حضور ! سید کا لڑ کا اگر سبق یاد نہ کرتا ہو تو سزا دی جاسکتی ہے؟ فرمایا کیا فرماتے ہیں، سیدزادہ اور سزا ہرگز نہیں، اس پر عرض کی تو پھر نہیں پڑھے گا ، جاہل رہے گا ،فرمایا: جب مجبور ہو جائے تو یہ نیت کر لی جائے کہ سید زادے کے پاؤں میں مٹی لگ گئی ہے اسے صاف کر رہا ہوں ۔ اللہ اکبر کیسا حترام تھا۔ ( کرامات اعلی حضرت مطبوعہ کراچی ۱۹۹۵و۲۰ اقبال احمد رضوی مصطفائی )
جناب سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ فقیر اور برادرم سید قناعت علی کے بیعت ہونے پر بموقع عید الفطر بعد نماز دست بوسی کے لیے عوام نے ہجوم کیا مگر جس وقت (سید) قناعت علی دست بوس ہوئے ،اعلی حضر ت ( امام احمد رضا قادری نے ان کے ہاتھ چوم لیے، یہ خائف ( خوفزدہ ) ہوئے ، اور دیگر مقربان خاص سے تذکرہ کیا تو معلوم ہوا کہ حضور اعلے حضرت امام احمد رضا قادری کا یہ معمول ہے کہ بموقع عیدین دوران مصافحہ سب سے پہلے جو سید صاحب مصافحہ کرتے ہیں، اعلی حضر ت اس کی دست بوسی فرمایا کرتے ہیں ۔(یعنی ہاتھ چوما کرتے ہیں۔(حیات اعلی حضرت مکتبہ رضویہ کراچی ص۲۰۱) ﴿ بحوالہ حكام السادات ص: ۸۴-۸۵﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری
الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !
الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ (۲)جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مزید پڑھیں: