امام احمدرضا اورعالم اسلام کے بنیادی مسائل
صابررضا رہبرمصباحی
قومی وبین الاقوامی سطح پر آج مسلمان جن نامساعد حالات سے نبردآزما ہیں اس سے ہر حساس شخص واقف ہے ۔ ہر گام پر مسلمانوں کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ سیاسی ،تعلیمی ،سماجی ،صحافتی اور تجارتی سمیت دیگر میدانو ںمیں مسلمانوں کی خستہ حالی جگ ظاہر ہے۔ مختلف سطح پر کرائے گئے سروے کے ذریعہ بھی یہ بات سامنے آگئی ہے کہ قوم مسلم شعبہائے زندگی کے ہر گوشے میں دیگر اقوام سے بہت پیچھے ہے ۔ حالانکہ اس قوم کو یہ حالت اسے وراثت میں نہیں ملی ہے بلکہ اس کا ایک تابناک ودرخشندہ ماضی آج بھی تاریخ کے سینے میں اپنی موجودگی کا احساس دلارہا ہے ۔ دین ودنیا کی سرفرازی ،صنعت وحرفت کی سربلندی اور سائنس وتحقیق میں کامیابی مسلمانوںکا مقدرتھا ۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ آج یہ قوم پستی کے قعرِ مذلت میں جاگری ہے؟ اس چبھتےہوئے سوال کا جواب مختصر اًایک سطر میں یو ںدیاجاسکتا ہے کہ اس نے خدائی فرامین سے روگردانی کرلی اوراسلام کے ابدی دستورحیات سے ہٹ کر اپنی فلاح ونجات کی تدبیریر کرنے لگی ۔یعنی رزاق کو بھول کر تلاش میں رزق میں سرپٹ بھاگنے لگی جس کے سبب پستی وخستہ حالی نے اسے اپنا شکار بنالیا اوریہ ہونا تھاکیوںکہ قرآن مقدس کا فرمان ہے وانتم الاعلون ان کنتم مومنین یعنی تم ہی سربلند رہوگے اگر تم مومن ہو۔
عروج وزوال کی جانب آنے والی اس قوم کی خستہ حالی کو دورکرنے اور عظمت رفتہ کی بازیابی کیلئے مفکرین ودانشوران نے مختلف نظریات ونکات پیش کئے لیکن اس کیلئے جو فارمولہ مجد دین وملت امام احمدرــضا قادری محدث بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1912ء میں پیش فرمایاتھا وہ آج بھی نہ صرف ایک نسخہ کیمیا ہے بلکہ مسلمانو ںکے بنیادی مسائل میں کامیابی کا ایک زبردست لائحہ عمل ہے ۔ ہم تفصیل میں نہ جا کر اختصار کے ساتھ مسلمانوں کی فلاح وبہبودکیلئے پیش کے گئے امام اہل سنت کے ان چارنکاتی فارمولے کو پیش کریں گے ۔جن سے یہ سمجھنا آسان ہوجائے گا کہ امام احمدرضا قادری بریلوی علیہ الرحمہ محض ایک مولوی اور مفتی ہی نہیں بلکہ اپنے وقت کے دردمند مفکر ،دوربیں مدبر اور مستقبل شناس فلاسفربھی تھے اورجن کے چارنکاتی فارمولے پر عمل آج بھی مسلم قوم کو معاشی،تجارتی بدحالیوں سے نجات دلا سکتی ہے۔
1912میں جب پہلی جنگ عظیم کی ابتدائی آگ پوری دنیا کو اپنی چپیٹ میں لینے کیلئے بے چین تھی ایسے حالات میں امام احمد رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوںکو پستی سے نکالنے کیلئے بنیادی مسلم مسائل پر مشتمل ایک فارمولہ’ تدبیر فلاح ونجات واصلاح‘‘ کے نام سے پیش کیا۔جسے پہلی بار مجلس اہل سنت زکریا اسٹریٹ کلکتہ نے حضرت الحاج لعل محمد مدارسی کے اہتمام کے ساتھ شائع کیا ۔اس میں آپ نے مسلمانوں کے عائلی وملی اورسماجی مسائل سمیت دیگر اہم مسائل کے اسباب وحل پر خامہ فرسائی فرمائی ہے۔ ہم یہاں اس کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں ۔بنیادی طورپر یہ فارمولہ چارنکات پر مشتمل ہے :
پہلا:باستثنا ان معدود باتوںکے جن میں حکومت کی دست اندازی ہو، اپنے تمام معاملات (مسلمان) اپنے ہاتھ میں لیتے ،اپنے سب مقدمات اپنے آپ فیصل کرتے یہ کروڑوں روپئے جو اسٹامپ اوروکالت میں گھسے جاتے ہیں ،گھرکے گھر تباہ ہوگئے اور ہوئے جاتے ہیں ،محفوظ رہتے ۔
آپ ذرا اس پر تجزیاتی نگا ہ ڈالیے اور سوچئے کہ آج ہماری قوم مقدمات کے دلدل میں پھنس کر کس طرح اجڑتی جارہی ہے اور لاکھوںکروڑوں روپئے پانی کی طرح بہا رہی ہے ۔ہمارے اورآپ کے سامنے اس نوعیت کی متعددمثالیں موجودہیں کہ کس طرح سے مقدمہ بازی میں الجھ کر ہنستا بولتا خاندان تباہ وبرباد ہوکر رہ گیا ہے ۔ اگر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے اس مشورے پر مسلمان عمل کرلے اوراپنے مسائل کو آپس میں حل کرے توایک جانب کروڑوں روپئے کی بچت ہوگی جس سے ان کی معاشی حالت مستحکم ہوگی بلکہ مسلم سماج آپسی اتحاد اور امن وآشتی کا گہوارہ بھی بن جائے گا ۔پھرنہ عدالت کو مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا موقع ملے گا اورنہ آزادی اظہار رائے کے نام پر اسلام اورمسلمانوں پر کسی کو طنز وتنقید کا حربہ ہاتھ آئے گا۔
دوسرا:اپنی قوم کے سوا کسی سے کچھ نہ خریدتے کہ گھر کا نفع گھر ہی میں رہتا۔ اپنی حرفت وتجارت کو ترقی دیتے کہ کسی چیز میں کسی دوسری قوم کے محتاج نہیں رہتے۔ یہ نہ ہوتا کہ یورپ وامریکہ والے چھٹانگ بھر تانبہ کچھ صناعی کی گھڑت کرکے گھڑی وغیرہ نام رکھ کر آپ کو دے جائیں اوراس کے بدلے پائو بھر چاندی آپ سے لے جائیں ۔
اس میں اعلی حضرت نے مسلمانوںکی معاشی حالت کو مستحکم کرنے کیلئے ایک انوکھا نسخہ بیان فرمایا ہے اوریہ بات مسلم ہے کہ جب تک آپ کی معاشی حالت اچھی نہیں ہوگی اس وقت تک آپ کسی میدا ن میں قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دے سکتے۔ آج ہمارے درمیان کئی ایسی قومیں موجودہیں جو اس فارمولے پر عمل کررہی ہیں اورتجارتی ومعاشی سطح پر اپنی کامیابی کے پھریرے لہرارہی ہیں۔اگر مسلمان بھی اس پر عمل کرنے لگے تو کوئی سبب نہیں مسلمانوں کی ترقی کا قبلہ بدل جائے اورمسلم سماج میں معاشی انقلاب برپا ہوجائے ۔
تیسرا:بمبئی، کلکتہ، رنگون ،مدارس، حیدرآباد وغیرہ کے تونگر مسلمان اپنے مسلمان بھائیو ںکیلئے بینک کھولتے۔ سود شرع نے حرام قطعی فرمایا ہے ۔ مگر اورسو طریقے نفع لینے کے حلال فرمائے ہیں ۔ جن کا بیان کتب فقہ میں مفصل ہے اور اس کا ایک نہایت آسان طریقہ ’کفل الفقیہ الفاھم‘‘ میں چھپ چکا ہے ۔ ان جائز طریقوں پر نفع بھی لیتے کہ انھیں بھی فائدہ پہنچتا اوران کے بھائیوں کی بھی حاجت برآتی اورآئے دن جو مسلمانوں کی جائیدادیں بنیوں کی نذر ہوئی چلی جاتی ہیں ،ان سے بھی محفوظ رہتے۔ اگر مدیون کی جائیدادہی لی جاتی ،مسلمان ہی کے پاس رہتی ،یہ تو نہ ہوتا کہ مسلمان ننگے اور بنئے چنگے۔
غیر سودی بینک کا نظریہ جسے اسلامی بینکنگ کہا جاتاہے ؛دورجدیدکے ماہرین معاشیات آج یہ نظریہ بڑی تیزی کے ساتھ پیش کررہے ہیں اوراسلامک بینکنگ کے قیام پر پوری دنیا میں غوروخوض کیا جارہا ہے اس لیے سودی نظام بینکنگ اورسرمایہ کاری نے پوری دنیا کو معاشی دیوالیہ پن کا شکاربنارکھا ہے پوری دنیا میں یہ بات تیزی کے ساتھ مقبول ہورہی ہے کہ لوگوں کو معاشی دیوالیہ پن سے بچانے کیلئے اسلامک بینکنگ ہی وہ نظام ہے جس کے سائے میں لوگ معاشی استحکام کو پاسکتے ہیں آنے والا وقت اسلامک بینکنگ کیلئے کس قدرسازگار ہے وہ آج مفکرین کی تحریروںسے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ لیکن امام احمد رضا فاضل بریلوی کی بصیرت وبصارت اور مستقبل شناسی کی داد دیجئے کہ آپ نے آج سے ٹھیک سوسال قبل یعنی1912میں اسلامک بینکنگ کا نہ صرف یہ نظریہ پیش فرمایا تھابلکہ اس کا لائحہ عمل بھی قوم مسلم عطا فرمایا تھا اوراس کی اہمیت وافادیت کے مختلف پہلوئوں کو بھی اجاگر کردیا تھااے کاش اسی وقت ان کے اس نظریے پر ملک کے اہل دول عمل کرلیے ہوتے تو مسلمانوںکی اقتصادی پوزیشن آج کچھ مختلف ہوتی اورتجارت وصنعت کے میدان میں ان کاطوطی بول رہاہوتا۔
چوتھا :سب سے زیادہ اہم ، سب کی جان ،سب کی اصل اعظم وہ دین متین تھا جس کی رسی مضبوط تھامنے نے اگلوں کو ان مدارج عالیہ پر پہنچایا ، چا ردانگ عالم میں ان کی ہیبت کا سکہ بٹھایا ،نان وشبینہ کے محتاجوں کو مالک بنایا اور اسی کے چھوڑنے،نے پچھلوں کو یوں چاہ ذلت میں گرایا ،فانا للہ وانا الیہ راجعون ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ دین متین علم دین کے دامن سے وابستہ ہے۔ علم دین سیکھنا پھر اس پر عمل کرنا اپنی دونوں جہاں کی زندگی جانتے، وہ انھیں بتادیتا۔ اندھو !جسے ترقی سمجھ رہے ہو ،سخت تنزلی ہے ، جسے عزت جانتے ہو،اشد ذلت ہے۔
آج مسلمان دینی تعلیم سے کس قدر دورہے اسے بتانے قطعی ضرورت نہیں بس اتنا بتادینا کافی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریتی آبادی ایمان واسلام کے بنیادی مسائل سے بھی واقف نہیں ہے۔اوریہی مسلمانوںکی تنزلی کا باعث ہے یعنی
طریق مصطفیٰ کو چھوڑنا ہے وجہ بربادی
اسی سے قو م دنیا میں ہوئی بے اقتدار اپنی
امام اہل سنت نے ان چار نکات کو پیش کرنے کے بعد مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ’’اگر میراخیال صحیح ہے تو ہر شہر اور قصبہ میں جلسے کریں اور مسلمانوںکو ان چاروں باتوں پر قائم کریں‘‘
حضرات! امام احمدرضا فاضل بریلوی نے مسلمانوں کی فلاح وبہبودکے لئے جوفارمولہ پیش کیا ہے وہی ترقی کا واحد راستہ ہے اس لیے اگر مسلمان عظمت رفتہ کی بازیابی چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ مذکورہ بالا نکات پر عمل کریں ۔حالات کا رونا اورکسی کے سہارے کے انتظار میں اپنی آنکھوں کوپتھرانا زندہ قوموں کا شیوہ نہیں ہے ضرورت ہے کہ امام اہل سنت کے پیش کردہ ان چاربنیادی نکات پر غورکیاجائے اوراس پرعمل کے تعلق سے ٹھوس لائحہ عمل تیار کیاجائے۔ میرے خیال سے اگر ایسا کرنے میں ہم کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارا ستارۂ اقبال بلندیوں کے عروج پر ہوگا۔
اخیر میں امام اہل سنت نے فتاوی رضویہ جلد12؍صفحہ 133پر فروغ اہل سنت کیلئے دس نکاتی پروگرام پیش کیا ہے اس کا ذکر بھی کیاجانا بے حد ضروری ہے۔کہ خصوصاً اہل سنت وجماعت کی فلاح وبہبودی اور تعمیر وترقی کیلئے ہر دور میں امام اہل سنت کا یہ دس نکاتی فارمولہ کامیابی کی شاہ کلید ہے۔آپ اہل سنت کی تعمیر وترقی کیلئے اپنا دس نکاتی فارمولہ یوںبیان کیا ہے:
(۱) عظیم الشان مدارس کھولے جائیں۔باقاعدہ تنظیمیں ہوں۔
(۲) طلبہ کو وظائف ملیں کہ خواہی نہ خواہی گرویدہ ہوں۔
(۳) مدرسین کی بیش قرار تنخواہیں ان کی کارروائیوں پردی جائیں ۔
(۴) طبائع طلبہ کی جانچ ہوجو جس کام کے زیادہ مناسب دیکھاجائے ۔ معقول وظیفہ دیکر اس میں لگایاجائے۔
(۵) ان میں جو تیار ہوتے جائیں تنخواہیں دیکر ملک میں پھیلائے جائیں کہ تحریراً اور تقریراً ووعظاً ومناظرۃً اشاعت دین ومذہب کریں۔
(۶) حمایت مذہب ورد بدمذہباں میں مفید کتب ورسائل مصنفوں کو نذرانے دے کرتصنیف کرائے جائیں ۔
(۷) تصنیف شدہ اورنوتصنیف رسائل عمدہ اور خوشخط اورچھاپ کر ملک میں مفت تقسیم کئے جائیں ۔
(۸) شہروںو شہروںآپ کے سفیر نگراں رہیںجہاں جس قسم کے وعظ یا مناظر یا تصنیف کی حاجت ہو آپ کو اطلاع دیں ،آپ سرکوبیٔ اعدا کے لیے اپنی فوجیں ،میگزین اور رسالے بھیجتے رہیں۔
(۹) جو ہم قابل کار موجود اوراپنی معاش میں مشغول ہیں وظائف مقرر کرکے فارغ البال بنائے جائیں اورجس کام میں انھیں مہارت ہو لگائے جائیں۔
(۱۰) آپ کے مذہبی اخبار شائع ہوں اوروقتاًفوقتاً ہرقسم کے حمایت مذہب میں مضامین تمام ملک میں بقیمت وبلا قیمت روزانہ یا کم سے کم ہفتہ وارپہنچاتے رہیں۔حدیث کا ارشاد ہے کہ ’’آخری زمانہ میں دین کا کام بھی درہم ودینار سے چلے گا ‘‘اورکیوںنہ صادق ہوکہ صادق ومصدوق کا کلام ہے۔
ضرورت ہے کہ ہر شہر اورقصبات کے مخلص ارباب حل وعقد امام اہل سنت کے مذکورہ بالا فارمولے کو عملی جامہ پہنائے اورجن میدانوں میں خصوصیت کے ساتھ کام کرنے کی تلقین کی گئی ہے اخلاص وللہیت کے ساتھ ان میدانو ںمیں اپنا محاسبہ کریں اورکام کی رفتار کو تیز کریں یقینا ہم کامیابی سے ہم کنار ہوںگے۔
الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !
الرضا نیٹورک موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں
مزید پڑھیں: