تین طلاق کا مسئلہ اور حکومت کا منفی رویہ : ڈاکٹر امجدرضا امجد

تین طلاق کا مسئلہ اور حکومت کا منفی رویہ

اگر حکومت عورتوں کے حقوق کے مسئلہ میں واقعی مخلص ہے تو دارالقضاکے فیصلہ کے نفاذ کو یقینی بنائے !!

ڈاکٹر امجدرضا امجد

ہندوستانی مسلمان ابھی جن حالات سے دوچار ہیں، ان کی سنگینی کا احساس ان افراد کو بھی ہے جن کی حس بہت کمزور ہے۔مودی حکومت اپنی تین سالہ دور ناکامی پہ پردہ ڈالنے کے لئےجس طرح پے درپے سیاسی قلابازیاں کررہی ہےاس سے سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاربھی حیرت زدہ ہیں۔ہندوستان کی ترقی وخوشحالی اور ہندوستانیوں کے مسائل پہ گفتگو کےبجائے خاص مسلمانوں کےپرسنل لا پہ اپنی پوری قوت جھونک دینا کسی خفیہ سازش ہی کانتیجہ ہے ورنہ ع

تم اتنے مہرباں ہوتے تو دل کا خون کیوں ہوتا

مودی حکومت نے طلاق کے مسئلہ کو اس طرح پیش کیا ہے جیسے مسئلہ طلاق ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہو ۔ملک سلگ رہاہے ،گاؤ رکشا کے نام پر جگہ جگہ فسادات ہورہے ہیں، مسلمانوں پہ خوف ودہشت کا ماحول مسلط ہے،دلتوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں،عورتوں کی عصمتیں لوٹی جارہی ہیں،کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہے، نوجوان طبقہ نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھررہاہے اورمہنگائی آسمان چھورہی ہے مگر مودی حکومت تین طلاق کو وظیفہ بنائے اپنےگلے پھاڑرہی ہے ۔ر ونا اس بات کاہے کہ سماج کو حقیقت کا آئینہ دکھانے کی دعویدار میڈیا حکومت کے غلط فیصلے اور اس کی تین سا لہ دور ناکامی کو بھی اس طرح کارنامہ بناکر پیش کررہا ہےجیسے بازاری اشتہار والے،سڑے ہوئے مال کو بھی خوش ذائقہ ،مقوی اور حسن وصحت کا ضامن بناکر پیش کرتے ہیں۔ویسے بھی میڈیا کب مسلمانوں کا ہمدرد رہا ہے جو آج ا س سے انصاف کی توقع ہو، مگر یہ اپنی سطح سے اتنا گرجائےگااس کا تصور نہیں تھا ۔پہلے میڈیا کسی واقعہ یاحادثہ کی خبر سناتااوردکھاتا تھا، اب یہ چیزیں گڑھی جاتی ہیں اور اس کو اپنے اعتبار سے پیش کیاجاتاہے اور جہاں صورت حال یہ ہووہاں کسی سچائی کا تصور سراب کے سوا کے کچھ نہیں۔میڈیاکا اصل کردار حکومت اور عوام کے درمیان منصفانہ تجزیہ ورابطہ کاہےمگر آج میڈیا اپنی سطح سے نیچے آکر حکومت کاوکیل بن گیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ملک کاتقریبا ہر چینل مودی ویوگی کے اشارۂ ابرو پہ اسی طرح تھرکتاہے جیسے داشتائیں چند سکوں کے لئےگراہکو ں کے اشارے پہ تھرکتی ہیں ۔
طلاق وحجاب کو مسلم عورتوں پہ ظلم بتانے والے اگر اپنی آنکھوں سے غلامانہ ذہنیت کی پٹی ہٹاکر دیکھیں تووہ اس تاریخی سچائی کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکیں گے کہ پوری دنیامیں مذہب اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورتوں کی پامال شدہ حرمت کو بحال کیا، ا س کو ذلت کے بجائے عزت کے قابل بتایا، اس کی پیدائش کو نحوست کے بجائے رحمت سے تعبیر کیا ،اس کی صحیح تعلیم و تربیت اور ادائیگی حقوق پر جنت کی بشارت دی،پھر بیٹی بہن بیوی ماںدادی نانی کے حقوق بتاکر ذمہ داروں کو حق اداکرنے کا پابند کیا،اسے باپ ماں بھائی شوہر کے ترکہ کا وارث قرار دیا اور کب کس میت کے مال سے اسے کتنے حصے ملیں گے اس کی وضاحت کی،شادی بعد اس کے سارے اخراجات کا کفیل شوہر کو قرار دے کر اسے کمانے کی ذمہ داری سے سبک دوش کردیا۔کیاعورتوں کے ساتھ انصاف کی ایسی مثال اسلام کے علاوہ کہیںاور مل سکتی ہے ؟
عورتوں کو انصاف دلانے اور مساوات کے نام پر اس کی عزت وحرمت کا سوداکرنے والے ایک بار سنجیدگی سے اپنے فرسودہ نظام پر بھی منصفانہ نظرڈالیں کہ ان کے یہاں تقدیر، طوفان، موت، جہنم، زہر، زہریلے سانپ سے زیادہ خراب عورت کو بتایا گیا( ستیارتھ پرکاش، ص:۱۱۳)شوہر کے مرجانے کے بعد عورت کی زندگی کٹی پتنگ کی طرح ہوجاتی ہے اب اسے جس سہارے کی ضرورت ہوتی ہےاسلام میں اس کی گنجائش تو ہے کہ وہ دوسری شادی کے ذریعہ اپنی زندگی پھر معمول پہ لاسکتی ہے مگرکیا ہندودھرم میں اس کی اجازت ہے؟ایسی عورتوں کے لئے ان کے یہاںکہا گیا کہ :
عورت کو، جب اُس کا شوہر مر جائے،بیاہہ کرنے کا حق نہیں ہے اور اس کو دو حال میں سے ایک اختیار کرنا ہو گا، یا زندگی بھر بیوہ رہے یا جل کر ہلاک ہو جائے اور دونوں صورتوں میں سے یہ اس کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ وہ مدت العمر عذاب میں رہے گی، (۶۶۔ منوجی، مہاراج، منو سمرتی، ادھیائے۳، شلوک۶۱، بھائی تارا چند پبلشرز، لاہور، س۔ن، ص:۴۴)
حالات کے تھپیروں سے مجبور ہوکر کسی نےاجازت بھی دی تو یہ قید لگادی کہ ـ:
رشی دیانند کے مطابق بیوہ سے کوئی رنڈوا ہی شادی کرے، کوئی کنوارہ بیوہ سے شادی نہ کرے، اگر کوئی اس عمل کی خلاف ورزی کرے گا تو سمجھو کہ اُس نے احکام دین کی خلاف ورزی کی۔بیوہ عورت سے کنوارے مرد اور رنڈوے مرد سے کنواری عورت کی مناکحت جہاں بعیداز انصاف ہے وہاں (آدھرم) احکام دین کے بھی خلاف ہے۔۶۰؎۶۰۔ رگ وید، منڈل:۱۰، سوکت۸۶، رچا۱۰، بحوالہ تمدن ہند، ص:۲۴۵
جائیداد کے تعلق سے بھی اس دھرم میں عورتوں پرجو ظلم ہے وہ قابل افسوس ہےوہ یا تو سرے سے جائیداد سے محروم ہے یا پھر کسی صورت میں ہے بھی توبھکاری کے دامن میں بھیک کے مترادف:
ہندوؤں میں مختلف مقامات پر مختلف خواتین اور ذاتوں کے لحاظ سے تقسیم جائیداد کے مختلف طریقے اور اصول ہیں، جن میں یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ عورت کو جائیداد سے یا تو سرے سے محروم کیا گیا یا پھر مرد سے کم تر حصہ دیا گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت کو ہندو معاشرے میں ہمیشہ سے کم تر درجہ دیا گیاہے، اس کو ہر صورت میں محکوم رکھنا پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔۶۸؎۶۸۔دیانند سرسوتی، ستیارتھ پرکاش، مترجم چموپتی ایم اے، مہاشہ کرشتن، منتری آریہ پرتی ندھی سبھا پنجاب، ۱۹۴۶، ص:۱۱۶
اولاد نہ ہونے کی صورت میں اولاد کے حصول کے لئے دوسرے مرد سے تعلق قائم کرنے کو کون سماج اچھا سمجھے گا ؟مگر یہ بھیانک تصور بھی اسی دھرم میں ملے گا چنانچہ رِگ وید میں ہے :
جب خاوند اولاد پیدا کرنے کے ناقابل ہو، تو اپنی بیوی کو ہدایت کرے کہ اے سہاگ کی خواہش مند عورت!تُو میرے سوا کسی اور خاوند کی خواہش کر(کیونکہ اب مجھ سے اولاد کی پیدائش نہیں ہو سکے گی )ایسی حالت میں عورت دوسرے مرد سے نیوگ کر کے اولاد پیدا کرے۔ مگر اپنے عالی حوصلہ شادی کئے ہوئے خاوند کی خدمت میں کمر بستہ رہے۔ عہد نامہ جدید، باب ۷، آیات ۳۲-۳۴
اہل انصاف بتائیں،اگر ان تمام مذکورہ قانون پہ ان کے یہاںعمل ہورہاہے تو سماجی اور عقلی اعتبار سے یہ انسانیت کے خلاف ہے یا نہیں؟ اور اگر عمل نہیںہورہاہے تو ہندو دھر م کے اعتبار سے یہ لوگ دھارمک مجرم ہیں یا نہیں ؟یعنی کسی بھی اعتبار سے اس د ھرم کے ماننےوالوںکو جرم سے چھٹکارا ہے؟کیااسلامی قانون پہ ناک بھؤں چڑھانے والے یہ میڈیائی مہربان، ایسے قانون اور ایسے نظریات کے خلاف بھی کچھ بولنے لکھنے اور دیکھنے دکھانے کی ہمت جٹاپائیں گے؟جہاں واقعی ظلم ہے اس کےحق میں اپنی زبان بند رکھنااور جہاں انصاف ہی انصاف ہے اس کے خلاف واویلا مچانا انسانیت ہے؟
مسئلہ طلاق اوراسلامی احکامات :
اسلام میںطلاق، حلال چیزوں میںسب سے ناپسندیدہ عمل ہے ،مگر ضرورت کے تحت یہ عمل زن وشودونوں کے لئے رحمت بھی ہے اس لئے سرے سے اسے منفی نگاہ سے دیکھنا صحیح نہیں۔اسلام میں میاں بیوی کوایک دوسرے کالباس قراردیتے ہوئے فرمایاگیا ھن لباس لکم وانتم لباس لھن۔میاں بیوی دونوں کے حقوق متعین کرکے انہیں اس کا پابند کیاگیااوروَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیہِنَّ بِالْمَعْرُوفِیعنی ’’اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا مردوںکاان پر ہے شرع کے موافق‘‘فرماکر حقوق کے معاملہ میں دونوںکو برابر کردیا ،اس فرمان پر عمل کرکے یقینازندگی کامیاب ، پرسکون اورقابل رشک بنائی جاسکتی ہے اور بنائی جاتی ہے۔ لیکن اگر دونوں کے درمیان مطلوبہ محبت، ذہنی ہم آہنگی اورایک دوسرے کے لئےکشش باقی نہ رہے بلکہ اس کے برعکس گھر کا ماحول سکون کے بجائےانتشار،محبت کے بجائے منافرت اور وصال کے بجائےجدال میں بدل جائے توزندگی عذاب مسلسل بن جاتی ہے ،اوریہیں پہ اسلامی نظامِ ِطلاق، خلع اور فسخ سہارا بن کے کھڑاہوتا ہے،جسے انسانیت پسند ذہن تحسین کی نگاہوں سے دیکھے گا تخریب وتنقید کی نگاہ سے نہیں ۔
میاں بیوی دونوں انسان ہی ہیں، خطا کسی سے بھی ہوسکتی ہے اور نفس کے ہاتھوںکوئی بھی سر کش ہوسکتاہے۔اگریہ کمی بیوی میں ہے اور اس حدتک ہے کہ زندگی وبال جان ہوگئی ہے،تو شوہرکواسلامی طریقے کے مطابق طلا ق دینے کا اختیارہے ۔اور اگر یہ کمی شوہر میں ہے تو اسے مصالحت کی کوششوں کے بعد شوہر سے خلع کے ذریعہ الگ ہونے کا اختیار ہے ،اور اگر شوہرخلع دینے پر آمادہ نہ ہو یا دوسرے ایسے اسباب ہوں کہ اب اس شوہر کے نکاح میں رہنااس کے لئے نا ممکن یا دشوار گزارہوجائے تو عورت قاضی کے ذریعہ اپنا نکاح فسخ کراسکتی ہے اور نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کرسکتی ہے۔بعض مخصوص حالات میں شوہر کے اختیار طلاق کو عورت کی طرف منتقل کرنے بھی صورت مذہب اسلام میں محفوظ ہے جسے ’’تفویض طلاق ‘‘کہاجاتاہے ۔ان تمام پہلووں پر نگاہ دوڑائیں اور انصاف سے بتائیں کہ اسلام کے نظام طلاق میں کہیں کسی پر کوئی ظلم وزیادتی کا شائبہ بھی ہے ؟اسلامی قانون کو ظلم سے تعبیر کرنے والے بتائیں ،کہ جن عورتوںکا شوہرانہیں زدوکوب کرتاہو،نفقہ نہیں دیتا ہو ،ادائیگی نفقہ سے عاجز ہو،حق زوجیت ادا نہیں کرتاہو،نامرد ہو ،،کسی موذی مرض میں مبتلا ہو،مجنون ہو،غائب غیر مفقود الخبرہو یامفقود الخبر ہو،ان عورتوں کو ان حالات سے نجات دلانے اور چین وسکون کی زندگی عطاکرنے کے لئے ان کے پاس کون سا قانون ہے؟اس اندھیر میں امید کی کرن صرف اسلام دکھاتاہے اور نہ صرف دکھاتاہے بلکہ دارالقضاکے ذریعہ ایسی عورتوں کو راحت فراہم کرتاہے ،پھر بھی یہ راگ الاپنا کہ اسلام میں عورتوں پر ظلم ہے،اسلام کے خلاف سازش ،حقائق کی پردہ پوشی یا اپنی کم علمی کے سوا کچھ نہیں۔
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اس لئے زندگی کے تمام شعبوں کو اس نے ایک سسٹم اور قانون سے باندھےرکھا ہے ،عبادت ریاضت،تجارت نکاح طلاق سب کے لئے ایک ضابطہ ہے اور ایسا ضابطہ ہے جو عقل ودیانت ہر اعتبار سے ہرفرد کے لئے مفید اور قابل قبول ہے،خاص طلاق کے حوالہ سے بھی ایسا ضابطہ پیش کیاگیا ہے جس میں کہیں انگلی رکھنے کی گنجائش نہیں ۔چنانچہ ایسی عورت جس میں کوئی ناقابل برداشت کمی ہو جس سے گھر کا نظام دربرہم اور معاملہ رشتہ کے ٹوٹنے کا ہو تو اسے سیدھے طلاق دینے کے بجائےشوہروںکے لئے شریعت نے سلسلہ وار احکامات نافذ کئے ،پہلا مرحلہ سمجھانا، خواہ خود سمجھانا ہویا دونوں طرف کے فریق کو طلب کرکے ،دوسرامرحلہ بستر الگ کرلینا،تاکہ اسے احساس ہو کہ ابھی بات صرف بستر الگ ہونے کی ہے اگر زندگی سے الگ کردینے کی نوبت آگئی تو کیا ہوگا ،تیسرامرحلہ ہلکی سی ضرب ہے ، جس سے اسے کوئی نقصان تونہ ہو مگر خوف پیدا ہوکہ اب محبت کا معاملہ ہماری کوتاہی کے باعث یہاں تک پہنچ گیاہے ۔آیت کریمہ ملاحظہ ہو۔
وَالّٰتِی تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّاور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو ، فَعِظُوہُنَّ تو انہیں سمجھاؤ ،وَاہجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِاور ان سے الگ سوؤ ،وَاضْرِبُوہُنَّ ور اُنہیں مارو۔ ان تینوں مراحل میں عورت کو اگر سمجھ آجائے،اور وہ اپنے کئے پہ نادم ہو اور معافی چاہے توارشاد قرآن ہے،فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیہِنَّ سَبِیلًا پھر اگر وہ تمہارے حکم میں آجائیں تو اُن پر زیادتی کی کوئی راہ نہ چاہو ،یعنیانہیں معاف کرواور ان پر کوئی زیادتی نہ کرو۔اندازہ لگائیں کہ طلاق سے روکنے اور گھر کوتباہی سے بچانےکے لئے شریعت نے کیسے کیسےاحکامات نافذ فرمائے،عورتوں کااتنا خیال اور ازدواجی زندگی کے تحفظ کا اتنا جامع تصور کہیں اورمل سکتاہے؟
اور اگر اس تنبیہ کے باوجود عورت اپنے کئے پہ نادم نہ ہوتوشریعت نےاسے حالتِ طہر(عورت کی پاکی کی حالت) میں ایک طلاق دینے کی بات کی ۔پاکی کی حالت میں طلاق دینے کی حکمت بھی قابل غور ہے ۔ناپاکی کےجن ایام میں مرد اپنی عورتوں سے قربت نہیں کرسکتا،حکماواطباکے بقول وہ ایام عورتوں کے لئے بڑے تکلیف دہ ہوتے ہیں ، دماغ ٹھکانے نہیں رہتا ،مزاج میںچرچرا پن آجاتا ہے اور اچھی بات بھی کانٹے کی طرح چبھتی ہے ۔اس لئے ناپاکی میںطلاق دینے کے بجائے پاکی کی شرط لگائی گئی کہ اس وقت ناپاکی والی الجھنیں نہیں رہتیں، میان بیوی میں آپسی تعلقات کی کوئی ممانعت نہیں ہوتی ،ممکن ہے ان ایام میں غصہ ختم ہوجائے، یا قربت کےسبب پرانی محبت پھر لوٹ آئے اور وہ طلاق کے لئے رکاوٹ بن جائے ۔اگر اس کے بعد بھی حالات میں سدھار نہ ہوتو طہر میں ایک طلاق دو،مگر اس طلاق کے بعد بھی اسے گھر سے مت نکالوبلکہ اَسْکِنُوہُنَّ مِنْ حَیثُ سَکَنتُم مِّن وُّجْدِکُمْ عورتوں کو اپنی طاقت بھر وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو، وَ لَا تُضَآرُّوہُنَّ لِتُضَیِّقُواعَلَیہِنَّ اور انہیں ضرر نہ دو کہ ان پر تنگی کرو، وَ اِن کُنَّ اُولٰتِ حَمْلٍ فَاَنفِقُوا عَلَیہِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَہُن اور اگر (وہ مطلقہ)حمل والیاں ہوں تو انہیں نان و نفقہ دو یہاں تک کہ ان کے بچّہ پیدا ہو، فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فَاٰتُوہُنَّ اُجُورَہُنَّ پھر اگر وہ تمہارے لئے بچّہ کو دودھ پلائیں تو انہیں اس کی اجرت دو ،وَاتَمِرُوا بَینَکُم بِمَعْرُوفٍاور آپس میں معقول طور پر مشورہ کرو ۔
اہل انصاف دیکھیں کہ طلاق سے پہلے اور طلاق کے بعد دونوں مرحلے میں عورت کی حرمت اس کی عزت اور اس کی ضرورت کا کس جس درجہ خیال اسلام نے رکھاہے،کیا اس کے بعد بھی یہ کہنا درست ہے کہ اسلام میں عورتوں پہ ظلم ہے ؟
اب رہی بات تین طلاق یکبارگی دینے کی، تو اسے شریعت نےناپسندیدہ قرار دیا ہے اور اسی لئے دیا ہے کہ اس سے رشتہ باقی رکھنے کا وہ معاملہ یک سر ختم ہوجاتاہے جو شریعت کو مطلوب ہے ،مگر ناپسندیدگی کے باوجود اس کے نافذ ہونے میں کوئی شک نہیں۔تلوار چلے گی تو اپنا اثر ضرور دکھائےگی اور گولی چلے گی تو اس کے اثرات ضرور سامنے آئیں گے ۔ہاں ملک کے تحفظ،اور آئین کی پاسداری کے لئے تلوار اور گولی چلے تو آدمی انعام کا مستحق ہوگا اور آئین کے خلاف چلے تو سزا کا مستحق۔ملک کی حفاظت کے لئے باڈر پہ جان لینے والے کو تمغہ دینا اور ناحق کسی کی جان لے لینے والے کو پھانسی اور عمر قید کی سزادینا آخر اس کے سوا کیا ہے کہ ایک کا عمل آئین کے دائرہ میں ہے اور دوسرے کا آئین کے خلاف ،حالانکہ جان دونوں کے عمل سے گئی ہے اور عمل دونوں نے ایک ہی کیا ہے ۔طلاق بھی ، اسلامی آئین کے مطابق دی جائے یاآئین کے خلاف ،واقع ضرورہوگی ،فرق صرف یہ ہے کہ آئین کے مطابق دینے والا مجرم نہیں ہوگااور آئین کی خلاف ورزی کرنے والا مجرم۔مجرم کو اس کے جرم سزا ملنی چاہئے،حکومت اگر ایسے مجرموں کے لئے کوئی مناسب سزا تجویز کرے تو ہمیں اس سے کوئی اختلاف نہیںکہ یہ شریعت کے ناپسندیدہ عمل کی روک تھام کے لئے ہے ، مگر سرے سے تین طلاق کو کالعدم قرار دینا یا اسے ایک ماننایا اس کے خلاف واویلا مچاکر اسلام اور اسلامی آئین کو بدنام کرنا اسلام اور مسلمان دونوں پر ظلم ہے جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتااور اس کے خلاف آئینی دائرہ میں ہمارااحتجاج بہر حال جاری رہے گا۔
اسلامی قانون کے مطابق تین طلاق تین ہی واقع ہوتی ہے یہ شرعی اعتبار سے حق ہونے کے ساتھ عقلی اعتبار سے بھی درست ہے، قرآن واحادیث اور فقہا کے ارشادات میں اس کی تفصیل موجود ہے۔جس کے تفصیلی اعادہ کی یہاں گنجائش نہیںصرف ماخذو حوالجات کےچند اشارے ملاحظہ کریں اورتفصیلات کے لئے ان ماخذات سے رجوع کریں:
n فان طلقہافلاتحل لہ من بعدحتٰی تنکح زوجا غیرہ۔(۔قراٰن کریم آیت۲۲۸بقرہ)
n ان رجلا طلق امراٰتہ ثلاثاالخ(بخاری ج۲ ص۷۹۱)
n عن الرجل یتزوج المراٗۃ فیطلقہاثلاثاالخ(مسلم ج۱ ص۴۱۳)
n عن علی فیمن طلق امراٗتہ ثلاثا قیل ان یدخل بھا قال لا تحل لہ حتٰی تنکح زوجا غیرہ۔(سنن الکبرٰی ج ۷ص۳۳۴)
شارح مسلم امام نووی فرماتے ہیںمن قال لامراٗتہ انت طالق ثلاثافقال شافعی و مالک و ابوحنیفۃ واحمد وجماھیرالعلماء من السلف والخلف یقع الثلاث۔(شرح مسلم ج۱ص۴۷۸)
n باب من یطلق امراٗتہ ثلاثا معا ان طلاقہ قد لزمہ وحرمہا علیہ فھذا کلہ قول ابی حنیفۃویوسف ومحمد(شرح معانی الاٰثار ج۲ ص۴۱۸
n صاحب فتح الباری نے لکھا ہے کہ حضرت عمر کے دور خلافت میں اس مسٗلہ پر اتفاق ہو چکا کہ تین طلاقیں تین ہی ہیں اورصحابہ کرام قولی و فعلی دونوں قسم کا اجماع اس پر ہے چنانچہ حافظ ابن حجرعسقلانی لکھتے ہیں اب اس مسئلے پر اختلاف کرنا مردودہے(ج۹ص۲۹۳)
n اسی طرح علامہ آلوسی نے بھی ’’روح المعانی‘‘ میں لکھاکہ صحابہ کر ام کا اس پر اتفاق بغیر نص کے توہو نہیں ہو سکتایہی وجہ ہے کہ جمہور علماء کا بھی اس پر اتفاق ہے۔( ج۲ص۱۱۸)
اب اخیر میں فقیہ اعظم ہندوستان حضورتاج الشریعہ علامہ شاہ اختر رضا خاں قادری ازہری دام ظلہ کافرمان بھی دیکھ لیں آپ نے فرمایا
فی الواقع ائمہ اربعہ وجماہیر اہل سنت کا سلفا خلفااس امر پر اجماع ہےکہ یکبارگی تین طلاقیں دینے کی صورت میںبیوی پر تین ہی واقع ہوں گی اس امر میں کسی معتد بہ کا اختلاف نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ہمارا مدعابفضلہ تعالی آیت کریمہ سے بھی ثابت ہے قال تعالیٰ ومن یتعدد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ الآ یہ یعنی جو اللہ کی حدوں سے گزرے تو اس نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ۔اس آیت سے ثابت ہوتاہے کہ تین طلاقیں یکبارگی دینا معصیت ونافرمانی اور اپنے اوپر ظلم کرنا ہے اور یہ اگرچہ اقدام حرام ہے مگر تینوںطلاقیں یکبارگی دے گاتو واقع ہوجائیں گی اس لئے کہ اگر ایک طلاق پڑے تو نہ معصیت ہوگی اور نہ ہی مطلق کو ندامت لاحق ہوگی‘‘
اسلام مخالف طبقہ کا یہ رونا بھی ایک ڈھکوسلا ہی ہے کہ اکٹھے تین طلاق دینے سے عورت بے سہارا ہوجاتی ہے۔کیا شوہر کے مرنے پر عورت بے سہارا نہیں ہوسکتی؟تین طہر میںالگ الگ تین طلاقیں دینے سے عورت بے سہارا نہیں ہوسکتی؟بے قصور مسلمانوں کو سلاخوں کے پیچھے رکھنے سے عورت بے سہارا نہیں ہوتی؟فسادات میں شہیدکرادینے سے عورت بے سہارا نہیں ہوتی؟مسلمانوں کے روزگار چھین لینے سے عورت بے سہارا نہیں ہوتی؟طلاق کے ذریعہ عورت کو آنے والی پریشانیوں کا حل تو شریعت نے رکھا ہے مگر حکومت جن عورتوں کو بے سہاراکردیتی ہے اس کی شکایت کس سے کی جائے؟کون اس کی فریاد سنے ؟ حکومت عورتوں کے انصاف کے نام پہ گھڑیال کے آنسو بہانا چھوڑے،اور اگر وہ اس طبقہ کی پریشانیوں کا ازالہ سچے دل سےکرناہی چاہتی ہے تو ان کے باپ بھائی شوہر کے جان مال عزت آبر اور دین وشریعت کو تحفظ دے دے کہ اس کے بغیر نہ اسے انصاف مل سکتا ہے اور نہ اسےسکون کی گھڑیاں میسر آسکتی ہیں ۔
دنیامیں طلاق کارجحان اور مسلمان:
یہ حقیقت بھی چونکادینے والی ہے کہ جس قوم کو طلا ق کے نام پہ بدنام کیاجارہاہے اس کے یہاں طلا ق کا رجحان سب سے کم ہے۔عالمی تناظر میں دیکھیں تو ۱۹۹۰ء میں امریکہ میں ۲۱ لاکھ باسٹھ ہزار (۲۱۶۲۰۰۰) شادیاں ہوئیں جبکہ گیارہ لاکھ سترہ ہزار (۱۱۱۷۰۰۰) طلاقیں ہوئیں۔ ڈنمارک میں تیس ہزار آٹھ سو چورانوے (۳۰۸۹۴) شادیاں ہوئیں جبکہ پندرہ ہزار ایک سو باون (۱۵۱۵۲) طلاقیں، سوئٹزرلینڈ میں ۴۶۶۰۳ شادیاں اور ۱۳۱۳ طلاقیں ہوئی۔برطانیہ میں طلاق کے بڑھتے رجحان کے خاتمہ کے لئے ۱۹۹۷ کے الکشن میں ووٹر کو لجھانے کے لئے جہاں اور مراعات کا اعلان کیاگیا وہاں یہ بھی تھا کہ’’ جو شادی شدہ جوڑا اپنی رفاقت کے دس سال مکمل کرے گا اُسے ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی۔‘‘دنیا کو انصاف کے لئے بطور آئیڈیل پیش کرنے والی قوم کا حال دیکھنے کے اب اپنے ملک میں بھی طلاق کا آکڑا دیکھیں تو چونکا دینے والی حقیقت سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے، آرٹی آئی نے ملک کے چار مسلم اکثریتی علاقہ ’’کیرل تلنگانہ آندھراپردیش اور مہاراشٹر کے کنور،ملمپورم،ارناکولم،پلککڑ سکندرآباد، حیدرآباد،گنٹور،ناسک ،میں سن ۲۰۱۱ سے ۲۰۱۵تک کےطلاق کا سروےکرایاتو رپورٹ کے مطابق:
مسلمانوں میں ۱۳۰۷ ہندووں میں ۱۶۵۰۵،عیسائیوں میں ۴۸۲۷ سکھوں میں : ۸
طلاق کے معاملے سامنے آئے ۔آرٹی آئی کے یہ آکڑے ان علاقوںکے ہیں جہاں ہندووں کے مقابلے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔مگر اس کے باوجود مسلمانوں کے یہاں۵؍سالوں میں طلاق ایک ہزار تین سو سات ہے (۱۳۰۷)توہندووں کے یہاںسولہ ہزار پانچ سو پانچ( ۱۶۵۰۵)اب اندازہ لگایا جائے کہ طلاق کی شرح کن کے یہاں کم ہے اور کن کے یہاں زیادہ۔اب جہاں ان کی اکثریت ہے وہاں طلاق کا حال کیا ہوگایہ بتانے کی ضرورت نہیں۔مگر اس کے باوجود ہندومیڈیا اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنےپر کمر بستہ ہےاور مسلسل اس کوشش میںہے کہ مسلمانوں کو بھی ان کے اسلامی قوانین سے بد ظن کرادے۔جو اطلاعات موصول ہورہی ہیں اس سے یہ لگ رہاہے کہ ایک حد تک وہ اس میں کامیاب ہو بھی رہے ہیں کیوںکہ بعض مسلم حلقہ میں طلاق کے حوالہ سے وہ بے چینی پائی جانے لگی ہے جو میڈیاکومطلوب ہے۔اب تو یہ ان مسلمانوں کوسوچنا ہے کہ وہ خداکے بنائے ہوئے اس قانون کو قبول کریںگے جس کا مآل جنت ہے یا انسان کے بنائے ہوئے اس قانون کو، جو بغاوت نفرت اور شرارت کی اپج ہےاور جس کا نتیجہ جہنم ہے۔
عورتوں کے مسائل میں دارالقضاکاکردار:
طلاق کے تناظر میں اگرہندوستان میںقائم دارالقضا کاکردار دیکھیں تو یہ اقرار کئے بنا نہیں رہ سکیں گے کہ اس اسلامی عدالت(اسلامی پنچائت گھر) نےزوجین کے مابین پائے جانے والے نفاق وشقاق اور رشتہ کے درمیان بے اعتباری کی کھنچ جانے والی لکیر کو ختم کر نے میں کلیدی رول اداکیا ہے ،اگر ہندوستان میں دارالقضا کا نظام نہیں ہوتا، تو لاکھوں عورتیں واقعی عذاب کا شکار ہوتیںاور ان کا کوئی پرسان حال نہ ہوتا۔ مرکزی دارالقضاادارہ شرعیہ میں آئے استغاثہ کے مطابق طلاق ۲؍فیصد ہے،مصالحت ۱۰؍فیصد،خلع ۲۰؍فیصد اور بقیہ سارا معاملہ فسخ نکاح کاہے ،اس سے صاف واضح ہے کہ دارالقضاسے عورتوں کے جو مسائل حل ہورہے ہیں اس کا دوسراکوئی بدل نہیں ہے ،اس لئے موجودہ حکومت مسلم عورتوں کے حقوق کے حوالہ سے اگر واقعی سنجیدہ اور ہمدرد ہے تو وہ مسلمانوںکوسیاسی سماجی اور مذہبی ہر اعتبار سے وہ حقوق دے، آئین ہند میں جس کا ذکرہے،کہ مردوںکی خوشحالی پر ہی عورتوں کے سکون کا مدار ہے اوراسی طرح حکومت دارالقضا کے فیصلےپنچائت سطح کے فیصلوں کی طرح نافذالعمل قرار دے تاکہ یہاں مسلم عورتوں کو جو انصاف مل رہاہے ، اس کی بنیاد مستحکم ہواورحکومت پر عام مسلمانوں کا اعتماد بحال ہو۔

شاید کہ اتر جائے ترے دل مین مری بات


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں


مزید پڑھیں:

  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

ایرلنگ ہالینڈ نے ایک بار پھر حملہ کیا جیسا کہ مانچسٹر سٹی سب سے اوپر ہے، چیلسی ٹیم وولوز

[ad_1] مانچسٹر سٹی نے ساؤتھمپٹن ​​کو 4-0 سے شکست دے کر پریمیئر لیگ میں سرفہرست …

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔