علی گڑھ میں گوشت تاجروں پر نام نہاد گئو رکشکوں کا حملہ: قانون کی ناکامی یا منظم دہشت؟
ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ تازہ ترین واقعہ علی گڑھ، اتر پردیش کے نواحی علاقے اترولی میں پیش آیا، جہاں نام نہاد گئو رکشکوں نے گوشت لے جانے کے شبہ میں چار مسلمانوں کو بے رحمی سے زد و کوب کیا۔ متاثرین نہ صرف لائسنس یافتہ تاجر تھے بلکہ ان کے پاس باقاعدہ گوشت فیکٹری "العمار” کی رسیدیں بھی موجود تھیں، اس کے باوجود خود ساختہ گئو رکشا دل کے لوگوں نے ان پر حملہ کر کے ان کی گاڑی کو آگ لگا دی۔
مبینہ طور پر یہ ہجوم بجرنگ دل سے منسلک افراد پر مشتمل تھا جنہوں نے متاثرین سے راستہ چھوڑنے کے بدلے میں رقم کا مطالبہ کیا۔ جب انکار کیا گیا تو ہجوم نے وحشیانہ انداز اپناتے ہوئے چاروں مسلمانوں کو لہولہان کر دیا۔ یہ دل دہلا دینے والا واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا جب ہجومی تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔
پولیس کے مطابق متاثرہ تاجر قانونی طور پر بھینس کا گوشت لے جا رہے تھے اور گوشت کے کاغذات مکمل تھے۔ حتیٰ کہ اس سے قبل لیبارٹری ٹیسٹ بھی گوشت کو قانونی قرار دے چکا ہے۔ اس کے باوجود ان پر حملہ اور ان کی گاڑی نذر آتش کر دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں قانون کا خوف شرپسندوں کے دلوں سے نکل چکا ہے۔
یہ واقعہ صرف اتفاق نہیں بلکہ منظم منصوبہ بندی کا نتیجہ لگتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حملے کی تیاری کئی دن پہلے سے کی جا رہی تھی۔ مقامی پولیس کو بھی خدشات کا علم تھا، لیکن انہوں نے نہ تو تاجروں کو متنبہ کیا اور نہ ہی حفاظتی اقدامات کیے۔
یہ ہجومی تشدد اس بات کی کھلی علامت ہے کہ آج بھارت میں اقلیتوں کی جان و مال غیر محفوظ ہو چکی ہے۔ نام نہاد گئو رکشک نہ صرف قانون ہاتھ میں لے رہے ہیں بلکہ ان کا ظلم اب سوشل میڈیا پر فخریہ انداز میں وائرل بھی کیا جا رہا ہے۔
حکومت اور انتظامیہ کی خاموشی اس بات کو مزید خطرناک بنا رہی ہے۔ کیا علی گڑھ واقعے پر کوئی سخت اور نظیر قائم کرنے والی کارروائی ہوگی؟ یا پھر اس ظلم پر بھی وہی خاموشی چھائی رہے گی جو پہلے کے واقعات پر رہی؟
اگر بھارت دنیا کو "وِشوا گرو” بننے کا خواب دکھا رہا ہے تو سب سے پہلے اسے اپنے ملک میں انصاف، قانون کی حکمرانی اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔
📩 رابطہ:
کریم گنج، پورن پور، پیلی بھیت، مغربی اتر پردیش
✉️ iftikharahmadquadri@gmail.com