اب عرب لیگ کا نام لینے کو دل نہیں چاہتا

اب عرب لیگ کا نام لینے کو دل نہیں چاہتا( ایک زخمی ضمیر کی پکار)

تحریر : غلام ربانی شرف نظامی اٹالہ، الہ آباد

جب مسجد اقصیٰ کی دیواریں لرزتی ہیں، جب غزہ کی گلیوں میں بچوں کی لاشیں تڑپتی ہیں، جب ماں اپنے بچے کو گود میں لیے قبر کی طرف بڑھتی ہے، تب انسان سوچتا ہے کہ یہ دنیا کہاں جا رہی ہے۔ اور جب ایسے میں مسلم ممالک کی بے حسی سامنے آتی ہے تو دل پھٹ جاتا ہے۔ سچ پوچھیں تو اب عرب لیگ کا نام لینا بھی روح کو زخمی کرتا ہے۔ جس اتحاد کو اُمت کی طاقت کا مظہر سمجھا گیا تھا، وہ آج بے مقصد قراردادوں اور رسمی بیانات کا محض ایک کمزور خاکہ بن کر رہ گیا ہے۔

ہم نے بچپن میں پڑھا تھا کہ عرب دنیا غیرت مند ہے، ہم نے سنا تھا کہ ترک سلطنت کے وارث پھر سے اقصیٰ کے در و دیوار کو بچانے آئیں گے، ہم نے یقین کیا تھا کہ حرمین کی سرزمین سے امت کے دفاع کی گھنٹی بجے گی۔ مگر آج زمینی حقائق ان تمام امیدوں کو روند چکے ہیں۔ سعودی عرب خاموش ہے، مصر نے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں، اردن مصلحت میں گم ہے، ترکی صرف اجلاس بلاتا ہے، اور عرب لیگ اپنے بےجان جسم میں قراردادوں کی جان ڈالنے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔

فلسطین کو اب صرف "تشویش”، "مذمت”، "مطالبہ” اور "دعاؤں” کے زخم ہی نہیں ملتے، بلکہ انہیں یہ احساس بھی مار دیتا ہے کہ ان کے لیے کوئی عملاً کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیلی بمباری جاری ہے، انسانی لاشیں ملبوں میں دب رہی ہیں، پانی اور خوراک کا بحران بڑھ رہا ہے، ہسپتال بند ہو چکے ہیں، مگر ان سب کے بیچ دنیا کے مسلمان ممالک صرف تماشا دیکھ رہے ہیں۔

امریکہ ہر بار اقوامِ متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کر دیتا ہے، اور مسلم حکمران خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔ شاید وہ اس بات کو فراموش کر چکے ہیں کہ فلسطین صرف زمین کا مسئلہ نہیں، یہ ایمان کا مسئلہ ہے۔ اگر آج ہم نے اقصیٰ کے حق میں آواز نہ اٹھائی، اگر ہم نے مظلوموں کے خون کی قیمت پر تعلقات بچانے کی روش اپنائی، تو کل ہمارا اپنا وجود بھی تاریخ میں دفن ہو جائے گا۔

اب دل نہیں چاہتا کہ ان مسلم ممالک کا نام لیا جائے جن کے پاس طاقت ہے مگر غیرت نہیں، دولت ہے مگر حمیت نہیں، افواج ہیں مگر قبلۂ اول کے لیے کوئی عزم نہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ اگر مسجد اقصیٰ آزاد ہو گی تو صرف اللہ کی مدد سے، اور ان لوگوں کے ذریعے جو زمین پر کمزور مگر دل میں مؤمن ہوں گے، جو بے سروسامانی میں بھی دشمنانِ دین سے ٹکرا جائیں گے۔

ہمیں اپنی قوم کو بیدار کرنا ہو گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھیں: تمہاری خامشی کا سودہ کس کے ساتھ ہوا؟ غزہ کے بچوں کا خون تمہارے ضمیر پر کیا اثر نہیں چھوڑتا؟ کیا تمہیں امت کے اس داغ کا احساس بھی ہے؟ کیا مسجد اقصیٰ سے بلند ہوتی آہ و فغاں کی صدائیں تمہارے ایوانوں میں نہیں پہنچتیں؟

یہ مضمون ایک صدا ہے، ایک پکار ہے، ایک زخمی امت کی چیخ ہے جو تاریخ کے اندھیرے میں اپنے چراغ تلاش کر رہی ہے۔ ہمیں الفاظ سے آگے بڑھنا ہو گا۔ فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آواز کو صرف نعرہ نہیں، عمل بنانا ہو گا۔ عرب لیگ کے بے جان اجلاسوں سے آگے بڑھ کر ہمیں وہ امت بننا ہو گا جو صلاح الدین کی وارث کہلا سکے۔

اور جب تک ہم ایسا نہ کر پائیں، تب تک بخدا! اب ان ناموں کے درمیان فلسطین کا نام آ جائے تو شرم آتی ہے۔

شائع کردہ: الرضا نیٹ ورک

Leave a Comment