ایٹمی طاقت اور اس کی اہمیت: ایک تجزیاتی مطالعہ
تحریر: مفتی غلام مصطفیٰ نعیمی ہاشمی (روشن مستقبل دہلی)
تعارف: طاقت کے بارے میں دو مختلف نظریات پائے جاتے ہیں: "علم طاقت ہے” اور "طاقت ہی طاقت ہے”۔ دونوں کے اپنے دلائل ہیں۔ اسلامی تاریخ اور سیرت نبوی کا مطالعہ "طاقت کے ساتھ علم” کے نظریے کو زیادہ مضبوط قرار دیتا ہے۔ یہ تقابل ایران اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی حالیہ کشیدگی سے ذہن میں آیا، جہاں دونوں ممالک تقریباً برابر کی تعلیم یافتہ ہیں لیکن اسرائیل کا پلڑا ایٹمی طاقت کی وجہ سے بھاری ہے۔
ایٹمی طاقت کی اہمیت
آج کی دنیا میں، تقریباً 200 ممالک میں سے صرف نو (9) ممالک کے پاس ایٹمی طاقت ہے۔ یہی ممالک دوسروں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور مانے جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس جوہری ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ ہے۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کی رپورٹ کے مطابق، روس اور امریکہ 5,000 سے زائد ہتھیاروں کے ساتھ سرفہرست ہیں۔ دنیا کے 90 فیصد ایٹمی ہتھیار انہی دونوں کے پاس ہیں۔ چین (500+)، فرانس (290)، اور برطانیہ (225) بالترتیب تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے پاس تقریباً 170 سے 180 جوہری ہتھیار ہیں، جو انہیں لگ بھگ برابری پر رکھتے ہیں۔ اسرائیل کے پاس تقریباً 90 اور شمالی کوریا کے پاس تقریباً 60 ہتھیار ہیں۔
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ مذکورہ پانچ ممالک (امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ) نے این پی ٹی (Non-Proliferation Treaty) معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں، جس کی بنا پر ان کا ایٹمی پروگرام قانونی طور پر تسلیم شدہ ہے۔ تاہم، بھارت، پاکستان، اور اسرائیل نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے، جبکہ شمالی کوریا اس معاہدے سے دستبردار ہو چکا ہے۔
دو بڑے چودھری: امریکہ اور روس
امریکہ اور روس، جو دنیا کے 90 فیصد ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ہیں، دنیا بھر میں اپنی چودھراہٹ کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگرچہ کسی زمانے میں تنہا روس سپر پاور تھا اور آج امریکہ اس پوزیشن پر موجود ہے، یہ بات واضح ہے کہ دنیا دو واضح حصوں میں بٹی ہوئی ہے — ایک کی قیادت روس اور دوسرے کی امریکہ کے ہاتھوں میں ہے۔ بقیہ تمام ممالک انہی دونوں کے بلاک کا حصہ ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان برتری کی ڈھکی چھپی ریس جاری رہتی ہے، لیکن وہ براہ راست تصادم سے گریز کرتے ہیں کیونکہ دونوں ہی برابر کی ایٹمی طاقت ہیں۔ ذرا سی بھی غلطی دونوں ممالک کو بدترین تباہی سے دوچار کر سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام تر رقابت کے باوجود جنگ سے پرہیز کیا جاتا ہے۔
ایٹمی طاقت کا عالمی اثر
ایشیا میں بھارت، چین، اور پاکستان تین ایٹمی طاقتیں ہیں۔ ان تینوں ممالک کے درمیان تاریخی رقابت اور عداوت کے باوجود، ان کا براہ راست تصادم سے گریز کرنے کی سب سے بڑی وجہ ایٹمی طاقت کا ہونا ہے۔ کوئی بھی ملک ایٹمی حملے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتا، اس لیے تمام تر کشیدگی کے باوجود معاملات کو سنبھالنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ حالیہ بھارت پاک جھڑپ میں بھی یہی صورتحال پیش آئی، جس کے باعث دونوں ممالک کشیدگی کے باوجود چوتھے ہی دن جنگ بندی پر متفق ہو گئے۔
شمالی کوریا کی مثال بھی ایٹمی طاقت کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جس کی آبادی صرف ڈھائی کروڑ ہے، اس کے امریکہ سے براہ راست سفارتی تعلقات نہیں ہیں، اور وہ امریکہ سمیت مختلف یورپی ممالک کی پابندیاں جھیل رہا ہے، اس کے باوجود امریکہ اور یورپ کو اس پر جنگ مسلط کرنے یا اسے بزور طاقت دبانے کی ہمت نہیں ہے۔ اس کی واحد وجہ شمالی کوریا کا ایٹمی پاور ہونا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ آج کی دنیا میں ایٹمی طاقت ہی آپ کی حفاظت کا یقینی ذریعہ ہے۔
اسی وجہ سے، تعلیم اور ٹیکنالوجی میں آگے ہونے کے باوجود جاپان کو "طاقتور” نہیں مانا جاتا۔ دنیا کی تمام تر سہولیات، جدید سڑکیں، چمکتے ہوئے ہوٹل، اور بلند و بالا عمارتوں کے باوجود عرب اور مسلم ممالک امریکہ اور یورپ کے آگے ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں، تو اس کی بنیادی وجہ ایٹمی طاقت سے محروم ہونا ہے۔ اسی محرومی کی وجہ سے امریکہ و یورپ سے بنا کر چلنا ان کی مجبوری ہے۔
اسرائیل اور مسلم دنیا
صرف نوے لاکھ کی آبادی پر مشتمل غاصب ملک اسرائیل ایٹمی طاقت ہی کی بنیاد پر تمام عرب ملکوں پر عذاب کی طرح مسلط ہے۔ جب اس کا دل چاہے، وہ کسی بھی ملک پر حملہ کر دیتا ہے، اور مسلم ممالک زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کر پاتے۔
یہ افسوس ناک ہے کہ مسلم حکمرانوں نے قرآن کریم کے اس حکم: "وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ” (الانفال: 60) (اور تیار کرو ان کے لیے جو کچھ تم سے ہو سکے قوت سے) کو حرزِ جاں نہیں بنایا۔ اگر ایسا ہوتا تو آج مسلم دنیا اس قدر کمزور اور لاچار نہ ہوتی۔ فلک بوس عمارتیں اور سنگ مرمر سے سجے ہوئے محلات دشمن کا ایک وار بھی نہیں جھیل سکتے۔ جب تک مسلم حکمران اس پیغام سے دور رہیں گے، وہ دنیا کی نگاہوں میں اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔
"بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو کہاں تک چلو گے کنارے کنارے___”
تاریخ تحریر: 20 ذوالحجہ 1446ھ / 17 جون 2025 بروز منگل