بھارت میں مسلمانوں کی خستہ حالی اور اسکا تدارک
شمیم رضا اویسی امجدی مدینۃ العلماء گھوسی مئو یوپی
مسلمان ہندوستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں اور سب سے زیادہ پس ماندہ بھی، مسلمانوں کی کل آبادی تقریباً 14 فیصد ہے جو تعلیم، روزگار، صحت اور سیاسی نمائندگی کے اعتبار سے دوسری قوم کی بنسبت کافی پیچھے ہے،ملک ہندوستان کو آزاد ہوئے تقریباً 73 سال کا عرصہ گزر گیا لیکن اسکے باوجود بھی مسلمانوں کو آزادی کی فضا میں کھل کر سانس لینا مشکل ہے، موجودہ وقت میں ہر جگہ مسلمان جس ظلم و زیادتی، خوف و دہشت، قتل و فساد اور جبر و تشدد کا شکار ہیں وہ ناگفتہ بہ اور ناقابلِ تحریر ہے،کہیں پر داڑھی رکھنے کی پابندی، کہیں پر اذان دینے کی پابندی، کہیں پر تعمیر مسجد و مدرسہ پر پابندی، کہیں پر اسلامی شعائر اپنانے پر پابندی گویا مسلمانوں سے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی جو انہیں ملک کے جمہوری آئین نے فراہم کی تھی مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش جاری ہے،
ویسے تو آزادی ہند کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی زبوں حالی کی داستان کافی طویل ہے، لیکن یہ حقیقت بھی ناقابلِ تردید ہے کہ ہندوستان کی جمہوری تاریخ میں اس سے خراب حالات شاید انگریزوں کے دور میں بھی پیدا نہیں ہوئے تھے جو حالات بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد پیدا ہوئے،ہندوستان کے آئین میں دفعہ 25 سے 28 تک تمام شہریوں کو مذہبی آزادی تفویض کی گئی ہے دفعہ 25 تمام شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمّل چھوٹ دیتی ہے، دستور کے اندر ہندوستان کو ایک سیکولر ملک قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مذہب و ملت کی بنیاد پر کسی کے ساتھ بھی امتیازی برتاؤ نہیں کیا جا سکتا،
لیکن ء2014 سے لیکر اب تک کا آکڑا ہمیں یہی بتاتا ہے کہ جب ہندوتوا کی فرقہ پرست سیاست کا جنم ہوا ہے اور مرکز میں بی جے پی حکومت آئی ہے مسلم اقلیت کے خلاف استحصال کے معاملات کافی بڑھ گئے ہیں حتیٰ کہ انکے جان و مال، عزت و آبرو، تہذیب و ثقافت اور مذہب و شریعت سب خطرے میں نظر آ رہے ہیں، ہندوتوا طاقتیں اس قدر بے قابو ہو چکی ہیں گویا حکومت کی طرف سے انہیں قتل و غارت گری اور فسادات کا لائسنس مل گیا ہے، انکا ایجنڈا بھارت کو بنیادی طور پر ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا ہے جو رفتہ رفتہ ایک مکمّل پالیسی کی شکل اختیار کر گیا ہے،کبھی ملک میں گائے تحفظ کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی فسادات کے ذریعہ مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کیا جاتا ہے، عورتوں اور بچیوں کی عصمت دری کی جاتی ہے، کبھی اسلامی شریعت میں مداخلت کرتے ہوئے بیک وقت تین طلاق دینے کو جمہوری آئین کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے تعزیرات ہند کے تحت جرم قرار دیا جاتا ہے۔
کبھی 5اگست ء2019 کو بی جے پی اچانک بھارتی آئین کی شق 370 کی منسوخی کا اعلان کرتی ہے جو بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو نیم خود مختار حیثیت دیتی ہے، اس کے بعد کشمیر میں لاک ڈاؤن کا نفاذ کردیا جاتا ہے ، کبھی 31 اگست کو حکومت آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کا نفاذ کرتی ہے جس کے تحت ریاست کے تمام شہریوں کے لئے اپنی شہریت کا ٹھوس ثبوت فراہم کرنا لازم ہو جاتا ہے، اس کے بعد سے حکومتی اراکین، بشمول وزیر داخلہ امت شاہ ملک بھر میں این آر سی کے نفاذ کی تجویز پیش کرتے ہیں کبھی 9 نومبر کو بھارتی سپریم کورٹ ایودھیہ میں طویل عرصے سے جاری بابری مسجد کے جائے وقوع کے حوالے سے جاری تنازعے میں بھارتی قوم پرستوں کے حق میں فیصلہ دیتی ہے، جس مسجد کو ء1992 میں بھارتی ہندو قوم پرستوں کے بلوائیوں نے ڈھا دیا تھا، ان کا دعویٰ تھا کہ یہ مسجد رام کی جائے پیدائش پر قائم کی گئی تھی، دسمبر ء2019 میں بھارتی پارلیمنٹ شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) جاری کرتی ہے جو مسلمانوں کے خلاف صریحاً تعصب پر مبنی اور ملک کے تکثیری تشخص کو یکسر ختم کرتا ہے،الغرض مودی حکومت نے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا ایک عالمی ریکارڈ قائم کر لیا ہے اور بھارتی مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں مہاجرین جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے،
لہذا ایسے سنگین حالات میں جہاں یکے بعد دیگرے سانحوں کے تسلسل نے مسلمانوں کے ہوش اڑا دیئے ہیں، ہر طرف ناامیدی اور مایوسی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے، ایسے میں ایک سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ کیا ان حالات کی ستم ظریفی کا رونا ہمارے مسائل کو حل کر سکتا ہے؟ کیا ایسے وقت میں کف افسوس ملنا اور ہر طرف صف ماتم بچھانا ہمارے مسائل کا مداوا بن سکتا ہے؟ہرگز نہیں! بلکہ حال سے عاجز آ کر مستقبل سے مایوس ہونا زندہ قوموں کا شیوہ نہیں بلکہ زندہ قومیں ایسے حالات کا پورے عزم اور حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرتی ہیں، اسلیئے کہ موجودہ حالات مسلمانوں کی تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل یہ امت اس سے زیادہ کٹھن حالات سے گزر چکی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں تاریک حالات میں روشنی کی کرن ظاہر فرمائی اور کعبے کو صنم خانے سے پاسباں مل گئے، دشمن چاہتا ہے کہ ہم اپنا عزم و حوصلہ کھو دیں شاید انہیں معلوم نہیں کہ ہم ایسے نبی کے ماننے والے ہیں جنہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی امت کو قیصر و کسریٰ کی فتحیابی کی بشارت سنائی، ہم اس دین کے پیروکار ہیں جو مایوسی سخت ناپسند فرماتا ہے، اللہ رب العزت کا فرمان عالیشان ہے” ولا تیاسوا من روح اللہ” (سورۃ یوسف آیت نمبر 87)
ترجمہ : اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو!
لہذا آج ضرورت ہے اس بات کی ہم اپنی بے بسی اور تعداد کی قلت پر آنسو بہانے کے بجائے اپنے اندر ایمان کی قوت پیدا کریں اور ساتھ ہی ساتھ امید، خود اعتمادی ، جہد و عمل اور اپنے زور بازو پر بھروسہ اور حالات کو بدلنے کا عزم پیدا کریں اور یہ یاد رکھیں کہ محض دنیاوی وسائل، آلات جنگ، اور سپاہیوں کی کثرت ہی جنگ جیتنے کے لیئے کافی نہیں ہوتی، بلکہ اگر ثابت قدمی، شوق شہادت، توکل علی اللہ، اور ایمان میں پختگی ہو تو بڑا سے بڑا معرکہ بھی بآسانی جیتا جا سکتا ہے،
اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے،،” کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ واللہ مع الصابرین” (سورہ بقرہ آیت نمبر 249)ترجمہ : نہ جانیں کتنی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں,
لہذا اگر آج اسلام دشمن طاقتیں اپنی کثرت کا شور مچا کر اپنی تعداد کی زیادتی پر فخر و ناز کریں تو یہ انکی خامہ خیالی ہے،اگر اللہ ربّ العزت چاہے تو انکی کثرتِ تعداد کے باوجود چھوٹی جماعت کے ذریعہ انکے غرور و تکبر کو خاک میں ملا دے اور انکو ہر طرح سے لاچار و بےبس کر دے،لیکن اسکے لیئے ضروری ہے کہ ہمیں اپنے اسلاف کے طریقہ کار پر چلنا ہوگا اور اپنے اندر ایمان کامل پیدا کرنا ہوگا حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے،” یآایھا الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ولا تتبعوا خطوات الشیطان انہ لکم عدو مبین "(سورۃ بقرہ آیت نمبر 208)ترجمہ : اے ایمان والو! اسلام میں پورے طور پر داخل ہو جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے’
اور جس دن ہم نے اس چیز پر عمل کر لیا تو ہمارے لیئے رب کا وعدہ ہے،” ولاتھنوا ولاتحزنوا وأنتم الاعلون ان کنتم مؤمنین ” ( سورۃ آل عمران آیت نمبر 139)ترجمہ : (مسلمانو!) نہ تم کمزور پڑو! نہ ہی غمگین رہو! تمہارے لیئے ہی سر بلندی ہے اگر تم ایمان والے ہو’لیکن افسوس کہ آج ہم بجائے کسی عملی اقدام کے صرف حالات کا شکوہ کرتے ہیں جو کہ یقیناً ایک طرح کی کج فہمی ہے،آج ہمارے اندر سے ایمان کی مضبوطی اور جانثاری کا جذبہ ختم ہو چکا ہے، آج ہر کوئی چاہتا ہیکہ کاش پھر کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی پیدا ہو لیکن اپنے گھر میں نہیں بلکہ دوسرے کے گھر میں اسلیئے کہ آج ہم میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ ہم اپنی یا اپنے گھر کے افراد میں سے کسی کی قربانی پیش کر سکیں جب کہ ہمارے اسلاف کا حال ایسا تھا کہ روایتوں میں آتا ہے"جب سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم غزوۂ بدر کے لیئے مدینہ منورہ سے چلنے لگے، مدینے کے ایک گھر میں ایک باپ اور بیٹے کے درمیان عجیب و غریب اور بے نظیر مباحثہ جاری تھا ،
باپ بیٹے سے کہتا ہے’ ہم دونوں کے سوا گھر میں کوئی مرد نہیں اسلیئے مناسب ہیکہ ہم دونوں میں سے کوئی ایک یہیں رہے اور دوسرا جہاد میں شریک ہو تم جوان ہو اور گھر کی دیکھ بھال بہتر طور پر کر سکتے ہو اسلیئے تم یہیں رہو اور مجھے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ جانے دو!اسکے جواب میں سعادت مند فرزند نے عرض کی،باباجان! اگر جنت کے علاوہ اور کوئی معاملہ ہوتا تو مجھے گھر پر رہنے میں کوئی عذر نہ تھا، مجھے اللہ تعالیٰ نے اتنی قدرت دی ہیکہ آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہمرکابی کا حق ادا کر سکوں اسلئیے آپ رہیئے اور مجھے جانے کی اجازت دیجئے!شاید اللہ تعالیٰ مجھے شرف شہادت بخشے،،بڑی تکرار کے بعد باپ نے فیصلہ کیا کہ قرعہ ڈالتے ہیں جسکا نام نکلا وہ جہاد میں جائے گا بیٹے نے رضامندی کا اظہار کیا،
قرعہ ڈالا گیا اور بیٹے کا نام نکلا, بیٹے کو اس قدر مسرت ہو رہی تھی کہ پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے تھے،، آپ کو بتا دیں کہ اس خوش نصیب بیٹے کا نام حضرت سعد اور اس عظیم باپ کا نام حضرت خثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہے،،
چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت ذوق و شوق کے ساتھ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہمرکابی میں بدر پہونچے، اور انتہائی جانثاری کے ساتھ لڑے حتی کہ طعیمہ بن عدی یا عمرو بن عبدود کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمایا،، انا للہ وانا الیہ راجعون،،لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اسلاف کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور ان سے سبق حاصل کریں اگر دلوں میں کامل ایمان ہو، دین پر مر مٹنے کا جذبہ ہو، اور اللہ ربّ العزت پر توکل ہو تو باطل کی بڑی سے بڑی طاقت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، عددی اور مادی وسائل کی کمی کے باوجود اہل ایمان ہر معرکہ ہر محاذ پر کامیاب و کامران رہینگے،
الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !
الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مزید پڑھیں: