یہاں تو روز کتنی عائشاؤں کے ارمان سوسائڈ کر رہے ہیں!!
آج سے تقریبا ۲۰؍ روز قبل گانو کے دادا جی میرے گھر آۓ یہ کہنے کے لیے کہ وہ بیٹی کی شادی کے لیے ایک بیگھہ زمین فروخت کر رہے ہیں(مجھ سے کہا آپ خریدیں گے؟)سیمانچل میں کاشت والی ایک بیگھہ(۲۰ کٹھے) زمین ۷؍ سے ۱۰؍ لاکھ تک بکتی ہے۔پوچھنے پر بتایا کہ مہنگے جہیز کی ڈیمانڈ کی وجہ سےبیچنا پڑ رہا ہے۔مطلوبہ جہیز کے متعلق بتایا کہ صرف بائک ۲؍ لاکھ ساٹھ ہزار کی آرہی ہے۔(اب اتنی مہنگی کونسی بائک ہوگی)پھر تین تولہ سونا۔میں سن کر سن رہ گیا کہ روز کمانے کھانے والے لڑکے کو اتنی مہنگی گاڑی کی جبری فرمائش کرنا کس نے سکھایا؟اور یہ بوڑھا باپ کیوں اس کی فرمائش پوری کرنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے؟
آپ غور کریں اس لڑکے کو بڑی ڈیمانڈ کرنا بھی اسی سماج نے سکھایا ہے۔ہمارے درمیان جہیز کلچر اتنا پھل پھول گیا ہے کہ اب آدمی اپنی اوقات سے باہر جاکر لمبی سی ڈیمانڈ لسٹ تھمانا اپنا سماجی حق سمجھنے لگا ہے۔اور اس کی اس جان لیوا فرمائش پر چار و ناچار رضا مندی ظاہر کرنے کے لیے ایک باپ کو سماج نے ہی مجبور کیا ہے۔یہ سب سماج کا ہی کیا دھرا ہے۔اور اس کی قیمت سماج کے دبے کچلوں کو بھرنی پڑے گی۔یہ تب ہی کم ہوسکتا ہے (جہیز ختم ہونے کے آثار نہیں ہیں) جب سماج کا متمول و اعلی طبقہ، متوسط و ادنی طبقات کا خیال کرے گا۔
جہیز اتنا بڑا فیکٹر ہے کہ آج امت کی بیٹیاں سسرال میں گھٹ گھٹ کے جینے سے خود کشی کر لینا آسان سمجھتی ہیں۔ہمارے سماج میں عائشہ کی طرح لاکھوں لڑکیاں ہوں گی جو جہیز کے لالچی بھیڑیوں کے نرغے میں سسک سسک کر جی رہی ہوں گی۔گھریلو تشدد جھیل رہی ہوں گی۔ساس نند کے طعنے کھا رہی ہوں گی۔یہ کتنی اذیت رساں بات ہے کہ جہیز کے لیے صرف لڑکا ہی ٹارچر نہیں کرتا بلکہ ساس، سسر، نند کا بھی کافی بھیانک رول ہوتا ہے۔
میرے ایک دور کے رشتے کے سسر ہیں۔اسی لاک ڈاؤن کے عرصے میں ابتداۓ رمضان میں ان کی لڑکی کا رشتہ آیا۔لڑکا حافظ قرآن تھا۔سبھی لوگ بہت خوش تھے کہ داماد حافظ مل گیا۔اُن لوگوں کی ضد پر بڑی عجلت میں تقریب عقد کی تاریخ فکس ہوگئی۔انہوں نے آگے بیان کیا کہ لاک ڈاؤن کے سبب میرے ہاتھ خالی تھے۔مہمانوں کا انتظام کرنا بھی میرے لیے مشکل ہورہا تھا۔۲۹؍رمضان کا ڈیٹ تھا اور میں ۲۸؍رمضان کو اپنی وائف کو لے کر سسرال کے لیے نکلا کہ وہاں سے روپے لاکر کام نکال لوں گا۔ابھی ہم (میاں بیوی) آدھے رستے بھی نہیں گئے تھے کہ لڑکے کے کسی رشتے دار کا فون آیا۔علیک سلیک کے بعد فورا کہنے لگے کہ بائک کل ہی چاہیے۔میں نے لاکھ کہا، سمجھانا چاہا کہ کچھ دن کے بعد مل جاۓ گی مگر وہ اڑے رہے۔تب میں نے دل پہ ہاتھ رکھ کر یہ رشتہ کینسل کرتے ہوۓ اپنی بائک گھمائی اور ہم دونوں واپس گھر آگئے۔
جہیز کے لیے جبری دباؤ ڈالنے والے لوگ بڑے بے غیرت قسم کے ہوتے ہیں۔ان کی اپنی کوئی ڈسپلن نہیں ہوتی۔دنیا کیا کہے گی اس سے وہ بالکل بے پرواہ ہوتے ہیں۔آج سے لگ بھگ ۸؍ ۱۰ سال قبل موتی ہاری ضلعے میں نکاح پڑھانے گیا۔خطبہ پڑھنے کے بعد جب قبلتُ زوجتُ کہنا تھا پاس میں بیٹھے لڑکے کے والد نے روک دیا۔کیوں بھئی؟ کہنے لگا کہ ابھی تِلک (وہ رقم جو لڑکی والے لڑکے والوں کو شادی سے قبل چکاتے ہیں)کے پیسے باقی ہیں۔جب تک پورے پیسے نہیں ملتے نکاح نہیں ہوگا۔لڑکی کا والد آیا اور بر سر اسٹیج علی الاعلان وعدہ کیا کہ فلاں تاریخ کو اتنے بجے تک پیسے پہنچا دوں گا۔تب جاکر نکاح کی کاروائی آگے بڑھی۔آپ یہ جان کر سر پیٹ لیں گے کہ تلک کے متعینہ پیسے سے صرف تین ہزار رہ گئے تھے۔محض تین ہزار کے لیے اتنا بڑا بکھیڑا کھڑا کیا گیا، ہزار افسوس!
۲۰۰۹ میں ایک جگہ ایسا ہوا کہ لڑکا ایجاب و قبول کو تیار نہیں۔فرمائش تھی کہ موبائل فون چاہیے۔اور ابھی چاہیے۔اس زمانے میں نوکیا کا سادہ سیٹ ہی چلتا تھا۔اینڈرائد سیٹ بعد میں آیا۔(خود میرے پاس بھی سادہ نوکیا ہی تھا) کسی صورت سمجھانے اور فرمائش پوری کرنے کے وعدے پر نکاح کو تیار ہوا۔
آپ بتائیں کہ یہ لوگ رشتہ کرنے آۓ تھے یا کوئی گاۓ کی خرید بکری کرنے؟ شادی تو دو مختلف فیملی کے ملن و سنگم کا نام ہے اور یہ لوگ بازار کی دکان بنا دییے ہیں۔ایسے لوگ ہمارے ہی سماج میں رہتے ہیں اور ہم ان سے رشتہ بھی کرتے ہیں۔اور عزت دار بھی سمجھتے ہیں۔معلوم ہے ان جیسے لوگوں کو ہم ہی حوصلہ دیتے ہیں۔جب ان کے گھر میں جہیز سے بھری گاڑی آتی ہے تو سارا سماج ان کے جہیز کا بکھان کرتے نہیں تھکتا۔ہر کوئی انہیں خوش نصیب سمجھتا ہے۔ان جیسی سسرال چاہتا ہے تاکہ اپنی بھی مانگیں پوری ہوسکیں۔کوئی یہ نہیں کہتا کہ کسی غریب باپ کو مجبور کرکے لایا گیا جہیز ہے۔کوئی مذمت نہیں کرتا۔کوئی بھی اسے برا نہیں جانتا۔کسی کو بھی یہ غلط نہیں لگتا۔جہیز کو سماجی اسٹیٹس کا درجہ دینے میں اسی طرح کی ذہنیت کارفرما ہے۔
آج جہیز کی نرخ اتنی اونچی ہوگئی ہے کہ ابھی بچی بالغ بھی نہیں ہوتی ادھر بار جہیز کے احساس سے والدین کی کمر جھک جاتی ہے۔آخر ہمارے سماج کو کس کی نظر لگ گئی؟کس ظالم نے ہندوانہ طرز بیاہ کو ہمارے معاشرے میں گھسیڑ دیا؟جس سماج کو علی و فاطمہ کی شادی کی طرح اپنی بہن بیٹی کی شادی کرنی تھی وہ اس قدر مہنگی شادی کیوں کرنے لگا؟سماج کو رسول اللہ کی طرح اپنی لخت جگر کو گھر سے مسکراتے ہوئے وداع کرنا تھا تو یہ کس اندرونی درد و غم سے نڈھال رو رو کر رخصت کر رہا ہے؟کیا اس کے پیچھے جہیز کا قہر بھی ہے؟
جہیز جیسی بلا کو بڑھاوا دینے میں سماج پہلے خود ذمہ دار ہے۔پھر اس کے بعد سماج کے ٹھیکیدار۔اب جس جس کے پاس سماجی ٹھیکیداری ہے وہ ذمہ دار ہے۔خواہ وہ مولوی برادری ہو، پیران خانقاہ ہوں یا سیاسی و سماجی رہنمایان۔ان سب کی ذمہ داری تھی کہ سماج کے لیے اچھے حالات پیدا کرتے مگر ان کی رئیس گیری و داماد بنائی کی جہیز لٹاؤ چکی میں تنگ حال غریب پس رہے ہیں۔یہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بالکل ناکام رہے۔
ایک بات اور بتا دوں کہ جہیز کی روک تھام کے لیے جہاں سماج کو کڑے اور سخت قانون بنانے کی ضرورت ہے وہیں سماج کو کنوینس کرنے کے لیے علما کو اپنے خطاب میں صوفیا کو اپنے مواعظ و نصائح میں جہیز کی قباحت و لعنت پر کھل کر بولنا ہوگا۔اس کے خلاف ایکشن پلان تیار کر کے زمینی حقائق سے جڑنا ہوگا۔آج غوث اعظم یا کربلا سے منسوب من گھڑت قصے کہانیاں سنانے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ ہم سماج کے ایسے سلگتے مسائل پر بحث کریں، خطاب کریں، تبادلۂ خیال کریں۔
اسی جہیز کی وجہ سے اگر احمد آباد کی شادی شدہ عائشہ نے خود کشی کر لی ہے تو اسی جہیز کے سبب ہزاروں لاکھوں لڑکیاں گھر بیٹھے تنہائی کے دن کاٹ رہی ہیں۔اسی جہیز نے کتنوں کے ہاتھ پیلے نہیں ہونے دیئے ہیں۔آج جب عائشہ سوسائڈل ویڈیو جاری کرتی ہے تو دنیا والوں کے ساتھ ہم بھی چیخنے لگتے ہیں۔ہم بھی سوشل میڈیا پر تکلیف کا اظہار کرتے ہیں مگر کیا ہم نے یہ بھی سوچا ہے کہ ایسی ہزاروں عائشائیں نحیف سے باپ کے کندھے پر بوجھ بن کر کب سے بیٹھی ہیں۔کتنی عائشاؤں نے جہیز نہ ہونے کی وجہ سے کسی پیسے والے کھوسٹ بڈھے کو ہی اپنا ور چن لیا ہے۔
میں اپنے ہی گاؤں کی بات کرتا ہوں ایک گھر کا گارجین بہت پہلے دنیا سے چلا گیا۔ماں جیسے تیسے مزدوری کرکے دو چھوٹے بیٹوں اور تین سیانی بیٹیوں کی پرورش کرتی رہی۔ماشاء اللہ تینوں بیٹیاں دیکھنے سننے میں بہت خوب تھیں۔کردار و اطوار بھی ماشاء اللہ۔مگر بن باپ اور بے زر کی بیٹیوں کو کون بیاہتا ہے؟کون انہیں اپنے نام کی مہندی رچانے کا حق دیتا ہے؟کون خوبرو نوجوان شادی کا پیغام دیتا ہے؟آپ کو حیرت ہوگی کہ یکے بعد دیگرے تینوں لڑکیوں کی شادی ایسے بڈھوں سے ہوئی جن کے پہلے سے کئی کئی پوتے نواسے تھے۔یہ سماج کا وہ ہارر چہرہ ہے جو غریب و مفلس لڑکیوں سے عین جوانی میں ان کی ننھی خوشیاں چھین لیتا ہے۔سماج کے یہ بڈھے کسی غریب کی غربت کا فائدہ تو اٹھاتے ہیں مگر اس کی مدد کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ساتھ گانو کے وہ لوگ بھی ذمہ دار ہیں جو اپنی لڑکی کے لیے کوئی عامر و سلمان تو ڈھونڈتا ہے مگر یتیم و یسیر لڑکیوں کے لیے کسی بوڑھے کا پیغام لاتے ہوۓ شرم نہیں محسوس کرتے۔
جب جب عائشہ کی طرح منظر سامنے آتے ہیں تو دل بیٹھ جاتا ہے۔درد کی لکیریں طویل ہو جاتی ہیں۔شدت غم حد سے سوا ہوجاتی ہے۔ہنستی کھیلتی زندگی میں اچانک سے سناٹا چھا جاتا ہے۔ہر باپ بھائی جن کی کنواری بہن بیٹیاں ہیں ان کے چہرے سے فکر مندی کے آثار جھلکنے لگتے ہیں۔جی کرتا ہے جہیز کو جی بھر کے کوسوں، برا بھلا کہوں، دل سے بد دعائیں دوں اور شکایت بھرے سخت لہجے میں پوچھوں، اے رسم جہیز تو مر کیوں نہیں جاتی؟
جـہیز کـم تھـا بہــو آگ میـں اتاری ہــے
ہمارے گانو میں اب تک یہ رسم جاری ہے
مشتاق نوری
۲۹؍فروری ۲۰۲۱ء
الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !
الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مزید پڑھیں: ___نہ جانے کتنے سنبھل ابھی باقی ہیں !! غلام مصطفےٰ نعیمیروشن مستقبل دہلی فی الحال سنبھل جامع مسجد کے سروے پر سپریم کورٹ نے پابندی لگا دی ہے لیکن اس وقتی راحت کو ایک دن بھی نہیں گزرا تھا کہ بدایوں کی جامع مسجد پر نِیل کَنٹھ مندر ہونے کا مقدمہ سامنے آگیا۔تین دسمبر کو … سنبھل کے زخموں سے بہتا ہوا خون ابھی بند بھی نہیں ہوا ہے کہ اجمیر کی ضلع عدالت نے درگاہ غریب نواز کو مندر قرار دینے والی در اپنے دامن میں صدیوں کی تاریخ سمیٹے سنبھل شہر کی گلیاں لہو لہان ہیں۔چاروں طرف پولیس کا پہرہ، راستوں کی بیری کیڈنگ اور آسمانوں پر لہراتے ڈرون کیمرے س جلسوں میں بگاڑ، پیشے ور خطیب و نقیب اور نعت خواں ذمہ دار!!! تحریر:جاوید اختر بھارتی javedbharti508@gmail.com محترم قارئین کرام: کرنی کرے تو کیوں کرے اور کرکے کیوں پچھتائے ،، بوئے پیڑ ببول کا تو آم کہا سے کھائے ،، تم جو نیکی آج کروگے اس کا صلہ کل پاؤگے جیسا پیڑ لگاؤگے ویسا ہی … عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان محسوس ہوئی اس لیے اس کی نفرت باہر نکل آئی۔عورت بھی اعصاب کی مضبوط نکلی بحث بھی کی، کھانا بھی چھوڑ دیا لیکن نعرہ نہیں لگایا۔اس سے ہمیں بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے شاید وہ خاتون مسلمان ہی ہوگی۔
___نہ جانے کتنے سنبھل ابھی باقی ہیں !!
لیجیے! اب آستانہ غریب نواز پر مندر ہونے کا مقدمہ !!
__لہو لہان سنبھل____
جلسوں میں بگاڑ، پیشے ور خطیب و نقیب اور نعت خواں ذمہ دار!!!
نفرت کا بھنڈارا