شبِ برأت میں زیارتِ قبور اور اس کے آداب

شبِ برأت میں زیارتِ قبور اور اس کے آداب

از قلم:- محمد عامر حسین مصباحی دارالعلوم نوریہ رضویہ رسول گنج عرف کوئلی


اللہ رب العزت کے بےشمار فضل و احسان،بخشش و عطا اورکرم نوازیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے امتِ محمدیہ کو پانچ ایسی مخصوص راتیں عطا فرمائیں ہیں جن میں عبادتوں کا ثواب بہت بڑھ جاتا ہے۔اللہ رب العزت کا خصوصی کرم اوراس کی نظرِ عنایت ہوتی ہے۔ وہ مبارک راتیں درجِ ذیل ہیں۔
(۱) شبِ معراج
(۲) شبِ برأت
(۳) شبِ قدر
(۴) شبِ عید الفطر
(۵) شبِ عید الاضحیٰ
ان راتوں میں سے شبِ برأت کو نزولِ رحمت و برکت کی وجہ سے”شبِ مبارک ‘‘اور’’ شبِ رحمت ‘‘کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔
شبِ برأت کا معنیٰ چھٹکارے اور نجات کی رات ہے کیونکہ اس رات میں بے شمار بندگانِ خدا کو جہنم سے نجات کا پروانہ عطا ہوتا ہے۔یہ مبارک رات ماہِ شعبان المعظم کی ۱۴/ویں تاریخ کا دن ختم کرکے بعدِ مغرب شروع ہوتی ہے۔اس مبارک رات میں اہلِ سنن عبادت و ریاضت اور قرآن کی تلاوت کا خوب اہتمام کرتے ہیں، پوری شب مختلف عبادتوں میں گزاری جاتی ہےاورساتھ ہی زیارتِ قبورکا بھی اہتما م کیا جاتا ہے کہیں تنہا تنہا اور کہیں اجتماعی طور پر قبرستان جاکر اپنے پیش رو مسلمانوں کے لیے بخشش و درجات کی بلندی کی دعائیں کرتے ہیں۔یقیناً ان کا یہ فعل مستحب اور سنتِ رسول علیہ السلام سے ثابت ہے۔
ام المؤمنین صدیقہ،عفیفہ،طیبہ،طاہرہ حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنھا کا ارشاد ہےکہ اپنی باری کے روز میں نے رسول اللہ ﷺ کو نہ پایا، ناگاہ دیکھا کہ وہ (مدینہ طیبہ کے قبرستان) بقیع میں موجود ہیں، سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کیا تمھیں اندیشہ ہوا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ تمھارے ساتھ عدل نہ کریں گے؟ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! یہ بات نہیں،مجھے گمان ہوا کہ آپ اپنی بعض ازواج کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ تو سرکار نے ارشاد فرمایا! ان اللہ عزوجل ینزل لیلۃ النصف من شعبان الیٰ السماء الدنیا فیغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب بے شک اللہ عزوجل شعبان کی پندرہویں رات میں آسمانِ دنیا کی طرف تجلئ رحمت کا نزول فرماتا ہے تو قبیلۂ کلب کی بکریوں کے بال سے بھی زیادہ بندوں کو بخش دیتا ہے۔ (ابنِ ماجہ ص: ۹۹)
مطلب یہ ہے کہ اے عائشہ! اگرچہ آج کی شب تیری باری کی ہے لیکن چونکہ اس مقدس رات کا ایک لمحہ خیرات و برکات اور تجلیاتِ رحمانیہ کے نزول کا ہے ـ اس لیے میں نے چاہا کہ اپنی امت کے لیے بخشش کی دعا کروں۔
اس حدیثِ پاک سے خاص شبِ برأت میں زیارتِ قبور کا ثبوت ملتا ہے ـ اس لیے اس مبارک شب میں مسلمانوں کا زیارتِ قبور کرنا جائز و مستحسن بلکہ سنتِ رسول علیہ السلام ہےـ اور خاص اس شب کے علاوہ زیارتِ قبور کے متعلق کثیر احادیث ہیں جیسے
(۱) اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا انی کنت نھیتکم عن ثلاث عن زیارۃ القبور فزورھا والتزدکم زیارتھا خیرا ترجمہ: میں نے تمہیں تین چیزوں سے منع کیا تھا ان میں سے ایک قبرکی زیارت تھی لیکن اب قبروں کی زیارت کرو اور اس کی زیارت سے اپنی نیکیاں بڑھاؤ۔
(۲) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبیٔ اکرمﷺ نے فرمایا انی کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فمن شاء ان یزور قبرا فلیزرہ فانہ یرق القلب و یدمع العین ویذکر الاٰخرۃ
ترجمہ: بے شک میں نے تمھیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا اب جو قبر کی زیارت کرنا چاہے اسے اجازت ہے کہ وہ زیارت کرے کیونکہ یہ زیارت دل کو نرم کرتی ہے، آنکھوں سے (خشیتِ الہٰی) میں آنسو بہاتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔
(۳) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا:کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور ، فزوروھا فانھا تزھد فی الدنیا و تذکر الآخرۃ’’ میں نے تمھیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ دنیا سے بے رغبت کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ ‘‘
مذکورہ بالااحادیث سے معلوم ہوا کہ زیارتِ قبور کی اجازت سرکار علیہ السلام نے دی ہےاور اس کی ترغیب کے لیے اس کے فوائد بھی شمار فرمایانیز اس کو مطلق رکھا کسی طرح کی کوئی قید نہیں کہ انفرادی طور پر جانا ہے اجتماعی طور پر نہیں یا کسی خاص دن میں جانے یا نہ جانے جیسی کوئی تفصیل نہیں ذکر فرمائی تو اب قبرستان جانا جائز ہوا اور قبروں کی زیارت مسنون ہوئی خواہ وہ قبر کسی عام انسان کی ہو یا اللہ کے کسی خاص بندے کی مثلاً انبیاء ورسل یا اولیا یا علما کی ۔ لہٰذا کسی کی جانب سے کسی طرح کی کوئی قید لگانا کہ خاص شبِ برأت یا شبِ قدر میں نہیں جانا ہے یا اجتماعی طور پر نہیں جانا ہے حدیث میں بے وجہ اپنی جانب سے تصرف کرنا ہے۔

ہاں! قبرستان جانے کے بعد قبروں کی زیارت کے آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔جہالت و نادانی و لاعلمی کی بنا پر کچھ لوگ مزارات یا قبروں کی زیارت میں کچھ ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں جن سے گناہ سر مول لینے کے ساتھ ساتھ اپنے مخالفین کو مخالفت اور بھولی بھالی سنی عوام کو بہکانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔مزارات پر جانے کا ارادہ کریں کہ تو پہلی غور کرنے والی بات یہ ہو کہ جس مزار یا قبر کی زیارت کو جاناہے اس کے بارے میں تحقیق ہو کہ وہ مزار کسی مقربِ بارگاہِ الٰہی کا ہےورنہ آج کل فرضی مزارات کی بھی کمی نہیں۔جھوٹا خواب بیان کرکے لوگ فرضی مزار بناتے اور اس پر بھیڑ لگواتے،بیش قیمتی چادروں کومال کمانے کا ذریعہ بناتے اور نجانے کیا کیا خرافات کرتے کراتے ہیں۔
اللہ کی پناہ!
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے ارشاد فرمایا کہ فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل جیسا معاملہ کرنا ناجائر و بدعت ہے۔(فتاویٰ رضویہ کتاب الجنائز ، جلد ۷/ ص: ۲۵۲)
ذیل میں زیارت قبور کے آداب قلم بند کئے جاتے ہیں اللہ رب العزت عمل کی توفیق بخشے۔
قبرستان میں چلنا،قبروں پر پاؤں رکھنا یا ٹیک لگانا
بعض جگہ قبرستان میں راستے بنے ہوئے نہیں ہوتے ہیں اور قبریں بھی بےترتیب ہوتی ہیں ایسی صورت میں لوگ اپنے اقربا کی قبروں پر جاتے ہیں تو دوسروں کی قبروں پر چلتے ہوئے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ میت کی تدفین کے انتظا ر میں قبروں پر ٹیک لگاکر بیٹھ جاتے ہیں یہ سب گناہوں کا سبب ہے۔ فتاویٰ رضویہ میں در مختار کے حوالے سے مذکور ہے۔’’ قبرستان کے اندر ایسے راستے پر چلنا ممنوع ہے جس کے بارے میں گمان ہوکہ وہ نیا بنالیا گیا ہے یہاں تک کہ جب اپنی میت کی قبر تک کسی دوسری قبر کو پامال کیے بغیر نہ پہنچ سکتا ہو تو وہاں تک جانا ترک کرے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ جلد ۹/ ص: ۵۲۶)
اور احکامِ شریعت میں اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں۔ ’’اور قبورِ اولیاے کرام و عباد اللہ الصالحین بلکہ عام مقابر مومنین ضرور مستحق ادب و تکریم ہیں ، ولہٰذا ان پر بیٹھنا ممنوع ، چلنا ممنوع ، پاؤں رکھنا ممنوع یہاں تک کہ ان سے تکیہ لگانا ممنوع۔ امام احمد و حاکم و طبرانی ،مسند مستدرک کبیر میں عمارہ بن حرم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بسند حسن راوی رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جالسا علیٰ قبر فقال یا صاحب القبرانزل من القبر لاتؤذی صاحب القبر ولا یؤذیک ‘‘ترجمہ: رسول اللہﷺ نے مجھے ایک قبر پر بیٹھے دیکھا ، فرمایا او قبر والے ! قبر پر سے اتر آ۔ نہ تو صاحبِ قبر کو ایذا دے نہ وہ تجھے ۔(احکامِ شریعت ص: ۸۵)
اسی کتاب میں آپ علیہ الرحمہ نے ایک اور روایت نقل فرمائی ہے۔لان امشی علی جمرۃ او سیف اواخصف نعلی برجلی احب الیٰ من ان امشی علیٰ قبر مسلمترجمہ: میں آگ یا تلوار پر چلوں یا اپنا جوتا اپنے پاؤں سے گانٹھوں مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ کسی مسلمان کی قبر پر چلوں ۔(احکامِ شریعت ص: ۸۵)
زیارتِ قبور ، سجدہ ،بوسہ و طواف
فتاویٰ رضویہ شریف سے پہلے مزارات پر حاضری کا مکمل طریقہ ملاحظہ فرمائیں۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ سے بزرگوں کے مزار پر جاکر فاتحہ پڑھنے کے متعلق سوال ہوا تو ارشاد فرمایا’’مزارِ شریفہ پر حاضرہونے میں پائنتی کی طرف سے جائے اور کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے پر مواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسط آواز بادب عرض کرے السلام علیک یا سیدی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پھر درودِ غوثیہ تین بار ، الحمد شریف ایک بار، آیۃ الکرسی ایک بار ، سورۂ اخلاص سات بار، پھر درودِ غوثیہ سات بار ، اور وقتِ فرصت دے تو سورۂ یٰسین اور سورۂ ملک بھی پڑھ کر اللہ عزوجل سے دعا کرے کہ الٰہی! اس قرأت پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرم کےقابل ہے، نہ اتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اسے میری طرف سے اس بندۂ مقبول کو نذر پہنچا، پھر جو اپنا مطلب جائز شرعی ہو اس کے لیے دعا کرے اور صاحبِ مزار کی روح کو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دے ، پھر اس طرح سلام واپس آئے ، مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے۔ اور طواف بالاتفاق ناجائز ہے۔ اورسجدہ حرام ۔ واللہ تعالیٰ اعلم(فتاویٰ رضویہ جلد ۹ ص: ۵۲۴)
تعلیماتِ امام احمد رضا قدس سرہٗ پر عمل کرنے والوں کے لیے چند باتیں معلوم ہوئی۔
(۱) پائنتی کی طرف سے جائے ۔
(۲) کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے پر کھڑا ہو ۔
(۳) متوسط آواز اور باادب سلام عرض کرے۔
(۴) حسبِ توفیق جو میسر ہو پڑھے۔
(۵) صاحبِ مزار کی روح کو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دے۔
(۶) مزار کو ہاتھ نہ لگائے۔
(۷) بوسہ نہ دے۔
(۸) طواف بالاتفاق ناجائز ہے۔
(۹) اور سجدہ حرام ہے۔
مزارات کے طواف اور بوسہ دینے کے متعلق سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں ۔
’’ مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص بخانۂ کعبہ ہے۔ مزار کو بوسہ دینا نہ چاہیے، علماء اس میں مختلف ہیں ۔ اور بہتر بچنا، اور اسی میں ادب زیادہ ہے۔ ‘‘(فتاویٰ رضویہ جلد ۹/ ص: ۵۲۹مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ لاہور )
مذکورہ باتیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی تعلیمات سے ہیں لہٰذا جواز و عدمِ جواز سے قطعِ نظر تعلیماتِ اعلیٰ حضرت پر عمل بہتر ہے۔ان پر عمل کی صورت میں بہت سی خرافات خود بخود ہی ختم ہوجائیں گی۔
ضرورت سےزیادہ چادرڈالنا
اکثر لوگ مزار پر بغیر چادر کے جانا ہی گوارا نہیں کرتے اور اولیاء اللہ کے عرس کے موقع سے دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اتنی چادریں ڈالتے ہیں کہ اصلِ قبر کے علاوہ قبر کی اونچائی دوگنی تین دوگنی معلوم ہوتی ہے۔
امام احمد رضا نے ارشاد فرمایا ۔’’جب چادر موجود ہو اور وہ ابھی پُرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو، تو بے کار چادر چڑھانا فضول ہے، بلکہ جو دام (مال) اس میں صرف کریں ولی اللہ کی روحِ مبارک کو ایصالِ ثواب کے لیے کسی محتاج کو دے دیں‘‘(احکامِ شریعت ص: ۸۹مطبوعہ ، شبیر برادرز )
سجدہ کرنا
سجدہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ (۱) سجدۂ عبادت (۲) سجدۂ تعظیمی۔مزار پر سجدہ اگر پہلی صورت کا ہے یعنی سجدۂ عبادت صاحبِ مزار کو خدا سمجھ کر اس کے لیے سجدہ کیا تو یقیناً شرک ہوا اور اگر خدا تو نہیں سمجھا مگر قابلِ تعظیم مان کر سجدہ کیا تو یہ سخت حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے اس تعلق سے ارشاد فرمایا۔
’’ غیر خدا کو سجدۂ عبادت شرک ہے، سجدۂ تعظیمی شرک نہیں مگر حرام ہے، گناہِ کبیرہ ہے، متواتر حدیثیں اور متواتر نصوصِ فقہیہ سے اس کی حرمت ثابت ہے، ہم نے اپنے فتاویٰ میں اس کی تحریم پر چالیس ۴۰/ حدیثیں رویات کیں ، اور نصوصِ فقہیہ کی گنتی نہیں، ’’ فتاویٰ عزیزیہ ‘‘ میں ہے کہ اس کی حرمت پر اجماعِ امت ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ جلد ۱۵/ ص: ۴۹۱)
بعض لوگ مزار پر جاکر کچھ اس طریقے سے جھکتے ہیں گویا سجدے میں چلے گئے ہوں اور اس حرکت سے دیوبندی حضرات کچھ زیادہ ہی واویلا مچاتے ہیں اور بے سوچے سمجھے کفر و شرک کا فتویٰ لگاتے ہیں حالانکہ ادنیٰ عقل و خرد رکھنے والا مسلمان بھی جانتا ہے کہ اللہ رب العزت کے سوا کوئی سجدہ کے لائق نہیں تو کوئی کسی صاحبِ مزار کو خدا سمجھ کر سجدہ نہیں کرتا لہٰذا اگر کوئی سجدہ کرتا ہوا مل بھی جائے تو معلوم کرنا چاہیے کہ وہ کس نیت سے سجدہ کررہاتھا کیا صاحبِ مزار کو خدا مان کر سجدہ کررہا تھا یا قابلِ تعظیم سمجھ کر ؟ اگر کہے کہ میں صاحبِ مزار کو خدا مان کر سجدہ کررہا تھا تو یقیناً اس نے شرک کیا لیکن یہ کسی مسلمان کے متعلق بعید بات ہے۔ اوراگر وہ صاحبِ مزار کو قابلِ تعظیم و توقیر سمجھ کر سجدہ کررہا تھا تو اس کو بتایا سمجھا یا جائے کہ یہ بھی حرام و گناہِ کبیرہ ہے۔
موم بتیاں ، چراغ یا اگربتی وغیرہ جلانا
قبروں پر موم بتی،اگربتی ،چراغ و غیرہ جلانا تضیعِ مال اور اسراف ہےکہ اس سے صاحبِ قبر کو کوئی فائدہ نہیں کہ جو اللہ کا نیک بندہ ہے اس کی قبر میں حدیث کے مطابق جنت کی ہوا ،جنت کی خوشبو اور جنت کا بستر موجود ہوتا ہے اور جہاں یہ ساری جنتی سہولتیں حاصل ہوں وہاںدنیاوی خوشبو اور دنیا وی چراغ و لائٹ کی کیا ضرورت ؟ اور اگر صاحبِ قبر گناہ گار ہے تو ان چیزوں سے اس کو کیا فائدہ پہنچنےوالا ہے ؟
ہاں!اگر اللہ کے کسی نیک بندے کی قبر ہو اور وہاں لوگوں کا بغرضِ ایصالِ ثواب وفاتحہ خوانی آنا جانا رہتا ہوتو جلانے میں حرج نہیں کہ یہاں صاحبِ قبر کے لیے انتظام نہیں بلکہ لوگوں کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے ہے لہٰذا کوئی حرج نہیں ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے۔’’ جس طرح یہاں جہال میں رواج ہے ، کہ مردہ کو جہاں کچھ زمین کھود کر نہلاتے ہیں ، جسے عوام لحد کہتے ہیں وہاں چالیس ۴۰/ رات چراغ جلاتے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ چالیس ۴۰/ شب روح پر آتی ہے اندھیرا دیکھ کر پلٹ جاتی ہے۔ یونہی اگر وہاں جُہال میں رواج ہو کہ موت سے چند رات تک گھروں سے شمعیں جلاکر قبروں کے سرہانے رکھ آتے ہوں، اور یہ خیال کرتےہوں کہ نئے گھر میں بے روشنی کے گھبرائے گا،تو اس کے بدعت ہونے میں کیا شبہ ہے؟ اور اس کا پتا یہاں بھی قبروں کے سرہانے چراغ کے لیے طاق بنانے سے چلتا ہے اور بے شک اس خیال سے جلانا ، فقط اسراف و تضیع مال ہی نہیں کہ محض بدعت عمل ہو بلکہ بدعت عقیدہ ہوئی کہ قبر کے اندران چراغوں سے روشنی و اموات کا اس سے دل بہلنا سمجھا ‘‘ (فتاویٰ رضویہ ، کتاب الجنائز )
عورتوں کا زیارتِ قبور کے لیے جانا
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ اس کےمتعلق فرماتے ہیں:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ اس کےمتعلق فرماتے ہیں ۔’’ یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزارات پر جانا جائز ہے یا نہیں ؟بکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے اللہ کی طرف سے؟ اور کس قدر صاحبِ قبر کی جانب سے؟جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے، لعنت شروع ہوجاتی ہے، اور جب تک وہ واپس ہوتی ہے ملائکہ لعنت کرتے ہیں ‘‘

جب عورتوں کا مزارات پر جانا اس قدر سخت حکم رکھتا ہے تو پھر بزرگوں کے اعراس کے موقع سے جو میلا ٹھیلا اورمینابازار لگایا جاتا ہے جہاں آوارہ اور اوباش قسم کے نوجوان کے جانے کا مقصد ہی غیرمحرم عورتوں سے تعلقات استوار کرنا اور حرام کاری کرنا ہوتا ہے ان کا آپس میں ایک جگہ اکٹھا ہوکرخریداری کرنا کس قدر لعنت و ملامت کا حقدار ہوگا۔خانقاہوں کے سجادگان اور ذمہ داران پر لازم ہے کہ اس طرح کے میلے ٹھیلوں سے ضرور بزرگوں کے اعراس کو پاک رکھا جائے تاکہ زائرین کو کسی طرح کی دقتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ بزرگوں کے فیضان سے مالا مال ہوں۔ اللہ سمجھ عطا کرے۔ آمین


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔

مزید پڑھیں:

نفرت

نفرت کا بھنڈارا

عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان محسوس ہوئی اس لیے اس کی نفرت باہر نکل آئی۔عورت بھی اعصاب کی مضبوط نکلی بحث بھی کی، کھانا بھی چھوڑ دیا لیکن نعرہ نہیں لگایا۔اس سے ہمیں بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے شاید وہ خاتون مسلمان ہی ہوگی۔

0 comments
کی محمد سے وفا

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں!

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں! از:مفتی مبارک حسین مصباحی استاذ جامعہ اشرفیہ مبارکپور و چیف ایڈیٹر ماہ نامہ اشرفیہ، مبارک پور اللہ تعالی نے اپنے آخری رسول محمد عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین فرمایا، یعنی اللہ تعالیٰ عالمین یعنی تمام جہانوں کا خالق اور پروردگار ہے اور …

0 comments
آسام

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال ✍🏻— مزمل حسین علیمی آسامی ڈائریکٹر: علیمی اکیڈمی آسام( AAA) ملک کی سرحدی ریاست یعنی چائے، خام تیل، کوئلہ، دلکش پہاڑیوں ، قدرتی نظاروں، سرسبز وشاداب وادیوں، بل کھاتی ندیوں اور سکون کی سرزمین آسام اس وقت سیلاب کی آفتوں سے دوچار ہے۔ ریاست کے 29 اضلاع میں …

0 comments
Muzammil Hussain

نکاح کو آسان بنائیں!!

نکاح کو آسان بنائیں!! ✍🏻 مزمل حسین علیمی آسامی ڈائریکٹر: علیمی اکیڈمی آسام رب تعالیٰ نے انسان کو بہترین تقویم، یعنی اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے۔ انہیں ان بےشمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا ہے، جنہیں عقل انسانی شمار کرنے سے قاصر ہے۔انہی نعمتوں میں ایک عظیم نعمت نکاح ہے۔ جس طرح انسانی زندگی بسر کرنے …

0 comments
Muzammil Hussain

اصلاح امت میں حیات جاودانی کا راز

اصلاح امت میں حیات جاودانی کا راز ✍️ مزمل حسین علیمی آسامی ڈائریکٹر : علیمی اکیڈمی آسام (AAA) ہم اگر عالم ہیں تو اصلاح امت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ؟یہ ایک ایسا سوال ہے، جسے ہم نے شاید ہی کبھی اپنی ذات سے کیا ہو۔ یہ سوال خود سے کرنا ہے، ہر ایک …

0 comments

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

مدینہ

نعت خوانی کے شرعی آداب

۔ نعت گوئی کی تاریخ کو کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا البتہ یہ کہا جا سکتاہے کہ نعت گوئی کا سلسلہ ازل سے شروع ہوا اور ابد تک جاری رہے گا۔ آپﷺ کی آمد سے قبل بھی  آسمانی صحیفوں اور کتب میں آپ ﷺکی آمد کی بشارتیں اور اوصاف حمیدہ درج ہیں۔ خود رب قدیر نے قرآن مجید میں مختلف انداز میں آپﷺکی شان (نعت) بیان فرمائی ہے۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔