ایک بھید ہے حقیقت معراج مصطفیﷺ.
مفتی روشن رضا مصباحی ازہری
معزز قارئین! آج ماہ رجب المرجب کی ستائیسویں شب ہے، آج کی پاکیزہ شب میں جملہ مسلمانانِ عالم و عاشقانِ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے سفر معراج کا ذکر جمیل کرتے ہیں اور اس شب کے برکات و خیرات کو اپنے دامن میں سمیٹ کر دارین کی سعادتوں سے شادکام ہوتے ہیں.
یقیناً یہ شب کوئی معمولی شب نہیں بلکہ اسی پاکیزہ شب میں اللہ عزوجل نے اپنے طائر سدرہ، امین وحی خدا سیدنا جبریل علیہ السلام کو بھیج کر اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بارگاہ میں بلایا تھا، اور بلایا نہیں بلکہ لے گیا تھا، کیوں کہ جب ہم قرآن مقدس کا مطالعہ کرتے ہیں تو اللہ عزوجل نے جہاں سفر معراج کا ذکر فرمایا ہے وہاں یہ نہیں فرمایا کہ میرے محبوب نے راتوں رات، رات کے قلیل حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک سفر کیا بلکہ کیا ہی پیارا اسلوب اور نرالا انداز اللہ نے اختیار فرمایا. "پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندہ خاص کو لے گئ راتوں رات”.
کلام الہی کے انداز پر غور کریں اور وہ لوگ ہوش کے ناخن لیں جو یہ کہتے ہیں کہ نبی گئے ہی نہیں وہ تو معراج منامی ہوئی ہے، قرآن کا تیور بتارہا ہے کہ مجھے معلوم تھا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو کلمہ میرے نبی کا ہی پڑھیں گے مگر ان کی معراج کا انکار کریں گے تو اللہ نے ان کے اعتراضات کے سدباب کےلیے یہ اسلوب اختیار فرمایا اور بتادیا کہ سنو! میرا حبیب میری بارگاہ میں خود نہیں آیا ہے بلکہ میں اسے لے کر آیا ہوں، اب جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سفر إسراء و معراج پر شبہ ہو تو وہ گویا قدرت رحمانی پر شک کر رہا ہے اور جو رب کی قدرت کے آگے عقل کے گھوڑے دوڑائے اسے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے.
کیوں کہ سفر معراج کی حقیقت ایک سر ہے، راز ہے بھلا کون جان سکتا ہے، وہ ایک راز ہے، وہ تو ایک بھید ہے، ایسا سر جس کے آگے سارے افکار و عقول جواب دے جاتے ہیں. جبھی تو امام اہل سنت، اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان سے جب سفر معراج کی کیفیت کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :ع؛ پوچھتے کیا ہو عرش یوں گئے مصطفی کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں.
قصر دنی کے راز میں عقلیں تو گم ہیں جیسی ہیں.
روح قدس سے پوچھیے تم نے بھی کچھ سنا کہ یوں.
لہذا حقیقت معراج و کیفیت معراج بیان کرنا انسانی بس میں نہیں ہے، ہم سب کا ایمان بس یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم وہیں کریں جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، جب ابوجہل نے کہا ان سے کہ تمھارے ساتھی محمد ایسی ایسی باتیں کر رہے ہیں، کیا تم اس کی تصدیق کرتے ہو؟ تو برجستہ آپ نے فرمایا تھا :اگر میرے حبیب ایسا کہہ رہے ہیں تو میں تصدیق کرتا ہوں کیوں کہ میرا حبیب تو وہی بولتا ہے جو منشاء ربی و مشیت الہی اور وحی خداوندی ہوتی ہے، جبھی تو میرے امام کہتے ہیں.
وہ دہن جس کی ہر بات وحی خدا
چشمہ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام.
اب چونکہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر یہ تحریر لکھی جارہی ہے تو سفر معراج کا تذکرہ یقیناً لازم ہے.
ہمارے سرکار ابد قرار ، نبیوں کے تاجدار، احمد مختار، حبیب پروردگار صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد حرام سے نکلے تو مسجد اقصی پہونچے، جب آپ وہاں تشریف لے گئے تو سارے انبیاء کرام علیہم السلام جلوہ گر تھے، حضرت آدم تا عیسی علیہما السلام سبھی انبیاء موجود تھے، ایسے موقع پر جہاں سارے سابق جلیل القدر انبیاء موجود ہوں وہاں نبی کریم علیہ السلام کو مصلی امامت پر امامت کے لیے بڑھا گیا.
ایک سوال اٹھتا ہے کہ آخر جب وہاں آدم و ابراہیم و ادریس و سلیمان علیہم السلام موجود تھے تو سرکار علیہ السلام کو کیوں آگے بڑھایا گیا؟ تو پھر بریلی کے تاجدار جواب دیتے ہیں. ع.
نماز اقصی میں تھا یہی سر عیاں ہو معنی اول آخر
سبھی ہیں دست بستہ پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے.
ایک دوسری جہت سے اس کا جواب سنیں. جب اللہ نے تمام انبیاء کرام کی روحوں کو جمع کرکے عالم ارواح میں عہد و میثاق لیا تھا کہ "جب میرا یہ آخری نبی جلوہ گر ہو اور تم موجود رہو تو ضرور ان کی تصدیق کرنا اور ان کا ساتھ دینا.”.تو اس کے جواب میں تمام انبیاء کرام کی روحیں برجستہ جواب دی تھیں. "ہم نے اقرار کیا”
جس نبی کے نور کے سامنے وعدہ ایمان و نصرت کیا گیا ہو اگر وہی نبیوں کا تاجدار سامنے آجائے تو یقیناً اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا باعث سعادت و شرف ہوگا.
اور یہاں یعنی امامت تک تو بات ہوتی ہے مگر اس کے بعد اور کیا ہوا مسجد اقصی میں؟ تو سنیں مسجد اقصی میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال و تعظیم کے لیے ایک جلسہ اور اجتماع کیا جس میں انبیاء کرام علیہم السلام کے خطابات ہوے، ظاہر سی بات ہے جب کوئی کسی رات کا دولہا ہو، شمع بزم ہو، رونق محفل ہو، مالک کائنات ہو، باعث تخلیق کائنات ہو تو ایسی عظیم ہستی کی اقتدا میں فقط نماز پڑھنا کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کے اعزاز میں اعلی پروگرام کا انعقاد کیا جائے گا.
چنانچہ سب سے پہلا خطاب جو شب معراج میں سفر إسراء کے دوران مسجد اقصی میں ہوا وہ کسی اور کا نہیں بلکہ آپ کے دادا ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ہوا، جس میں آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کیا پھر جو آپ نے گفتگو فرمائی وہ صراحتاً مذکور نہیں مگر میرا وجدان کہتا ہے کہ جب دادا اپنے پوتے کی شان میں ہورہے جلسہ میں خطاب کر رہے ہوں گے تو اس دعا کا ذکر ضرور کیا ہوگا جس دعا کو انھوں نے نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد اپنے ہاتھوں کو دراز کرکے فرمایا تھا :اے میرے مالک! اب تو میں نے تمھارا گھر تعمیر کردیا، اے میرے مالک! اب اتنا کرم فرما کہ اس عظمت والے ذیشان نبی کو بھیج دے جو تیرے گھر کی حفاظت بھی کرے اور لوگوں کو قرآنی تعلیمات سے آراستہ بھی کرے.
پھر اس کے بعد جناب موسی علیہ السلام کا خطاب ہوا، آپ نے بھی رب جل وعلا کی توصیف و کبریائی کی پھر آپ آبدیدہ ہوکر نبی کی شان کا ذکر فرمایا :اے میرے مالک! یہ میرے بعد آنے والا پیغمبر کتنی عظمتوں والا نبی ہے، کتنی بڑی شان ہے اس کی،اے میرے مالک! میں نے بھی کبھی تیرے دیدار کی درخواست کی تھی مگر میں جلوہ ربی کی تاب نہ لا کر زمین پر گرگیاتھا مجھ پر غشی طاری ہوگئ تھی . مگر واہ آج تیرے حضور یہ نبیوں کا امام ملنے جارہا ہے تو میرے مالک! اس کا جانا مبارک ہو. میں موسی یہ کروں گا کہ جب جلوہ ربی کا مشاہدہ کرکے تجلی الہی کا نور اپنی نوری آنکھوں میں بساکر آئیں گے تو میں ان آنکھوں کا دیدار کرلوں گا، میری آرزو پوری ہوجائے گی.
اور یہی ہوا کہ جب ہمارے سرکار وہاں سے چلے نمازوں کا تحفہ لے کر تو راستہ میں جناب موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور ان کے کہنے پر تخفیف صلوۃ کے لیے نو بار آنا جانا ہوا، ادھر مصطفی نور ربی کے جلوے آنکھوں میں سمو کر آرہے تھے اور ادھر موسی بار بار زیارت تجلی الہی کرکے اپنے خانہ دل کو منور فرما رہے تھے.
اس کے بعد سیدنا سلیمان علیہ السلام کا خطاب ہوا اور آخر میں جناب احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر کا مضمون کیا تھا؟ تو قاضی عیاض نے شفا شریف میں نقل کیا ہے :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد و ثنا کے بعد اپنی گفتگو کا آغاز کیا تو فرماتے ہیں :”جملہ تسبیح و تحمید رب ذوالجلال کی بارگاہ میں جس نے مجھے ساری کائنات کے لیے رحمت اور بشیر و نذیر بنا کر بھیجا،اور مجھے وہ اعلی ترین کتاب عطا کیا جس میں ہر خشک و تر وبحر بر کا روشن بیان موجود ہے، شکر ہے رب جل وعلا کا جس نے میری امت کو بہترین امت قرار دیا اور میری امت کے افراد کو تمام امتوں پر فضیلت و برتری عطا فرمائی.الخ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ان خصائص و ممیزات کو سنا تو برجستہ ارشاد فرمایا: یہی وہ خوبیاں ہیں جن کے سبب رب نے آپ کو تمام انبیاء و رسل پر فوقیت عطا فرمائی.
اب یہاں سے عالم بالا کا سفر شروع ہوتا ہے، آسمان سبعہ کی سیر کرتے ہوئے بیت المعمور پھر سدرۃ المنتہی یہی وہ مقام ہے جہاں سے جبرئیل بھی ساتھ چھوڑدیتے ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تنہا سفر شروع فرمایا اور تمام تر عجائب و صنائع کا مشاہدہ کرتے ہوئے آگے کی طرف رواں دواں ہیں. اسی کو قرآن نے کہا :ما زاغ البصریعنی نہ نگاہیں ادھر اودھر مڑی اور نہ حد سے بڑھی”.
کیوں کہ میرے آقا کی نظر تو اپنی منزل پر تھی، دنیا کی چیزوں کو مڑ مڑ کر دیکھتے نہیں جاتے بلکہ اپنے رب سے ملاقات کی تڑپ اور شوق لیے بس ایک ہی طرف تکتے جاتے تھے، تکتے جاتے تھے، پھر وہ منزل بھی آئی کہ قاب و قوسین سے بھی آگے دنا فتدلی کی منزل سے گزرتے ہوئے رب سے ملاقات ہوئی پھر آگے قرآن نے کہا :ما کذب الفؤاد یعنی میرے آقا کا اذعان و ایقان اس قدر مستحکم تھا کہ جتنے مناظر آنکھوں سے دیکھتے جاتے تھے ان سب پر مہر تصدیق بھی ثبت فرماتے جاتے تھے. ایسا نہیں کہ آنکھوں سے دیکھ کر گزر جاتے تھے بلکہ دل کی گہرائیوں سے اس کی تصدیق بھی فرماتے تھے.
یہیں سے ہمیں اس دنیاوی زندگی میں ایک ادب سیکھنے کو ملا، جب بھی تمھاری کوئی منزل نظر میں ہو، تم اس تک پہنچنے کی کوشش کرو تو یاد رکھنا دنیا کے اور مناظر کی طرف گھوم گھوم کر مت دیکھنا بس نظریں جماکر اپنی منزل کو تکتے جانا وہ منزل تمھارے قریب ہوتی نظر آے گی.
پھر معراج کے دولہا آقا رب کی بارگاہ سے قریب ہوکر، جلوہ ربی کا مشاہدہ کرتے ہوئے دونوں کے درمیان کیا راز و نیاز کی باتیں ہوئی رب جانے اور رب کا حبیب جانے، پھر اپنی امت کے لیے ایک خوبصورت تحفہ نماز لے کر تشریف لے آئے.
یہ تھا سفر معراج کا مختصر روداد جو میں نے زیب قرطاس کیا، رب قدیر! ہم سب کو شب معراج کی سعادتوں و برکتوں و رحمتوں سے شادکام فرمائے.
الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !
الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مزید پڑھیں: ___نہ جانے کتنے سنبھل ابھی باقی ہیں !! غلام مصطفےٰ نعیمیروشن مستقبل دہلی فی الحال سنبھل جامع مسجد کے سروے پر سپریم کورٹ نے پابندی لگا دی ہے لیکن اس وقتی راحت کو ایک دن بھی نہیں گزرا تھا کہ بدایوں کی جامع مسجد پر نِیل کَنٹھ مندر ہونے کا مقدمہ سامنے آگیا۔تین دسمبر کو … سنبھل کے زخموں سے بہتا ہوا خون ابھی بند بھی نہیں ہوا ہے کہ اجمیر کی ضلع عدالت نے درگاہ غریب نواز کو مندر قرار دینے والی در اپنے دامن میں صدیوں کی تاریخ سمیٹے سنبھل شہر کی گلیاں لہو لہان ہیں۔چاروں طرف پولیس کا پہرہ، راستوں کی بیری کیڈنگ اور آسمانوں پر لہراتے ڈرون کیمرے س جلسوں میں بگاڑ، پیشے ور خطیب و نقیب اور نعت خواں ذمہ دار!!! تحریر:جاوید اختر بھارتی javedbharti508@gmail.com محترم قارئین کرام: کرنی کرے تو کیوں کرے اور کرکے کیوں پچھتائے ،، بوئے پیڑ ببول کا تو آم کہا سے کھائے ،، تم جو نیکی آج کروگے اس کا صلہ کل پاؤگے جیسا پیڑ لگاؤگے ویسا ہی … عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان محسوس ہوئی اس لیے اس کی نفرت باہر نکل آئی۔عورت بھی اعصاب کی مضبوط نکلی بحث بھی کی، کھانا بھی چھوڑ دیا لیکن نعرہ نہیں لگایا۔اس سے ہمیں بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے شاید وہ خاتون مسلمان ہی ہوگی۔
___نہ جانے کتنے سنبھل ابھی باقی ہیں !!
لیجیے! اب آستانہ غریب نواز پر مندر ہونے کا مقدمہ !!
__لہو لہان سنبھل____
جلسوں میں بگاڑ، پیشے ور خطیب و نقیب اور نعت خواں ذمہ دار!!!
نفرت کا بھنڈارا