موجودہ خانقاہی نظام: ایک رپورٹ اور اصلاح!

موجودہ خانقاہی نظام: ایک رپورٹ اور اصلاح

دینِ اِسلام کی ترویج و اشاعت کا کارنامہ بیشتر ممالک میں صوفیائے کرام ہی کی تبلیغی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ انہی کی مساعی جمیلہ سے ہر سُو اِسلام پھیلتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اولیاء اللہ اور اربابِ طریقت کی والہانہ عقیدت و محبت اور اکرام و احترام کا جذبہ بغائت درجہ موج زن ہے۔

نیز خانقاہ میں مرشد کامل کی صحبت میں رہ کر حاصل کردہ تعلیم و تربیت عام انسان کو درویش بنا دیتی ہے ۔ خانقاہی نظام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دور سے قائم ہے جیساکہ اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم تمام دنیا سے کٹ کر صفہ کے چبوترے پر رہتے اور صبح شام اپنے مرشد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت سے فیض یاب ہوتے ۔

اسی طرح خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں مدارس میں دین کے ظاہری و باطنی دونوں پہلوؤں کی تعلیم و تربیت دی جاتی تھی ۔ پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ معدوم ہوتا دکھائی دیا تو اولیا اللہ نے خانقاہوں کے ذریعے باطنی علوم عوام الناس میں بانٹنے کا بیڑہ اُٹھایا ۔

چنانچہ برصغیر پاک و ہند کی تہذیبی، سماجی، معاشرتی، سیاسی ، معاشی اور اخلاقی اقدار پر گہرے اثرات مرتب کئے نیز یہ خانقاہی نظام ایک عرصہ تک اپنی انہی معیاری بنیادوں پر اُستوار رہا جن پر اِسے قائم کیا گیا تھا۔۔۔۔۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تعلیم و تربیت کا یہ معیاری نظام رُو بہ تنزل ہوتا چلا گیا ۔

کیوں کہ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کوئی ادارہ اور نظام کتنا ہی مثالی کیوں نہ ہو بتمام و کمال عروج پر قائم نہیں رہ سکتا ۔ زمانہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اُسے کچل کر رکھ دیتا ہے۔ یہی حال خانقاہی نظام کے ساتھ بھی ہوا۔

آہستہ آہستہ مسلمانوں کی دین سے دوری کی وجہ سے غیر مسلم اقوام نے ان خانقاہوں پر قبضہ کر کے مسلمانوں کے دین کو صرف ظاہر پرستی تک محدود کر دیا اور فرقہ واریت کو فروغ دیا ۔ دوسری طرف دین سے دوری اور دنیا کی بڑھتی ہوئی طلب کو دیکھتے ہوئے اولیا اللہ نے بھی خود کو چھپا لیا ۔

نیز نوجوان طبقہ میں انتشار ان تعلیمی اداروں نے ڈالا جو روحانیت جیسے اہم شعبے سے خالی تھے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ انگریزوں نے مسلمانوں کے صدیوں سے قائم خانقاہی نظام کو تباہ کرنے کےلیے خانقاہ کی سربراہی کو وراثت کے قانون کے تحت ولی اللہ کے وصال کے بعد اس کے اصل روحانی وارث کسی اہل و کامل کی بجائے اس کے ظاہری فرزند کے حوالے کر دیا خواہ وہ اس کا اہل ہو یا نہ ۔

اسی طرح اگر کوئی ولی اللہ اپنی زندگی میں ہی اپنے روحانی وارث کو اپنے مزار کا سجادہ نشین بنا دیتا ہے تو وراثت کے قانون کے مطابق عدالت اس کا حق نہیں دیتی اور مزار اور خانقاہ ولی کے فرزندوں کے حوالے کر دیتی ہے ۔ اور یہ ضروری نہیں کہ سجادہ نشین یا گدی نشین بننے والا بیٹا ولی کا روحانی وارث بھی ہو ۔ یہ تو ان کی خوش قسمتی ہوتی ہے کہ وہ کسی ولی کامل کے گھر پیدا ہوتے ہیں ۔

آج کل کے سجادہ نشین اور گدی نشین کا تو یہ حال ہے کہ وہ گدی کے حصول کےلیے قتل و غارت سے بھی گریز نہیں کرتے کیونکہ ان کی نظر مزار سے آنے والی کمائی پر ہوتی ہے ۔ اور اگر وہ سیاست میں قدم رکھیں تو مریدین کی صورت میں بھاری مقدار میں ووٹ بھی حاصل ہو جاتے ہیں ۔

نیز سجادہ نشینوں کی وجہ سے لوگ اصل اولیا سے بھی دور ہو گئے ہیں کیونکہ وہ سجادہ نشین کو اس کی ظاہری حیثیت کی وجہ سے ولی سمجھ بیٹھے ہیں اور جب اس کو تمام روحانی اوصاف اور قوتوں سے عاری پاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اس دور میں کوئی ولئ کامل ہے ہی نہیں ۔

دوسری یہ کہ روحانیت کو کاروبار کا درجہ دینے کا اہم سبب وہ جاہل مرید ہیں جو پیر صاحب کے ہر عمل پر ایمان اور ہر حرکت کو ولی اللہ کی ادا سمجھتے ہیں (معاذ اللہ) اور یہ بات تصور کر لی گئی ہے کہ جس طرح کارخانے دار کا بیٹا اس کے کارخانے کا ، اور جاگیر دار کا بیٹا اس کی جاگیر کا وارث ہے بالکل اسی طرح پیر صاحب کا بیٹا پیر ہی ہو گا۔

اس حوالے سے ایک مولانا نے ایک پیر صاحب سے پوچھا کہ حضور آپ کا بزنس کیا ہے ؟ تو چونک کر اُن کی جانب حیرت سے دیکھنے لگے۔۔۔ تو پھر مولانا نے صفائی پیش کرتے ہوئے عرض کیا حضرت یہ نئی گاڑی ، گاڑی کا خرچہ ، ڈرائیور ، گن مین یہ قیمتی زرق برق لباس وغیرہ ۔۔۔ خرچے کیسے پورے ہوتے ہیں ؟ تو پیر صاحب کہنے لگے ”بس جی اللہ کا کرم ہے“

اور ایک دوسرے مولانا جو اُن کے ساتھ تھے انہوں نے تو یہ تک پوچھ لیا کہ اللہ کا ایسا کرم کسی اور پر کیوں نہیں ؟؟ پیر صاحب تو نہیں بولے مگر پاس بیٹھے ان کے مریدوں نے پھاڑ کھانے والی نظروں سے تکنے لگائے۔۔

کیوں کہ بعض مرید اپنی گدی کے اسی پیر سے زیادہ تعلقات بنا کے رکھتے ہیں جس سے وقتاً فوقتاً کچھ مفادات حاصل کئے جا سکیں اور پیر صاحب کی نگاہِ لطف بھی صاحبِ ثروت مریدوں پر عام مریدوں سے تھوڑی سی زیادہ ہوتی ہے ۔

بہر صورت! آج پیری مریدی ایک خالصتاً نفع بخش کاروبار اور بہترین ذریعہ روزگار ہے ۔ اس میں خسارے کا سودا بالکل نہیں، کوئی بھی شخص پیر بن کے بیٹھ جائے اس کی کوٹھی بنگلے، گاڑی، گھر بچوں اور نوکر چاکر کا خرچہ بغیر کسی محنت کے بیٹھے بٹھائے چلتا رہتا ہے۔۔

حُضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں: آج کل بہت سے لوگوں نے پیری مریدی کو پیشہ بنالیا ہے، سالانہ مریدوں میں دورہ کرتے ہیں اور مریدوں سے طرح طرح سے رقمیں کھسوٹتے ہیں جس کو نذرانہ وغیرہ ناموں سے موسوم کرتے ہیں اور ان میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو جھوٹ اور فریب سے بھی کام لیتے ہیں یہ ناجائز ہے۔(بہار شریعت: حصہ 16، ص 610، نئی ایڈیشن دعوتِ اسلامی)

تنبیہ: لہذا تنقیح و تصریح اور تجدید و احیاء کی مؤثر آواز بلند ہوتی رہنی چاہیے تاکہ اِس نظام کو مثبت انداز کی تعمیری تنقید کے ذریعے خرافات سے پاک کیا جاتا رہے۔ نیز چند ایک خرابیوں اور خلافِ سنت اُمور کو آڑ بنا کر پورے نظام کو فاسد اور باطل بنا دینا قطعی درست نہیں کہ یہ مسلمہ امر ہے کہ اِن خلافِ شرع اُمور کو کبھی بھی مسلمہ اربابِ طریقت کی تائید اور تحسین حاصل نہیں ہوئی جیسا کہ بہارِ شریعت کے عبارت سے واضح ہے ۔۔۔سو ہم نظامِ خانقاہی کے احیاء کے بھرپور حامی ہونے کے ساتھ اس کی اصلاح کے داعی اور منکرات کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حق بات کہنے اور لکھنے کی توفیق عطا فرمائے، مسلمانانِ اہلسنت کو ان وراثتی جاہل گدی نشینوں سے نجات عطا فرماۓ اور کامل اولیاۓ کرام کی پہچان و صحبت عطا فرماۓ۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
(بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰحضرت مشن، آبادپور
تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار بہار، الھند
متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی،بستی۔ یوپی،۔۔ ۲۶/جولائی/۲۰۲۲)


الرضا نیٹ ورک کو  دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جوائن کریں:
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ  (۲)جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کو ٹویٹر پر فالو کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔

مزید پڑھیں:

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

نفرت

نفرت کا بھنڈارا

عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان محسوس ہوئی اس لیے اس کی نفرت باہر نکل آئی۔عورت بھی اعصاب کی مضبوط نکلی بحث بھی کی، کھانا بھی چھوڑ دیا لیکن نعرہ نہیں لگایا۔اس سے ہمیں بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے شاید وہ خاتون مسلمان ہی ہوگی۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔