علامہ ابو الحقانی کی رحلت دنیائے علم وفن کا ایک ناقابل تلافی نقصان!!

محدث اسلام حضرت علامہ الحاج محمد حسین ابو الحقانی کی رحلت دنیائے علم وفن کا ایک ناقابل تلافی نقصان !!

ازقلم :شیر مہاراشٹر حضرت مفتی محمد علاء الدین قادری ر ضوی
صدر افتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتا ء والقضا ء ، میرا روڈ ممبئی


خالد شر یف کہتے ہیں :
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی۔۔۔۔۔۔۔ اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

کرونا نے جہاں دنیا کے تمام اسباب وعلل کو متاثر کیا وہیں ان دنوں علمائے ربانیین ،مشائخ عظام ومحدثین اسلام بڑی تیزی کے ساتھ آخرت کی طرف رخت سفر ہیں ۔ہر روز ایک نہ ایک عالم دین وشیخ طریقت کی موت کی خبر سے ملت اسلامیہ میں غموں کی لہر دوڑ سی گئی ہے ۔حضرت محدث اسلام حضرت علامہ الحاج مفتی محمد حسین ابو الحقانی قدس سرہ کے انتقال کی خبر نے دنیائے سنیت کو غمزدہ کردیا ۔موصوف نے اہل سنت وجماعت خصوصاً مسلک احناف کے افکار ونظریات کی خوب اشاعت ونمائندگی اور ترجمانی کا صحیح معنیٰ میں فریضہ ادا کیا جب غیر مقلد وہابی ہر بات کے لئے احادیث کریمہ سے دلائل کا مطالبہ کرنا شروع کردیا تو یہی وہ مرد قلندر ہیں جنہوں نے اپنی خداداد حافظہ کی وجہ سے جان وہابیت پر آفت بن کر ٹوٹا ،بڑے بڑے گستاخ وشاتمان رسول کی زبان بند کردی ،ہر بات صحیح احادیث سے ثابت کرنا یہ آپ کا جماعت اہل سنت کے علما میںامتیازی خاصہ تھا ،ہندوستان کے ہر صوبے میں وہابی فتنوں کی سرکوبی کا کام انجام دیا ،ان کے عقائد باطلہ وگستاخانہ سے امت مصطفویہ کو خبردار کیا ،خواص وعوام میں اہل سنت کے عقائد ومراسم کو فروغ دیا ،جماعتی بیداری وتنظیمی کام مسلک اعلیٰ حضرت کے موافق کیا ۔

اگر آپ میری دل کی سنیں تو حقیقت یہی ہے کہ جب بھی موصوف سے کسی جلسے یا کانفرنس میں ملاقات ہوتی تو آپ بڑی گرم جوشی سے ملا کرتے تھے ۔لیکن مجھے اس وقت بہت افسوس ہوتا ہے کہ دنیائے سنیت کے ایک عظیم محدث کو دانستہ یا نادانستہ طور پر ’حافظ احادیث کثیرہ ‘لکھایا بولا جاتا ہے ،جب کہ محدث کے لئے جتنے علوم وفنون وشرائط ضروری ہوتے ہیں ان تمام صفات کے آپ جامع تھے ، اس لئے کم از کم اب تو انہیں حافظ احادیث کثیرہ نہ کہاجائے بلکہ تحدیث نعمت کے طور پر انہیں محدث اسلام کے سنہرے وباوقار لقب سے یاد کریں ۔مجھے امید ہے کہ علما ئے اہل سنت اور معتقدین آپ کو آج سے ’محدث اسلام ‘کے نام سے یاد کریں گے ۔حضرت موصوف سینکڑوں جلسوں وکانفرنسوں میں ہزاروں علما وعوام کی موجودگی کے باوجود حدیث کی متن اس طرح پڑھا کرتے تھے جیسے تراویح کی نماز میں حفاظ قرآن پڑھا کرتے ہیں ۔ اس پر کمال یہ کہ حدیث پڑھنے کے بعد صحت حدیث ،راویان حدیث کی علمی حیثیت، ساتھ میں حدیث نمبر ،سطر نمبر ،حاشیہ کی تفصیلات ، مکتبہ کا نام اور محدث کا نام جنہوں نے حدیث کو اپنی کتاب میں جگہ دی اس کی مکمل تفصیلات ،حدیث کا پس منظر وپیش منظر گو ہر زاویئے سے حدیث کی تشریح فرما کر سامعین کو مطمئن فرمادیا کرتے تھے ۔

ممبر رسول پر اپنے وقت کے خواہ جتنے جلیل القدر قابل سے قابل علما کیوں نہ رونق افروز ہوں،بیان حدیث میں ذرا سکتہ نہیں ہوتا ،تفہیم اس قدر شاندار ونرالا کہ مخاطب اگر ان پڑھ بھی ہے تو حدیث کے ترجمہ وتشریح سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔دنیائے سنیت ہی نہیں بلکہ عالم اسلام میں موجود ہ صدی میں آپ واحد ایسے محد ث تھے کہ دوران درس و خطاب برملا جذبی کیفیت میں حقیقت کا اظہار فرمادیا کرتے اور یوں گویا ہوتے کہ’ اگر صحاح ستہ سے احادیث کے ذریعہ تراویح کی بیس رکعات پڑھانی جائز ہوں تو الحمد للہ !یہ فقیر ابو الحقانی بیسوں رکعتیں تراویح صحیح احادیث کے ذریعہ پڑھا دیتا پھر بھی احادیث کا ذخیرہ دریچہ ذہن میں موجود رہتا یہ میرے لئے میرے رب کی طرف سے عظیم عطیہ ہے ‘۔

لیکن دنیا نے ہمیشہ حقیقت سے انحراف کیا اور مصنوعیت کا خوب چرچا کیا جو اصل محدث ہیں انہیں ہمارے جلسوں کے منتظمین وعلما نے تو ’حافظ احادیث کثیرہ ‘سے یاد کیا وہیں جو ایک نشست یا پروگرام میں دس حدیثیں زبانی متن سے نہیں پڑھ سکتے آج وہ ’محدث کبیر واکبر ‘کے نام سے متعارف ہیں اگر میں واقعی اپنے موقف میں غلطی پر ہوں تو کسی بھی پروگرام کا ایک ویڈیو ہی شیئر کردیں جس میں مصنوعی ’محدث کبیر واکبر ‘محض پندرہ حدیثیں زبانی سندوں کے ساتھ پڑھتے نظر آرہے ہوں ،لیکن ہزاروں ویڈیوز آپ کو حضرت محدث اسلام کی مل جائیں گی جس میں آپ جماعت کے اس بے لوث ترجمان کو ایک نشست میں بیسوں احادیث سند کے ساتھ زبانی پڑھتے دیکھ سکتے ہیں اور ہر محفل میں مختلف مو ضو عات پر کثرت سے احا دیث پڑ ھنے کا اہتمام فر ما تے تھے جس سے ثابت ہوتاہے کہ اصل محدث اسلام کون ہیں اور تشہیر کس کا کیا جارہا ہے ۔یہ عمل خود جماعت ومذہب اسلام کے لئے قابل افسوس وکذب پر مبنی ہے ۔ اس اقتباس سے کوئی صاحب غلط تاویلات سے کام نہ لیں بلکہ حقیقت کاجائزہ لیں اور پھر فیصلہ کریں ۔اور کسی بز رگ کے لئے اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائیں تو بہتر ہو گا حقیقت کا انکشاف کسی نہ کسی صور ت آخر ہو ہی جا تا ہے ۔

محدث: حدیث شریف کی جانچ وپڑتا ل کرنے والے کو کہتے ہیں ۔جو شخص امانت ودیانت سے احادیث جمع کرے اور امت تک اس کی اصل صحت کے مطابق پہنچانے کا فریضہ انجام دے اُسے ہی تو محدث کہتے ہیں ۔حضرت موصوف اس امر میں یکتائے روزگار تھے ۔آپ نے حدیث صحیحہ کی پوری زندگی نشرواشاعت کیں اور ایک محفل میں بڑی بڑی حدیث سند ومتن سے فرفر پڑھ جاتے ۔راویوں کے نام تو تفصیلاً ذکر کرتے ہی تھے اس پر کمال یہ کہ راوی کی علمی ومذہبی حقانیت وصداقت پر بھی سیر حاصل گفتگو فرمایا کرتے تھے ۔جس سے اہل سنت شاداں وفرحاں ہوجاتے ،ایمان کی کلیاں کھل جاتیں ،دل جنت بداماں ہوجاتا ۔مسلک اعلیٰ حضرت کے دردوکرب سے بھر ے پڑے تھے ، رد وہابیت ،نجدیت ،دیوبندیت ورد بدمذہباں احادیث کریمہ کی روشنی میں فرمایا کرتے تھے ۔

اس فن میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا ، عرب وعجم میں آپ کو ایسی مقبولیت حاصل تھی جس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ،آپ کا شمار اہل سنت کے اکابر علما میں ہوتا تھا ،ایک محدث میں جتنے صفات ہونی چاہئے ان تمام صفات سے آپ کی ذات متصف تھی ،آپ سنت مبارکہ کے پابندتھے ،بیان حدیث میں صحت حدیث کا خاص خیال فرمایا کرتے تھے ،ضعیف روایات سے پرہیز کرتے تھے ،پرہیز گار تھے ،شب بیدار تھے ،رات کے سہ پہر تک جلسہ وکانفرنس سے خطاب فرماتے اور فجر کی نماز پڑھ کر ہی ضروری حوائج ولوازمات سے فارغ ہو کر آرام فرمایا کرتے تھے ،طلیق الوجہ تھے ،سخاوت وظرافت آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری پڑی تھی ،مہمان نواز تھے ،اخلاق نبوی سے مزین تھے ،سادہ مزاج کے حامل تھے ،تکلف سے کام نہیں لیا کرتے تھے ، مسلک کے امین وپاسبان تھے ،زمیندار تھے ،اہل حکم سے بے نیاز رہا کرتے تھے ،غریبوں ،یتیموں کا ہمدرد تھے ،توکل پسند تھے ،اللہ ہی پر بھروسہ کرتے تھے ،کسی معاملہ میں خوف نہیں فرمایا کرتے تھے ،درود ودیگر وظائف پڑھنے کے عادی تھے ،عشق مصطفیٰ سے سرشار تھے ،طبیعت میں بلا کی نظافت تھی ،نہایت عقیدت واحترام سے جشن میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا انعقاد کرتے تھے اور ایسی مقدس میلاد کی دعوت پر بصد ذوق شرکت فرمایا کرتے تھے آپ کی آواز میں شیر کی دہاڑ تھی،نعت ومنقبت ،تلاوت قرآن وحدیث آپ کی روحانی غذا تھی اسی سے روحانی تسکین فرمایا کرتے تھے ،رشدوہدایت ،تبلیغ وتلقین کے لئے آپ نے عرب وعجم کے تمام بڑے شہروں ، قصبوں اور قریوں کا سفر کیا ،جہاں گئے علم ومعرفت کا پیغام گھر گھر پہنچایا ۔

یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جب آپ حدیث شریف پڑھا کرتے تھے تو متن حدیث کی تلاوت کے وقت آنکھیں بند فرمایا لیا کرتے اور پانچ پانچ صفحات پر مشتمل حدیث راوی کے ناموں کے ساتھ تلاوت فرمالیا کرتے تھے ۔اس دور میں یہ خصوصیت ہندوپاک کے کسی محدث یا شیخ الحدیث میں نہیں پائی جاتی ہے،علم حدیث کے اتنے بڑے محدث ہوتے ہوئے بھی کبھی غرور وتمکنت سے آپ نے کام نہیں لیا ،موصوف ہر ایک کے ساتھ اعلیٰ ظرفی اور اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ فرمایا کرتے تھے ،عالم باعمل تھے ،حضرت مفتی اعظم ہند کے فیض یافتہ تھے ،انہیں کے مرید تھے ،انہیں کے نقش قدم کو زادۂ زندگی بنا رکھا تھا ،ایسی بہت کم مجلس ہوگی جس میں آپ حدیث پڑھنے کے بعد امام اہل سنت فاضل بریلوی اور مفتی اعظم ہند کا تذکرہ یا اشعار نہ پیش فرماتے ہوں ،بعض وقت حضرت استاذ زمن حسن رضا خاں بریلوی کے اشعار بھی خوب پڑھا کرتے تھے ،بلکہ آپ کا یہ معمول تھا کہ ہر حدیث کی تلاوت کے بعد مشاہدات تو یہی ہے کہ امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک دو شعر ضرور پڑھ کر سامعین کو محظوظ فرماتے اور حدیث کا اسی شعر سے خلاصہ بھی فرمادیا کرتے تھے ۔

اگر ہم موصوف کو بہترین مقرر ،مقناطیس خطیب کہیں تو شاید یہ ان کی ذات کے لئے مناسب نہیں آپ تو اہل سنت وجماعت کے زبردست عالم دین کے ساتھ امتیازی شان کے محدث تھے اور ہاں !ابھی کوئی آٹھ ماہ قبل مہاراشٹر کی زمین ناڑاوڈولی گاؤں میں فقیر [راقم الحروف ]نے حضرت کو ان کی محدثانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے’ محدث اسلام‘کہہ کر مخاطب کیا حضرت موصوف محض تبسم ریز ہوئے بعد میں فرمایا یہ آپ کی اعلیٰ ظرفی اور مجھ سے غایت درجہ محبت کی دلیل ہے ورنہ یہ فقیر اس قابل کہاں بس خدمت حدیث اور ترویج دین وسنت مقصود ہے ۔اسی لئے دنیا کے گوشے گوشے میں جا کر حدیث کی خوشبوئیں لٹایا کرتا ہوں ۔ حضرت مفتی اعظم ہند سے ایسا روحانی رشتہ استوار تھا کہ چہرہ پُرنور تھا ،گفتگو میں شائستگی تھی ،گستاخ رسول ،گستاخ صحابہ ، گستاخ اولیا وعلما سے سخت متنفر رہا کرتے تھے ،ان کے لئے آپ کی ذات کلک رضا کے مثل تھی ،دوران خطاب آپ جبہ ودستار کا استعمال فرمایا کرتے تھے جس سے چہرے پر نورانیت پیدا ہوجایا کرتی تھی ،یوں بھی علما ئے ملت اسلامیہ کا علم قرآن وعلم حدیث کی وجہ سے ان کا پوراوجود منور ومجلیٰ ہوتا ہے ۔

مجھے یاد ہے کہ ۱۹۹۸ء؍ میں آپ کا عروس البلاد ممبئی میں تشریف لانا ہوا اس وقت میں ’انجمن مفید الیتامیٰ‘مدنپورہ میں خدمت دین متین کا فریضہ انجام دے رہا تھا ،آپ ادارہ حاضر آئے میں نے حضرت کے سامنے عزیزم بابو محمد ضیاء المصطفیٰ تحسینی باسکی بہاری ضلع مدھوبنی بہار کو مؤطا امام محمد دے کر حضرت محدث اسلام کے سامنے بٹھا دیا حضرت نے اپنی آنکھیں بند کیں اور فرمایا کہ ضیا ء بابو آپ حدیث پڑھیں اس طالب علم نے احادیث پڑھنا شروع کیا اور ایک نشست میں تقریباً بیس احادیث پڑھ کر سنا دیا۔ حضرت کی خوشی کی انتہا نہ رہی ،مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اپنی جیب سے دوسوروپئے نکالے اور بطور انعام عنایت فرمادیا ،حضرت موصوف کا یہ عمل مہمان رسول سے اور ان طلبہ سے جو احادیث کا ذوق رکھتے ہیں نہایت محبت وشفقت کی دلیل ہے ۔۲۰۰۴ء؍ میں مجھ فقیر کو حج کی سعادت نصیب ہوئی حرم شریف میں حضرت محدث اسلام سے میری ملاقات ہوتی ہے بس کیا تھا حضرت نے مجھے حرم شریف کے ایک حصے میں لے جاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ نماز کی ادائیگی کے بعد آپ میرے ساتھ میری قیام گاہ پر چلیں گے میں نے یہی کیا حضرت موصوف کا جس شیخ کے گھر قیام تھا وہ شیخ حضرت کے مرید تھے ۔

شیخ کی عقیدت واحترام دیکھ کر میں حیران تھا کہ ایک عربی مکی شیخ حضرت کا اس قدر احترام آخر کیوں بجالارہے ہیں ،طعام کے بعد حسب معمول حضرت نے فرمایا کہ آپ بھی قیلولہ کرلیں پھر عصر کی نماز کے لئے حرم شریف چلیں گے ،قیلولہ کے بعد وضو کیا اور ہم دونوں حرم شریف کے لئے رواں دواں ہوگئے ۔راستے میں میں نے حضرت سے شیخ کی اس قدر عقیدت ومحبت سے پیش آنے کے تعلق سے پوچھا کہ آخر وجہ کیا ہے کہ ایک عربی مکی شیخ آپ سے اس قدر محبت فرماتے ہیں حضرت نے فرمایا :کہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حرم مکہ میں بے شمار علمائے اہل سنت تشریف فرما تھے اس مجلس میں حضرت تاج الشریعہ شیخ الاسلام والمسلمین مفتی الحاج الشاہ محمد اختر رضا خاں ازہری قدس سرہ ،مفتی اعظم مہاراشٹر اشرف الفقہا حضرت علامہ مولانا مفتی الحاج الشاہ محمد مجیب اشرف صاحب قدس سرہ اور دیگر علمائے اہل سنت موجود تھے ۔شیوخ عرب نے عربی زبان میں تقریر کے لئے علمائے اہل سنت کو دعوت دی حضرت تاج الشریعہ خاموش تشریف فرماتھے کچھ دیر مجلس میں سناٹا چھایا رہا کہ شیوخ عرب کے سامنے ہندی علما عربی میں کیا تقریر کرسکیں گے حضرت تاج الشریعہ نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے میرا انتخاب فرمادیا اور میں غوث وخواجہ اور اپنے امام امام اہل سنت فاضل بریلوی کا نام لے کر حمد وصلوٰۃ کے بعد شفاعت کے موضوع پر خطاب شروع کردیا اور شفاعت کے حوالے سے جتنی احادیث کتب صحیحہ میں نقل ہیں وہ تمام پڑھ دیں اور مختصراً درمیان میں اپنی طرف سے تشریح بھی کردیا کرتا تھا جس سے شیوخ عرب بہت متاثر ہوئے اور وہاں موجود بیشتر شیوخ مجھ سے سلسلہ قادریہ ،رضویہ میں بیعت ہوگئے ۔اس شیخ کی تعظیم وتکریم بجا لانے کی وجہ میری وہی تقریر ہے جو حرم مکہ میں ہوئی تھیں ،افسوس وہ تقریر ریکارڈ نہ ہوسکا اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ حرم شریف میں عام لوگوں کو کیمرہ لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔

اس میں میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت محدث اسلام محمد حسین ابو الحقانی رحمۃ اللہ علیہ مسلک اعلیٰ حضرت کے عظیم مترجم ومحدث تھے یہ بریلی سے عقیدت ومحبت کی ہی دلیل ہے کہ آپ عرس رضوی کے اسٹیج سے ہمیشہ اپنی فکر ونظر کی اشاعت کی ،ہزار اختلافات ہوئے ،ہزار آندھیاں اٹھیں ،ہزار طوفان آئے مگر آپ نے مشائخ کے آپسی اختلافات سے خود کو دور رکھتے ہوئے علم حدیث ومسلک اعلیٰ حضرت کو فروغ وارتقا بخشا ،آپ سے میری پہلی ملاقات شہر محبت ،مرکز عقیدت بریلی شریف ’جامعہ نوریہ باقر گنج ‘کے سالانہ جلسہ دستار بندی۱۹۹۴ء میں ہوئی آپ مقرر خصوصی کے طور پر تشریف فرماتھے اور میری دستار بندی ہونی تھی اتفاق ذمہ داران ادارہ نے امتحان سے قبل یہ اعلان کیا کہ رزلٹ کے اعتبار سے اسٹیج پر سند ودستار دی جائے گی ۔لیکن جوں ہی رزلٹ آیا تو غالباً قدیم طلبہ کے فرمائش پر دوبارہ ایک اعلانیہ نوٹس لگائی گئی کہ سند ودستار داخلہ کی تاریخ کے حساب سے دی جائے گی اس پر مجھے شدید تکلیف ہوئی چونکہ الحمد للہ !امتحان کے نتیجہ کے اعتبار سے فقیر [راقم الحروف ]کا طلبہ میں پہلا مقام حاصل تھا فوراً یہ شکایت لے کر استاذ گرامی مفسر قرآن حضرت علامہ مولانا محمد حنیف خاں صاحب قبلہ بریلی کے دفتر میں حاضر ہوا اور انہیں تمام باتیں بتائیں اس درمیان میری آواز کچھ بلند تھی اور حضرت محدث اسلام وہیں تشریف فرما تھے اشاروں سے مجھے قریب بلایا اور فرمایا کہ یہ آپ کے استاذ محترم ہیں اس لئے ان سے بلند آواز سے گفتگو کرنے سے بچیں ورنہ علم کا فیضان جاتا رہتا ہے ۔

میں نے فوراً اپنی آواز پست کرلی اور پھر حضرت محدث اسلام نے مجھے مشورہ دیا کہ اس موضوع پر آپ محدث بریلوی حضرت علامہ تحسین رضا خاں صاحب قبلہ سے بات کریں آخر ہم چند طلبہ کے ساتھ حضرت محدث بریلوی کے گھر حاضر آئے حضرت نے فوراً ہ سب کے لئے پانی اور ناشتہ پیش فرمایا اور خود ہی لے کر بھی آئے ناشتہ کے بعد حضرت نے فرمایا کہ آخر آپ حضرات کا آنا کیسے ہوا ہم نے حضرت کواعلانیہ نوٹس کے تعلق سے تفصیلی معلومات بتائی حضرت نے تبسم ریز لہجہ میں فرمایا کہ جو اعلان سند ودستار دینے کے تعلق سے پہلے آچکا ہے اسی کے مطابق سند ودستار دی جائے گی آپ مطمئن رہیں اور ہوا بھی یوں ہی کہ جیسے ہی جلسہ میںاناؤنسر نے لسٹ لے کر اعلان شروع کرنا چاہا حضرت محدث بریلوی بغیر لسٹ کے امتحان کے نتیجہ کے مطابق طلبہ کا ترتیب وار نام لینا شروع کردیا حضرت کے اس عمل سے تمام طلبہ میں خوشی کی لہر دوڑگئی اور اسے حضرت شبیہ مفتی اعظم ہند صدرالعلما کی کرامت کہئے کہ نامو ں کی فہرست ہاتھ میں نہ ہو تے ہو ئے بھی آپ تر تیب وار نامو ں کاا علان کر رہے تھے ۔

الٹے ہی چال چلتے ہیں دیوان گان عشق۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کو بند کر تے ہیں دیدار کے لئے

حضرت محد ث اسلام بز رگان دین کی عظمت وتوقیر کا خا ص خیال فر ما تے اگر بالفرض کو ئی شخص یا بز رگ سید ہے تو قدمو ں میں لوٹ پو ٹ ہو جا تے اور اپنی وجود و بقا کا قطعاً خیال نہیں فر ما تے ،یہ سچ ہے کہ عشق رسول جس دل میں ہووہ عشق و محبت کے آداب سے خو ب واقف ہو تے ہیں حضرت مو صوف عشق رسول کی لازوال دولتوں سے معمور تھے یہ عشق ہی کی بر کت تھی کہ آپ مسلسل حر مین شر یفین کی زیارت کے لئے جا یا کر تے تھے۔ حضرت مو صوف علوم حدیث کے علاوہ علوم قرآن ،علوم تفسیر، علوم فقہ ، علوم اصولیات ، علوم سیر ، علوم منطق ، علوم نحو و صرف ، علوم عقلیہ و نقلیہ میں یگانہ روز گار تھے ، بیک وقت عر بی ، فارسی ، اردو ، ہند ی زبان میں مہا رت تامہ رکھتے تھے نظم نگاری سے آپ کو کو ئی دلچسپی نہ تھی لیکن جہا ں آپ احادیث صحیحہ کے حا فظ تھے وہیں حدائق بخشش ، سامان بخشش اور ذوق نعت کے حا فظ تھے اس کے علاوہ نثرنگاری میں آپ کا اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہے ، نثر بہت سلیس اور مسجع تحریر فر ما تے تھے۔

بہت سی کتابیں آپ نے مذہبی مو ضو عات پر تصنیف کی ہیں جو قابل مطالعہ ہیں ۔آپ نے تبلیغ و ارشاد کے علاوہ تنظیمی و تعمیری کام بھی انجام دیا ہے جس میں دارالعلوم ، مسجد اور جسمانی صحت و توانائی کے لئے ایک عالیشان ہا سپیٹل کا قیام کیا ہے ۔آپ کی ر حلت سے جہان سنیت اور مسلک اعلیٰ حضرت کا بڑا خسارہ ہوا ہے جس کی تلافی فی الوقت ناممکن ہے ۔اللہ عزوجل اپنے حبیب صاحب لولاک حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے طفیل جما عت میں آپ کا نعم البدل عطا فر ما ئے اور آپ کے تمام فر زندو ں کو آپ کے نقش قدم کے مطابق خد مت دین کی تو فیق بخشے ۔ خصوصاً آپ کے صاحبزادے عزیزم مولانا محمد تحسین ر ضا مصباحی سلمہ کو آپ کا سچا و پکاجا نشین بنائے ۔

آمین !بجا ہ سید المر سلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
تر سیل فکر :محمد شاھد رضا ثنائی عفی عنہ
رکن اعلیٰ :افکار اہل سنت اکیڈمی ، میرا روڈ ممبئی
۲۵؍محرم الحرام ۱۴۴۲ھ ؍مطابق ؍ ۱۴ ؍ستمبر ۲۰۲۰ء ؍بروز :دوشنبہ


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں


مزید پڑھیں:
  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

گنبد اعلیٰ حضرت

حضور مفسر اعظم ہند بحیثیت مہتمم: فیضان رضا علیمی

یوں تو حضور جیلانی میاں علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری نے بسم اللہ خوانی کے وقت ہی جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما دی تھی اور آپ کے والد ماجد نے بھی ۱۹ سال کی عمر شریف میں ہی اپنی خلافت اور بزرگوں کی عنایتوں کو آپ کے حوالہ کر دیا تھا لیکن باضابطہ تحریر ی خلافت و اجازت ، نیابت و جانشینی اور اپنی ساری نعمتیں علامہ حامد رضا خان قادری نے اپنی وفات سے ڈھائی ماہ قبلہ ۲۵۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔