حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اور آپ کی تعلیمات 

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اور آپ کی تعلیمات 
محمد روشن رضا مصباحی ازہری

یوں تو دنیا میں بے شمار لوگ آے اور انھوں نے اپنی علمی و فکری و دینی خدمات کے ذریعہ خلق خدا کو ذات وحدہ لا شریک کی معرفت عطا کی اور رسول کی رسالت و نبی کی نبوت کے اقرار کی طرف انہیں راغب فرمایا۔اس عالم شس جہات میں لوگ آتے ہیں اور کسی ایک مجال میں وہ اپنی علمی و فقہی و فکری خدادا صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر خدمت دین متین انجام دیتے ہیں، بہت کم یاب ہیں وہ افراد جنھیں اللہ نے وہ ملکہ عطا فرمایا ہو کہ جملہ متداولہ علوم و مروجہ فنون میں وہ یکتائے روزگار ہوں اور جملہ مجال علم و فن میں انھوں نے جادہ پیمائی کی ہو، مگر آج ہم ایک ایسی عظیم الشان، لائق صد احترام، غوثیت کبری کے مالک، مسند ولایت کبری پہ متمکن، جن کے قدم ناز کی برکت سے ولایت مل جایا کرتی ہے، جن کو اللہ نے مادر زاد ولی بنایا ہو، جنھیں رب نے شریعت و طریقت کا محافظ و نگہبان بنا کر مبعوث کیا ہو، وہ کوئی اور نہیں ہم سب کے شیخ، ہم سب کے روحانی پیشوا، ہماری عقیدتوں کے مرکز، ہمارے ممد و مددگار، پیر پیراں، میر میران، پیر لاثانی، شہباز لامکانی، حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ذات ہے۔
آپ جیسے ولایت کے امام و مسند ولایت کے اعلی سنگھا سن پر متمکن تھے، اور ولایت و کرامت و زہد و تقوی کے اعلی مقام پر فائز تھے،وہیں آپ علم تفسیر و حدیث و فقہ میں بھی یکتائے روزگار تھے، اور کیوں نہ ہو کیوں کہ جس کی ولادت کی بشارت مصطفی کریم سنائیں، جن کی ولایت کی پیشین گوئی حبیب کبریا کریں، جنہیں محبوب خدا اپنا اور خلاق کائنات کا محبوب قرار دیں، جن کے بارے میں نبی ارشاد فرمائیں،اللہ اس عبد القادر کو ایسی شان و عظمت عطا فرمائے گا کہ جو شان نبیوں میں اس کے نانا سید الانبیاء کا ہے وہی مقام اولیا و اقطاب میں عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہوگا.اور آپ علم تفسیر و حدیث میں ایک بڑے اور ماہر مفسر کی حیثیت رکھتے تھے، اور علم حدیث میں آپ کا اتنا اونچا مقام ہے کہ بڑے بڑے محدثین و مورخین ان کی شان میں قصیدہ سنجی کرتے ہوئے نظر آے ہیں۔
چنانچہ حافظ ابوالعباس احمدبن احمدبغدادی اور علامہ حافظ عبدالرحمن بن الجوزی جو دونوں اپنے وقت میں علم کے سمندر اور حدیث دانی میں جبل شامخ شمار کئے جاتے تھے، اور معاصرین میں کوئی ان کا ہمسر نہیں تھا، آپ کی مجلس وعظ میں بغرض امتحان حاضرہوئے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے جب حضور غوث اعظم نے وعظ شروع فرمایا تو ایک آیت کی تفسیر مختلف طریقوں سے بیان فرمانے لگے۔ پہلی تفسیر بیان فرمائی تو اِن دونوں عالموں نے ایک دوسرے کودیکھتے ہوئے تصدیق کرتے ہوئے اپنی اپنی گردنیں ہلادیں۔ اِسی طرح گیارہ تفسیروں تک تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ دیکھ کراپنی اپنی گردنیں ہلاتے اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے رہے مگر جب حضور غوث اعظم نے بارہویں تفسیر بیان فرمائی تو اِس تفسیر سے دونوں عالم ہی لاعلم تھے اِس لئے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دونوں آپ کا منہ مبارک تکنے لگے اِسی طرح چالیس تفسیریں اِس آیت مبارکہ کی آپ بیان فرماتے چلے گئے اور یہ دونوں عالم استعجاب میں تصویر حیرت بنے سنتے اور سردھنتے رہے پھر آخر میں آپ نے فرمایاکہ اب ہم قال سے حال کی طرف پلٹتے ہیں پھر بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا نعرہ بلند فرمایا تو ساری مجلس میں ایک جوش کی کیفیت اور اضطراب پیداہوگیا اور علامہ ابن الجوشی نے جوش حال میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے (بہجتہ الاسرار ).
اور آپ کی تقریبا دس جلدوں میں آپ کی تفسیر الموسوم بہ "تفسیر الجیلانی” معرض وجود میں آئی جس میں آپ نے تصوف کے ان مخفی گوشوں کو اجاگر کیا جو نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں، جو بہت سے اہل علم و ارباب بصیرت لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھے.
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے نشر دین و اشاعت وفروغ پیغام اسلام میں جتنی تگ و دو کیا ہے دور دور تک اس کی نظیر نہیں ملتی، بالکل ایک مزدور کی طرح محنت و جاں فشانی کی، آپ دن میں بچوں کو اپنے مدرسہ قادریہ میں تیرہ علوم و فنون کا درس دیا کرتے تھے اور ہفتہ میں تین دن لوگوں کے مابین خطاب فرمایا کرتے اور ایسا خطاب کہ ستر ستر ہزار افراد اس مجلس میں شریک ہوتے اور آپ کی زبان مبارک سے نکلنے والی نوری شعاؤں کے سبب لوگ اپنے دلوں کے میل کو صاف کرتے اور پورے تطہیر قلب و صفاء باطن کرکے ہی ان کی بارگاہ سے واپس ہوتے.
سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی وہ اعلی تعلیمات جن پر آج عمل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور بدقسمتی یہ کہ ہم نے سیدنا سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی زندگی کے ایک پہلو کو لوگوں کے بیچ پیش کرتے ہیں اور ان کی زندگی کو فقط کرامات کی مشین قرار دیتے ہیں، مگر ان کی زندگی میں خوف خدا کس قدر موجزن تھا، ان کا علمی مقام کیسا تھا، ان کی فقہی صلاحیت کیسی تھی، ان کی محدثانہ عظمت کیسی تھی؟ ان گوشوں پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جاتی.
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خدمت خلق پر کس قدر آمادہ کیا ہے آپ ان کے ارشاد سے اندازہ لگائیں جس میں آپ نے ارشاد فرمایا:
میں نے سارے اعمال صالحہ کی تفتیش و تحقیق کی مگر ان سارے اعمال میں جو عمل سب سے زیادہ اہم نظر آیا وہ یہ ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلانا، محتاجوں کی حاجت روائی کرنا، غریبوں کی غربت کا مداوا کرنا یہ سب سے افضل عمل ہے،
اور آپ یہاں تک ارشاد فرماتے ہیں "ایک لقمہ کسی بھوکے کے پیٹ میں ڈال دینا ایک ہزار جامع مسجد بنانے سے بہتر ہے”
یہ اقوال غالیہ اس بات پر دال ہیں لوگوں کے حاجات کی تکمیل کرنا سب سے نیک و افضل عمل ہے، اور کیوں نہ ہو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا "لوگوں میں سب سے بہتر وہی ہے جو دوسروں کے کام آئے، ان کی ضرورت کی تکمیل میں اپنی توانائی صرف کرنا ایک مومن کے ایمان کامل کی علامت ہے.
اور آپ ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :اپنے رب کی بارگاہ میں اڑ کر قریب ہوجاؤ، مگر اڑنے کے لیے تو پر کی ضرورت ہوتی ہے تو انسان کے پاس پر کہاں سے آئے؟ تو اس کو بھی واضح فرمایا :تمھارے پاس دو پر ہیں ایک ہے کتاب اللہ دوسرا ہے سنت رسول اللہ، اور ان دونوں کو پر بناکر اپنے رب کی طرف اڑتے ہوے پہنچ جاؤ.
آپ کی تعلیمات آپ کے فرمودات اس قدر اہمیت کے حامل ہیں کہ اگر کوئی بندہ مومن ان کے مطابق اپنی زندگی گزارے تو وہ اس دنیا میں بھی سرخ رو ہوگا اور کل قیامت کے دن بھی اللہ اسے اعلی ترین مقامات سے سرفراز فرمائے گا.
اور آپ نے فقط بتایا ہی نہیں بلکہ اس پر عمل کرکے دیکھایا، چنانچہ آپ کے متعلق یہ معتمد روایت سے ثابت ہے کہ آپ نے عشا کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی ہے، آپ کے فرمودات اس قدر اہمیت کے حامل ہیں کہ اگر کوئی بندہ مومن ان کے مطابق اپنی زندگی گزارے تو وہ اس دنیا میں بھی سرخ رو ہوگا اور کل قیامت کے دن بھی اللہ اسے اعلی ترین مقامات سے سرفراز فرمائے گا.
اور آپ نے فقط بتایا ہی نہیں بلکہ اس پر عمل کرکے دیکھایا، چنانچہ آپ کے متعلق یہ معتمد روایت سے ثابت ہے کہ آپ نے عشا کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی ہے اور اتنی عبادت کے بعد جب یہ وقت کا غوث اعظم جب خانہ کعبہ کے حضور کھڑا ہوتا ہے تو کانپتے ہوے لب اور لرزتے ہوے اعضا کے ساتھ جالی کو پکڑ کر اپنی آنکھوں میں آنسو لیے عرض کرتے ہیں میرے مالک :تیرا یہ گنہ گار بندہ عبد القادر تیری بارگاہ میں حاضر ہے، کریما اگر اس کا عمل اس قابل نہیں ہے کہ تو کل قیامت کے دن میرا حساب و کتاب آسان فرماکر جنت کا پروانہ عطا کرے تو مولی! اتنا کرم کرنا کہ مجھے نابینا بنا کر اٹھانا تاکہ کل قیامت کی بھیڑ میں میں رسوائی سے بچ سکوں.یہ ہوتا ہے تقوی، یہ ہوتا ہے خشیت قلبی، یہ ہوتا ہے سوء حساب کا خوف.اللہ ہم سب کو تعلیمات غوث اعظم رضی اللہ عنہ پر عمل کی توفیق مرحمت فرمائے اور ہم سب کو ان 
کے فیضان سے شادکام فرمائے.
محمد روشن رضا مصباحی ازہری
خادم :رضوی دارالافتاء ،رام گڑھ 

الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔


مزید پڑھیں:

  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

گنبد اعلیٰ حضرت

حضور مفسر اعظم ہند بحیثیت مہتمم: فیضان رضا علیمی

یوں تو حضور جیلانی میاں علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری نے بسم اللہ خوانی کے وقت ہی جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما دی تھی اور آپ کے والد ماجد نے بھی ۱۹ سال کی عمر شریف میں ہی اپنی خلافت اور بزرگوں کی عنایتوں کو آپ کے حوالہ کر دیا تھا لیکن باضابطہ تحریر ی خلافت و اجازت ، نیابت و جانشینی اور اپنی ساری نعمتیں علامہ حامد رضا خان قادری نے اپنی وفات سے ڈھائی ماہ قبلہ ۲۵۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔