تاج الشریعہ:جس پہ نازاں تھا جہانِ سنیت
مولانا اشرف رضا قادری
مدیر اعلیٰ سہ ماہی امین شریعت
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی، یہیں سے نسل انسانی کا قافلہ چلا، مختلف رنگ و نسل کے افراد مختلف قبائل میں تقسیم ہو گئے، اور آج اس روئے زمین پر اربوں کی تعداد میں ابن آدم پھیلے ہوئے ہیں، اور ایک جہاں آباد ہے ، اس دھرتی پہ لاتعداد افراد آئے اور وقت متعینہ پر اس دنیا کو خیرآ باد کہا،ان میں بعض وہ بھی افراد تھے جنہوں نے خود اپنی تاریخ مرتب کی اور ان کی کتاب زندگی کے اوراق آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ بن گئے۔ ایسی پاکیزہ شخصیات میں انبیاء کرام کی مقدس جماعت، ازواج مطہرات کی عفت مآب تعداد، اہل بیت اطہار کی تقدیسی نسل، صحابہ کرام کی باعظمت گروہ، آئمہ مجتہدین اورسلف صالحین کی پاکیزہ صفیں شامل ہیں۔
زمانے کا ایک مزاج ہے اپنے لئے جینا اور اپنوں کے لئے جینا، بعض تقدس مآب حضرات نے اس مزاج مفلسی سے ہٹ کر ایک نئے منہج پر صرف سوچا ہی نہیں بلکہ عمل پیرا بھی رہے کہ اپنے اور اپنوں کے لئے جینا یہ کیسا جینا ہے، جینا ہے تو قوم و ملت کے پیچ و خم کو سنوارنے میں زندگی گزاری جائے اور یہی مقصود زندگی ہے۔ مؤرخ ایسوں ہی کی تاریخ رقم کرتا ہے اوراسی زندگی کو بعد فنا بھی بقا حاصل ہوتی ہے۔
ہمارے ممدوح مکرم ،مخدوم گرامی، عاشق رسول، نمونہ اسلاف، وارث علوم سیدی اعلیٰ حضرت، فقیہ اعظم ، حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی الشاہ محمد اسماعیل رضا خاں قادری المعروف بہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری محدث بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان کی ذات ستودہ صفات انہیں لائق صد احترام عبقریات کی فہرست میں شامل ہے، جن پہ پوری جماعت نازاں تھی اورجن کی بارگاہ قدس میں سارا عالم پروانہ کی طرح جبین عقیدت خم کئے ہوئے تھا۔
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو مقبولیت عامہ (خواص و عوام کے درمیان) کا جو تمغہ جاودانی اللہ عزوجل و سرکارمدینہ ﷺ کی بارگاہ پر انوار سے ملا تھا، اس کے محرکات کیا تھے، کیاصرف نبیرۂ اعلیٰ حضرت و حجۃ الاسلام اور جانشین مفتی اعظم ہند و شہزادۂ مفسر اعظم ہند ہونے کی بنیاد پر یہ شرف حاصل تھا؟ نہیں! بلکہ انہیں بعطائے رسول یہ عظمت و رفعت ملی تھی اور وہ بھی اس بنیاد پر کہ انہوں نے ہر مقام پر شریعت کو مقدم رکھا اور بذات خود رخصت کے بجائے عزیمت پر عمل کیا ۔اس پاکیزہ زندگی نے آپ کو مشائخ، علماء، فقہا، محدثین، قائدین، عمائدین، ارباب سیاست و سماجیت اور صاحبان فکر و تدبر کی نگاہوں میں محبوب نظر بنادیا اور ایسے چمکے کہ زمانے والوں کے دلوں کی ڈھڑکن بن گئے۔
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ ۲۰؍ویں صدی عیسوی کے آواخر میں رضوی دارالافتا کی مسند پر جلوہ فرما ہوئے، یہ دور عالم اسلام کا کشمکش تھا، ملک ہندوستان میں انارکی اور شورس کے تباہ کن اثرات ظاہر ہو رہے تھے، ایسے پر فتن دور میں آپ کو سخت آزمائش کا سامنا کرنا پڑا، ۲۱؍ویں صدی عیسوی کا آغاز آپ کا دور آخر رہا، یہ زمانہ جس قدر مذہبی، سیاسی اور سماجی اعتبار سے پرفتن رہا وہ اظہر من الشمس ہے۔
خانقاہوں میں غیر شرعی امور کا رواج، غیر تعلیم یافتہ(علوم اسلامیہ) سجادہ نشینوں میں شرعی بے راہ روی، دنیا دار علما کا خطاب تملق اور فقہا کا مستفتیوں کے مزاج کے مطابق فتاویٰ کا صدور ،درس گاہوں میں قرآن کی تفسیر بالرائے اورحدیث کے غیر منصفانہ تشریحات کے اسباق اور من چاہی مدرسین کا تقرر، مشربی عصبیت کی گرم بازاری ،علمائے سو کی فکری آوارگی اور سیاسی و سماجی ماحول کا تصادم ۔ایسے ماحول کو فتنہ اکبری سے اگر تعبیر کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
ایسے ناگفتہ بہ حالات میں قوم مسلم اور امت مسلمہ کے مسیحا اور ضرورت بن کر حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ زمانے پر چھا گئے اور استقامت علی الحق کی عملی تفسیر بن کر اپنی قائدانہ صلاحیت کو بروئے کار لائے۔
مفسرین کی ذہنی تفسیر، محدثین کی غیر ثقہ روایات سے استدلال، مفتیان زر پرست کا غیر شرعی اجتہاد، خانقاہوں کا زرد تصوف ٓاور مورڈن صوفیانہ تعلیمات کے خلاف حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے جس قدر جہاد بالقلم کیا ،آپ کے فتاویٰ اور کتابوں سے ظاہر و باہر ہے۔ساتھ ہی زمانے کے تغیر و تبدل کی بناء پر فقہی مسائل کا آپ نے اپنے ناخن تدبیر حل پیش کیا ، یہی وجہ ہے کہ علما و فقہا آپ کی شان فقاہت پر انگشت بدنداں نظر آتے ہیں۔
مفتی محمد اختر حسین قادری صاحب لکھتے ہیں:
’ ایک مرتبہ فقہی سیمینار میں یہ مسئلہ زیر بحث تھا کہ عورت کی آواز عورت ہے کہ نہیں، اس سلسلہ میں اکثر مندوبین فرما رہے تھے کہ عورت کی آواز کے مطابق عورت نہیں، بلکہ جس میں نغمگی پائی جائے وہ آواز عورت ہے، ان کا استدلال یہ تھا کہ فقہائے کرام نے فرمایا: نغمۃ المرأۃ عورۃ۔
راقم کا کہنا کہ نغمگی کی قید نہیں، بلکہ جس آواز میں نغمگی لچک اور جاذبیت و دلکشی ہو وہ عورت کے حکم میں ہے، بحث مکمل نہ ہوسکی اور سیمینار ختم ہو گیا۔
راقم دہلی سے آستانہ رضویہ بریلی شریف حاضر ہوا، اور حضور تاج الشریعہ دامت برکاتہم کی زیارت سے مشرف ہو کر سیمینار میں ہوئی بحث کا خلاصہ عرض کیا۔ آپ نے سنتے ہی برجستہ فرمایا: نغمۃ المرأۃ عورۃ میں نغمہ سے مراد نغمگی اور خوش الحانی نہیں بلکہ مطلق آواز ہے، دیکھئے فقہائے کرام مطلق آواز کو نغمہ سے تعبیر فرماتے ہیں، ،چنانچہ فتاویٰ عالم گیری کتاب الشھادۃ میں ہے اذا النغمۃ تشبہ نغمۃ ہے ،یہاں نغمگی مراد نہیں بلکہ مطلق آواز ہے،اس طرح نغمۃ المرأۃ عورۃ میں بھی نغمگی سے خوش الحانی اور نغمگی نہیں بلکہ مطلق آواز مراد ہے‘‘ [تجلیات تاج الشریعہ ،ص:۳۳۱]
مولانا کمال الدین اشرفی لکھتے ہیں:
’’مجلس شرعی مبارکپور کے دوسرے سیمینار میں میری شرکت ہوئی اور سیمینار کا موضوع تھا ’’شناختی کارڈ کے لئے فوٹو کھنچوانا جائز یا ناجائز ؟‘‘ فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی، شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی، رئیس التحریر علامہ ارشد القادری، امام علم و فن علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی رحمۃ اللہ علیھم اجمعین اور محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری وغیر ہم جیسے ملک کے نامور مفتیان کرام اور اجلہ فقہائے عظام کے درمیان آپ مسند صدارت و سرپرستی میں جلوہ بار تھے ،ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شہر علم و عرفاں میں علم و فضل کا آفتاب اتر آیا ہے، فضل و کمال کا یہ کوہ بے مثال اور علم وحکمت کا یہ بحر ذخار اپنی فقہی تحقیق اور وسعت معلومات سے سب کو سیراب کر رہا ہے، تمام مندوبین اور شرکائے سیمینار آپ کی طرف متوجہ تھے، اور جب آپ کچھ لب کشا ہوتے تو سبھوں کے کان کھڑے ہوجاتے، آپ نے شناختی کارڈ کے لئے فوٹو کھنچوانے کے تعلق سے فرمایا:
چونکہ اس صورت میں عند الطلب ضرورت ملجئہ یا حاجت شدیدہ متحقق ہوگی ،لہذا خاص شناختی کارڈ کے لئے فوٹو کھنچوانے کی اجازت ہوگی الضرورت تبیح المحظورات وغیرہ [نقوش تاج الشریعہ،ص:۲۰۱]
٭ جدید ذرائع ابلاغ سے استفاضہ شرعیہ کا ثبوت۔۔۔۔۔حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے شیخ مصطفی رحمتی، علامہ عبد الغنی نابلسی اور امام احمد رضا محدث بریلوی رحمھم اللہ تعالیٰ کے حوالے سے استفاضہ کی تعریف کا ذکر کرنے کے بعد تعریف میں مذکورہ لفظ خبر کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’صحت خبر کا مدار محض سماع پر نہیں بلکہ منجملہ شرائط معتبرہ اتصال بھی درکار ہے،اتصال بے ملاقات متصور نہیں‘‘ (جدید ذرائع ابلاغ سے رویت ہلال کے ثبوت کی شرعی حیثیت،ص:۳۰)
مفتی ناظم علی رضوی مصباحی لکھتے ہیں:
’’حدیث افتراق امت میں جن بہتر فرقوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ سب جہنم میں رہیں گے، وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، جیسے کفار و مشرکین یا جہنم میں ہمیشہ نہ رہیں گے بلکہ جہنم میں صرف ان کا دخول ہوگا؟ پھر امتی سے امت اجابت مراد ہے یا امت دعوت؟ اگر امت اجابت مراد ہے تو کیا وہ دین اسلام پر ہمیشہ قائم رہے گی یا یہود و نصاریٰ کی طرح دین حق سے برگشتہ و منحرف ہو کر جہنم رسید ہوگی؟ اور ’’ثلاثہ و سبعین ملۃ ‘‘ میں ملت سے کیا مراد ہے؟ ملت اسلامیہ یا ملت اسلام سے جدا ملت؟ اس پر حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے ایسی محققانہ بحث فرمائی، جس سے حدیث پاک کا معنی آفتاب روشن سے زیادہ آشکارا ہوجاتا ہے، اور اس بات کا اذعان تام ہوتا ہے کہ صرف ’’دخول فی النار ‘‘ ہی مراد نہیں بلکہ فرقہ ناجیہ سے منفرد و ممتاز، یہ اسلام مخالف اپنی بد عقیدگی اور بد مذہبی کے سبب جہنم میں ہمیشہ رہیں گے ،ان کی بد عقیدگی حد کفر تک پہنچی ہوگی‘‘ (نقوش تاج الشریعہ،ص: ۶۴۹)
٭ایک مسئلہ درپیش ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد گرامی کون ہیں؟ آزر یا تارح۔اس سلسلہ میں آئمہ کرام کا دومذہب ہیں ،پہلا مذہب جمہور علمائے اہل سنت کا ہے، اور وہی حق اور راجح ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام ’’تارح‘‘ ہے، دوسرا مذہب بعض علمائے کرام کا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کے والد کا نام ’’آزر ‘‘ ہے، انہیں بعض علما میں مشہور مصری عالم فاضل شیخ احمد بن شاکر بھی ہیں۔
حضرت تاج الشریعہ نے شیخ شاکر کے اس قول ضعیف کی تردید قرآن و حدیث اور متعدد عربی لغات اور اہل عرب کے استعمال کلمات سے کی ہے ،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل عرب ’’عم ‘‘ (چچا) کو ’’اب‘‘ (باپ) بھی کہتے ہیں، اور اس آیت کریمہ میں ’’اب‘‘ سے ’’عم‘‘مراد ہے،یہی مذہب سیدنا حضرت عبد اللہ بن عباس، امام مجاہدین، امام ابن جریح، امام سدی، اور سلیمان بن صریح اور سلیمان بن صرد کا ہے۔[ تجلیات تاج الشریعہ،ص: ۴۰۸،۴۱۱]
راقم مذکورہ بالا مثالیں پیش کرکے زمانہ والوں کو بتانا چاہتا ہے کہ تاج الشریعہ زمانے کی ضرورت بن کر چمکے، ارباب فضل و کمال اور صاحبان فقہ و فتاویٰ کے مرجع رہے۔معترضین نے جس زاویے سے اہلسنت کے اعتقاد و نظریات پر ناپاک حملہ کیا حضور تاج الشریعہ علمی اور مدلل مسکت جواب دے کر اپنے فرض منصبی کا حق ادا کر دیا۔
٭امام احمد رضا کی ترجمہ نگاری پر حملہ ہوا تو ’’‘‘دفاع کنز الایمان ‘‘تحریر فرمائی۔
٭شرائط و قیود کے پیش نظر ٹی وی اور ویڈیو کے جواز کی صورت پیدا کی گئی تو ’’ٹی وی ویڈیو کا آپریشن ‘‘معرض وجود میں آیا۔
٭تین طلاق کی شرعی حیثیت کا شور ہوا تو ’‘تین طلاق کا شرعی حکم‘‘ تحریر کی گئی۔
٭ چلتی ٹرین پر نماز پڑھنے کا مسئلہ اٹھا تو ’’چلتی ٹرین میں فرض و واجب نمازوں کا حکم ‘‘ تصنیف کی گئی۔
٭ متعدد ٹیلی فون اور موبائل سے حاصل شدہ خبر، خبر استفاضہ کا فتنہ اٹھا تو ’’جدید ذرائع ابلاغ سے رویت ہلال کے ثبوت کی شرعی حیثیت‘‘ زمانے والوں کے سامنے پیش کیا۔
٭ ٹائی کے استعمال کے جواز کی صورت پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو ’’ٹائی کا مسئلہ‘‘ لکھ کر حکم شرع نافذ کیا۔
٭ تصویر کشی کی حرمت کے خلاف واویلا مچایا گیا تو ’’تصویروں کا شرعی حکم‘‘ کے نام کتاب لکھی گئی۔
٭حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد ’’تارح‘‘ یا ’’آزر‘‘ یہ ایک فتنہ کھڑا ہوا تو ’’آزار تحقیق کے آئینے میں‘‘ تحریر فرمایا۔
٭احسان الٰہی ظہیر سلفی نے جماعت اہلسنت کو ایک نیا فرقہ قرار دیا تو اس فتنہ کے سد باب کے لئے ’’حقیقۃ البریلویہ‘‘ تحریر فرمایا۔
٭ اصحابی کالنجوم والی حدیث کو موضوع قرار دیا گیا تو ’’الصحابۃ نجوم الاھتداء‘‘ تحریر فرمائی۔
٭ پیر کے دن ولادت ﷺ پر خوشی میں ابو لہب کا اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کرنے کی تکذیب کی تردید پر ’’نھایۃ الزین فی التخفیف عن ابی لھب یوم الاثنین‘‘ تحریر فرمائی۔
یہی سبب ہے کہ اقطار عالم میں یہ جملہ صدائے باز گشت بن کر ندیٰ کررہا ہے ؎
{تاج الشریعہ:جس پہ نازاں تھا جہان سنیت}
الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !
الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج لائک کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مزید پڑھیں: