حیف! شیخ جی گالیوں پر اتر آۓ (۲)

حیف! شیخ جی گالیوں پر اتر آۓ (۲)

اخلاقی ابتری کے شکار لوگ سماجی اصلاح کا دعوی کرتے ہوئے بڑے عجیب لگتے ہیں۔مسلک پروموشن کا راگ الاپے مضحکہ ہی لگتا ہے۔دین داری کا ڈھول پیٹے سن کر ہنسی آتی ہے۔ان کے لیے زبان و قلم کا شتر بے مہار ہوجانا لازما ایک بڑا مسئلہ ہونا چاہیے۔جو براہ راست قلب و روح کا کیس ہے۔کیوں کہ جس دین کی جانب سے بطور ڈائریکشن "سباب المومن فسوق” اور "واذا خاصم فجر” جیسے انتباہی حزرنامہ وارد ہوں اس میں فسق و فجور کی کسی بھی قسم کی گنجائش حرام ہی ہوگی۔یہاں یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس کی اخلاقی سطح بلند ہوتی ہے اس کے اندر حیا کا عنصر غالب ہوتا ہے وہ بہر حال گالی باز نہیں ہوتا۔

صوفیا کا طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ ٹپوری قسم کے لوگوں کو بھی لعن طعن و گالی گلوچ کرنے سے احتراز برتتے ہیں۔اس سے ایک صوفیانہ مسئلہ متفرع ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے جتھے میں ہو۔یاران ہم خیال کے ہجوم سے تحسین و آفرین کی توقع بھی ہو۔موافق گروہ فحش گوئی کو جائز بھی ٹھہرا دے۔حالات بھی موافق ہوں۔حریف مقابل سے کسی خطرے کا اندیشہ بھی نہ ہو۔ایسے میں اگر وہ خدا و رسول سے شرما جاۓ اور شاتم کے خلاف ترکی بہ ترکی کے اصول سے عملا اعراض کر جاۓ تو یہ عمل دو گنے ثواب کا باعث ہے۔اور یہی اصل دین داری ہے۔

اگر بد زبان اور فحش گو(خاص کر مولوی و متصوف) لوگ جان لیں کہ ابو جہل اور عمر دونوں نبی کے جانی دشمن تھے۔پھر کیا چیز مانع رہی کہ ابو جہل راندۂ درگاہ رسالت ہو کر بے ایمان مرا۔اور عمر مقبول بارگاہ ہوکر فاروق و عادل کے خطاب سے نوازے گیے؟
علماۓ سیرت نے اس کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی ہے کہ عمر دشمن تو تھے، ابو جہل کی طرح نبی کے گستاخ نہیں تھے۔فحش گو نہیں تھے۔کبھی بھی آپ کو دشنام نہیں دیا۔آپ کے کردار پر کبھی انگشت نمائی نہیں کی۔بدکلامی ان کے خو میں شامل نہیں رہی۔حالت کفر میں بھی با اخلاق رہے۔
عمر کی یہی ادا نبی کو پسند تھی کہ یہ شخص دشمنی تو بڑی ذمہ داری سے نبھا رہا ہے مگر اخلاق و مروت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔دفاع بتاں کی خاطر مارنے مرنے کو تیار تو دکھتا ہے مگر ہفوات نہیں بکتا۔پیغمبر کے معیار پر عمر کھرے اترے۔نواز دیئے گئے۔یہی معیار بھی ہے کسی کی زبان و بیان کو پرکھنے کا کہ لافظ و متکلم حالت غیظ و غضب میں بھی آپے سے باہر تو نہیں ہوا؟ نرم خوئی توفیق ایزدی سے ممکن ہوتی ہے۔بندوں کے لیے ضبط و تحمل خدا کا انعام ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے خدا سے عمر کو مانگ لیا۔

عمر چاہتے تو گالیاں بھی دے سکتے تھے وہ دین کے مکلف تو نہیں تھے نا۔ان پر سماج کا کوئی دباو بھی تو نہیں تھا تاہم فکری رذالت، ذہنی کثافت، نظریاتی تکدر کو اپنے حریف کے خلاف ہتھیار نہ بنانا ان کے اعلی اخلاق کو پروف کرتا ہے۔قتل رسول کے ارادے سے شمشیر بکف نکلے تو تھے مگر آپﷺ کو برا بھلا نہیں کہا۔طیش میں رہے، غصے سے لال پیلے بھی رہے مگر حد اخلاقیات کی خلاف ورزی نہیں کی۔

یہ سچ ہے کہ خیر کی توفیق جسے نصیب ہو وہ بد زبان ہو ہی نہیں سکتا۔فحش گو شخص جب سماج کو منظور نہیں، تو خدا و رسول کو کیسے منظور ہوسکتا ہے؟۔شرافت و حیاداری ایمان کی علامت ہے جس کے اندر یہ صفت ہو وہ سماجی اصلاح کا ضامن ہے۔اسے سماج سے زیادہ خدا و رسول سے حیا آتی ہے۔رب ایسے بندے کے لیے توفیقات کی سبیلیں نکال دیتا ہے۔اسے ہر حال میں زبان پر قابو ہوتا ہے۔

فقہ و شرع کی کتابیں پڑھ لیں جان و مال کی ہلاکت و تلف اور نقصان و خسران پر قصاص، دیت، ضمان جیسے تعزیری دفعات تو درج ہیں مگر دشنام طرازی پر کسی قسم کے قصاص و دیت نہیں۔اگر ایسا ہوتا تو سماجی تانے بانے بکھر جاتے۔سماج میں رنجشیں،شورشیں،عداوتیں، رقابتیں گھر کر جاتیں۔اور پھر وہ لوگ جو گالی کا جواب گالی سے دینا دین ٹھہراتے ہیں انہیں بیٹھے بٹھائے ایک بڑا ہتھیار ہاتھ آجاتا۔خیر ہوئی کہ علماۓ فقہ نے آنکھ کے بدلے آنکھ، ہاتھ کے بدلے ہاتھ پر قیاس کرتے ہوئے گالی کے بدلے گالی کا غیر اخلاقی جواز نہیں ڈھونڈا۔ورنہ زبان و بیان کے ننگے لوگ ذرا سی ذرا بات پر ہر جگہ اس کا قصاص لینے پہنچ جاتے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے بحیثیت مومن رسول کی ذات ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے۔اب اگر کوئی سب و شتم رسول کا مرتکب ہو تو پھر دین کا کیا اسٹینڈ ہے؟ خود آپ ﷺ کا کیا موقف ہے؟ کیا شاتم رسول کو جی بھر کے کوسا جاۓ؟ مگر نہیں! دین نے بس اتنا کہ کر "من سب نبیا فاقتلوہ"۔سب و شتم کے غیر اخلاقی جرم کا سد باب کر دیا۔
اس سے اس مسئلہ کی تفہیم بھی سہل ہوگئی کہ جب روحِ ایمان کے شاتم کے خلاف گالی بازی کا جواز نہیں نکالا جا سکتا تو پھر عزت شیخ کے دفاع میں کسی مرید کے لیے فحش گوئی کیسے جائز ٹھہرے گی؟زید بکر کے ممدوح سے اختلاف رکھے، یا ان کے شیخ کے کسی قول و فعل پر معترض ہو تو بکر کو گالی گلوچ سے سبق سکھانے کا ٹپوریانہ حربہ استعمال کرنے کا کیا حق بنتا ہے؟ایک بات یہ بھی سمجھنے کی ہے کہ آپﷺ کو شتم کرنے والے کے خلاف حاکم وقت کو صرف قتل کا ایکشن لینے کا حکم ہے وہ بھی موافق و ضروری حالات میں۔اور ہمارے ارباب کلاہ و ریش صرف اختلاف راۓ پر آپا کھو بیٹھتے ہیں۔جب کہ ان کے ممدوح نہ دین ہیں نہ ارکان شرع میں داخل ہیں۔نہ کسی نص مجمل کی توضیح میں خبر آحاد و قیاس اس پر دال ہے۔یہ ٹکراو یہ فساد اس لیے برپا ہوا ہے کہ ہم اپنے شیخ کو ہر کسی سے منوانے کی جبری کوشش کرتے ہیں۔جب کہ اہل اسلام رسول کی ذات و بات پر متفق نہیں ہوۓ تو ۲۱؍ ویں صدی کے کسی شیخ پر کب ممکن ہے؟ جب کہ رسول ہی عین دین ہیں یہ ہر کسی کو پتا ہے۔یہ بہت برا ہے کہ اپنے شیخ کے اقبال کے لیے دوسرے کے شیخ کی پگڑی اچھالنی پڑے فیا للعجب! یہ بات پیر بھکت مولویوں کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔

حزر اے چیرہ دستاں سخت ہیں قدرت کی تعزیریں

مشتاق نوری
۲۷؍ستمبر ۲۰۲۱ء


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ  (۲)جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔

مزید پڑھیں:

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

آسام

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال ✍🏻— مزمل حسین علیمی آسامی ڈائریکٹر: علیمی اکیڈمی …

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔