مولانا ولی رحمانی جواب دیں!!کیافقہ حنفی میں گھروں میں عید وجمعہ کی نماز درست ہے؟؟

مولانا ولی رحمانی جواب دیں!!کیافقہ حنفی میں گھروں میں عید وجمعہ کی نماز درست ہے؟؟

امجدرضاامجدؔقاضی شریعت ادارہ شرعیہ بہار پٹنہ

ملک میں جب سے لاک ڈاؤن کاسلسلہ شروع ہو اہے وقفہ وقفہ سے جمعہ وعید کے حوالہ سے مختلف اور متنازع تحریریں اخبارات اورسوشل میڈیا پہ گردش کررہی ہیں ۔ان میں کچھ تو ذمہ داران کی ہیں اور کچھ ان لوگوں کی بھی ہیں جو جذبہ خود نمائی میں کچھ نہ کچھ بولتے رہنا ضروری خیال کرنے کی عادی ہیں۔ انہیں تحریروں کے زیر اثر ایسی خبریں بھی آئیں کہ بعض لوگوں نے گھروں میں جمعہ کی نمازپڑھنا شروع کردیاہے ۔اور اب امارت شرعیہ، پٹنہ کے امیر مولانا ولی رحمانی صاحب نے باضابطہ امارت شرعیہ کے  لیٹر پیڈ پر   اور اخبارات میں بھی  اس تحریر کو شائع کیا ہے  کہ عید کی نماز بھی لوگ اپنے اپنے گھروں میں جماعت سے پڑھیں خطبہ نہ پڑھ سکیں تو بغیر خطبہ کے پڑھیں۔
مسلمان یادرکھیں کہ وہ گھروں میں جمعہ پڑھ کر اور ظہر چھوڑکرظہر کی فرضیت کے تارک ہورہے ہیں کیوں کہ گھروں میں شرائط صحت جمعہ مفقود ہونے کے سبب ان کی جمعہ کی نماز نہیںہورہی ہے ۔اہل علم پہ روشن ہے کہ صحت جمعہ کے لئےدیگر شرطوں کے علاوہ(۱)جمعہ وعید کے لئے مقرر کردہ امام (۲)جمعہ وعیدین کے لئے اذن عام(۳)اورجگہ کا صالح اذن عام ہوناضروری ہے ۔اور گھروں میں ان میں سے کوئی بھی صورت نہیں پائی جاتی۔
جمعہ وعیدین کاامام پنج وقتہ امام کی طرح نہیں کہ کوئی بھی امامت کرلے ،اور ہر گھر میں صالح امامت کا پایا جانابھی کیسا متعذر بتانے کی ضرورت نہیں۔ گھر میں اذن عام ،جس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ اس شہر کے تمام اہل جمعہ کے لئے وقت جمعہ حاضری جمعہ کی عام اجازت ہو‘‘قطعا مفقود ہے ۔گھر میں صرف گھر والے نماز پڑھیں گے دوسروں کے آنے کی قطعااجازت نہ ہوگی ۔یہ اذن عام کے منافی ہے ،جیساکہ فقہ کی مشہور کتاب ردالمحتار میں ہے: الاذن العام ای یاذن للناس اذناعامابان لایمنع احداممن تصح منہ الجمعہ عن دخول الموضع الذی تصلیٰ فیہ۔ تیسرے یہ کہ جس جگہ نماز ہورہی ہے اس جگہ کاصالح اذن عام ہونا بھی ضروری ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتو اذن عام ہی متحقق نہیں ہوگااور گھروں کاحال معلوم ہے کہ وہ بالعموم صالح اذن عام نہیں ہوتا ۔جب ان میں سے کوئی صورت پائی ہی نہیں جاتی پھر گھروں میں جمعہ کی نماز کیسے ہوسکتی ہے ۔اورجب گھروں میں جمعہ جائز نہیں، توگھروں میں عیدکی نماز بھی نہیں ہوسکتی کہ عید کے بھی وہی شرائط ہیں جو جمعہ کے ہیں ۔
کسی فرد کا یہ مانتے ہوئے کہ’’فقہا ئے کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ جو شخص کسی واقعی مجبوری کی وجہ سے عیدکی نماز نہیں پڑھ سکتاہو وہ چاشت کی طرح چار رکعت نمازپڑھے ‘‘اپنی طرف سے گھروں میں عید کی نماز پڑھنے کی صلاح دیتے ہوئے کہنا کہ ’’ بقیہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں نماز عید ادا کریں اور گھر میں بھی جماعت کرتے ہوئے باہر کےلوگوں کو نہ بلائیں ۔عید کی جماعت کے لئے تین افراد کا ہونا ضروری ہے اگرکسی جگہ ایسا شخص موجود ہوجو عید کی نماز تو پڑھاسکتاہومگر خطبہ نہیں دے سکتاہو تو بغیر خطبہ کے ہی نماز عید اداکرلی جائے نماز شرعا درست ہوگی ‘‘از روے شرع کیسے درست ہوگی؟ اگر کسی صالح امامت کے پیچھے یہ جماعت ہوبھی گئی تو شرعاوہ نفل ہوگی ،عید کی واجب نہیں اور فقہا نے اس صورت میں نفل ہی پڑھنے کے لئے کہا ہے،پھراس کے باوجود عید پڑھوانا چہ معنیٰ دارد۔
حاصل یہ ہے کہ گھروں میں جمعہ وعیدین جائز نہیں۔اس لئے جمعۃ الوداع کی نماز جو لوگ مساجد میں یہاں جہاں مشروع ہے پڑھ سکیں توخیر ورنہ گھروں میں ظہر کی نماز تنہا تنہا پڑھیں اور عید کے دن تنہا تنہا یا جماعت سے دورکعت نفل یا چاشت کی نماز پڑھیں جیساکہ اس سے قبل ادارہ شرعیہ کے شعبہ افتا سے اعلان جاری کردیا گیا ہے۔
یہ خیال رکھیں کہ شریعت کو مسلمانوں کی عزت وناموس بھی مطلوب ہے اس لئے قانون شکنی سے بچیں کیوںکہ اس صورت میں قیدوبند کی صعوبتوں کے ساتھ ذلت ورسوائی سے بھی دوچارہونا پڑسکتاہے جس سے شرعا بچنا واجب ہے فتاویٰ رضویہ میں ہے:مایکون جرما فی القانون ففی افتتاحہ تعریض النفس للاذیٰوالاذلالوھو لایجوزفیجب التحرزعن مثلہ

اذن عام کی تعریف فتاویٰ رضویہ میں:جمعہ قائم کرنےوالوں کی طرف سے اس شہر کے تمام اہل جمعہ کے لئے وقت جمعہ حاضری جمعہ کی عام اجازت ہو(جلد ص۶۷۸)ردالمحتار میں ہے: الاذن العام ای یاذن للناس اذناعامابان لایمنع احداممن تصح منہ الجمعہ عن دخول الموضع الذی تصلیٰ فیہ (شامی جلد ۳ص۲۵ جمعہ)

جس جگہ جمعہ قائم کرناہے اس جگہ کا صالح اذن عام ہونا بھی ضروری ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتو اذن عام ہی متحقق نہیں ہوگا کیوں کہ تحقق اذن عام کے لئے اس مقام کا صالح اذن عام ہونا ضرورہے۔قانون شکنی کی صورت میں قیدوبند کی صعوبتوں کے ساتھ اپنے کو ذلت ورسوائی میں ڈالناہے جو ناجائز ہے۔اور جس سے شرعا بچنا واجب ہے فتاویٰ رضویہ میں ہے:مایکون جرما فی القانون ففی افتتاحہ تعریض النفس للاذیٰوالاذلالوھو لایجوزفیجب التحرزعن مثلہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ امامت پنجگانہ وامامت جمعہ وعیدین کا ایک ہی حکم ہے کیا ؟ فقط
الجواب
جمعہ وعیدین وکسوف امامت نماز پنجگانہ سے بہت تنگ تر ہے، پنجگانہ میں ہر شخص صحیح الایمان صحیح القرائۃ صحیح الطہارۃ مرد عاقل بالغ غیر معذور امامت کرسکتا ہے یعنی اس کے پیچھے نماز ہوجائے گی اگر چہ بوجہ فسق وغیرہ مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہو۔تجوز الصلٰوۃ خلف کل بروفاجر( ہر نیک وبد کے پیچھے نماز جائز ہے۔ت) کے یہی معنی ہیں مگر جمعہ وعیدین وکسوف میں کوئی امامت نہیں کرسکتا اگر چہ حافظ قاری متقی وغیرہ وغیرہ فضائل کا جامع ہو مگر وہ جو بحکم شرع عام مسلمانوں کا خود امام ہوکہ بالعموم ان پر استحقاقِ امامت رکھتا ہو یا ایسے امام کا ماذون ومقرر کردہ ہو اور یہ استحقاق علی الترتیب صرف تین طور پر ثابت ہوتا ہے :
اوّلاً : وہ سلطانِ اسلام ہو۔
ثانیاً: جہاں سلطنتِ اسلام نہیں وہاں یہ امامتِ عامہ اس شہر کے اعلم علمائے دین کو ہے۔
ثالثاً: جہاں یہ بھی نہ ہو وہاں بمجبوری عام مسلمان جسے مقرر کرلیں، بغیر ان صورتوں کے جو شخص نہ خود ایسا امام نہ ایسے امام کا نائب وماذون ومقرر کردہ اس کی امامت ان نمازوں میں اصلاً صحیح نہیں، اگر امامت کرے گا نماز باطل محض ہوگی، جمعہ کا فرض سرپر رہ جائے گا۔

  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

آسام

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال ✍🏻— مزمل حسین علیمی آسامی ڈائریکٹر: علیمی اکیڈمی …

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔