پاکستان،بنگلہ دیش اور افغانستان سے غیر مسلموں کو لانے والے کہاں ہیں؟

پاکستان،بنگلہ دیش اور افغانستان سے غیر مسلموں کو لانے والے کہاں ہیں؟

غلام مصطفیٰ نعیمی
مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی

زیادہ دن نہیں گزرے جب پورا ملک سی اے اے کی آگ میں سلگ رہا تھا.پڑوسی ممالک کے شہریوں کو بھارت لانے کی آڑ میں مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے ساژشیں چل رہی تھیں۔ایوان اقتدار سے لیکر گاؤں کے گلیاروں تک موسمی "انسانیت نوازوں اور ہمدردوں” کی ٹولیاں خود رو پودوں کی طرح اُگ آئی تھیں۔ جابجا اپنی انسانیت اور ہمدردی کے ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے کہا جارہا تھا کہ پڑوسی ممالک میں ہمارے ہندو بھائی پریشان ہیں اس لیے انسانیت کے ناطے ہم انہیں ہندوستان لائیں گے، شہریت اور روزگار دے کر عزت دارانہ مقام دیں گے۔ہر گلی، چوپال پر بس یہی باتیں تھیں ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی غیر ملکی ہندو یہاں آجائیں تو سی اے اے حامی پلکیں بچھا کر ان کا استقبال کریں گے، گھروں کے ساتھ دلوں میں بھی جگہ دیں گے۔لیکن کورونا وائرس کی آمد نے "ہمدردوں” کے چہروں سے جعلی ہمدردی کی نقاب اتار دی۔ انسانیت کی دہائی دینے والوں کے چہرے بے نقاب ہوگئے۔لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوتے ہی شہروں میں مقیم پردیسی مزدوروں، کاریگروں اور محنت کشوں کی دنیا تنگ ہوگئی۔ ہفتہ عشرہ جیسے تیسے گزرا اس کے بعد حالات دھماکہ خیز ہوتے چلے گئے۔کس مپرسی کی حالت میں مزدوروں کو کھانے کے لالے پڑ گئے۔ایک طرف بے روزگاری تو دوسری جانب کھانے پینے کی مشکلات!حکومت کے سارے وعدے پندرہ لاکھ روپے کی طرح ہوائی ثابت ہوئے۔ بیکاری اور فاقوں سے تنگ آکر مزدوروں نے اپنے گھروں کا سفر شروع کر دیا- لیکن یہ سفر نہایت تکلیف دہ اور پریشان کن تھا,بسیں تھیں نہ ٹرین! کوئی سائکل لیکر نکلا تو کچھ بھوسے کی طرح ٹرکوں میں سوار ہو کر نکلے اور بڑی تعداد نے پیدل ہی سفر شروع کر دیا- مئی کی تپتی دھوپ میں ان مزدوروں کو دنیا نے دیکھا،ننگے پیر ،تپتی سڑک، بھوک پیاس سے نڈھال یہ مزدور دہلی ممبئی بنگلور ، احمد آباد، لدھانیہ،چنئی آور سورت جیسے شہروں سے ہزاروں کلومیٹر کے سفر پر نکل پڑے لیکن ان بے حال مزدوروں پر کسی کو ترس نہیں آیا. جو بھکت کل تک غیر ملکیوں کے غم میں دبلے ہوئے جا رہے تھے، ہمدردی کے وہی پتلے ایسے غائب ہو گئے جیسے گدھے کے سر سینگ! مزدور بلکتے رہے مگر غیر ملکیوں کی تکلیف کا دکھاوا کرنے والے بھکتوں کو اپنے ہی ہم وطن مزدروں کی تکلیف دکھائی نہیں دی !!

اس وقت دنیا کے نوّے فیصد ممالک کورونا کی وبا سے جوجھ رہے ہیں لیکن شاید ہی کسی ملک میں لاک ڈاؤن کے بعد ہجرت کی ایسی نوبت آئی ہو۔ جب کہ اس ملک کے حکمراں اپنے منہ میاں مٹھو بنے ہوئے ہیں کہ کورونا کا مقابلہ کرنے میں ہم باقی دنیا سے بہت آگے اور اچھی پوزیشن میں ہیں۔احمقوں کی جنت میں رہنے والے ان جملے بازوں سے کوئی پوچھے کہ لاکھوں کروڑوں مزدوروں کی جو تعداد سڑکوں پر نظر آرہی ہے کیا دنیا کے کسی اور ملک میں بھی ایسی افراتفری مچی ہے؟
کتنے ہی پیدل مزدور بھوک پیاس کی تاب نہ لا کر موت کا شکار ہوگئے۔ کچھ بے چارے سڑک حادثوں میں جان گنوا بیٹھے اور کچھ کم نصیب ریل کی پٹریوں پر موت کا نوالہ بن گئے۔ایسے میں ہر انسان یہ سوال کرتا ہے کہ آخر ان مزدوروں کے لیے حکومت کے پاس کیا منصوبہ تھا؟
جب منصوبہ نہیں تھا تو بغیر منصوبہ بندی لاک ڈاؤن جیسا بڑا فیصلہ کیوں لیا گیا؟
لیکن ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ سوال پوچھنے والا میڈیا حکومت کی چاٹوکاری اور ہندو مسلم کے مابین نفرت پھیلانے میں مصروف ہے۔ پہلے تبلیغی جماعت کے بہانے غیر مسلموں میں اس قدر زہر بھرا گیا کہ مسلم سبزی فروشوں تک کو ہندو علاقوں سے نکال دیا گیا۔ہندو اکثریتی گاؤں میں مسلمانوں کی نو انٹری کے بورڈ لگا دئے گئے؟
لیکن مزدروں کی حالت پر اس میڈیا نے حکومت سے سوال کرنے کی آج تک زحمت نہیں کی، اور کریں بھی تو کیسے؟
جب مقصد ہی سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانا ہو تو انصاف کی امید رکھنا لاحاصل ہے۔ اور گودی میڈیا اس وقت اسی کام پر لگا ہوا ہے۔
جن مسلمانوں کے نام پر "کورونا جہاد” جیسی نفرت انگیز مہم چلائی گئی لیکن آج وہی مسلمان سڑکوں سے گزرنے والے بھوکے پیاسے مزدوروں میں کھانا پانی تقسیم کرتے نظر آرہے ہیں۔ سی اے اے کے نام پر جو لوگ غیر ملکیوں کو لانے کی حمایت کرتے تھے آج وہ سارے بھکت کسی بِل میں جا چھپے ہیں لیکن جیسے ہی یہ وبا دور ہوگی وہ سارے بھکت ایک بار پھر اپنے بِلوں سے باہر آئیں گے اور ملک کی فضا میں نفرت کا زہر گھولنے میں لگ جائیں گے۔
ایسے ماحول میں ہر محب وطن شہری کو سوچنا چاہیے کہ سی اے اے جیسے قوانین کی حمایت کے نام پر فتنہ پھیلانے والے لوگ انسانیت نواز ہیں یا مئی کی تپتی دوپہر میں روزہ ہونے کے باوجود بلا لحاظ مذہب مزدوروں کی خدمت کرنے والے مسلمان انسانیت کے علمبردار ہیں؟
اسے ملک کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ جب حالات سخت ہوتے ہیں تو سبھی لوگ مسلمانوں کی انسانی خدمات کی خوب تعریف کرتے ہیں لیکن الیکشن کا زمانہ آتے ہی سب کے سروں پر مسلم دشمنی کا عفریت سوار ہوجاتا ہے۔مسلمانوں کے سوشل اور اقتصادی بائکاٹ کی اپیلیں ہوتی ہیں ، راہ چلتے مسلمانوں کو قتل کیا جاتا ہے لیکن اکثریتی سماج کا بڑا حصہ یا تو ان سارے ظلم وستم میں شامل ہوتا ہے یا خاموش حمایت کرتا ہے۔
کاش! اکثریتی سماج اس بات کو سمجھ لے کہ نفرت کی کھیتی کرنے والے ان کے ہمدرد نہیں ہیں ،ہمدرد ہوتے تو ان بے سہارا مزدوروں کو سڑکوں پر مرنے کے لیے نہیں چھوڑتے۔ مزدوروں کی اکثریت بھی ہندو سماج کی ہے لیکن اس کے باوجود حکمراں جماعت اور اس کی نفرتی ٹولیاں کہیں نظر نہیں آرہی ہیں۔
نفرت کے سوداگروں کا مقصد ہندو مسلم منافرت پھیلا کر حکومت کرنا ہے,اکثریتی سماج جتنا جلد اس بات کو سمجھ لے تو اچھا ہے کیوں کہ آڑے وقت میں یہ نفرتی نہیں بلکہ آپ کے پاس رہنے والے پڑوسی ہی کام میں آتے ہیں۔ کورونا جیسی وبا کے دور میں جہاں مسلمانوں پر اقتصادی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں ایسے دلخراش ماحول میں بھی مسلمانوں نے اپنی فطری انسانیت اور رحم دلی کا ثبوت دیتے ہوئے غیر مسلم پڑوسیوں اور دوستوں کی مدد کرنے میں ذرا بھی لاپرواہی اور تأمل نہیں کیا۔غربا میں راشن تقسیم کا مرحلہ ہو یا مزدوروں کی ضیافت، مسلمانوں نے انتہائی فراخ دلی کے ساتھ انسانی خدمات کا حق ادا کیا ہے. سیاسی بازیگروں اور میڈیائی وائرسوں کے زیر اثر دماغوں میں مسلم نفرت رکھنے والے افراد دل کی آنکھوں سے سارے مناظر دیکھیں اور نفرت کی مہم سے باہر آئیں۔

28 رمضان المبارک 1441ھ
22 مئی 2020 بروز جمعۃ الوداع

  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

نفرت

نفرت کا بھنڈارا

عورت کے چہرے پر دوپٹے کا نقاب دیکھ کر بھنڈارے والے کو وہ عورت مسلمان محسوس ہوئی اس لیے اس کی نفرت باہر نکل آئی۔عورت بھی اعصاب کی مضبوط نکلی بحث بھی کی، کھانا بھی چھوڑ دیا لیکن نعرہ نہیں لگایا۔اس سے ہمیں بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے شاید وہ خاتون مسلمان ہی ہوگی۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔