تاج الشریعہ مفتی اختررضاخاں قادری ازہری: ایک عہد ساز شخصیت!!

تاج الشریعہ مفتی اختررضاخاں قادری ازہری: ایک عہد ساز شخصیت!!

افتخاراحمدقادری برکاتی


وارثِ علومِ اعلیٰ حضرت، امین معارف سرکارِ مفتی اعظم ہند، یادگار حجتہ الاسلام، جگر گوشئہ مفسر قرآن، نائب رسولِ اعظم، مظہر غوثِ اعظم، مقبولِ زمانہ، محقق عصر، فقیہ زمن، مفتی بے بدل افقہ الفقہا، اعلم العلما، اکبر المشائخ، مرجع الخلائق، شیخ اکبر، پیر بے نظیر، روشن ضمیر، قاضی القضات فی الہند حضرتِ علامہ مفتی الحاج الشاہ محمد اختر رضا خان قادری نوری رضوی ازہری علیہ الرحمتہ الرضوان کی ذات ستودہ صفات آج پوری دنیا میں محتاج تعارف نہیں- الله رب العزت نے آپ کو وہ مقبولیت عطا فرمائی جس کی مثال ماضی کی تاریخ میں دور دور تک نہیں ملتی-
حضورِ تاج الشریعہ حضرتِ علامہ اختر رضا خان قادری ازہری علیہ الحمتہ الرضوان کی ولادت مرکز اہلسنت بریلی شریف کے محلہ سوداگران میں 14/ذی القعدہ 1361/ہجری مطابق 23( نومبر 1942/ عیسوی بروز منگل ہوئی- حضورِ تاج الشریعہ علیہ الرحمتہ الرضوان حضرتِ مفسر اعظم ہند حضرت علامہ محمد ابراہیم رضا خان علیہ الرحمتہ الرضوان کے فرزند ارجمند ہیں- خاندانی روایت کے مطابق آپ کا پیدائشی نام،، محمد،، رکھا گیا- کیونکہ آپ کے والد بزرگوار کا اسمِ گرامی محمد ابراہیم رضا ہے اس مناسبت سے آپ کا نام،، محمد اسمعیل رضا،، تجویز ہوا، آپ کا عرفی نام اختر رضا ہے- اور اسی اسم گرامی سے مشہور ہیں- اختر تخلص اور قادری مشربا اور ازہری علما نام کے آگے تحریر فرماتے تھے- آپ افغانی النسل ہیں- شجرہ پدری اس طرح ہے، تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا بن مفسر اعظم ہند محمد ابراہیم رضا علیہ الرحمہ بن حجتہ الاسلام محمد حامد رضا علیہ الرحمتہ والرضوان بن امام اہلسنت اعلیٰ حضرت مفتی محمد احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ بن خاتم المتکلمین مفتی محمد نقی علی خان علیہ الرحمہ بن رضا علی-
حضورِ تاج الشریعہ علیہ الرحمتہ والرضوان نے اپنی والدہ ماجدہ سے قرآن مجید ناظرہ مکمل کیا- اور ابتدائی کتابیں آپ کے والد محترم نے آپ کو خود پڑھائیں- اس کے بعد دارالعلوم منظر اسلام میں داخلہ کرادیا- نحومیر، میزان و منشعب وغیرہ سے لے کر ہدایہ آخرین تک کی کتابیں دارالعلوم منظر اسلام کے شاہین بلند پرواز اور علوم و فنون کی شاخوں پر مہارت تامہ رکھنے والے اساتذہ اکرام سے پڑھیں- والد ماجد کی خواہش اور تمنا اور لوگوں کے اصرار پر آپ 1963/عیسوی میں عالم اسلام کی مشہور یونیورسٹی،، جامعتہ الازھر،، قاہرہ مصر، زبان وادب پر مہارت تامہ حاصل کرنے کے لئے تشریف لے گئے، وہاں آپ نے،، کلتہ اصول الدین،، میں داخلہ لیا اور دین کے اصول قرآن وحدیث پر تحقیق انیق فرمائی اور عربی ادب میں مہارت تامہ حاصل فرمائی- آپ نے 1382/ ہجری مطابق 1966/ عیسوی میں دو کلیتہ اصول الدین قسم التفسیر والحدیث،، کی تکمیل فرمائی اس شعبہ میں آپ نے اول پوزیشن حاصل کی-
حضورِ تاج الشریعہ کے القابات:
جانشین حضور مفتی اعظم ہند کو صدر المفتیین، سند المحققین اور فقیہ اسلام کا لقب 9984/ عیسوی مطابق 1404/ ہجری میں رام پور کے مشہور عالم دین حضرت علامہ مولانا مفتی سید محمد شاہد علی رضوی علیہ الرحمتہ الرضوان، گنج قدیم، رام پور، خلیفہ و تلمیذ حضور مفتی اعظم ہند مولانا محمد مصطفیٰ رضا خان بریلوی نے دیا-
مفکر اہل سنت، فقیہ اعظم اور شیخ المحدثین کا لقب 14/ شوال المکرم 1405/ ہجری کو مولانا حکیم منظور احمد رضوی بدایونی، خلیفہ تاج العلماء، حضرتِ سید اولاد رسول محمد میاں مارہروی نے دیا- اس کے علاوہ مثلاً تاج الشریعہ، مرجع العلماء و الفضلاء وغیرہ، فضیلت الشیخ حضرت العلام مولانا شیخ محمد بن علوی مالکی شیخ الحرم مکہ معظمہ، قطب مدینہ حضرتِ علامہ مولانا شاہ ضیاء الدین مدنی رحمتہ الله علیہ خلیفہ و تلمیذ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی جیسے جید اکابر علماء و مشائخ نے القابات سے نوازا، جس کی ایک طویل فہرست ہے- شرعی کونسل آف انڈیا میں ملک کے طول وعرض سے آئے ہوئے جید علماء اکرام و مفتیان عظام نے نومبر 2005/ میں،، قاضی القضات فی الہند،، کا خطاب دیا- ( حیات تاج الشریعہ)
تصانیف حضورِ تاج الشریعہ:
حضورِ تاج الشریعہ علیہ الرحمتہ گوناگوں مصروفیات کے باوجود قلم سے اپنا رشتہ بنائے رکھتے تھے- آپ نے متعدد موضوعات پر کتابیں تصنیف فرمائیں اور بہت سی کتابوں کا ترجمہ بھی کیا ہے، ان کی کچھ کتابوں کے نام ملاحظہ فرمائیں:
.القول الفائق بحکم اقتداء الفاسق . شرح حدیث نیت . ہجرت رسول . سنو چپ رہو . ٹائی کا مسئلہ . تین طلاقوں کا شرعی حکم . تصویروں کا حکم . دفاع کنزالایمان . الحق المبین . ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن مع شرعی حکم . حضرت ابراہیم کے والد تارخ یا آزر . کیا دین کی مہم پوری ہوچکی؟ . جشن عید میلاد النبی . متعدد فقہی مقالات . آثار قیامت . سعودی مظالم کی کہانی اختر رضا کی زبانی . المواہب الرضویہ فی الفتاویٰ الازہریہ . منحتہ الباری فی شرح البخاری . تراجم قرآن میں کنز الایمان کی فوقیت . نوح حامیم کیلر کے سوالات کے جوابات . الحق المبین . الصحابتہ نجوم الاھتداء . شرح حدیث الاخلاص-
کراماتِ حضور تاج الشریعہ:
حضرتِ علامہ مفتی عبد الحنان کلیمی شہر مفتی مراد آباد و شیخ الحدیث جامعہ اکرام العلوم لال مسجد کا بیان ہے کہ فقیر نے عرصہ 1985/ سے مخدومی تاج الشریعہ کی خدمت و مجلس اور بعض اہم اسفار میں معیت رفاقت کا شرف حاصل کر چکا ہے، میں نے ہر بار حضرتِ قبلہ کو تصلب فی الدین کا مظہر اتم، اور اپنے اسلاف کے ہماگیر اخلاق و اوصاف اور علم و فضل کا سچا جانشین پایا- جب کسی عنوان پر آپ کا قلم اٹھتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیدنا اعلیٰ حضرت کا قلم سیال رواں دواں ہے- اور جب زبان کھلتی ہے تو یہ محسوس کئے بغیر کوئی نہیں رہتا کہ حضورِ مفتی اعظم ہند کی شان علمیت نمایاں ہے-
فقہی مجلس ہویا دار الافتاء، علماء کی جماعت ہو یا فقہا کا گروہ، متکلمین کی نشست ہو یا محدثین کا مجمع، ہر جگہ آپ مقتدیٰ اور میر مجلس نمایاں نظر آتے ہیں-
یہ تو علم و فضل کی بات ہوئی الله رب العزت نے آپ کو سیرت و صورت، حلم و بردباری اور شفقت و مہربانی میں بھی ایسا خصوصی درجہ عطا فرمایا کہ آپ کی پہلی زیارت کے بعد ہی تشنگانِ روحانیت آپ کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں اوریہ محسوس کئے بغیر نہیں رہتے کہ آپ اپنے اسلاف کرام اور خاندانی مقتدایان عظام کی بولتی تصویر اور ہم پیکر ہیں-
فقیر نے بارہا حضرت قبلہ سے اکتساب فیض کے لئے استفتاء کیا جس کے جواب میں آپ نے ایسے ایسے لعل و گہر کے پھول برسائے کہ سن کر انسان حیرت زدہ ہوجائے، اور یہ ماننے پر مجبور ہو جائے کہ یہ اپنے وقت کے عالم ربانی اور فقیہہ النفس کی حیثیت رکھتے ہیں- فقیر اس امر کے بیان میں اپنے کو نہایت خوش نصیب سمجھتا ہے کہ 1986/ میں جب آپ کو سعودی حکومت نے گرفتار کر لیا تو میں نے حضرت کی حمایت و برات میں تقریباً بیسوں قسطوں میں اپنے رشحات قلم کے ذریعے نجدی حکومت کے پرخچے اڑائے، اور حضرتِ قبلہ کی بارگاہ اقدس میں اپنے قلم کے ذریعے بہترین خراجِ عقیدت ومحبت پیش کرنے کی کوشش کی- دوسرا جب ہندوستان میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی حلت و حرمت کی بحث چھڑی تو وہاں کے بہت سارے قدر دانوں میں اس فقیر کا بھی نام لیا جاسکتا ہے- تیسرا یہ کہ جب مراد آباد میں آپ پر ایک نام نہاد کم ظرف اور بدترین قسم کے حاسد مولوی نے،، مسئلہ الله میاں،، میں اپنے منشاء کے مطابق آپ کی جانب سے فتویٰ نہ ملنے کی رقابت کا بدلہ لینے، اور آپ کی پروقار شخصیت کو مجروح کرنے کی ناروا جسارت کرتے ہوئے آپ پر ایک جھوٹا مقدمہ مراد آباد کورٹ کے ذریعے قائم کرایا تو اس ناچیز نے علمائے کرام کے باہمی مشورہ سے مقدمہ کی پیروکاری کی مکمل ذمہ داری اپنے ذمہ لی اور مراد آباد کے ضلعی کورٹ میں جاری اس مقدمہ کی ایسی پیروی کی کے مخالفین کے پاؤ اکھڑ گئے اور ان کو خاسر المرام ہونا پڑا- الله رب العزت نے حضرتِ قبلہ کو ایسی فتح اور جیت عطا فرمائی جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے- اس عظیم الشان کامیابی پر یہ کہنا مبالغہ ہوگا کہ آپ کے جد کریم سیدنا امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ پر بھی ایک مقدمہ قائم کیا گیا- جس کی مکمل پیروکاری کا شرف حضورِ صدر الافاضل مراد آبادی کو حاصل ہوا، بعینہٖ اسی طرح ان کے فرزند پر بھی ایک مقدمہ قائم کیا گیا جس کی پیروی مراد آباد کے تعلق سے اس ناچیز کے حصے میں آئی- میں اس مقدمے کی پیروی کو اپنی خوش نصیبی و خوش بختی تصور کیا کرتا ہوں اور یہ ادعان اور یقین کرتا ہوں کہ میرے اوپر سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کا کرم ہوا اور میں اس خانوادے کے کام آگیا- (حیات تاج الشریعہ)
11/ مارچ 2005/ کو حضورِ تاج الشریعہ علیہ الرحمہ بنارس کے لیے کاشی وشوناتھ ایکسپریس سے روانہ ہوئے- عصر کی نماز بریلی جنکشن پر ادا فرمائی- مغرب شاہجہان پور میں ادا کی اور عشاء کے وقت ٹرین لکھنؤ پہنچ گئی- اسٹیشن پہنچنے سے پہلے حضرت بیت الخلاء گئے، جب حاجت سے فارغ ہوئے، تو ٹرین کے چھوٹنے کا وقت ہوگیا، حضرت جب بیت الخلاء سے باہر تشریف لائے اس وقت ٹرین روانہ نہیں ہوئی تھی، مگر چند لمحہ میں ٹرین چلنے لگی، حضرت نماز عشاء ادا کرنے کے لئے جائے نماز لانے کا حکم دے رہے تھے، حضرت کے ساتھ والوں نے کہا کہ حضور ٹرین چلنے لگی، حضرت نماز عشاء ادا کرنے کے لئے جائے نماز لانے کا حکم دے رہے تھے، حضرت کے حکم پر مصلی بچھا دیا گیا، جیسے ہی مصلی پر حضرت نے قدم رکھا فورا ٹرین رک گئی، حضرت نماز کے لیے کھڑے ہو گئے، ٹرین میں جگہ تنگ اور حضرت کی نقاہت کو دیکھتے ہوئے، ایک طرف مفتی محمد شعیب رضا قادری اور دوسری طرف علماء کرام معمولی سہارا دیتے رہے- حضرت نے اطمینان کے ساتھ کھڑے ہوکر نماز عشاء ادا فرمائی، بس سلام پھیرتے ہی ٹرین چلنے لگی، حضرت نے سلام پھیرا، فرمایا ٹرین کہاں پر ہے عرض کیا کہ حضور ٹرین ابھی پلیٹ فارم پر ہی ہے- حضرت نے فرمایا کہ چلو الحمدللہ نماز اپنے وقت پر ادا ہوگئ- ( حیات تاج الشریعہ)
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ ساؤتھ افریقہ، ماریشس، ہرارے، زمبابوے، وغیرہ کے تقریباً ایک درجن ممالک کے تبلیغی سفر پر 14/ مارچ 2015 کو بریلی شریف سے روانہ ہوئے، قیام دولت کدہ بریلی سے ہی آنکھ سے کبھی کبھی خون نکل رہا تھا، سبھی لوگوں نے حضرت سے اتنا طویل سفر کرنے سے منع کیا، مگر آپ تاریخ دے چکے تھے، اس لیے وعدہ خلافی نہ ہو، تشریف لے گیے آپ کے ہمراہ آپ کے صاحب زادے گرامی مفتی عسجد رضا خان قادری بھی تھے- ساؤتھ افریقہ پہنچنے پر آنکھ میں تکلیف زیادہ بڑھ گئی، 22/ اپریل 2015 کو ہاسپٹل لے جاکر آنکھ کے مشہور اور تجربہ کار ڈاکٹر کو دکھایا، انہوں نے کچھ دوائیں تجویز کیں اور آپریشن کا مشورہ دیا-
یہ وہ آنکھ ہے جس کا تقریباً بیس سال قبل ممبئی میں آپریشن ہو چکا تھا، اسی دوران آنکھ کے تحفظ کے پیشِ نظر پلاسٹک کے دوٹکڑے ڈاکٹر نے لگا دیے تھے، وہ ٹکڑے ابھر کر آگئے تھے، اس لیے آنکھ سے خون بہنے لگا تھا- ڈاکٹر نے کہا کہ آنکھ کے آپریشن کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے، جس سے اس پر کنٹرول پایا جا سکے- 24/ اپریل 2015 کو آپریشن کی تاریخ مقرر کر دی، حضرت کو مریدین و عقیدت مند ہاسپٹل لے کر پہنچے، آپریشن کی تیاریاں مکمل ہوگئیں- ڈاکٹر نے حضرت کو آپریشن سے قبل بے ہوشی کا انجکشن لگانا چاہا جیسا کہ ڈاکٹروں کا معمول ہے مگر آپ نے سختی سے منع فرما دیا کہ اس طرح کے انجکشن میں ناجائز چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے اور دوسری نشیلی اشیاء ہوتی ہیں- اس لیے میں انجکشن نہیں لگوا سکتا- ڈاکٹر نے حضرت کو بہت مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر حضرت نے انکار فرمایا، پھر ڈاکٹر نے حضرت سے گزارش کی کہ اتنا حصہ سن کر دیتا ہوں، حضرت اس پر بھی تیار نہیں ہوئے- اور سن کرنے سے بھی منع کردیا- عین آپریشن کے وقت ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ڈاکٹروں کا پورا پینل حضرت کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا، کہ آپریشن بغیر سن کئے یا بغیر انجکشن لگائے نہیں ہوتا ہے، حضرت نے بڑے اطمینان کے ساتھ ان ڈاکٹروں کے پورے پینل سے فرمایا کہ آپ لوگ بالکل بے فکری کے ساتھ میری آنکھ کا آپریشن کیجیے، میں کسی بھی طرح کی ناجائز اشیاء کا استعمال نہیں کرتا ہوں، اور نہ ہی پسند کرتا ہوں، انشاء الله تعالیٰ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی، مرے جد امجد نے بھی بغیر انجکشن کے آپریشن کرایا تھا- آپ لوگ اپنا کام کریں-
اس گفتگو کے بعد ڈاکٹروں نے ہمت جٹائ اور آپریشن کا آغاز کردیا- حضرت بہت مطمئن اور بالکل ساکت و جامد بیٹھے رہے، تقریباً ساڑھے تین گھنٹہ آپرشن چلا، اور آنکھ میں سات ٹانکے لگے- آپریشن کی تکمیل تک آپ کی زبان مبارک پر درود شریف اور قصیدہ بردہ شریف کا ورد جاری رہا- ڈاکٹر حضرات یہ نہیں سمجھ پارہے تھے کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں مگر لبوں کی جنبش سے محسوس ہوتا تھا کہ آپ کچھ پڑھ رہے ہیں-
آپریشن سے فارغ ہو کر ڈاکٹر کا تاثر حیرت انگیز تھا، انہوں نے سبھی لوگوں کی موجودگی میں کہا کہ میں دنیا بھر میں جاتا ہوں اب تک بغیر انجکشن لگائے میں نے یا کسی ڈاکٹر نے آپریشن نہیں کیا، مگر یہ شخصیت اپنے آپ میں منفرد ہے- دنیا کا سب سے نالائق ڈاکٹر میں ہوں کہ میں نے بغیر انجکشن کے آپریشن کیا، اور یہ ذات دنیا کی واحد ذات ہے کہ اتنی مضبوط ہمت اور روحانی قوت والی ہے، کہ ساڑھے تین گھنٹہ تک بالکل جس طرح بٹھایا گیا تھا بیٹھے رہے، ذرا سی بھی جنبش نہیں کی جبکہ اس طرح کے بڑے آپریشن میں تکلیف سے آدمی تڑپ اُٹھتا ہے، ایک ذرا سا کانٹا چبھ جانے سے آدمی کراہ اٹھتا ہے مگر یہ شخصیت پوری دنیا میں شاید واحد ہوگی، جس کے اندر میں روحانی اور ایمانی قوت دیکھتا ہوں- ڈاکٹروں کی پوری ٹیم آپ کی استقامت پر حیران تھی-( حیات تاج الشریعہ)
حضورِ تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی رفعت و بلندی ہفت آسماں سے اونچی ہے آپ پر الله رب العزت کی رحمت اس قدر ہے کہ آپ کو کعبتہ الله شریف کے اندر نماز پڑھنے کا موقع ملا اور غسل کعبہ دینے کا شرف بھی- آپ کے مریدین و معتقدین ہندوستان، پاکستان، مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ، بنگلہ دیش، موریشس، سری لنکا، برطانیہ، ہالینڈ، جنوبی افریقہ، امریکہ، ایران، عراق، ترکی، جرمن، متحدہ عرب امارات، کویت، لبنان، مصر، شام کناڈا وغیرہ ممالک کے طول و عرض میں لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں- آپ کے مریدین میں بڑے بڑے علماء، مشائخ، صلحاء، شعراء، خطباء، مفکرین، قائدین، ریسرچ اسکالر، پروفیسر، ڈاکٹر اور محققین ہیں جو آپ کی غلامی کی نسبت پر ناز کرتے ہیں- بالاآخر علم و فضل کا آفتاب، وارث علوم اعلیٰ حضرت، بدر طریقت، تاج الشریعہ، حضرتِ علامہ الشاہ مفتی محمد اختر رضا خان قادری ازہری علیہ الرحمہ اپنی زبان سے آخری کلمہ،، الله اکبر،، جاری کرتے ہوئے 6/ ذی القعدہ 1439/ ہجری مطابق 20/ جولائی 2018/ بروز جمعتہ المبارکہ بوقت مغرب عالم آب و گل سے رشتہ حیات منقطع کیا اور سرزمین بریلی شریف محلہ سوداگران میں ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگئے-
. کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اتر پردیش
iftikharahmadquadri@gmail.com

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

گنبد اعلیٰ حضرت

حضور مفسر اعظم ہند بحیثیت مہتمم: فیضان رضا علیمی

یوں تو حضور جیلانی میاں علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری نے بسم اللہ خوانی کے وقت ہی جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما دی تھی اور آپ کے والد ماجد نے بھی ۱۹ سال کی عمر شریف میں ہی اپنی خلافت اور بزرگوں کی عنایتوں کو آپ کے حوالہ کر دیا تھا لیکن باضابطہ تحریر ی خلافت و اجازت ، نیابت و جانشینی اور اپنی ساری نعمتیں علامہ حامد رضا خان قادری نے اپنی وفات سے ڈھائی ماہ قبلہ ۲۵۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔