ڈاکٹر امجد رضا امجد
رضویات علم وادب کاوہ بحر ناپیداکنار ہے جس گہرائی کا اندازہ آج تک نہیں لگایا جاسکا۔برسہابرس سے اس بحر کی شناوری کا عمل جاری ہے مگر ہنوز ساحل سمندر سیپیاں چننے کے اعتراف سے بات آگے نہیں بڑھ سکی ہے ۔مگر اس کے باوجودمحققین رضویات کی عملی جدوجہد کے سبب ’’رضویات ‘‘غالبیات واقبالیات کی طرح اہل علم وادب کی توجہ کا مرکز بن گیاہےاور اس اعتراف میں کسی کوکوئی جھجھک نہیں ہونی چاہئے کہ اس میں سب سے اہم کردار پاکستان کے علماومحقین کاہے ۔ ان حضرات کی یہ اتنی عظیم خدمت ہے جس کی زبانی ستائش تو ہوسکتی ہے، حق ادا نہیں ہوسکتا۔
رضویات کو اگر صرف اس تناظر میں دیکھاجائے کہ وہ بریلی کے ایک شخص کی خدمات کا ہشت پہلو مجموعہ ہے ،تو کوئی بڑی بات نہیں،مگر زاویہ بدل کرایک وسیع تناظرمیں دیکھاجائے کہ یہ اس شخصیت کی علمی مذہبی ملی سیاسی سماجی اور سائنسی خدمات اور اس خدمت کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہونے والے اثرات کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ ہے جس نے اپنے عہدمیں مذہبی اعتبار سے مجددالف ثانی کے مشن کا احیاکیا،عقائد اہل سنت کے خلاف اٹھنے والے فتنہ کا دفاع کیا ،قادیانیت کے خلاف مجاہدانہ جد وجہد کی، اپنے تلامذہ واحباب کے ساتھ تحریک شدھی کا قلعہ قمع کیا،فقہ وافتاکے ذریعہ ہندوستان میں حنفیت کو فروغ دیا،انگریزوں کے دور استعمار میںسیاسی اعتبار سے مسلمانان ہند کی فکری قیادت کی اور انہیں جذبات کے بہاؤ میں بے یارومددگار بہنے سے بچایا،نعتیہ شاعری کے ذریعہ عربی فارسی اردو تینوں زبانوں کے ادب کواعتبار بخشااورمعنی آفرینی ،فکری بلندی،جدت تراکیب اور استعمال محاورات کے اعتبار سے سہ لسانی شاعری کو مالامال کیاتو اس کی اہمیت دوچند ہوجائے گی۔
پاکستان کی وہ مقتدر شخصیات جنہوںنے خود کو رضویات کے لئے وقف کردیا ان میں نمایاں نام حکیم محمد موسیٰ امرتسری،مولانا سید ریاست علی قادری، ماہررضویات حضرت پروفیسر مسعود احمد مظہری،علامہ شمس بریلوی،علامہ عبدالقیوم ہزاروی ،علامہ عبدالحکیم شرف قادری مولانا اقبال احمد فاروقی ڈاکٹر مجید اللہ قادری۔۔۔۔۔۔۔ اورمحسن رضویات حضرت علامہ سید وجاہت رسول قادری خصوصیت سے قابل ذکرہیں۔
حضرت سید صاحب، علم وعمل کے دھنی، اخلاق کے پیکر ،شفقت ومحبت کاسائبان ،اوررضویات کے محسن وقافلہ سالاراور حسن سیرت وصورت کا حسین مجسمہ ہیں۔ہزار حسرتوں کے بعد بھی آج تک میری ان سے ملاقات نہیں ،مگراس کے باوجود لگتاہے ان کی محبت میری روح میں پیوست ہے ۔یہ احساس میرے لئے نعمت اور آخرت کی پونجی ہے کہ میں سید صاحب کی محبتوں کا اسیر ہوں ۔ان کی متلاشی طبیعت اعلی حضرت پہ کام کرانے کے لئے افراد کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔میں بھی ان کی اسی تلاش کا حصہ ہوں۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ پہ کام کرنے سبب انہوں نے مجھے اپنے حصار محبت میںلےلیا اورپھر ان کی نوازشات شروع ہوگئیں۔ اب کوئی دن ایسا نہیں جس دن حضرت کے تین چار پیغامات واٹس ایپ پہ موصول نہ ہوتے ہوں ۔میںاپنی خوش نصیبی پہ رقص کناں ہوں کہ میں حضرت سید صاحب قبلہ کی نگاہوں میںہوں۔ اے کاش ان کی نگہ عنایت کا یہ سلسلہ حشرتک دراز ہوجائے ۔
سن ۲۰۰۸ء میں جب میں نے القلم فاؤنڈیشن پٹنہ سے سہ ماہی ’’رضابک ریویو‘‘ جاری کیا تو احباب ومخلصین اوراکابر علماومشائخ کی ڈھیر ساری دعائیں تحریری شکل میں مجھے موصول ہوئیں، ان میں ایک تحریر حضرت سید صاحب قبلہ کی بھی تھی،کیا نوازشات تھیں ان کی، اس تحریر میں،کہ کام کرنے کے لئے دل میں حوصلوں اورامنگوں کا نیا ولولہ پیداہوگیا ،ہم نے جس تناظر میں رضابک ریویوکو نہیں دیکھا تھا انہوں نے خود مجھے اس سے آشنا کیا فرمایا:
بلاشبہ گذشتہ ۳۰برسوںمیں’’رضویات‘ پرارباب علم ودانش اور اصحاب تحقیق واہل قلم حضرات نے اپنے اپنے علمی ذوق، سطح علم اور استعداد کے حوالہ سے بہت پیش رفت کی ہے،بہت کچھ کام دورجدیدکی علمی دعوتی اور نشریاتی اور ابلاغی ضروریات کے حوالے سے بھی شروع ہوچکا ہے۔اہم عالمی جامعات میں بڑی سرعت کے ساتھ ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کے مقالات لکھے جانے لگے ہیں۔ لیکن مجلاتی علمی تبصراتی صحافت کا میدان ابھی خالی تھا۔’’رضا بک ریویو‘‘کااجراء و اشاعت کر کے آپ نے وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کرنے کی نہ صرف کوشش کی ہے بلکہ ایک ایسا دعوتی طرز عمل اختیارکیا اور ترغیب وتشویق کا ایسا رو یہ ہے اپنایاکہ پہلے ہی مرحلہ پر آپ کونامورعارفان رضویات کی حمایت حاصل ہوگئی جن کی اہم نگارشات ’’رضابک ریویو‘‘ کی پہلی اشاعت کی زینت ہیں
مزید حوصلہ افزائی کرتے ہوئے لکھا :
فقیرراقم علی وجہ البصیرت، جو اسے اٹھائیس سال ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کی تصنیفی اورتحقیقی کاموںکی نگرانی کی خدمات انجام دینے کی بناء پر فیض رضا اور فیضان مرشد کریم حضور مفتی اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حاصل ہے، یہ بات عرض کررہاہے کہ :
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرادیکھ !
بحمد اللہ برصغیر کے مشرقی شہر پٹنہ کے افق سے آپ کی صورت میں ایک نیا ’’ماہر رضویات‘‘ آفتاب بن کر ابھر رہاہے۔ جبکہ ابھی ابھی برصغیر کے مغربی افق (کراچی)کے کناروں پر ایک عظیم ’’آفتاب رضویات‘‘ نصف النہارتک پہنچنے کے بعد ڈوب چکاہے۔ ’’ادھرڈوبے ادھرنکلے‘‘کا منظرہے۔ یہ من حیث الجماعت اہل سنت کے لیے ایک نیک فال ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت باکرامت رکھے آمین۔
اس تعارف کے بعد ادارہ تحقیقات امام احمد رضاکراچی کی مطبوعات القلم کو موصول ہونے لگیں اور کچھ شماروں کے بعد ڈھیر ساری قیمتی کتابوں کا اک ذخیرہ القلم میں جمع ہوگیا جس سے تحقیقی کام کرنے میں آسانیاں فراہم ہوئیں۔اللہ رب العزت حضرت سید صاحب قبلہ کو آلام روزگار سے محفوظ رکھے اور انہیں عمرخضری عطافرمائے ۔
حضرت سيد صاحب قبلہ اپنی ذات میں انجمن ہیں ،وہ اہل علم کی جھر مٹ میں رہتے ہیں اور جس وقت بظاہر تنہا ہوتے ہیں اس وقت بھی ’’انجمنے ساختہ اند‘‘کا منظر نظرآتے ہیں ۔ظاہر ہےجس شخصیت کا عشق ان کی خمیر کا حصہ ہے وہ تنہا ہوکر بھی تنہا نہیں رہتے بلکہ ان کا اعلان ہے ؎
منم وکنج خمولی کہ نگنجد دروے
جز من وچند کتابے ودوات و قلمے
تو فنا فی الرضاہونے کے بعدسید صاحب قبلہ بھی ’’کنج خمولی‘‘ میں تنہاکیسے رہ سکتے ہیں،اس لئے وہ خود کو مصروف رکھتے ہیں اور خوب رکھتے ہیں ۔ان کی تنہائی ہزارہاجلوتوں کے لئے سامان رشک ہے کہ ان کی تنہائی ’’تصور مدینہ ‘‘کے جلووں سے آباد رہتی ہے۔ سید صاحب قبلہ کا نعتیہ مجموعہ ’’فروغ صبح تاباں ‘‘اسی تصور کا عکس جمیل ہے جو عاشقان رسول کےمشام جاں کو معطر کررہاہے ۔یہ بات یقینا قابل رشک ہے کہ انہوں نے جوانی کے ایام، اداراہ تحقیقات امام احمد رضاکراچی سے وابستہ رہ کر ایک عاشق رسول کی یادوں میں گزارےاور’’گونج گونج اٹھے ہیںنغمات رضا سے بوستاں‘‘کے نعرہ مستانہ سے دلوں کو مسخر کیا اورجب بزرگی وضعف قوت کے سبب عملی طور پر اس سے علیٰحدہ ہوئے تونعت کووظیفہ بناکر ’’درروضہ کے مقابل وہ ہمیں نظرتو آیا ‘‘کی کیفیات سے سرشار رہنے کاسامان کرلیا،یعنی
ع رندکے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ ادارہ تحقیقات امام احمد رضاکراچی نےرضویات پرجو کام کیاہے اس کی دوسری کوئی مثال کہیں نہیںہے۔مرکزی مجلس رضالاہور،رضافاؤنڈیشن لاہوراور اس طرح کی دوسری تنظیمیں اپنی وقیع علمی خدمات کی بنیاد پہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رہیں گی،مگرادارہ تحقیقات کی خدمات ان سے ذرا مختلف ہے۔اس ادارہ نےاپنے دائرہ کارکو ملکی سرحدوںکااسیر رکھنے کے بجائے اسے عالمی بنایا،پوری دنیا میں اپنی کتابیں پہنچائیں،دنیاکے اسکالروں کو رضویات سے جوڑا،رضویات پہ کام کرنے والے افراد کو ایوارڈ اور خصوصی انعامات سے نوازا ،ان کی کتابیں شائع کیں،اعلیٰ حضرت کی کتابیں شائع کرنے اور ہر سال ’’امام احمد رضاکانفرنس ‘‘کرنے کا کامیاب سلسلہ شروع کیا،اردو اور انگریزی میںسالنامہ اور ماہنامہ ’’معارف رضا‘‘ جاری کیاجو تسلسل کے ساتھ جاری ہے ۔ ادارہ تحقیقات کی ان خدمات نے عالمی سطح پر ’’مُعارف رضویات ‘‘کی فضابنائی ۔اعلیٰ حضرت پہ علمی واشاعتی کام کرنے کا ذوق بیدارہوااوردیکھتے دیکھتے ہی یہ ذوق جذبہ میں تبدیل ہوگیا۔
ادارہ تحقیقات سے علمی طور پر وابستہ حضرات نے اس ادارہ کے لئے ج جو ایثار پسندانہ خدمتیں انجام دی ہیں اس نے علمی حلقوں میں رضویات کو اعتبار بخشاہے ۔اس ضمن میں حضرت علامہ سید وجاہت رسول قادری صاحب قبلہ کی خدمات بھی اتنی اہم ہیں کہ کوئی مورخ انہیں فراموش نہیں کرسکتا ۔انہوں نے رضویات پر مستقل کتابیں لکھیں ،معارف رضاکے ادارئے لکھے،رضویات پہ لکھی کتابوں کے لئے مقدمے اور تقریظات لکھیں۔اس کے علاوہ فروغ رضویات کے لئے مختلف ممالک مثلا ’’مصر بنگلہ دیش سعودی عربیہ ‘‘کے کامیاب سفر کئے جس کی رودادیں بھی معارف رضامیں شائع ہوئیں ۔اس سفر نے فروغ رضویات کے کئی نئے دروازے وا کئے۔جسے معارف رضا کی فائلوں میں دیکھاجاسکتاہے
علامہ سید وجاہت رسول قادری کی علمی شخصیت نے جو یادگار علمی نقوش چھوڑے ہیںوہ علمی دنیا کے لئے گرانقدر سرمایہ ہیں۔ ان میں ’’اصلاح معاشرہ سیرت رسول کی روشنی میں۔رحمت عالم امن واخوت کے عظیم داعی۔تاریخ نعت گوئی میں امام احمد رضاکا مقام ۔امام احمد رضااور ختم نبوت،کنزالایمان کی عرب دنیا میں پذیرائی،معلم کائنات،اہل تصوف کا تصور جہاد‘‘کتابیںبڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔فروغ صبح تاباں کے سید محمد عبداللہ قادری نے ان کی تقریبا ۱۶ ؍کتابوں کی فہرست دی ہے میرے سامنے وہ ساری کتابیں نہیں مگر جس شخصیت سے وابستہ یہ کتابیں ہیں وہ ان کے معیاری ہونے کی دلیل ہیں ۔
سید صاحب کا نعتیہ مجموعہ ’’فروغ صبح تاباں‘‘ ان کے جذبوںکی زبان اور ان کے عشق کا ایمان افروز صحیفہ ہے ۔نعتیہ مجموعوں میں اس حیثیت سے اس کی انفرادیت مسلم ہے کہ یہ آمد کی کیفیات سے مملو ہے ۔جو کیفیت ان پرگزری ہے وہ شعرمیں ڈھل کر مجسم ہوگئی ہے ۔اس طرح کے مجموعوں کی تاثیریت اور اثر انگیزی دیگر مجموعوں سے ممتاز ہوتی ہےا’’ور فروغ صبح تاباں ‘‘اس کی زندہ مثال ہے ۔ چند اشعار حاضر ہیں ؎
ہے وقت نزع آئیے آقائے دوجہاں
اب آپ کے مریض کی منزل سفر کی ہے
زہے قسمت بصد جلوہ تصور میں وہ آئے ہیں
مکاں سے لامکاں تک اب اجالاہم بھی دیکھیںگے
یقیں ہے حشر میں ہوگا سماں میلاد اکبر کا
سلام ونعت کا پڑھنا پڑھانا ہم بھی دیکھیں گے
در مصطفےٰ ہوسر ہورخ مصطفےٰ ہو دل ہو
یوں ہی جان دیدوں یارب کہ زندگی فنا میں
’’فروغ صبح تاباں‘‘ میں امام عشق ومحبت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ سے ان کی محبت ،والہانہ لگاؤ ،جذباتی تعلق اور مسلکی ارتباط کے ثبوت بھی جابجا ملتے ہیں ۔بالعموم اشعار میں مسلکی اظہار کی جرأت کم دیکھی گئی ہے مگر اس خصوص میں ہمارے سید صاحب قبلہ ممتاز ہیں انہوں نے ’’فروغ صبح تاباں ‘‘میں اپنے جذبات اور مسلک کا کھل کر اظہار کیاہے ثبوت کے لئے یہ اشعار ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں ؎
جس کو دیار قدس میں کاشانہ چاہئے
احمد رضاکی رہ اسے اپنانا چاہئے
حبِ رضا کسوٹی ہے حبِ رسول کی
اس پر پرکھ کے دوست کو اپنانا چاہئے
عشق نبی کا جام بدست رضاملا
چکھا جو ایک بار تو پیتاچلاگیا
جو ذوق نعت رضا کا سراغ لے کے چلے
وہ اپنے سینے میں بخشش کا باغ لے کے چلے
تاباں رخ حضور سے روشن ہے کائنات
خورشید کیوں نہ آپ سے کسب ضیا کرے
بزم رضامیں شمع مدینہ کا نور ہے
روشن یہ انجمن رہے یونہی خداکرے
ہم گرفتار بلاہیں آج پھر اس دور میں
آپ کی ہے پھر ضرورت حضرت احمد رضا
سید صاحب قبلہ ۱۹۶۳ میں بمقام اجمیر شریف حضور مفتی اعظم ہندعلیہ الرحمہ والرضوان سے بیعت ہوئے ،حضور حجۃ الاسلام کے داماد وخلیفہ علامہ تقدس علی خاں علیہ الرحمہ سے اجازت وخلافت ملی ۔۱۹۸۱ میں قطب مدینہ خلیفہ اعلیٰ حضرت حضور شاہ ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ شرف ملاقات حاصل ہوا۔یہ میری خوش نصیبی ہے کہ سن ۲۰۱۵ءمیںسید صاحب قبلہ نے از رہ کرم اس فقیر کو بھی اپنی اجازت وخلافت سے نوازاجو انہیں حضورتاج الشریعہ علامہ مفتی الشاہ محمد اخترضاخاںقادری ،شیخ الحدیث والتفسیر علامہ تقدس علی خان حامدی علامہ شاہ ابوداؤد محمد صادق تلمیذ خاص محدث اعظم پاکستان رحمہم اللہ سے حاصل ہوئی۔فقیر اس عطاونوازش پہ ان کا شکرگزار ہے اور اللہ رب العزت سے ان کی عمر درازی اورعمر شفائے جملہ امراض کی دعائیں کرتاہے اللہ تعالیٰ ان کاسایہ فضل وکمال ہم وابستگان رضویت پہ ہمیشہ قائم رکھے۔ آمین