تالی، تھالی، بجلی اور اب ’’آروگیے سیتو ایپ‘‘
جب اقتدار نا اہلوں کے ہاتھ آتی ہے تو عوام کا بندر ناچ ناچنا تو بنتا ہے۔ کچھ بھی کہیں لیکن وزیر اعظم مودی قسمت کے بہت دھنی ہیں۔ ہندوستان کی طویل ترین تاریخ میں پہلی بار ایک حکمراں کو تاریخ کی سب سے بڑی احمق اور مورکھ عوام ملی ہے حکومت کرنے کے لیے۔ یقین نہیں ہوتا کہ جمہوریت بد شکل ہوتے ہوتے اتنی بھدی بھی ہوسکتی ہے جس میں ایک منتخب شدہ وزیر اعظم جس طرح کی بے سروپا حرکتیں چاہے اپنی عوام سے کروالے اور لوگ اسے بھگوان کا آدیش سمجھ اس کا پالن کریں، جب کہ ذاتی طورسے اس انسان کا دورِ اقتدار تاریخ کا سیاہ ترین باب ہو، ہر محاذ پر ناکامی اور نامرادی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ لگا ہو، اقتدار سنبھالنے سے لے کر آج تک ایک بھی ایسا کام نہ کیا ہو جس سے عوام کی زندگیوں میں خوشحالی اور ترقی کے ذرائع پیدا ہوئے ہوں، پھر بھی لوگوں کی اتنی دیوانگی؟ اسے قسمت کا دھنی نہیں تو اور کیا کہیں گے۔
کورونا کی شروعات سے پہلے اس ملک میں کیا چل رہا تھا؟ اور کورونا کی شروعات کے بعد کیا کیا ہوا ، کوئی بھی سنجیدہ انسان اس کا جائزہ لے گا تواپنے آپ کو ہندوستان کی تاریخ کے سب سے بدترین اور بھیانک دور میں پائے گا۔جس انسان کو ایک اوتار کی طرح اقتدار کی کرسی پر بیٹھایا گیا وہ انسان اپنی صلاحیت اور قابلیت کو ملک کی بہتری کے لیے کیا استعمال کرتا بلکہ دھرم کا افیون سونگھا اکثریتی طبقے کو پہلے تو مدہوش کردیا پھر ایک ایک کرکے مادرِ وطن کے سارے اثاثے یا تو بیچ دیے یا گروی رکھ دیے۔ ملک کے برسوں کی جمع پونجی نچوڑ کر ملک کے تمام صوبوں میں اپوزیشن کی سرکاروں کے منتری سنتری خرید کر سرکاروں کوبرخاست کرواکر اپنی حکومت قائم کرنے یا پھر ملک کے مکھیا وسرپنچ جیسے انتخابات میں بھی کروڑوں اربو ں روپے خرچ کرکے وہاں پر اپنا اقتدار قائم کرنےیامیڈیا اور پبلسٹی کے تمام ذرائع کو پیسے کے دم پر اپنے آگے سرنگوں کرنےیا پھر ان پیسوں سے غنڈوں اور آئی ٹی سیل کی پرورش کرنے کے سوا آپ کو کوئی بھی قابل ذکر کام نہیں ملے گا۔
اب آئیے کورونا پر! ویسے تو کورونا سے پہلے بھی کورونا جیسا ہی منظر تھا اگر کورونا نہ بھی ہوا ہوتا تو ملک کی حالت کچھ زیادہ مختلف نہ ہوتی اِس وقت قدرتی وائرس سے مررہے ہیں اور اُس وقت نفرت کے وائرس سے مررہے ہوتے، شروعات راجدھانی سے ہوہی چکی تھی۔جب سے کورونا شروع ہوا تب سے ایسے ایسے ڈرامے، نوٹنکی ، بے حسی ، بے شرمی اور بے غیرتی کے نمونے ان صاحبان اقتدار کی طرف سے دیکھنے کو ملے کو کہ یقین ہوگیا کہ اب ملک پوری طرح سے گھنے اندھیرے اور جہالت کی کال کوٹھری میں ڈوب چکا ہے، جس سے باہر نکلنے میں نصف صدی سے کم نہیں لگے گا۔ کورونا جیسے سنجیدہ اور حساس معاملے کو بھی ایک موقعے کی طرح استعمال کرنے والے ہمارے وزیر اعظم نے پہلے تو پورے ملک میں اِسے پھیلنے کا موقع دیا پھر بغیر کسی پلاننگ کے پورے ملک کو نوٹ بندی کی طرح تالا بندی میں جھونک دیا۔ جب کورونا اپنے شباب پر پہنچا تب اپنی ناکامی اور کنگالی کو چھپانے کے لیے معصومیت سے پہلے بھاشن جھاڑ کر لوگوں کو یقین دلایا کہ ہم بہت سنجیدہ ہیں پھر کروڑوں اربوں روپے بڑی ہوشیاری سے کسی نامعلوم اکاؤنٹ پر لوگوں سے بھیک مانگ کر جمع کرلیا اور ان سب پر پردہ ڈالنے کے لیے تالی تھالی، دیا باتی، جماعتی تبلیغی ، ہندومسلمان کے مباحث میں جان بوجھ کر الجھا دیا ۔ اس کورونا بندی کے دوران بھی مسلسل مودی سرکار بچے کچھے صوبوں میں اپوزیشن کی سرکاروں کو متزلزل کرنے کی پیہم کوششیں کررہی ہے۔ درِ پردہ بہت کچھ ہورہا ہے جو لوگوں کو معلوم نہیں، سی اے اے، این پی آر اور این آرسی کے خلاف جتنے بھی سرکردہ سماجی اور سیاسی طورپر فعال شخصیتیں تھی سب کو مختلف دفعات میں بُک کرکے جیل کیا جا رہا ہے۔
خیر بات طویل ہوگئی! اصل موضوع یہ تھا کہ’’ آروگیے سیتو ایپ‘‘ بھی تالی تھالی کی طرح ہی ایک نوٹنکی ہے جسے اب لازمی کردیا گیا ہے۔ لیکن اس نوٹنکی میں حددرجہ سنجیدہ بات یہ ہے کہ یہ ایپلیکشن بھلے ہی اچھے مقصد کی یقین دہانی کے ساتھ لانچ کیا گیا ہے لیکن اس کا طریقہ کار بہت ہی خطرناک اور غیر قانونی ہے۔ آدھار کارڈ پر برسوں کی سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے اسے ذاتیات میں غیر قانونی دخل اندازی بتایا تھا پھر بھی اسے ہر سروس کے لازمی قرار دیا گیا ٹھیک اسی طرح یہ آدھار سے بھی زیادہ ذاتیات کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے، پھر بھی اسے ہرشہری کے لیے لازم قرار دیا جارہا ہے واضح رہے کہ اس اپلیکشن کا ڈیٹا کسی پرائیویٹ کمپنی کے ذریعے ایکسیس کیا جارہا ہے جس پر کوئی بھی سرکاری مونیٹرنگ نہیں ہے پھر اندازہ لگائیں کہ آپ کے ہرپل کی جانکاری جب کسی پرائیویٹ سیکٹر کو ہاتھ لگے گی تب وہ اس کا کس کس طرح سے استعمال کرے گا۔ اے آئی ایم آئی ایم کے نیتا بیرسٹر اسدالدین اویسی نے اس ایپ پر بڑے ہی سنجیدہ سوال اٹھائے ہیں جو کہ واجب ہیں۔ کانگریس کے سابق صدر اور موجودہ ممبر آف پارلیمنٹ راہل گاندھی نے اپنے ایک ٹویٹ میں اس ایپ کو ذاتیات کے قانون کی خلاف ورزی بتایا ہے ، ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ ایک وائرس کے ڈر کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کے ذاتیات میں دخل اندازی کی جارہی ہے۔
خیر! حاصل کلام یہ کہ جب تک ایسے بد نیت لوگ اقتدار میں رہیں گے اس طرح کی ڈرامے بازی اور غیر قانونی حرکتیں چلتی رہیں گی۔ آپ قارئین سے یہ گذارش ہے کہ آپ کی زندگیوں میں نہ پہلے بہت کچھ اچھا ہورہا تھا نہ آگے کچھ اچھا ہونے والا ہے لیکن اس کورونا کے بہانے قدرت نے خود احتسابی کا اچھا موقع دیا ہے، اپنے آپ کو آگے آنے والی دشواریوں کے لیے تیار کریں۔ کفایت شعاری سے زندگی گزار نا سیکھیں، مالک حقیقی سے توبہ واستغفار کریں ، دعا وعبادات کی کثرت کریں تاکہ روح اور جسم دونوں پاک ہوں، اپنے بچوں کی تعلیم پر اپنی کمائی کا ۸۰ فیصد سرمایہ صرف کریں، تین وقت کے بجائے دووقت کھانا پڑے لیکن بچوں کی تعلیم سے کوئی سمجھوتہ نہ کریں، تب جا کر کہیں آنے والے وقت میں اس ظلم و استبداد کا مقابلہ کرسکیں گے۔ گھر میں رہیں محفوظ رہیں۔
اور بھی کچھ۔۔۔!! ان شاء اللہ اگلی تحریر میں، اس موضوع پر کمینٹ باکس میں آپ بھی اپنی رائے رکھ سکتے ہیں۔ والسلام
احمدرضا صابری