بیس لاکھ کروڑ: ۔۔۔کیا آپ کو ہضم ہوا؟۔۔ اگر نہیں تو آئیے کوشش کریں : احمدرضا صابری

بیس لاکھ کروڑ: ۔۔۔کیا آپ کو ہضم ہوا؟۔۔ اگر نہیں تو آئیے کوشش کریں

موجودہ سرکار کے معاملے میں معروف ادیب مشتاق احمد یوسفی صاحب کے اس قول کی تائید کرنے پر مجبور ہوں کہ اگر بولنے والا اور سننے والا دونوں جانتے ہوں کہ جوبولا جارہا ہے وہ جھوٹ ہے تو یہ گناہ نہیں بلکہ مذاق ہے۔ اب تک یہ خبر سننا خوشی کا باعث ہوتا تھا کہ سرکار نے فلاں طبقے کو قرض سے راحت دلایا ،پہلی بارقرض دے کر راحت پہنچانے پر کسی کی پیٹھ تھپتھپائی جارہی ہے۔اگرقرض دینا راحت ہے تو پھر آفت کیا ہے!مجھے یاد ہے ایک بار معروف ہندی شاعر ڈاکٹر کمار وشواس نے کہا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب لوگ رات کا کھانا ملنے پر آدھی رات کو سڑکوں پر آکر ناچیں گے پوچھنے پر پتہ چلے گا کہ سرکار نے آج رات کا کھانا دیا ہے اسی خوشی میں ناچ رہے ہیں۔ دھوکہ اور فریب کا ایسا جال جس کو سمجھ پانا ہرکسی کے بس کی بات نہیں، ایک پوری منظم ٹیم رات ودن صرف اس بات کے لیے ہوم ورک کرتی ہے کہ اگلے دن رات آٹھ بجے ’’دیش کو سمبودھت‘‘ کرے یا فائنانس منسٹر قسط وار پریس کانفرنس کرکے 135 کروڑ کو کس طرح بیوقوب بنائے گی۔ پچھلے سات سالوں سے یہی کام چل رہا ہے۔
تازہ معاملہ 20 لاکھ کروڑ کا ہے۔ یہ بیس لاکھ کروڑ اتنا ہی بڑا جھوٹ ہے جتنا بڑا پندرہ پندرہ لاکھ اکاؤنٹ میں، نوٹ بندی سے آتنک واد کی کمر، بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ، سب ساتھ سب کا وکاس، ون نیشن ون راشن کارڈ، ون نیشن ون ٹیکس، آتم نربھر انڈیا، اسکل انڈیا، میک اِن انڈیا، بلٹ ٹرین، اسمارٹ سیٹی، کسان سمان یوجنا وغیرہ وغیرہ ہے۔
آپ کو معلوم ہو کہ بیس لاکھ کروڑ کا جس قدر ڈھنڈھورا پیٹا جارہا ہےاس ڈھول کا پچھلا حصہ اسی قدر پھٹا ہوا ہے۔ایک خبر کے مطابق اس میں ۸ لاکھ کروڑ روپے تو پہلے ہی آربی آئی بینکوں کو لون بانٹنے کے لیے دے چکا ہے، اسے بھی بڑ ی ہوشیاری سے اس بیس لاکھ کروڑ میں شامل کردیا گیا، یعنی بھارت کی کل جی ڈی پی کا 10 فیصدبتانے کے لیے بیس لاکھ کروڑ کا جملہ گڑھا گیا۔
اب اس بچے 12 لاکھ کروڑ کا کھیل سمجھیں! جہاں چھوٹے اور مجھولے کاروبار بند ہوگئے ، بڑے اور کارپوریٹ سیکٹر کے کاروبار بندی کی کگار پر ہیں اور مدد کی امید لگائے بیٹھے ہیں،  کروڑوں لوگ بھوک اور پیاس سے مررہے ہیں، لاکھوں مزدور اور غریب خودکشی کررہے ہیں ، شہروں میں کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کے کاروبار چھن گئے جس کی وجہ سے گاؤں کی طرف ہجرت کررہے ہیں، سڑکوں پر کچل کرمررہے ہیں، لیکن انہیں مدد کے نام قرض دیا جارہا ہے اور اس پر بھی اپنی واہ واہی کرواکر۔ مطلب یہ کہ یہ بیس لاکھ کروڑ اگر سچ ہے تو یہ پیسے ڈائریکٹ کسی کو نہیں دیے جارہے بلکہ بینکوں کو دیا جائے گا کہ وہ اس کو بطور قرض تقسیم کریں پھر 10 فیصد سے 20 فیصد تک سود کمائیں اور خزانے سے دیے گئے رقم کا پانچ گنا لاکر دیں۔ جی ہاں! یہ ہے مدد۔
واضح رہے کہ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جتنے بھی راحت کے پیکج دیے گئے ہیں ان میں سے 30.7 فیصد کیش ٹرانسفر کی صورت میں دیئے گئے ہیں۔37 ممالک نے اپنے یہاں نقد دینے کا کام بڑھا دیا جبکہ 88 ممالک میں پہلے سے چلی آرہی نقد رقوم کی ادائیگی میں رقم کا اضافہ کردیا۔الجریا نے اپنے شہریوں کو یہ سہولت دی ہے کہ جب ضرورت ہو آپ اپنی حکومت سے پیسہ لے سکتے ہیں قرض نہیں بلکہ راحت کے طورپر۔آرمینیا میں بزرگوں اور ضعیفوں کو گھر پر پیسہ پہنچایا جارہا ہے۔امریکہ ، برطانیہ ، جرمنی فرانس، اٹلی، جاپان ان میں کچھ ممالک جو بھارت سے معاشی طورپر بے حد مضبوط ہے اگر ان کی بات نہ بھی کی جائے تو جو ممالک بھارت کے بالمقابل ہے ان میں سے کسی نے بھی اپنے شہریوں کو اس مصیبت کی گھڑی میں قرض نہیں دیا ہے بلکہ جو بھی دیا ہے امداد اور راحت کے طورپر دیا ہے۔
ہمارے یہاں بھارت میںبھی الگ الگ صوبوں نے اپنے اپنے یہاںکچھ نقدی دینے کی اسکیم شروع کی۔ کچھ صوبوں میں بلڈنگ کے شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں کو 1000ایک ہزار جبکہ راجدھانی دہلی میں 5000 پانچ ہزار روپے دیے گئے ہیں۔کچھ صوبوں ٹیکسی چلانے والوں کو کچھ بھی نہیں دیا گیا ہے تو دہلی میںان کو 5000 پانچ ہزار دیا گیا ہے۔ یعنی کل ملاکر 0 زیرو 5000 پانچ ہزار تک کا امداد کا اوسط ہے۔ لیکن مرکزی حکومت بیس ہزار کروڑ کا ایک بڑا سا جملہ لے کر آئی ہے جو کہ راحت یا امداد نہیں بلکہ مشقت اور رسوائی سے بھرے قرض کے بوجھ ہیں۔

اور بھی کچھ۔۔۔!! ان شاء اللہ اگلی تحریر میں
اس موضوع پر کمینٹ باکس میں آپ بھی اپنی رائے رکھ سکتے ہیں۔
والسلام
احمدرضا صابری

  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

بھائی

!!ہمیشہ چھوٹے ہی غلط نہیں ہوتے!

ہمیشہ چھوٹے ہی غلط نہیں ہوتے! احمدرضا صابری حدیث پاک حق کبیر الإخوة علی صغیرہم …

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔