صرف مسلمان سیکولرزم کا بوجھ ڈھورہا ہے، تبھی اویسی جیسےمخلص لیڈر برباد اور لالو،ملائم، کیجریوال آباد ہیں
سیف ازہر
سوائے ایک بار پردھانی کے کبھی موقع ہی میسر نہیں آیا کہ میں کسی کو ووٹ کر سکوں ۔۔۔ اللہ کے فضل سے اسی لیے کسی بھی پارٹی کا طرفدار ، بھکت یا چمچہ ہونے سے محفوظ ہوں۔کہنے کو تو ایک دھرم نرپیچھ دیس ہے لیکن ہمارے ملک کی سیاست کبھی دھرم نرپیچھ نہیں رہی ۔۔۔ ہمارے آئین نے اونچ نیچ ، ذات پات کا کھنڈن کیا لیکن ہماری سیاست اسی سب کے مہمامنڈن کے ارد گرد چکر کاٹتی رہی۔
بات دھرم کی کرو تو آزادی کے فوراً بعد سے اب تک ہماری سیاست بابری مسجد اور رام مندر کے نام پر ہی رہی ۔۔۔ بھارت میں مسلمانوں کے علاوہ سکھ ، جین ، پارسی، بودھ ، ہندو بھی رہتے ہیں لیکن آزادی کے بعد یا آزادی سے پہلے سے اب تک ہندو مسلم کے علاوہ کسی اور مذہب کے ماننے والوں کے بیچ کبھی دنگے نہیں ہوئے ۔۔۔ آخر کیوں ۔۔۔؟بھارت میں میں بہت سی ذاتوں کے لوگ رہتے ہیں لیکن جتنا دلتوں پر ظلم ہوا کیا کبھی کسی پر ہوا ہے ۔۔۔؟ نہیں تو آخر کیوں ۔۔۔؟
بھارت میں ذات پات اور دھرم کی بنیاد پر سیاسی اکھاڑے اور سیاسی پارٹیاں بھی ہیں ۔۔۔ ایس پی، بی ایس پی، جی ڈی یو ،آر جے ڈی ،بی جے پی ، شیوسینا ، مسلم لیگ ، مجلس اتحاد المسلمین وغیرہ وغیرہ۔
یہاں صرف دو پارٹیوں کا کنسپٹ نہیں ہے ۔۔۔ بھارت میں کسی بھی پارٹی کو الیکشن لڑنے کا حق اور کسی بھی شخص کو کسی بھی پارٹی کو ووٹ کرنے کامکمل اختیار بھی ہے۔
کیا کبھی شیوسینا کو ہندوؤں نے یہ کہہ کر الیکشن لڑنے سے منع کیا کہ ہندؤوں کا ووٹ بنٹ جائے گا ۔۔۔ کبھی یادو ذات کے لوگوں نے بہار میں ایس پی کو یہ کہہ کر الیکشن لڑنے سے روکا کہ آرجے ڈی کا ووٹ کٹ جائے گا ۔۔۔؟ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اگر نہیں تو مسلمان اویسی کو کیوں روکتے ہیں یہ لاجک سمجھ سے باہر ہے ۔۔۔ چلیے اویسی کو روکتے ہیں تو بدرالدین اجمل اور مسلم لیگ وغیرہ کو کیوں نہیں روکتے ۔۔۔؟
بھارتی سیاست کئی دہائیوں سے سمجھوتوں اور گٹھ بندھن پر ٹکی ہے ۔۔۔ ابھی مہاراشٹر میں کانگریس، این سی پی اور شیوسینا نے سرکار بنائی ہے ۔۔۔ سینٹر لیول پر این ڈی اے اور یوپی اے گٹھ بندھن مشہور ہے ۔۔۔ ابھی چند دنوں پہلے بی جے پی نے مدھیہ پردیس میں ایس پی اور بی ایس پی کی مدد سے سرکار بنائی ہے۔
2019 کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کے لیے اے یو ڈی ایف نے سیکولر ووٹوں کی تقسیم روکنے کے لیے اپنے امیدواروں کی قربانی دی اس کے باوجود بھی کانگریس نے اتحاد نہیں کیا ۔۔۔ اسی طرح گزشتہ بہار الیکشن میں مانجھی کی "ہم” جیسی چھوٹی پارٹی کو مہا گٹھ بندھن کا حصہ بنایا گیا لیکن مجلس کو نہیں ۔۔۔ آخر کیوں ۔۔۔؟
پی جے پی اور مجلس دونوں کو دائیں بازو کی جماعت کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ۔۔۔ بہت سے مسلمان اویسی کو بی جے پی کا ایجنٹ سمجھتے لیکن ان کی تقریر کو خوب سراہتے ہیں ایسے ہی جیسے بہت سے ہندو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں لیکن شاہ رخ خان اور سلمان کے فین ہیں۔
سیکولر پارٹیاں خاص کر اس پی ، بی ایس پی ، کانگریس اور آر جے ڈی مجلس کو دائیں بازو کی جماعت مان کر اتحاد سے انکار کر دیتی ہیں ۔۔۔ لیکن آر جے ڈی، دہائیوں تک بی جے پی کا حصہ رہی جی ڈی یو سے اتحاد کر لیتی ہے ۔۔۔ سرکار بنانے کے لیے لیے کانگریس کو شیوسینا میں کسی بھی طرح کا رائٹ ونگ نہیں دکھتا ۔۔۔ ہمیشہ سماج دشمن نظر آنے والی بی جے پی کو مدھیہ پردیش میں ایس پی اور بی ایس پی سمرتھن دے کر سرکار بنوا دیتے ہیں ۔۔۔ ایسے عالم میں ان میں سے کسی کی سیکولرزم پر کبھی کوئی حرف نہیں آتا مگر اے یو ڈی ایف اور مجلس جیسی پارٹیوں سے ان کا سیکولرزم خطرے میں آ جاتا ہے۔
پچھلے دو تین الیکشن میں تقریبا یہی کوئی آٹھ فیصد کے آس پاس بی جے پی کو اور مجلس کو یہی کوئی چار فیصد کے آس پاس مسلمانوں نے ووٹ کیا ہے ۔۔۔ ایسے میں سمجھ میں نہیں آرہا کہ سیکولرازم چار فیصد ووٹ سے زیادہ خطرے پڑتا ہے یا آٹھ فیصد ووٹ دینے سے زیادہ خطرے میں پڑتا ہے۔
کبھی سوچا ہے آٹھ فیصد مسلمان اگر بی جے پی کو ووٹ کر رہے ہیں تو کتنے فیصد ہندو مجلس کو ووٹ کر رہے ہیں۔.۔؟ اوسطاً ایک بھی فیصد ہندو مجلس کو ووٹ نہیں کر رہے ہیں ۔۔۔ مجلس سیکولر نہیں ہیں کیونکہ وہ کہتی ہے مسلمانوں کے حقوق صرف ہم دلا سکتے ہیں لیکن کانگریس سیکولر ہے کیونکہ کانگریس 2019 کے الیکشن میں کہتی ہے کہ رام مندر صرف کانگریس بنا سکتی ہے۔
کانگریس میں تقریباً 90 فیصد کے آس پاس بڑے عہدوں پر پر برہمن ہیں اور مجلس کے تقریبا 95 فیصد بڑے عہدوں پر مسلم ہیں ۔۔۔ لیکن کانگریس سیکولر ہے اور مجلس سیکولر نہیں ہے ۔۔۔ بڑے عہدوں پر جے پی میں 80 فیصد سے زائد براہمن ہیں اور 90 فیصد کانگریس میں ۔۔۔ لیکن ایک پارٹی سیکولر ہے اور دوسری سیکولر نہیں۔
کانگریس کو ہر کوئی ووٹ دیتا ہے اس لیے کانگریس سیکولر ہے ۔۔۔ بی جے پی کو صرف کٹر ہندو ووٹ دیتا ہے اس لئے بی جے پی سیکولر نہیں ہے ۔۔۔ مجلس کو بھی کٹر مسلمان ووٹ دیتا ہے اس لئے مجلس بھی سیکولر نہیں ہے ۔
80 کی دہائی میں بنی بی جے پی کو اب بڑی تعداد میں عام ہندو ووٹ کرنے لگے ہیں لیکن 1927 میں بنی مجلس کو آج بھی عام مسلمان ووٹ نہیں کرتا ۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ ہندؤوں کی بڑی تعداد کو سیکولرازم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن مسلمانوں کی بڑی آبادی اب بھی سیکولرازم کی قلی بنی ہوئی ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز بالخصوص سیاست وقت کے ساتھ کروٹ لیتی رہتی ہے ۔۔۔ کبھی جے جوان جے کسان کی سیاست تھی ۔۔۔ کبھی روٹی کپڑا مکان کی تھی ۔۔۔ کبھی کسی کی تو کبھی کسی کی ۔۔۔ البتہ بھارتی سیاست کبھی سیکولر نہیں رہی لیکن مسلمان ہمیشہ سیکولرزم کے قلی بنے رہے ۔۔۔ آج قومیت کی سیاست کا زمانہ ہے نہیں سمجھے تو زمانہ کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔
مسلمان ہمیشہ قلی بن کر سیکولرزم کا بوجھ اٹھاتے رہے اور غیر مسلم غیر سیکولر بن کر اپنے حقوق حاصل کرتے رہے ۔۔۔ آج بھی غیر مسلم غیر سیکولر ہو کر سیاست کو قومیت اور اکثریت کا ڈوز دے رہے ہیں اور مسلمان آج بھی قلی بن کر قوم "سیکولر ازم ایڈس” بانٹ رہے ہیں۔
نوٹ: کچھ باتیں خود سمجھ لیں ۔۔۔ سب لکھی نہیں جاتیں ۔۔۔اور کوئی بہت زیادہ پڑھتا بھی نہیں ۔۔۔ یہ صرف ایک اشاریہ ہے ۔