طوطئی ہندعلامہ قادر بخش محدث سہسرامی رحمۃاللہ علیہ:حیات و خدمات
محمد ساجد رضاقادری رضوی
اسم گرامی:
عالم اہل سنت،قاطع نجدیت،واعظ خوش بیان،طوطئی ہند،معاصر اعلی حضرت امام احمد رضاخان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ،حافظ الحدیث،مصنف کتب کثیرہ، حضرت علامہ مولانا مولوی حاجی حکیم قادر بخش رحمۃاللہ علیہ شہسرامی۔
پیدائش:
آپ مولوی حکیم حسن علی کے گھر بمقام سہسرام ضلع شاہ آباد میں 1273ھ میں پیدا ہوئے۔(1)
تعلیم وتربیت:
ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے والد ماجدسے حاصل کی،پھر خانقاہ کبیریہ سہسرام میں مولوی شاہ احمد حسین صاحب مرحوم سہسرامی مولوی قاضی حکیم نورالحسین صاحب صدر اعلی ساکن گھاٹی ضلع گیا مولوی سید معین الدین صاحب مرحوم کٹروی مدرس مدرسہ مرزاپور وغیرہ سے شرف تلمذ حاصل کیا،بعدہ دارالعلوم فرنگی محل میں تشریف لےگئے،اوروہیں پر علامہ ابولحسنات عبد الحئی لکھنوی سے اکثر درسیات کی کتابیں پڑھیں،مولانا محمد نعیم فرنگی محلی سے بھی بعض کتابیں پڑھیں،یہاں سے پانی پت کا سفر کیا،اور قاری عبدالرحمن سے حدیث کی سند حاصل کی،مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی سے بھی فیضیاب ہوئے،حج وزیارت کا سفر کیا تو مولانا سید احمد دحلان مکی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی حدیث کی سند لی،حضرت شاہ امداداللہ مہاجرمکی رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت وخلافت حاصل کی مو لوی حبیب الرحمن صاحب رودولوی ثم المدنی سے علوم عربیہ وفارسیہ وطبیہ وفقہ وحدیث وحکمت و منطق بتامہا حاصل فرمائے،اس طرح مختلف مقامات میں بغرض حصول علم شدرحال کرکے مرتبۂ تکمیل وفضیلت کو پہنچے۔(2)
درس تدریس:
آپ نے جب تحصلئ علوم وفنون سے فاتحہ فراغ حاصل کرلیا تو دینی خدمات کی انجام دہی کے لئے بھری جوانی میں پورنیہ کا سفر کیا،اورریاست کھگڑہ کشن گنج میں معمور ہوگئے،آپ کے کھگڑہ آنے میں اس علاقے کے باثر صاحب ثروت ولی حضرت مولاناخواجہ شاہ حفیظ الدین لطیفی برہانی قدس سرہ کی اعانت شامل معلوم ہوتی ہے،چونکہ خواجہ صاحب عرصہ دراز سے علامہ کے وطن سہسرام میں مقیم رہ چکے ہیں،شناسائی اور صحبت نشینی تھی،کشن گنج سے رحمن پور ملنے آتے تھے،یہ سلسلہ خواجہ صاحب کی وفات تک باقی رہی۔(3)
غرض آپ کایہاں پر شغل تدریس وتذکیر ومطب وامامت جامع مسجد وعیدین رہا،نواب صاحب ہی کے مکان میں رہتے تھے،اور وہی پرایک مدرسہ بھی کھولدیا،جس میں علاقہ بھر سے طلبائے علوم نبوت جھوم جھوم کر آپ کے پاس آتے،منشی مراد حسین یتم کھپراوی،مولانا کرامت حسین تمنا ومولانا تصدق حسین مشتاق صاحبان دیوان وارباب تصنیف وتالیف نے آپ سے فیض حاصل کیا،تشنگان علوم نبوت کی سیرابی کے ساتھ ساتھ آپ نے نوابی خاندان کی اصلاح میں بھی کمر بستہ رہے۔
نوابان کھگڑا کی اصلاح:
کھگڑا کے نوابوں کا مذہب آبائی طور پر شیعی تھا، نواب عطا حسین صاحب والی ریاست کے دادا سنی حنفی مذہب کو اختیار کئے تھے،آپ نے نوابی خاندان میں شیعیت کی خوبو پائی،نواب صاحب سے مشورۂ سخن کیا،اور اہل بیت رسول ﷺ سے متعلق جو غلوآمیز عقائد رکھتے تھے،نواب صاحب نے ان کی اصلاح اوراہل سنت کے رسومات کی جانکاری کے لئے ایک کتاب لکھنے کی فرمائش کردی،آپ نے اس خاندان کے لئے دودوکتاب،، التقریر المعقول فی فضل الصحابۃ واہل بیت الرسول،،اور،،اربعین فی اشاعۃ مراسم الدین،، قلم بند فرما دیں،غرض آپ نے اکثر کتابیں اسی خاندان کی اصلاح کے لئے تصنیف فرمائیں۔
وعظ ونصیحت:
آپ ایک زبردست عالم وواعظ اور شریں مقال مقرر سحرطراز خطیب تھے،تقریر قطعی طور پر اصلاحی ہوتی تھی،اور ملک کے گوشے گوشے میں دورہ فرماتے رہے،کوئی مقرر آپ سے الجھ گئے آپ نے ان کی تردید کے لئے ایک کتاب بنام،،ضرب قادر برگردن واعظ فاجر،،تصنیف فرمائی۔
سنی ووہابی کی شناخت کا پیمانہ:
آپ اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے معاصر تھے،سوائے دینی رشتہ کے کوئی تعلق نہ تھا،لیکن اس کے باوجود آپ الحب اللہ اعلی حضرت سے محبت فرماتے،صرف اتناہی نہیں،بلکہ آپ کو اپنے زمانے کا معیار اہل سنت قرار دیتے،حضرت علامہ ظفرالدین قادری رضوی فاضل بہار علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:۔مولانا مولوی قادر بخش سہسرامی جو ایک بہت بڑے مشہور عالم اور زبردست واعظ تھے،ایک مرتبہ بسلسلہ وعظ موضع رجہت ضلع گیا تشریف لے گئے،یہ بستی سادات کرام کی ہے،یہاں کے باشندے پہلے سب کے سب سنی حنفی تھے،تھوڑے دنوں سے کچھ وہابیت کا اثر ہوگیا ہے،اور کچھ لوگ غیرمقلد ہوگئے ہیں،ایک مرتبہ رجہت کے سنیوں نے مولانا قادر بخش صاحب سہسرامی کو رجہت وعظ کے لئے بلایا،وعظ کے بعد کھانا کھانے کے لئے بیٹھے تو کسی نے پوچھا کہ مولاناسنی اور وہابی کی پہچان کیا ہے؟ایسی بات بتائے جس کو ہم لوگ بھی کر سکیں اور اس کے ذریعہ سنی وہابی کو پہچان سکیں،کوئی بڑی علمی بات نہ ہوں،انہوں نے فرمایا ایسا آسان عمدہ اور کھرا قاعدہ آپ لوگوں کو بتادیتا ہوں کہ اس سے آسان مشکل ہے،آپ جب کسی کے بارے میں مشتبہ ہوں کہ سنی ہے یا وہابی بدمذہب تو اس کے سامنے مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کا تذکرہ چھیڑ دیجئے،اور اس کے چہرہ کو بغور دیکھئے،اگر چہرہ پر بساشت اور خوشی کے آثار دیکھئے تو یقین جانئے کہ سنی ہے،اور اگر چہرہ پر پزمردگی اور کدورت دیکھئے تو سمجھئے کہ وہابی ہے،اور اگر وہابی نہیں جب بھی اس میں کسی قسم کی بے دینی ضرور ہے،اس زمانہ میں لا یحبہ الا مومن ولا یبغضہ الامنافق میں یہ ضمیریں مولانا احمد رضاخان صاحب بریلوی کی طرف پھیرتی ہے،اس لئے جتنے اہل سنت ہیں سب اعلی حضرت کے مداح بلکہ عاشق صادق محب مخلص ہیں۔(4)
بیعت وخلافت:
تذکرہ علمائے حال میں ہے کہ حاجی الحرمین حضرت حاجی امداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کو بیعت وخلافت حاصل تھی،اورعلامہ محمود احمد رفاقتی نے نزہۃ الخواطر کے حوالے سے لکھا ہے کہ آپ کو قطب العصر مولاناشاہ عبدالطیف ستھنی سے اجازت وخلافت حاصل تھی (5)نزہۃ الخواطر بعد کی تصنیف ہے جب کہ تذکرہ علمائے حال1894ء میں مطبع نول کشور لکھنؤ سے چھپی ہے،جوکہ آپ کی حیات ہی میں لکھی گئی تھی،بایں سبب اس میں آپ کی تاریخ وفات مرقوم نہیں ہے،لہذااس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ پہلے آپ نے حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی رحمۃ اللہ علیہ سے حرمین شریفین میں بیعت وخلافت سے مشرف ہوئے تھے، اور بعد حج وزیارت آخرالذکر بزگ سے بھی خلافت واجازت حاصل ہوئی تھی۔
دعوت وارشاد:
آپ کے اندر یوں تو بہت سی خوبیاں تھیں،ایک سحرطراز خطیب تھے،صاحب طرز ادیب بھی،اور بزرگوں کی خاص نوازشات سے بھی مشرف ہوئے تھے،انہوں نے آپ کو بیعت واجازت کے لئے مجاز بھی بنائے تھے،بایں سبب آپ نے مسند ارشاد بھی بچھائی،اور خلق خدا کو راہ راست پر لائے،لیکن ابھی تک مجھے آپ کے صرف ایک ہی مریدوخلیفہ کا پتہ ملا ہے،منشی مراد حسین یتیم کھپراوی، آپ کی بابت مولانا غلام جابر شمس مصباحی رقم طراز ہیں۔
حضرت یتم کا گھرانا دین دار تھا،باپ بھائیوں،مدرسوں،مربیوں کے دین آشنا،شریعت پسند ماحول نے حضرت یتیم کو پارسا،پرہیزگار،مصلی،متقی بنا ڈالا،ذہن ودماغ منور توتھا ہی،اب قلب جگر اجالنے کی فکر ہوئی،مرشد کی تلاش میں محوے سفر ہوئے،گھاٹ گھاٹ دورے،ڈال ڈال اڑے،پات پات کھنگال ڈالے،بالآخر جھک مار کر وہی زاویہ نظر آیا،جہاں انہوں نے عربی علوم حاصل کیا تھا،حضرت حافظ الحدیث کے بافیض ہاتھوں بے دام بک کر ہمیشہ کے لئے ان کا ہوگئے،حر ت یتیم کا ایک شعر سنئے،خودربودگی،خودسپردگی،خود حوالگی کا کیسا اعلیٰ نمونہ ہے،فرماتے ہیں۔
دین ودنیا میں ازل ہی سے سمجھ کر کیمیا خاک بوس آستاں حضرت قادر ہوں میں (6)
حضرت یتیم کھپراوی بھی صاحب دیوان بزرگ تھے،آپ کا سہنخ بھی مجمع البحرین تھا،جہاں پر حضرت حافظ الحدیث سے بیعت وخلافت حاصل تھی وہیں پر آپ کو قطب پورنیہ حضرت مولانا شاہ خواجہ حفیظ الدین لطیفی قدس سرہ نے بھی اجازت وخلافت سے نوازے تھے۔(7)
تصنیفی خدمات:
آپ کووعظ وتقریر کاجہاں ملکہ حاصل تھا،وہیں پرایک زبردست عالم اور صاحب سلیقہ مصنف بھی تھے،یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں کہ ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی،اور جس کے اندر یکجا ہوجائے سونے پر سہاگہ ہوتاہے،اور ایسی شخصیات نادرالوقوع ہی ہیں،جوکبھی کبھی ہی چمن میں پیدا ہوتےہیں،اور آپ ان دونوں کا جامع تھے،چنانچہ تذکرہ علمائے حال کی روایت کے مطابق آپ نے حسب ذیل کتابیں تصنیف فرمائی۔
آپ کی تصانیف میں سے(۱) التقریر المعقول فی فضل الصحابۃ واہل بیت الرسول،(,۲)اربعین فی اشاعۃ مراسم الدین،(۳)ضرب قادر برگردن واعظ فاجر،(۴)رفع الارتیاب عن المفترین بشرف الانساب،(۵)غایۃ المقال فی رؤیۃ الہلال،(۶)تحفۃ الاتقیافی فضائل آل عبا،(۷)جورالاشقیاء علی ریحانۃ سید الانبیاء۔
تاحال تحریر راقم کی نظرسے ایک بھی تصنیف نہیں گزری،البتہ مصنف تذکرہ علمائے حال کی نظر میں ایک رسالہ گزرا تھا،ان کی بابت فرماتے ہیں:۔مؤلف کے مطالعہ میں رسالہ تقریر معقول گزراہے فی الواقع بہت محقق ومدلل ہے۔
یہ تصانیف صرف 1897ءتک کی لکھی ہوئی ہیں،اس وقت آپ کی عمر27ستائس برس کی تھیں،بعدہ تقریباً چالس برس بقیدحیات رہے،آپ کی مکمل تصانیف کا حال معلوم نہیں ہوسکا۔
وفات:
ساری زندگی کشن گنج میں گزاردی آخر عمر میں جب بوڑھاپے کے سبب معذور ہوگئے،تو کشن گنج سے رخصت ہو کر وطن مالوف میں چلے گئے،بقول علامہ محمود احمد رفاقتی وہیں پر شعبان 1337ھ میں وفات پائی،اور وہیں مدفون ہوئے۔
خاک پائے علماء ومشائخ اہل سنت
محمد ساجد رضاقادری رضوی
جگناتھ پور(موضع بیلوا)آبادپور۔بارسوئی کٹیہار ۔بہار
مقیم حال :امام وخطیب جامع مسجدکاشی پور،منڈل کندی ،ضلع سنگاریڈی تلنگانہ
موئل نمبر7970960753 _
مأخوذ ومراجع
(۱)تذکرہ علمائے حال ص: ۷۶ از مولانا ادریس نگرامی لکھنؤی
(۲)عرفان حفیظ ص:۸۹۱ از خواجہ ساجد عالم مصباحی رحمن پوری
(۳)حیات اعلی حضرت جلد اول:ص:۲۶/۳۶ از علامہ ظفرالدین فاضل بہار
(۴)تذکرہ علمائے اہل سنت ص: ۷۱۲ از مولانا محمود احمد رفاقتی
(۵)کاملان پورنیہ جلد اول،ص:۱۴۱ از ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی
ایضاً ۔ یادرفتہ گان ص 14 ازقاضی نجم ہری پوری
مزید پڑھیں: