مسئلہ کشمیر: شاہ فیصل، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم!!

مسئلہ کشمیر: شاہ فیصل، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم!!


غلام مصطفیٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی


کشمیر کی زمینی صورت حال کس قدر پیچیدہ اور الجھی ہوئی ہے اس کا اندازہ شاہ فیصل کے دو استعفوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ استعفے ڈیڑھ سال کے وقفے میں منظر عام پر آئے ہیں۔ 2010 میں upsc (یونین پبلک سروس کمیشن) میں ملک بھر میں ٹاپ کرنے والے IAS شاہ فیصل اس وقت سرخیوں میں آگئے تھے جب کشمیر میں ہونے والے "مظالم” کی بنیاد پر 9 جنوری 2019 کو سول سروس سے استعفیٰ دے دیا۔ استعفیٰ دیتے وقت انہوں نے کہا تھا:
ان کا استعفیٰ ہندو وادی طاقتوں کے ذریعے 20 کروڑ مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنے، انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے، جموں و کشمیر کی خصوصی پہچان پر فریب کارانہ حملوں اور بھارت میں حب الوطنی کے نام پر بڑھتی شدت پسندی ، کشمیر میں بڑھتے قتل وقتال اور نفرتی تہذیب کے خلاف ہے۔”
استعفیٰ دے کر 17 مارچ کو نئی سیاسی پارٹی "جموں کشمیر پیپلز موومنٹ” تشکیل دی۔ اس وقت شاہ فیصل نے "ہوا بدلے گی” نعرہ دے کر نوجوانوں سے ساتھ آنے کی اپیل کی تھی۔
ابھی فیصل کی نومولود پارٹی 6 ماہ کی بھی نہیں ہوئی تھی کہ 5 اگست 2019 کو مرکزی حکومت نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت 370 اور 35 اے کا خاتمہ کردیا۔ اس معاملے پر کوئی آواز نہ اٹھے اس لیے کشمیر کے سیاسی لیڈران وکارکنان کو گرفتار کر لیا گیا ، اسی ضمن میں شاہ فیصل کو دہلی ائیرپورٹ سے گرفتار کرکے ان کے گھر میں نظربند کردیا گیا۔ سال بھر کے بعد اب انہوں نے یوٹرن لیتے ہوئے اپنی ڈیڑھ سالہ پارٹی کے عہدہ صدارت سے استعفیٰ دے دیا ہے امید کی جارہی کہ وہ جلد ہی اپنی سروس جوائن کر سکتے ہیں !!
شاہ فیصل ایک کامیاب افسر تھے، ان کی ذاتی زندگی پر سکون اور مستقبل نہایت روشن تھا۔ لیکن اپنے صوبے میں ہونے والی "ناانصافی” نے انہیں نوکری کے بجائے سیاسی طاقت کے ذریعے اصلاحات کا بیڑا اٹھانے کی ترغیب دی۔ لیکن ایک سالہ نظربندی نما قید کے درمیان حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ کبھی کشمیر کے امن کی خاطر IAS جیسی نوکری سے استعفیٰ دینے والا نوجوان آج واپس اسی نوکری پر جانے کی تیاری کر رہا ہے۔
 کشمیر کی صورت حال نہایت پیچیدہ اور الجھی ہوئی ہے، سیاسی لیڈران کو عوام نہیں "دہلی دربار” کا وفادار سمجھا جاتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں خاطر خواہ ووٹنگ نہیں ہوپاتی۔کبھی شاہ فیصل نے اسی حقیقت کے بارے میں بی بی سی سے کہا تھا:
"اگر قبولیت کی بات کریں تو جو لوگ علاحدگی پسند ہیں،جو بھارتی دستور کو نہیں مانتے۔ان کے ساتھ بڑی تعداد میں لوگ ہیں۔ایک طرح سے دیکھا جائے تو علاحدگی پسند وہاں کی مین اسٹریم سیاست کرتے ہیں اور ہماری طرح کے لوگ وہاں کی مین اسٹریم میں نہیں تھے۔”
کشمیر کو لیکرمرکزی حکومت (کانگریس ہو یا بی جے پی) کا نظریہ اور اقدامات ہمیشہ ہی کشمیری عوام میں مشکوک رہے ہیں۔ سیاسی لیڈران "عوامی خواہشات” اور "دہلی دربار” دو پاٹوں کے بیچ پھنسے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے دوسرے نظریے سے بھی دیکھتے ہیں اور سیاسی لیڈروں پر ذاتی مفادات اور سودے بازی کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ شاہ فیصل بھی اس الزام سے اچھوتے نہیں رہے، جس وقت انہوں نے سول سروس سے استعفیٰ دیا تھا تو بہت سارے افراد نے انہیں مرکزی حکومت کی کٹھ پتلی قرار دیا تھا، ہمارے شناساؤں میں ایک مفکر نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ:
"ہوسکتا ہے کہ فیصل کو مرکزی حکومت نے اپنی Future Policy کے تحت پلانٹ کیا ہو تاکہ آئندہ کئے جانے والے اقدامات کے خلاف بننے والی رائے عامہ کو فیصل کے چہرے اور اقدامات سے کنفیوز کیا جاسکے اور مناسب موقع پر اپنے حق میں کیا جاسکے۔”
اس شبہ کو اس وجہ سے اور تقویت ملتی ہے کہ شاہ فیصل کا استعفیٰ ڈیڑھ سال سے اب تک منظور نہیں ہوا۔ خبریں یہاں تک آئیں کہ انہوں نے NSA اجیت ڈوبھال سے مشاورت کے بعد اپنے استعفے کا اعلان کیا۔ چھن کر آنے والی خبروں کے مطابق انہیں لیفٹیننٹ گورنر(L G) کا صلاح کار بنایا جاسکتا ہے۔
شاہ فیصل کو بھی اس بارے میں اندازہ تھا اسی لیے پارٹی کے عہدہ صدارت سے استعفیٰ دیتے وقت انہوں نے کہا:
"جب میں نے سیاست چنی تو مجھے کٹھ پتلی کہا گیا اب سیاست سے استعفیٰ دے رہا ہوں تو بھی مجھے کٹھ پتلی کہا جارہا ہے ایسے لوگوں پر میں ہنستا ہوں اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔”
اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں امید تھی کہ اپنے گلیمر اور عوامی شبیہ کی بنیاد پر بہت جلد ایک سیاسی مقام حاصل کرلیں گے لیکن کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے نے انہیں سوچنے پر مجبور کردیا کہ مرکز کے زیر انتظام صوبے میں بے دست و پا لیڈر بننے سے انتظام چلانے والی افسرشاہی کا حصہ بننا اچھا ہے۔
اپنے حالیہ انٹرویو میں انہوں نے دو ٹوک کہا:
"زمینی حقیقت بدل گئی ہے۔اب یہ وہ جگہ بالکل نہیں ہے۔اس لیے میں یہاں کے نئے سیاسی حالات کے تئیں اپنی فکر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ سیاسی اعتبار سے صحیح نظر آئے بغیر یہاں سیاست کرنا بہت مشکل ہے۔”
پورے معاملے کا تجزیہ کرنے کے ا
یک زاویہ نظر یہ بھی بنتا ہے کہ شاہ فیصل سسٹم کی بالادستی سے کمزور پڑ گئے جیسا کہ ایک بیان میں کہا:
"مجھے لگتا ہے کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ 1949 میں اکثریت 370 لگانے کے حق میں تھی اور 2019 کی اکثریت کا مزاج اسے ہٹانے کے حق میں تھا، ہمیں ملک کے مزاج کو سمجھنا ہوگا اور حقیقت کے ساتھ آنا ہوگا۔”
بہرحال اس فیصلے سے ان لوگوں کو بڑا جھٹکا لگا ہے جنہیں لگتا تھا کہ شاہ فیصل کی شکل میں ایک نئی طرح کی سیاست کا آغاز ہوگا اور کشمیر میں امن و امان قائم ہوگا۔


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

اگر آپ اردو زبان سے پیار کرتے ہیں، اس کی بقا اور ترویج واشاعت میں ہمارا کسی طرح سے تعاون کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس چھوٹی سی کوشش کو عام کریں، کیونکہ ہم بے حد محدود وسائل کے بیچ یہ کام کرپارہے ہیں۔ جہاں آپ کئی سارے بے کار فضول کے ایپ اپنے موبائل میں برسوں انسٹال کرکے رکھتے ہیں وہیں اپنے احباب ومتعلقین سے اس مفید ایپ کو زیادہ سے زیادہ ڈاؤنلوڈ/ انسٹال کروائیں اور ساتھ ہی پلے اسٹور کے کمینٹ باکس میں جاکر اپنی رائے دیں اور فائیو اسٹار ریٹنگ بھی کریں۔ تاکہ ہماری حوصلہ افزائی ہو اور ہم اس سمت میں اور بہتر سے بہتر کرسکیں۔
عرض گزار:احمدرضا صابری (ایڈمن)
الرضا نیٹورک موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔


مزید پڑھیں:

  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

زمبابوے نے آئرلینڈ کو ہرا کر میچ 31 رنز سے جیت لیا۔ زمبابوے نے آئرلینڈ کو ہرا کر میچ 31 رنز سے جیت لیا۔

[ad_1] ڈیجیٹل ڈیسک، ہوبارٹ۔ T20 ورلڈ کپ 2022 کے سپر 16 راؤنڈ کا چوتھا میچ …

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔